آج امت مسلمہ پر اغيار کے افکار کي يلغار ہے۔ ان کي معاشرت اورمعيشت پريہوديوں،صليبيوں اور ہندؤوں کا قبضہ ہوچکاہے۔ اللہ تعاليٰ نے انسان کو اپني عبادت کے ليے پيدا کيا ہے۔ موجودہ زمانے کا مسلمان اپنے اس فرض کو بھول چکاہے۔ خاص کر عورتيں۔

دشمنانِ اسلام نے جب سے عالمِ اسلام کے خلاف جنگ کا عَلم بلند کيا ہے تب سے مسلمان عورتوں کے پردے کے خلاف تحريکيں چلا رکھي ہيں۔مرقص قبطي نے 1894ء ميں اپني کتاب ’’المرأة في الشرق‘‘ يعني ’’مشرقي عورت‘‘ کے ذريعے پردے کے انکار کي دعوت دي۔ 1921ء ميں روم ميں ايک کانفرنس منعقد ہوئي،اس ميں شريک مصري خواتين نے مصر پہنچ کر اپنے حجاب اتار کر پاؤں ميں روندڈالے۔1925ء ميں ترکي ميں حجاب پر باقاعدہ پابندي لگ گئي۔1930ء ميں ايران ميں رضا شاہ کے حکم پر باحجاب خواتين کيلئے اسکولز،يونيورسٹيز اور دفاتر کے دروازے بند ہو گئے۔ 2000ء ميں نيويارک ميں عورت کے نام پہ ايک کانفرنس منعقد ہوئي جس ميں پاس ہونے والي قرار داد ميں پردے سے آزادي بھي شامل تھي۔ 8 مارچ خواتين کا عالمي دن پوري دنيا ميں منايا جاتاہے۔

مسلمانوں کي تاريخ کا يہ دور سب سے زيادہ شرمناک ہے اور يہي دور ہے جس ميں پردے کے سوال پر بحث چھڑي۔ اگر سوال محض اس قدر ہوتا کہ اسلام ميں عورت کے ليے آزادي کي کيا حد مقرر کي گئي ہے تو جواب کچھ بھي مختلف نہ ہوتا۔زيادہ سے زيادہ اختلاف جو اس باب ميں پايا جاتاہے وہ محض ايک حد تک ہے کيا چہرہ اور ہاتھ کھولنا جائز ہے يا نہيں ؟يہ مسئلہ اس ليے پيدا ہوا کہ يورپ نے حرم اور پردے کو نہايت نفرت کي نگاہ سے ديکھا۔ اپنے تمام وسائل سے اس کي مضحکہ تصويريں کھينچيں۔اسلام کے عيوب کي فہرست ميں عورتوں کي قيد کو نماياں جگہ دي۔

ان سب کوششوں کے باوجود وہ اپني سازشوں وکاوشوں ميں کامياب نہ ہوسکا تو اس نے پردے کا مذاق اس طرح اڑايا کہ اسے جديد انداز دے کر عرياني بناديا اور ہر سال دبئي ميں 27 جنوري کو عبايا شومنايا جاتاہے۔

اللہ سبحانہ وتعاليٰ کا قرآن مجيد ميں سورة احزاب آيت نمبر 33 ميں حکم ہے :

وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى۶ وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا  (الأحزاب:33)

اور اپنے گھروں ميں قرار سے رہو اور جاہليت کے زمانے کي طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتي رہو اور زکوٰة ديتي رہو اور اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول  صلي اللہ عليہ وسلم  کي اطاعت گزاري کرو اللہ يہي چاہتاہے کہ اے نبي  صلي اللہ عليہ وسلم  کي گھرواليو تم سے وہ گندگي دور کر دے۔‘‘

اس آيت ميں اللہ تعاليٰ نے عورتوں کو 3 احکام ديئے ہيں يعني ٹک کر رہو اور بغير ضروري حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو اگر باہر جانے کي ضرورت پيش آئے تو بناؤ سنگھار کرکے مت نکلو بے پردہ ہوکر جس سے تمہارا سر،چہرہ، بازو اور سينہ وغيرہ مردوں کو دعوتِ نظر دے۔ اور نماز کي پابندي کرو اور اللہ اور اس کے رسول  صلي اللہ عليہ وسلم  کي اطاعت کرو اس بات کي تائيد اسي طرح آيت نمبر 59 ميں بھي ہے۔ ارشاد رباني ہے :

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ  وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 

اے نبي  صلي اللہ عليہ وسلم ! اپني بيويوں سے اور اپني صاحبزاديوں سے اور مسلمانوں کي عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپني چادريں لٹکا ليا کريں اس سے بہت جلد ان کي شناخت ہوجايا کرے گي پھر نہ ستائي جائيں گي، اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(الأحزاب:59)

اس آيت ميں پردے کي حکمت اور اس کے فائدے کا بيان ہے۔ باحيا عورت اور بے شرم عورت کي پہچان ہوگي۔پردے دار عورت سے کوئي چھيڑ چھاڑ کي جرأت نہيں کرے گا اور بے پردہ عورت اوباش کي نگاہوں کا مرکز اور ان کے فقروں کا نشانہ بنے گي۔

سوال يہ پيدا ہوتاہے کہ پردہ کيسا ہو؟

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: « يَرْحَمُ اللَّهُ نِسَاءَ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلَ، لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ [النور: 31] شَقَقْنَ أَكْنَفَ – قَالَ ابْنُ صَالِحٍ: أَكْثَفَ – مُرُوطِهِنَّ، فَاخْتَمَرْنَ بِهَا

سيدہ عائشہ رضي اللہ عنہا فرماتي ہيں کہ اللہ رحم فرمائے ان عورتوں پر جنہوں نے سب سے پہلے ہجرت کي ، جب قرآن کي يہ آيت نازل ہوئي ’’عورتوں کو چاہيے کہ وہ اپنے سينوں پر اپني چادريں لپيٹ کر رکھيں۔(سورة النور:31)تو انہوں نے موٹے کپڑوں کے پردے پھاڑ کر اوڑھنياں بنائيں اور حکم پرعمل کيا۔ (ابوداود 4102)

ہمارے ہاں رائج باريک کپڑے کا برقعہ وعبايا شرعي تقاضے پورے نہيں کرتا اور اس کے برعکس پردے کے نام پر زرق برق اور چست برقعوں اور عبايا کے نت نئے ڈيزائن بجائے پردے کے بے حيائي کا سبب بن چکے ہيں جن پر ہر گزرنے والے کي نظر ٹھہر جاتي ہے اور بجائے پردے کے مزيد لوگوں کي نظروں کا محور بن جاتے ہيں اور اگر دوسري طرف ديکھيں تو وہ لباس يہي ہيں جو اپني باريکي اور وضع قطع ميں ايسے ہيں جس ميں سوائے نمائش جسم کے اور کچھ حاصل نہيں۔

آج امت مسلمہ کي بدقسمتي يہ ہے کہ ہماري اکثر مائيں بہنيں اس پردے کو بوجھ اور قدامت پسندي سمجھتي ہيں اور آج اکثريت نے جو حجاب اختيار کيا ہے وہ بے پردگي اور دلکشي کا باعث ہوتاہے۔ مروجہ برقعہ اور جديد فيشن کے نقاب اسي کا عکس ہے۔سعوديہ عرب کے ممتاز عالم دين الشيخ صالح بن عثيمين رحمہ اللہ نے فيشن ايبل نقاب کو حرام قرار ديا ہے جس ميں عورت مزيد پُر کشش نظر آئے اور جسم کي بناوٹ نماياں ہو۔

برقعہ وعبايا کے بنيادي تقاضوں کا خيال رکھنا عورتوں کے ليے ضروري ہے۔عورت کے لغوي معني پردے کے ہيں اور پردے کے معني چھپانے کے ہيں۔برقعہ وعبايا پہناوے کا نام ہے جس کا مقصد اپنے آپ کو چھپانا ہے نہ کہ فيشن اور جديديت کے نام پر برہنہ ہوجانا۔ اللہ تعاليٰ نے اپني کتاب ميں اس بڑے فتنے سے يہ کہہ کر خبردار فرمايا ہے :

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْاٰتِهِمَااِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ

اے بني آدم!شيطان اس طرح تمہيں فتنے ميں نہ ڈال دے جس طرح سے اس نے تمہارے والدين کو جنت سے نکلوا ديا تھا، اس نے ان کے لباس اُترواديئے تھے تاکہ وہ ايک دوسرے کے قابل شرم حصے کو ديکھ سکيں،بيشک وہ اور اس کا قبيلہ تمہيں وہاں سے ديکھتاہے جہاں سے تم انہيں نہيں ديکھ سکتے،بے شک ہم نے شياطين کو ان لوگوں کا دوست بنادياہے جو ايمان نہيں لائے۔(الاعراف:27)

غورکريں! يہ کتني خطرناک بات ہے جس سے آج ہم غفلت کا شکار ہيں۔

سيدنا عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا

المَرْأَةُ عَوْرَةٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ

’’عورت ستر ہے جب وہ نکلتي ہے تو شيطان اسے اچھا(حسين وجميل) کرکے دکھاتاہے‘‘۔ (ترمذي:1173)

لہٰذا عورتوں کو چاہيے کہ اپنے برقعہ وعبايا ، اپنے جسم سے کھلے،ڈھيلے اور لمبے سلوائيں ۔برقعہ کا کپڑا ہرگز باريک نہ ہو بلکہ برقعہ سادہ اور موٹے کپڑے کا ہو۔

سيدہ عائشہ رضي اللہ عنہا سے روايت ہے کہ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  نے خواتين کے اِزار کے بارے ميں فرمايا ’’ ايک بالشت بھر نيچے ہونا چاہيے۔ اماں عائشہ رضي اللہ عنہا نے عرض کيا |’’ جب عورت بازار جائے تو پھر کتنا لمبا ہونا چاہيے؟ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا : ’’ہاتھ بھر‘‘۔ (ابن ماجہ:2884)

سيدہ ام سلمہ رضي اللہ عنہا نے فرمايا ميں نے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  سے پوچھا :

إِنِّي امْرَأَةٌ أُطِيلُ ذَيْلِي، وَأَمْشِي فِي الْمَكَانِ الْقَذِرِ فَقَالَتْ: أُمُّ سَلَمَةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُطَهِّرُهُ مَا بَعْدَهُ

ميں اپنا دامن لمبا رکھنے والي ايک خاتون ہوں ، بعض اوقات ناپاک جگہ سے گزرنا پڑتا ہے؟ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا ’’بعد والي پاک جگہ اسے پاک کر دے گي۔‘‘ (ابوداود 383)

دن تيزي سے گزر رہے ہيں ، ہر گزرنے والا دن ہميں اگلے دن کے سپرد کر جاتاہے، مہينہ اگلے مہينہ اور سال آئندہ سال کي شکل ميں تبديل ہوجاتاہے۔ انسان کي عمر ہر دم گھٹتي جارہي ہے اور انسان تيزي سے دنيا کي روشنيوں سے نکل کر قبر کي تاريکيوں کي طرف بڑھتا چلا جارہا ہے،پھر اس کے بعد انسان کے ليے يا تو جنت ہے ياپھر جہنم۔

اللہ تعاليٰ سے دعاہے کہ اللہ تعاليٰ اس تحرير کو امت مسلمہ کي ماؤں،بہنوں اور بيٹيوں کو بعد از عمل قبر کي تاريکيوں سے نجات کا ذريعہ اور باعث اجر بنائے۔ آمين

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے