علامہ اقبال نے اپني ’’ تشکيل جديد الٰہيات اسلاميہ‘‘ کے ديباچے ميں لکھا ہے:

’’ قرآن پاک کا رجحان زيا دہ تر اس طرف ہے کہ فکر کے بجائے عمل پر زور ديا جائے‘‘ اسلام قرآن حکيم کے توسط سے ہي دنيا ميں متعارف ہوا ہے۔اور اس ميں بھي کوئي شک نہيں کہ اسلام کوئي ساکت و جامد دين نہيں ، بلکہ اپنے قالب ميں ايک متحرک اور انقلابي تصور ليے ہوئے آيا ہے۔

انسان کي زندگي سے غور و فکر کے مراحل کو نظر انداز نہيں کيا جاسکتا ، اس ليے کہ نظريات ميں حرارت تفکر و تدبر سے ہي پيدا ہوتي ہے۔

محمد عربي  صلي اللہ عليہ وسلم  نے اپني بعثت سے قبل ايک عرصہ غار حرا کي تنہائيوں ميں آفاق و انفس کي حقيقت جاننے کي فکر و تدبر ميں گزارا۔اپنے خالق کي تلاش نے آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  کو اپني ذات سے بھي بيگانہ کر ديا تھا۔آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کي اس حالت کو ديکھتے ہوئے خالق کائنات نے ارشاد فرمايا:

وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى

’’ اور آپ کو رستہ سے بھولا ہوا پايا تو آپؐکو سيدھا رستہ دکھاديا۔‘‘ (سورة الضحيٰ)

غور و فکر اور تدبر و تعقل کي ساعتوں نے محمد عربي  صلي اللہ عليہ وسلم  کو خالق ارض و سماء کي معرفت کا شعور عطا کيا تو فکر کو عمل ميں ڈھالنے کا وقت آگيا۔اور پھر آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے انساني زندگي ميں ايک ايسا ہمہ گير انقلاب بر پا کہ اس کي مثال دنيا کے کسي انقلاب سے نہيں دي جا سکتي۔دنيا ميں جتنے بھي انقلاب رونما ہو ئے ان ميںاور محمد عربي  صلي اللہ عليہ وسلم  کے لائے ہوئے انقلاب ميں بنيادي فرق يہ ہے کہ ديگر انقلابات کي فکر دينے والے کوئي اور تھے اور ان کو عملي جامہ پہنانے والے کوئي اور لوگ!  مارکس اور اينجلز نے Das Capital نام سے کتاب جرمني يا انگلستان ميں بيٹھ کر لکھي ،مگر انگلستان يا جرمني کے کسي ايک گاؤں ميں مار کسسٹ انقلاب نہيں آيا۔بلکہ طويل عرصہ بعد بالشويک اور مانشويک کے ہاتھوں يہ انقلاب برپا ہوا، اور عين قت پر فرنٹ پر لينن آگيا۔اسي طرح روسو اور والٹئير نے حريت،آزادي اور جمہوريت کا فکر ديا۔ ليکن فرانس ميں اس کا عملي مظاہرہ کيا چند اوباش لوگوں نے، جو ايک خوني انقلاب تھا۔اس کے برعکس محمد عربي صلي اللہ عليہ وسلم  کا لا يا ہوا انقلاب انتہائي پر امن انقلاب تھااور جو انسانيت کے ہر شعبہ ميں محير العقول تبديلياں لانے کا باعث بنا۔ اس حقيقت کا اعتراف ان لوگوں نے بھي کيا ہے جو اسلام دشمن ہيں۔اور اسلام اور اس کے ماننے والوں کي تذليل کرنے اور انہيں نقصان پہنچانے کا کوئي موقع ہاتھ سے نہيں جانے ديتے۔حقيقت خود کو منوا کر رہتي ہے۔اور اصل فضيلت وہ ہوتي ہے جس کا دشمن بھي اقرار کريں۔

ايم اين رائے ايک بنگالي ہندو تھاوہ انٹر نيشنل کميو نسٹ آرگنائيزيشن کا رکن تھا۔اس نے 1920 ء ميں بريڈ لا ہال لاہور ميں ’’ اسلام کا تاريخي کردار ‘‘ (The Historical Role of Islam) کے عنوان سے ليکچر ديااور کہا کہ اس ميں کوئي شک نہيں تاريخ انساني کا عظيم ترين انقلاب محمد ( صلي اللہ عليہ وسلم ) نے برپا کيا۔واضح رہے وہ عقيدت مند نہيں تھا، ايک بنگالي ہندو ہے اور ٹاپ کا کميو نسٹ ہے ليکن وہ اس حقيقت کو تسليم کر رہا ہے۔اسي طرح 1980ء ميں امريکا ميں ڈاکٹر مائيکل ہارٹ نے ايک کتا ب The 100لکھي۔اس کتاب ميں اس نے پانچ ہزار سالہ معلوم انساني تاريخ ميں سے ايسے ايک سو انسانوں کا انتخاب (Selection)کر کے ان کي درجہ بندي (Gradation) کي، جنھوں نے انساني تمدن کے دھارے کو موڑنے ميںمؤثر کردار ادا کيا۔اور اس درجہ بندي ميں وہ محمد  صلي اللہ عليہ وسلم  کو نمبر ايک  پر لايا ہے۔جبکہ اس کتاب ميں حضرت مسيح عليہ السلام (جو عيسائيوں کے نزديک خدا کے اکلوتے بيٹے ہيں) کو اس نے نمبر تين پر رکھا ہے۔ ڈاکٹر مائيکل ہارٹ مذہب کے اعتبار سے عيسائي ہے۔

رسول اکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  نے جس انقلاب اور انساني نفوس کي قلب ماہيت کي فکرلوگوں کے ذہن ميں راسخ کي اس کے عين مطابق اس فکر کو عملي طور پر نافذ کرکے دنيا کو ورطہ حيرت ميں ڈال ديا۔اور انسانيت کو ايک مکمل نظام زندگي دي جس ميں انساني مسائل کي الجھي ہوئي ڈور کو سلجھانے کي پوري صلاحيت و استعداد موجود ہے۔

تاريخ انساني ميں يہ ايک زندہ حقيقت ہے کہ دنيا ميں کوئي مذہب يا نظريہ تلوار کے بغير نہيں پھيلا۔ گويا تلوار اور جنگ غلبۂ مذہب اور افکار و نظريات کے ليے ايک ضروري چيز رہي ہے۔ مگر اسلام وہ پہلا دين ہے جس نے جنگ کے اصول مقرر کيے ورنہ اسلام سے قبل ديگر مذاہب والے مفتوحہ اقوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے۔ان کا خون پاني کي طرح بہايا جاتا تھا۔

 انقلاب فرانس بھي ايک خوني انقلاب تھا ليکن اس ميں بھي صرف سياسي نظام بدلا، اور انقلاب روس ميں معاشي نظام ميں تبديلي واقع ہوئي ، مگر محمد الرسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے لائے انقلاب ميں تو انسانوں کي دنيا ہي بدل گئي۔ عقائد بدلے، سياسي نظام، معاشي نظام، سماجي نظام، رہن سہن اور تہذيب وتمدن کے پيمانے ہي کچھ اور ہوگئے ،نفرتيں محبتوں ميں اور برسوں کي دشمنياں دوستيوں ميں بدل گئيں۔راہزن اور لٹيرے قوم کے رہنما بن گئے، ايک دوسرے کے خون کے پياسے باہم شير و شکر ہو گئے۔ غرض کہ کچھ بھي تو ايسا نہ تھا جو بدلا نہ گيا ہو۔

بقول مولانا الطاف حسين حالي     ؎

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

مسِ خام کو جس نے کندن بنایا

کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا

محمد عربي  صلي اللہ عليہ وسلم  کے لائے ہوئے دين متين پر کامل ايمان و ايقان کے ساتھ عمل کرنے سے دنيا اور آخرت دونوں ہي سنور جاتے ہيں اور کسي انسان کا ايمان اس وقت تک کامل نہيں ہوتا ، جب تک محمد عربي صلي اللہ عليہ وسلم  اس کو دنياکي ہر چيز سے عزيز تر نہ ہوجائيں۔ارشاد نبوي  صلي اللہ عليہ وسلم ہے:

لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ

’’ تم ميں سے کوئي شخص مؤمن نہيں ہوسکتا ، جب تک ميں اس کي نگاہ ميں اس کے باپ، اس کي ماں، اس کے بيٹے اور سارے انسانوں سے زيادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘ ( صحيح بخاري :15و صحيح مسلم:44)

رسول پاک  صلي اللہ عليہ وسلم  نے انساني اوصاف کي وضاحت کرتے ہوئے فرمايا:

’’ جن لوگوں کو اس بات کي خوشي ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول  صلي اللہ عليہ وسلم  سے محبت کر تے ہيں، تو انھيں چاہيے کہ وہ جب بات کريں تو سچ بوليں ، جب ان کے پاس کوئي امانت رکھي جائے تو اس کو اس کے مالک کے حوالے کريں،اور پڑوسيوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کريں۔ (مشکوٰة)

اب ہم جو عشق رسول  صلي اللہ عليہ وسلم کے بہت بڑے دعويدار بنتے ہيں کيا اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم  کي فرمائي ہوئي صرف ان تين باتوں پر ہي پوري طرح شعوري کوشش کے ساتھ عمل کرتے ہيں۔ ہم اگر پوري ديانت داري کے ساتھ اپنے گريبانوں ميں جھانکيں تو يہ حقيقت واضح ہوگي کہ ہمارا طرز عمل بحيثيت امت مسلمہ اس کے قطعي بر عکس ہے۔نہ ہمارے قول و فعل ميں کوئي مطابقت رہي ہے، اور نہ صداقت اور حق گوئي کي ہماري زبان عادي ہے۔ہم انفرادي سطح سے اجتماعي سطح تک خيانت اور بد ديا نتي کے عادي ہوچکے ہيں۔اور اسي طرح پڑوسيوں کے حقوق کا کوئي احساس ہے اور نہ بھائي چارے کا کوئي جذبہ۔ہم بحيثيت امت بنيادي انساني اوصاف سے بھي تہي دامن ہو چکے ہيں۔عشق رسول کے نام پر ہر سال ربيع الا ول کے موقع پر جو کچھ کيا جاتا ہے يہ اصل ميں جھوٹا اطمينان ہے جو ہميں ا س حقيقت کي طرف متوجہ ہونے نہيں ديتاکہ ہم پوري ديانتداري اور پورے اخلاص کے ساتھ يہ معلوم کر نے کي کوشش کريںکہ قرآن حکيم کي روشني ميں رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم  سے ہمارے تعلق کي حقيقي اساس اور صحيح بنيايں کيا ہيں؟ارشاد باري تعاليٰ ہے:

  قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ  

’’ آپ کہہ ديجيے لوگو! ميں تم سب کي طرف اس اللہ کا رسول ہوںجو آسمانوں اور زمين کي سلطنت کا مالک ہے، اس کے سوا کوئي الہ نہيں ، وہي زندہ کرتا اور مارتا ہے، لہٰذا اللہ اور اس کے نبي امّي پر ايمان لاؤ، جو اللہ اور اس کے ارشادات پر ايمان لاتا ہے اسي کي پيروي کرو، اميد ہے تم راہِ راست پالوگے۔‘‘ ( سورة الاعراف 158)

اس آيت مبارکہ کي روشني ميں واضح ہوگيا کہ انساني معاشرے کي فوز وفلاح اور کامل ہدايت کے ليے رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم  کي اطاعت اور اتباع ہي اصل طريقہ ہے۔انسانوں کے ناقص ذہنوں کے تراشے ہوئے حب رسول  صلي اللہ عليہ وسلم کے وہ تمام طريقے جن کا مظاہرہ بڑے دھوم دھام سے ہمارے ہاں ہر سال ہوتا ہے محض خود کو طفل تسلياں دينے کے متراد ف ہے۔جب کہ اتباع رسول کے پيمانے کچھ اور ہي ہيں اور اس کا دائرہ بہت وسيع ہے۔

رسول اکرم صلي اللہ عليہ وسلم  کا لايا ہوا دين، رواداري، اعتدال اور عدم تشدد کا پہلا دين ہے جس نے نہ صرف يہودو نصاريٰ کے ساتھ بلکہ مجوس اور مشرکين کے ساتھ بھي رواداري کا سلوک برتا ہے۔دين اسلام ميں دوسرے مذاہب اور ن کے پيشواؤں اور ان کے عبادت خانوں کي حفاظت کا حکم ديا گيا ہے۔امام ابو يوسف رحمہ اللہ کتاب الخراج ميں فرماتے ہيں:

’’ يہوديوں اور عيسائيوں کے عبادت خانے نہ گرائے جائيں، يہ لوگ ناقوس بجانے سے نہ روکے جائيں، البتہ نماز کے اوقات مستثنيٰ رہيں گے، اور ان کو ان کي عيد کے دن صليب نکالنے سے نہ روکا جائے۔‘‘

اسلام کي اعليٰ صفات ، حسن معاملات اور اخلاق فاضلہ کا اعتراف کرتے ہوئے پروفيسر ٹي ڈبليو آرنلڈ ، اپني کتاب ’’ The Preaching of Islam‘‘ ميں لکھتا ہے:

’’ اگر اسلام جلوہ گر نہ ہوتا تو شائد دنيا زمانۂ دراز تک انسانيت، تہذيب اور شائستگي سے روشناس نہ ہوتي۔ يہ امر واقع ہے کہ آج دنياميں مساوات، امداد باہمي، علمي جدو جہد اور نوع انساني کے ساتھ ہمدردي کي جو تحريکيں جاري ہيںوہ سب کي سب اسلام ہي سے مستعار لي گئي ہيں۔اسلام نے جلوہ گر ہو کر حکومتي نظاموں کا ڈھانچہ بدل ديا، دنيا کے اقتصادي نظام ميں انقلاب برپا کرديا، اسلام نے ايک ايسا مکمل نظام حيات پيش کيا جو مسلمانوں کے ليے ہي نہيںبلکہ ساري دنيا کے ليے ايک رحمت ثابت ہوا۔يہ ايسي خوبياں ہيں جن کے سامنے نہ صرف ميري بلکہ ہر انصاف پسند انسان کي گردن جھک جاني چاہيے۔‘‘

اسلام کي دشمن قوميںتبليغ و اشاعت کے ذريعے دنيا کو يہ باور کروانے کے ليے کوشاں ہيں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھيلا اور اب بھي يہ تشدد پسند مذہب ہے يعني، ع

 ’ ’ بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانے سے‘‘

حالانکہ اسلام اپني بلند اخلاقي، عفو ودرگزر، صلہ رحمي، اخوت، انسان دوستي کي بنا پر دنيا کے دلوں ميں جا گزيں ہواہے۔جبکہ عيسائيت کے فروغ ميں ظلم و ستم کي داستانيں انساني تاريخ کا حصہ ہيں، عيسائي بادشاہ تھيوڈوس سيوس نے غير مسيحي عبادت کو قابل سزائے موت قرار ديا تھا۔اس نے مندروں کو توڑنے ،ان کي جائداد ضبط کرنے اور عبادت کے سامانوں کو مٹانے کا حکم ديا تھا۔ مصر کے آرچ بشپ تھيوفيلوس نے خاندانِ بطالسہ کاعظيم الشان کتب خانہ نذرِ آتش کر ديا تھا۔ ان مظالم کا نتيجہ يہ نکلا کہ بت پرست رعايا نے تلوار کے خوف سے اس مذہب کو قبول کر لياجس کو وہ دل سے نا پسند کرتي تھي۔بد دل اور بے اعتقاد پيروؤں سے مسيحي کليسا بھر گئے۔38برس کے اندر روم کي عظيم الشان سلطنت سے وثنيت (بت پرستي) کا نام و نشان مٹ گيا۔اور يورپ، افريقہ اور شرقِ اردن ميں تلوار کے زور سے مسيحيت پھيل گئي۔

پروفيسر ٹي ڈبليو آرنلڈ نے  ’’ The Preaching of Islam‘‘ميں لکھا ہے:

’’ اسلام تلوار کے زور سے نہيں بلکہ اخلاق و کردار کے زور سے پھيلا ہے۔نيز مسلمانوں نے غير مذہب والوں کو  ہر جگہ مذہبي آزادي دي ہے۔اس نے تفصيل سے لکھا ہے کہ کس کس جگہ عيسائي اقليت ميں اور مسلمانوں کے  زير دست تھے۔جنہيں آساني سے بزورِ بازو مسلمان بنايا جاسکتا تھا مگر مسلمانوںنے ايسا نہيں کيا ۔اگر کسي جگہ بادشاہوں نے اس کا ارادہ بھي کيا تو مسلمان مفتيوں نے ان کو اس ارادے سے باز رکھا۔‘‘

فرانسيسي مفکر لامر ٹين (Lamartin) رسول کريم  صلي اللہ عليہ وسلم کے بارے ميں ان الفاظ ميں اظہارِ خيال کرتا ہے:

’’وہ تمام پيمانے اور اصول جن کي مدد سے ہم کسي انسان کي عظمت کو ناپ سکتے ہيں، ان ميں انسان کے عظيم تر مقاصد حيات اور اسباب و وسائل کي قلت کے باوجود حيرت انگيز نتائج کا ظہور شامل ہے، اس معيار کو سامنے رکھتے ہوئے کون ہے جو اس بات کي جرأت رکھتا ہو کہ وہ محمد ( صلي اللہ عليہ وسلم ) کي عبقري شخصيت کے مقابل کسي بھي زمانے کے دوسرے ليڈروں اور رہنماؤںکو رکھ سکے، اس ميں شک نہيں کہ بہت سارے رہنماؤں نے طاقتور اور خطرناک قسم کے جنگي آلات ايجاد کيے ہيں، قوانين پاس کيے ہيں، عظيم شہنشاہتيں اور حکومتيں قائم کيں ، مگر ان کے يہ سب کارنامے با لکل سطحي قسم کے ہيں، ان کے کارنامےانقلابِ زمانہ کي نظر ہوگئے، مگر محمد( صلي اللہ عليہ وسلم ) نے صرف لشکروں اور قبيلوں کي قيادت ہي نہيں کي، صرف قوانين ہي وضع نہيں کيےصرف حکومت ہي قائم نہيں کي، بلکہ انھوں نے لاکھوں لوگوں کے دلوں پر حکومت بھي کي ، جو دنيا کا تہائي حصہ تھے۔ محمد ( صلي اللہ عليہ وسلم ) کا کارنامہ يہيںپر ختم نہيں ہوجاتا، ان کا کارنامہ يہ بھي ہے کہ انھوں نے تمام پرانے رسم و رواج، فکر و خيال اور باطل نظريات و عقائد بيخ و بن سے اکھاڑ پھينکا…عظمت کے انساني معيار اور اصول کي روشني ميں، مَيں پوچھتا ہوں کہ نبي محمد( صلي اللہ عليہ وسلم ) سے بڑھ کر دنيائے انسانيت ميں کوئي اور ہوسکتا ہے؟

ان تمام حقائق کي روشني ميںامت مسلمہ کے ہر فرد کو يہ بات اچھي طرح ذہن نشين کر ليني چاہئے کہ وہ ايک عظيم الشان ماضي کے علمبردار ہيں۔ا ن کو جو دين ملا ہے وہ اعليٰ اخلاقي اقدار کا حامل ہے۔ظلم و تعدي اس کے مزاج کے قطعي خلاف ہے۔ يہي وہ بنيادي وصف ہے جس کا جائزہ لے کر غير مسلم اقوام نے اسلام کي مدح سرائي کي ہے ، اس ليے کہ سچائي خود اپني پہچان کر واتي ہے۔کسي فرد يا قوم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر اپني پسند کے وقتي فوائد تو حاصل کيے جا سکتے ہيں تاہم اس سفاکيت کي عمر لمبي نہيں ہوتي۔تاريخ کا قلم بڑا ظالم ہوتا ہے وہ کسي کو نہيں بخشتا۔ايک دن ہر ظلم اور ناانصافي کا راز تشت ا ز بام ہو کر رہتا ہے۔اور انجام کار ايک نہ ايک دن فرعونيت کو غرقاب ہونا ہي پڑتا ہے۔

بحيثيت مسلمان رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم  کي ذات مبارکہ کو اپنے ليے اسوہ اور رہبر و رہنما بناناہماري اسلامي تہذيب و تمدن کي اصل پہچان اور دين کا بنيادي تقاضا ہے۔اور ہماري يہي شناخت ہمارا رشتہ ہمارے شاندار ماضي سے استوار کرتي ہے۔جس پر دور حاضر ميں ہماري بد اعماليوں، فکري اور عملي گمراہيوں کي گرد چھائي ہوئي ہے۔آج ہم بحيثيت مجموعي اس منہج سے ہٹ گئے ہيں جس کو اختيار کر کے رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم  اور آپ کے جانثاروں نے ہواؤں کے رخ بدل دئے تھے۔

اسلام اپني جامع اور متوازن تعليمات ، اپنے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کي سيرتِ پاک اور اپنے پيروکاروںکے حسن عمل اور اخلاقِ کريمانہ سے پورے عالم اسلام ميں پھيلااور اسلام کا يہ پيغام عام ہوگيا کہ ربّ العالمين اور خالق ارض و سماء ہي بندگي اور اطاعت کے لائق ہے، اسلام نے دنيا کو ايسے اسلامي عطيات سے نوازاہے، جن کا نوع انساں کي رہنمائي، صلاح و فلاح اور تعمير و ترقي ميں نماياں کردار رہا ہے ، اور جنھوں نے ايک زندہ اور درخشندہ دنيا کي تخليق و تشکيل کي ہے جو کہنہ اور زوال پذير دنيا سے کوئي مشابہت نہيں رکھتي۔

آج ہمارا حال يہ ہے کہ اطاعت رسول  صلي اللہ عليہ وسلم  ہے تو اس ميں اصل روح موجود نہيں،احکامِ شريعت کو مذاق بنايا ہوا ہے،ہم شريعت کے تابع رہنے کے بجائے اپنے معاملات ميں شريعت کو اپنا تابع بنانا چاہتے ہيں۔نيکي بدي کي پہچان ہمارے فکر و عمل سے نکل چکي ہے، برائي ہوتے ديکھ کر ہمارے دلوں ميں کوئي چبھن تک نہيں ہوتي جو ايمان کا سب سے کم تر درجہ ہے۔ہمارا يہ طرز عمل سراسر معصيت اور منافقت کي علامت ہے۔ ايک طرف محبت رسول صلي اللہ عليہ وسلم  کے بلند بانگ دعوے ہيںدوسري جانب سچي اطاعت سے گريز!ہماري ميلاد کي محفليں، گھر گھر چراغاں،آتش بازياں، گھروں پر سبز جھنڈے لہرانا، اگر يہ سب اطاعت رسول صلي اللہ عليہ وسلم  سے حقيقي جذبے اور اتباع سنت کي روح سے خالي ہيں تو يہ سب سراپا ڈھونگ اور فريب نفس کے سوا کچھ بھي نہيں۔ع

زباں کچھ اور بوئے پیرہن کچھ اور کہتی ہے

آج مسلمان امت کرب و اذيت اور ذلت و رسوائي ميں مبتلا ہے۔نام نہاد عاشقانِ رسول کے جلسے جلوس، سيرت النبي صلي اللہ عليہ وسلم  پر سيمينار، سيرت کانفرنسيں اور ريلياں ، کچھ بھي مسلمانوں کي موجودہ حال ميں تبديلي نہيں لاسکيں ، پوري دنيا ميں مسلمان کي پہچان دہشت گرد ، انتہا پسند اور جابر وظالم قوم بن کر رہ گئي ہے۔قرآن و سنت کے اصل منشا اور تعليم سے دوري ، فلسفہ اسلام سے ناواقفيت، شخصيت پرستي، انا پرستي، قبر پرستي، اللہ کو چھوڑ کر غير اللہ سے اپني حاجات اور اميديں وابستہ کر ناہماري نکبت واِ دبار کا اصل سبب ہے، بقول اقبال:  ؎

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی

مجھے بتا تو صحیح او ر کافری کیا ہے؟

اگر ہم مسلمان يہ چاہتے ہيں کہ ہم في الواقع دنيا کي وہ آخري قوم ہونے کا اعزاز حاصل کريں جو کائنات کي حرکت ارتقاکا مقصود و مدعا ہے اور جو اقوامِ عالم کي راہ نما اور زمين کي وارث ہونے والي ہے تو ہميں چاہئے کہ رحمة للعالمين کے ہر قول و فعل کو جو تاريخ کے معياروں کے مطابق حضور  صلي اللہ عليہ وسلم  کا قول و فعل ثابت ہوچکا ہے يا تواتر اور توارث سے ہم تک پہنچا ہے، نہايت ہي گہرے احساسِ محبت اور احترام کے ساتھ اپني نظرياتي زندگي کا راہ نما بنا ئيں، اس ليے کہ   ؎

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اگر ہم بحيثيت امت مسلمہ رحمة للعالمين کي مکمل اطاعت بجا نہ لاسکيںتو پھر ايسا تو نہيں ہوسکتا کہ ارتقائے انسانيت اپني منزل مقصود کي طرف آگے نہ بڑھے، زندگي کي غير مبدل خصوصيات کي وجہ سے اس کا نتيجہ سوائے اس کے اور کچھ نہ ہوگاکہ ارتقا کي قوتيں ہميں مٹا کر ايک اور قوم کو ہماري جگہ لے آئيں گي۔جو ہماري طرح نہيں ہوگي بلکہ رحمة للعالمين کي سچي اور محبانہ اطاعت کي وجہ سے درحقيقت اس قابل ہوگي کہ حرکت ارتقا کا مقصود و مدعا اور اقوال عالم کي راہ نما اور زمين کي وارث قرار پائے۔

ارشاد رباني ہے:

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

’’( اے پيغمبر لوگوں سے کہہ دو) اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو ميري پيروي کرو اللہ بھي تمھيں دوست رکھے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (آلِ عمران31)

ايک اور مقام پر اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ  فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا   وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ

’’ کہہ دو کہ اللہ کي فرمانبرداري کرو اور رسول (اللہ) کے حکم پر چلو، اگر منہ موڑوگے تو رسول پر (اس چيز کا ادا کرنا)ہے جو ان کے ذمہ ہے اور تم پر (اس چيز کا ادا کرنا)ہے جو تمہارے ذمہ ہےاور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سيدھا رستہ پالوگے، اور رسول کے ذمہ صاف صاف (احکامِ الٰہي کا ) پہنچا دينا ہے۔‘‘ (سورة النور 54)

اللہ تعاليٰ نے اپني فرمانبرداري اور اپنے رسول  صلي اللہ عليہ وسلم  کي اطاعت کرنے والوں کو يہ خوشخبري بھي سنادي ہے:

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا  يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ  (سورة النور 55)

’’ جو تم ميں سے ايمان لائے اور نيک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گاجيسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنايا تھا اور ان کے دين کو جسے اس نے ان کے ليے پسند کيا تھا مستحکم اورپائيدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ ميري عبادت کريں گے اور ميرے ساتھ کسي چيز کو شريک نہ بنائيں گے۔اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ايسے لوگ بد کردار ہيں۔‘‘

raheelgoher5@gmail.com

کتابیات

1قرآنِ مجيد ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھريؒ

2رحمة للعالمين  صلي اللہ عليہ وسلم قاضي محمد سليمان سلمان منصور پوريؒ

3رسول انقلاب صلي اللہ عليہ وسلم  کا طريق انقلاب ڈاکٹر اسرار احمد ؒ

4حکمت اقبال ڈاکٹر محمد رفيع الدينؒ

5محسن انسانيت  صلي اللہ عليہ وسلم  مولانا سيد محمدواضح رشيد ندوي

6سيرت رسولِ اکرم  صلي اللہ عليہ وسلم مولانا سيد ابو الحسن علي ندويؒ

7تہذيب وتمدن پر اسلام کے اثرات و احسانات ،ايضاً

8عالمي السيرة(ششماہي) سيد فضل الرحمٰن

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے