شادی بیاہ کی جاہلانہ رسومات

 لڑکی کا اپنے منگیتر کے باپ سے مصافحہ کرنا

يہ جائز نہيں کہ لڑکي اپني منگيتر کے باپ کے سامنے بے حجاب ہو ، کيونکہ وہ عقدِ نکاح کے بعد ہي اس کا محرم بنے گا،البتہ منگيتر کے سامنے بے حجاب ہونے ميں کوئي مضائقہ نہيں ، ليکن بغير خلوت اور شہوت کے ۔ اور نہ ہي ازراہِ تلذذ اس کي طرف ديکھنا درست ہے ، منگيتر کے سامنے اس کا بے حجاب ہونا محض جانکاري کےلئے ہے ، پھر اگر دونوں طرف سے رغبت و شوق ظاہر ہوتا ہے ، تو عقدِ نکاح ہوجائے گا ، وگرنہ دونوں اپنے اپنے باپ کے گھر رہيں گے ۔( ابن عثيمين : نور علي الدرب : 10 )

 لڑکی کا اپنے منگیتر کے ساتھ بیٹھنا اور گھر سے باہر جانا

لڑکي اپنے منگيتر کي نسبت اجنبي عورت ہے ، وہ اس کےلئے حلال نہيں ، اور وہ اس کےلئے ايسے ہي ہے جيسے دوسرے غير مرد ، چنانچہ آدمي کےلئے جائز نہيں کہ عقدِ نکاح سے قبل اس کے ساتھ تنہائي ميں بيٹھے يا ٹيلي فون پر مخاطب ہوياکسي اورچيزکےذريعےاس سےکلام کرے۔

کيونکہ جيسا کہ ميں نے کہا وہ اس کےلئے اجنبي عورت ہے ، منگيتر ہو يا کوئي اور مرد وہ اس کےلئے برابر ہے ، کچھ لوگ اس مسئلہ ( منگيتر سے بات چيت ) ميں کوتاہي کرتے ہيں ، بسا اوقات لڑکي تنہا اس کے ساتھ گھر سے باہر چلي جاتي ہے ، يہ حرام ہے ، حلال نہيں ہے ، اگر آدمي ايسے کرنا چاہتا ہے تو جلدي شادي کرلے ۔( ابن عثيمين : نور علي الدرب : 6)

يعني کے نکاح سے قبل منگيتر بالکل بھي اسي طرح حرام ہے جس طرح دوسرے مرد ہيں ،علماء کا کہنا ہے کہ : نکاح سے پہلے محرم کے بغير لڑکي کےلئے جائز نہيں کہ اپنے منگيتر کے ہمراہ گھر سے باہر نکلے کيونکہ يہ فتنے اور اور ايسي چيز کا سبب ہے جس کا انجام اور نتيجہ اچھا نہيں ہوتا ۔(اللجنة الدائمة : 20893 )

 مائیوں بٹھانے کی رسم

شادي سے چند دن پہلے گھر کي عورتيں دلہن کو گھر کے ايک کونے ميں محبوس کرديتي ہيں اسے مائيوں بٹھانا کہا جاتا ہے جو کہ خالص ہندوانہ رسم کي ادائيگي اس کا طريقہ يہ ہے کہ لڑکي کو ايک چوکي پر بٹھا ديا جاتا ہے اور اسے گھر کے کام کاج حتي کہ گھر والوں سے بول چال سے منع کرديا جاتا ہے اور اس کا گھر سے باہر نکلنا مکروہ گردانا جاتا ہے تاوقتيکہ اس کي شادي ہوجائے ۔اسلام ميں اس رسم کي کوئي گنجائش نہيں ۔

 تیل مہندی کی رسم

شادي سے کچھ دن پہلے لڑکے والوں کي طرف سے عورتيں دلہن کےليے مہندي ليکر جاتي ہيں اسي طرح لڑکي والوں کي طرف سے دولہا کے ليے مہندي بھيجي جاتي ہے ۔

مہندي بھيجنے کا انتظام اسي طرح کيا جاتا ہے جس طرح بہت بڑے جلوس کا کيا جاتا ہے ۔ پھر مہندي کے رسم ميں ناچ گانے کا بھي بھر پور اہتمام کيا جاتا ہے اگرچہ دلہن کي مہندي لگانا جائز ہي نہيں بلکہ مستحب بھي ہے ليکن اس کےلئے اجتماع ، کھانے پينے کا انتظام اور ناچ گانے ميں

مہندي کا استعمال درست نہيں علاوہ ازيں دولہا کے ہاں

مہندي کي رسم دلہن کے بنسبت زيادہ قبيح اور بدتر ہے ۔

 منگنی کی انگوٹھی

مرد کےليے صرف چاندي کي اور عورت کےليے سونا اور چاندي دونوں طرح کي انگوٹھي پہننا جائز ہے اس ليے اگر تعلق بڑھانے کےليے انگوٹھي کا تحفہ ديا جائے تو اس ميں کوئي حرج نہيں بشرطيکہ تحفے کي نسبت سے ايسے کيا جائے رسم و رويات کے بت پوجنے کےلئے ايسا نہ کيا جائے ۔

ليکن ہمارے ہاں انگوٹھي کو منگني کي خاص علامت اور رسم بنا ليا گيا ہے حالانکہ اول تو شادي سے پہلے منگني کرنا کوئي ضروري نہيں بلکہ زيادہ سے زيادہ اسے جائز ہي قرار ديا جاسکتا ہے اور پھر منگني کا تعلق طرفين کا عہد و پيمان کاسا ہے ۔ اس عہد و پيمان کي شہادت خود عہد و پيمان کرنے والوں کي زبان ہے نہ کہ انگوٹھياں جو لڑکے اور لڑکي کو پہنائي جاتي ہيں اس لئے ضرورت اس بات کي ہے کہ انگوٹھي کي فضول رسم کا خاتمہ کيا جائے بالخصوص اس لئے بھي کہ يہ عيسائيوں کي رسم ہے ۔( آداب الزفاف از شيخ الباني ، ص : 140 تا 141 )

 سر بالہ اور دولہا کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتیں

ہندوں کے ہاں شادي بياہ کي رسومات ميں چونکہ دولہا کے ساتھ مختلف شرارتيں کي جاتي تھيں اس لئے ايک سمجھدار بچے کو خصوصي طور پر دولہے کے ساتھ رکھا جاتا جسے سر بالہ کا نام ديا گيا ۔

 اس کا کام يہ کہ دولہا کو « خطرات « سے آگاہ کرتا رہے مثلا: اگر دولہا کو دودھ کا گلاس پيش کيا گيا ہے تو پہلے سربالہ اس کا ذائقہ ديکھ کر دولہا کو ہاں يا ناں ميں بتائے ۔

اسلام چونکہ اس طرح کي غير اخلاقي حرکتوں کي اجازت ہي نہيں ديتا اس لئے سر بالہ کي بھي کوئي ضرورت نہيں رہتي يہ ہي وجہ ہے کہ عہد نبوي اور عہد صحابہ ميں شادي بياہ کے واقعات ميں « سر بالہ « کا کوئي کردار دکھائي نہيں ديتا !

البتہ آج کل ہمارے معاشرے ميں شادي کے موقع ميں دولہا کے ساتھ بعض غير اخلاقي حرکتيں بھي شادي کا حصہ بن چکي ہيں مثلا: دولہا کو ٹوٹي ہوئي چار پائي پر بٹھا کر گراديا جاتا ہے ۔ اسے ايسا دودھ يا مشروب پيش کيا جاتا ہے جس ميں مرچيں يا بہت زيادہ نمک ملايا گيا ہو ، اسي طرح دولہا کي جوتي چرانے کي کوشش کي جاتي ہے اور جوتا واپسي کي رقم طلب کي جاتي ہے ۔ طرفہ تماشا يہ ہے کہ يہ تمام حرکتيں دولہا کي سالياں اور دوسري غير محرم لڑکياں کرتي ہيں ۔

 منہ دکھائی کی رسم

دولہن کو لڑکے والے گھر لے جاکر ايک کمرے ميں بٹھا ديتے ہيں اور پھر منہ دکھائي کي رسم پوري کي جاتي ہے جس ميں خاندان کي کوئي بوڑھي عورت سب سے پہلے بہو کا منہ ديکھتي ہے اور اس کے ساتھ بہو کو منہ دکھلائي کي کوئي چيز پيش کرتي ہے اسي طرح معاشرے کي دوسري خواتين کرتي ہيں حتي کہ جس کے پاس کوئي پيش کرنے کي کوئي چيز نہيں ہوتي اسے منہ نہيں دکھلايا جاتا پھر اس ميں ايک بيہودگي کي بات يہ ہے کہ بعض غير محرم مثلا: لڑکي کے ديور ، جيٹھ وغيرہ بھي اس کے منہ دکھلائي کي رسم ميں شريک ہوتے ہيں جو اسلامي قدروں کي پامالي کرتے ہيں ۔( تحفة النساء از محمد عظيم حاصلپوري ، ص : 441 تا 460 )

 تقریبات میں طبلے وغیرہ بجانا

آلات طرب ، بانسري و سارنگي اور طبلے وغيرہ بجانا غير شرعي عمل ہيں اکثر تقريبات ميں خواتين کي طرف سے ان چيزوں کا اہتمام کيا جاتي ہے ۔ سيدنا ابو مالک الاشعري رضي اللہ عنہ سے مروي ہے کہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا :

لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ ، وَالْحَرِيرَ ، وَالْخَمْرَ ، وَالْمَعَازِفَ وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ يَأْتِيهِمْ يَعْنِي الْفَقِيرَ لِحَاجَةٍ ، فَيَقُولُونَ ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا ، فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً ، وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ  .

ميري امت ميں ايسے برے لوگ پيدا ہو جائيں گے جو زناکاري، ريشم کا پہننا، شراب پينا اور گانے بجانے کو حلال بنا ليں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کي چوٹي پر ( اپنے بنگلوں ميں رہائش کرنے کے ليے ) چلے جائيں گے۔ چرواہے ان کے مويشي صبح و شام لائيں گے اور لے جائيں گے۔ ان کے پاس ايک فقير آدمي اپني ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے ليے اس سے کہيں گے کہ کل آنا ليکن اللہ تعاليٰ رات کو ان کو (سرکشي کي وجہ سے ) ہلاک کر دے گا پہاڑ کو ( ان پر ) گرا دے گا اور ان ميں سے بہت سوں کو قيامت تک کے ليے بندر اور سور کي صورتوں ميں مسخ کر دے گا۔(صحيح بخاري : 5590 )

لفظ « معازف « ہر قسم کے گانوں اور تمام آلات طرب کو شامل ہے ۔

 زکواة کی ادائیگی کے بغیر سونا پہننا

سيدنا عمرو بن شعيب اپنے والد سے وہ اپنے دادے سے روايت کرتے ہيں کہ :

أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا:‏‏‏‏ أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا؟  قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟  قَالَ:‏‏‏‏ فَخَلَعَتْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ:‏‏‏‏ هُمَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ.

ايک عورت رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوئي، اس کے ساتھ اس کي ايک بچي تھي، اس بچي کے ہاتھ ميں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپ  صلي اللہ عليہ وسلم نے اس سے پوچھا: کيا تم ان کي زکاة ديتي ہو؟ اس نے کہا: نہيں، آپ  صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: کيا تمہيں يہ اچھا لگے گا کہ قيامت کے روز اللہ تعاليٰ تمہيں آگ کے دو کنگن ان کے بدلے ميں پہنائے ۔ سيدناعبداللہ بن عمرو بن العاص رضي اللہ عنہما کہتے ہيں کہ اس عورت نے دونوں کنگن اتار کر انہيں رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے ڈال دئيے اور بولي: يہ اللہ اور اس کے رسول کے ليے ہيں۔ ( سنن نسائي 2481 ، سنن ابي داود : 1563 )

اور اسي طرح سيدنا ابو ہريرہرضي اللہ عنہ سے مروي ہے کہ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا:

وَيْلٌ لِلنِّساءِ مِن الأَحْمَرَيْن: الذَّهَبِ وَالمُعَصْفَرِ

دو سرخ چيزوں ميں عورتوں کے لئے ہلاکت ہے، سونے اور عصفر(زردرنگ) سے رنگے ہوئے کپڑے ميں ۔ (شعب الايمان للبيھقي:5920، الصحيحة للالباني:3079)

عورتوں پر سونے کے زيوارت اس صورت پر حرام اور عذاب الہي کے باعث ہيں جب وہ انکي زکوٰة ادا نہ کريں ، اگر زکواة ادا کريں تو مباح ہے ۔( تفصيل کےلئے ملاحظہ ہو شيخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوي اردو جزء اول ص : 245 تا 249 ، مطبوعہ دار السلام رياض )

يعني اگر عورت زکوة ديئے بغير سونا پہنتي ہے تو وہ بھي ناجائز، غير شرعي، حرام اورعذاب الہي کا ذريعہ ہے البتہ اگر زکوة ديتي ہے تو مباح ہے ۔

 شوہر کا راز افشاں کرنا

اکثر خواتين شادي کي پہلي رات جو باتيں شوہر سے کرتي ہيں دوسرے دن صبح کو اپني سہيليوں سے وہ بيان کيا کرتي ہيں حالانکہ مياں بيوي دونوں کےلئے حرام ہے کہ وہ ايک دوسروے کے راز افشاں کريں ۔

سيدنا ابو ہريرہرضي اللہ عنہ سے مروي ہے انہوں نے کہا:

دخل رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم المسجد ، وفيه نسوةٌ من الأنصار ، فوعظهنَ ،وذكرهنَ ، وأمرهنَ أن يتصدقنَ ، ولو من حليهنَ ، ثم قال :  ألا هلْ عَسَتِ امرأةٌ أنْ تخبرَ القومَ بمَا يكونُ مِن زوجِهَا إذا خَلا بِها؟ ألا هلْ عَسى رجلٌ أنْ يخبرَ القومَ بمَا يكونُ منْه إذا خَلا بأهلِه؟ فقامتْ منهنّ امرأةٌ سفعاءَ  الخدَّين ، فقالتْ : واللهِ إنهمْ ليفعلونَ ، وإنهنّ ليفعلْنَ قالَ:فلَا تفْعلُوا ذلكَ أفلَا أنَبئكمْ مَا مَثل ذلكَ ؟ مَثَل شيطانٍ أتَي شيطانةً بالطريقِ ، فوقعَ  بهَا ، والناسُ ينظرونَ

رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم مسجد ميں داخل ہوئے تو کچھ انصاري عورتيں بيٹھي ہوئي تھيں، آپ نے انہيں وعظ و نصيحت کي اور انہيں حکم ديا کہ وہ صدقہ کريں چاہے زيورات ہي ہوں،پھرفرمايا:کيا کوئي ايسي عورت ہے جو دوسري عورتوں کو اپنے شوہر کے ساتھ عليحدگي والي باتيں بتاتي ہو؟ کہا کوئي ايسا مرد ہے جو دوسرے لوگوں کو اپني بيوي کے ساتھ عليحدگي والي باتيں بتاتا ہو ؟ ان ميں سے سياہي مائل بدلي ہوئي رنگت والے عورت کھڑي ہوئي، اور کہنے لگي: اللہ کي قسم! مرد بھي ايسا کرتے ہيں اور عورتيں بھي ايسا کرتي ہيں۔ آپ نے فرمايا : ايسا نہ کيا کرو کيا ميں تمہيں اس کي مثال نہ بتاؤں ؟ يہ اس شيطان کي مثال ہے جو راستے ميں کسي شيطانہ کے پاس آتا ہے اس سے جماع کرتا ہے اور لوگ ديکھ رہے ہوتے ہيں ۔(الصحيحة للالباني : 846 )

اور اسي طرح سيدنا ابوسعيد خدري رضي اللہ عنہ سے مروي ہے  رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا :

إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ وَتُفْضِي إِلَيْهِ ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا

قيامت کے دن ، اللہ کے ہاں لوگوں ميں مرتبے کے اعتبار سے بدترين وہ آدمي ہو گا جو اپني بيوي کے پاس خلوت ميں جاتا ہے اور وہ اس کے پاس خلوت ميں آتي ہے پھر وہ ( آدمي ) اس کا راز افشا کر ديتا ہے۔ ( صحيح مسلم : 3542 )

لہذا مرد وزن کو اس بات ميں محتاط رہنا چاہيے کہ وہ اپني اندروني گفتگو کسي دوسرے فرد کے آگے نہ کريں ۔ ہمارے ہاں اکثر مرد جنسي معلومات ذکر کرنے ميں کوئي شرم محسوس نہيں کرتے اور اسي طرح خواتين اپني سہيليوں کے آگے اپنے شوہروں کے ساتھ گزرنے والے مخصوص حالات بلاجھجھک بيان کرتي ہيں اور پوچھتي ہيں ، لہذا ہر مرد وزن کو اس سے گريز کرنا چاہيے ۔

 عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ بآواز بلند بولنا

ايسي عورت جواپنے خاوند کے سامنے بلند آواز سے بولتي ہے يہ اس کي حرکت سوءِ ادب ہے ، اس لئے کہ اس کا خاوند اس پر نگران اور محافظ ہے ، عورت کو چاہيے کہ اس کا احترام کرے اور باادب ہوکر اس سے مخاطب ہو ، اس طرح ان کے درميان محبت و الفت کي فضا پيدا ہوگي اور پائيداري رہے گي ، جيسا کہ مرد کو بھي چاہيے کہ اس کے ساتھ ايسا ہي سلوک کرے ، حسن سلوک کا طرفين سے تبادلہ ہونا چاہيے ، فرمان باري تعالي ہے :

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَـيْـــــًٔـا  وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا

اور ان کے ساتھ اچھے طريقے سے رہو ، پھر اگر تم انہيں ناپسند کرو تو ہوسکتا ہے کہ تم ايک چيز کو ناپسند کرو اور اللہ اس ميں بہت بھلائي رکھ دے ۔(النساء : 19 )

ايسي عورت کو ميري نصيحت ہے کہ اپنے اور اپنے خاوند کے متعلق اللہ تعالي سے ڈرے ، اس سے آواز بلند نہ کرے ، خاص طور پر جب اس کا خاوند نرم اور دھيمي آواز ميں اس سے مخاطب ہو ۔ ( ابن عثيمين : نور علي الدواب : 28 )

بیوی کا قیام اللیل کا عذر کرتے ہوئے خاوند کے بستر پر نہ آنا

يہ عذر درست نہيں ہے سيدنا ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے يہ بھي روايت ہے کہ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَہ اِلٰی فِرَاشِہِ فَأَبَتْ عَلَیْہِ فَبَاتَ وَھُوَ غَضْبَانُ (وَفِیْ لَفْظٍ: وھُوَ عَلَیْہَا سَاخِطٌ) لَعَنَتْہَا الْمَلَائِکَۃُ حَتّٰی تُصْبِحَ

جب آدمي اپني بيوي کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے اوروہ اس پر غصہ کي حالت ميں رات گزارے تو صبح تک فرشتے ايسي خاتون پر لعنت کريں گے۔ « حتي ترجع « حتي کہ وہ لوٹ آئے ۔( صحيح بخاري : 5194 )

عورتوں کے درمیان ( Lesbiansm)  ہم جنس پرستی

عورتوں کے درميان ہم جنس پرستي حرام ہے ، بلکہ کبيرہ گناہ ہے ، کيونکہ کہ يہ عمل اس فرمان خداوندي کے مخالف ہے:

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ

اور جو اپني شرمگاہوں کي حفاظت کرتے ہيںمگراپني بيويوں پرياجس کے مالک ان کے دائيں ہاتھ ہيں ، تو يقيناً وہ ملامت کئے ہوئے نہيں ۔ پھر جو اس کے علاوہ کوئي راستہ ڈھونڈے تو وہ ہي حد سے گزرنے والے ہيں ۔ (اللجنة الدائمة : 5520 )

 عورت کی ڈرائیونگ

عورت کےلئے موٹر ڈرائيونگ بہت سے مفاسد کو جنم دينے کا سبب بنتا ہے اور شريعت مطہرہ نے حرام چيزوں کو پہنچانے والے ذرائع بھي حرام قرار ديا ہے اللہ نے اپنے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم کي بيويوں کو يہ حکم ديا ہے :

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى (الأحزاب:33)

’’اور اپنے گھروں ميں قرار پکڑے رہو، پہلے دور جاہليت کي طرح اپني زيب و زينت کي نمائش نہ کرتي پھرو۔‘‘

ڈرائيونگ کے دوران مردوں کے ساتھ اختلاط کا ہونا بھي لازمي ہے اور حديث پاک ميں ہے:

لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثالثهما الشَّيْطَان

کوئي آدمي کسي اجنبي عورت سے تنہائي ميں ملے تو ان  دونوں کا تيسرا شيطان ہوتا ہے ۔( عورت اور اسلام از مولانا جلال الدين قاسمي ، ص : 84 )

 عورت کا اداکاری کا پیشہ اختیار کرنا

اداکاري کے پيشے سے وابستہ ہونا تمہارے لئے جائز نہيں، کيونکہ اگر مخصوص افراد کي نقل کي جائے تو ان کي تنقيص ہوتي ہے ، نيز يہ پيشہ مذاق اور کھيل تماشے پر مشتمل ہوتا ہے جو مسلمان کے لائق نہيں لہذا ہم تجھے يہ پيشہ ترک کرنےاور اس کے علاوہ کسي دوسري جگہ رزق طلب کرنے کي نصيحت کرتے ہيں ۔ جو شخص اللہ تعالي کےلئے کوئي چيز ترک کرديتا ہے تو اللہ تعالي اس کو اس کا بہتر عوض ديتا ہے :  

وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ

جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کےليے نکلنے کا کوئي راستہ بنادے گا ۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہيں کرتا ۔( اللجنة الدائمة : 21203 )

اور اسي طرح خواتين کےلئے ہر وہ پيشہ حرام ہے جس سے شريعت نے منع فرمايامثلا:ايسا پيشہ جہاں مردوں کا اختلاط وغيرہ ہو ۔

 عورتوں کا غیر محرم مردوں سے مصافحہ

عورتوں کا غير محرم مردوں سے مصافحہ کرنا ناجائز اور حرام ہے ۔ سيدہ اميمہ بنت رقيقہ رضي اللہ عنہا سے مروي ہے کہ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم نے عورتوں سے بيعت ليتے ہوئے فرمايا

إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ

ميں عورتوں سے مصافحہ نہيں کرتا ۔( سنن نسائي : 4186 ، سنن ترمذي : 1597 ، سنن ابن ماجہ : 2884 )

سيدہ عائشہ رضي اللہ عنہا فرماتي ہيں : اللہ کي قسم ! رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم کا ہاتھ کبھي کسي عورت کے ہاتھ کو نہيں لگا ۔( مسلم، کتاب الامارة )

غير محرم اوراجنبي مردوں سے قطعا مصافحہ نہيں کرنا چاہيے تاکہ فتنہ و فساد اور مشکوک ماحول سے اجتناب ہو ۔

عورت کا ستردوسری عورت کیلئےسترہے

سيدنا ابو سعيد الخدري رضي اللہ عنہ سے مروي ہے وہ اپنے باپ سے روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا :

لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ، وَلَا الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ، وَلَا يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَاتُفْضِي الْمَرْأَةُ إِلَى الْمَرْأَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ

’’ مرد، مردکا ستر نہ ديکھے اور عورت ، عورت کا ستر نہ ديکھے۔ مرد ، مرد کے ساتھ ايک کپڑے ميں نہ ہو اور عورت ، عورت کے ساتھ ايک کپڑے ميں نہ ہو ۔( صحيح مسلم : 768 )

 عورت کا دوسری عورت کیلئے طلاق کا مطالبہ کرنا

سيدنا ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے  مروي ہے کہ :

نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا، أَوْ أَنْ تَسْأَلَ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْتَفِئَ مَا فِي صَحْفَتِهَا، فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ رَازِقُهَا .

رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا کہ کسي عورت کے ساتھ ، اس کي پھوپھي يا اس کي خالہ کے ( نکاح ميں ) ہوتے ہوئے ، نکاح کيا جائے اور اس سے کہ کوئي عورت اپني بہن کي طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ جو اس کي پليٹ ميں ہے ، وہ ( اسے اپنے ليے ) انڈيل لے ۔ بلاشبہ اللہ عزوجل (خود ) اس کو رزق دينے والا ہے۔( صحيح مسلم : 3443 )

 نماز میں بیوی کا اپنے خاوند کے ساتھ کھڑے ہونا ۔

عورت کےلئے مشروع نہيں کہ اپنے خاوند کے پہلو ميں کھڑي ہو ، بلکہ نماز ميں اس کے پيچھے ہي کھڑي ہوگي ۔ سيدنا انس رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں :

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِ وَبِأُمِّهِ، أَوْ خَالَتِهِ، قَالَ: فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ، وَأَقَامَ الْمَرْأَةَ خَلْفَنَا

رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم نے انھيں اور ان کي والدہ يا ان کي خالہ کو نماز پڑھائي ، کہا : آپ نے مجھے اپني دائيں جانب اور عورت کو ہمارے پيچھے کھڑا کيا ۔ ( صحيح مسلم : 1502 )

اگر عورت کےلئے مرد کے ساتھ کھڑا ہونا درست ہوتا تو آپ صلي اللہ عليہ وسلم اسے اپنے پيچھے کھڑا کرتے اور انس رضي اللہ عنہ کو اس کے ساتھ کھڑا کرتے ، لہذا معلوم ہوا کہ يہ مکروہ ہے ۔( اللجنة الدائمة : 14837 )

 عورتوں کی مردوں کو امامت کرانا

عورت مردوں کي امامت نہيں کرواسکتي کيونکہ حديث ميں ہے :  

لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ، وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً (صحیح بخاری:4425)

وہ قوم ہرگز کامياب نہيں ہوگي جس نے اپنا معاملہ عورتوں کے سپرد کرديا ۔( ابن عثيمين : مجموع الفتاوي و الرسائل : 107 )

 عورتوں کی بچوں کو امامت کرانا

مرد چھوٹا ہو يا بڑا صحيح بات يہ ہے کہ عورت اسے امامت نہيں کراسکتي ، اگر عورت باجماعت نماز ادا کرنا چاہتي ہے تو وہ اس بچے کو ہي امام بنا لے اور اس کے پيچھے نماز پڑھ لے ، کيونکہ بچے کي امامت فرض نماز ميں بھي جائز ہے ۔

سيدناعمرو بن سلمہ جرمي رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں : ميرے والد گرامي نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم کے پاس تشريف لائے ( يہ سن نو ہجري کي بات ہے جب ان کے والد وفد کے ہمراہ آئے تھے اور مسلمان ہوئے تھے ) اور فرمايا : ميں تمہارے پاس رسول  صلي اللہ عليہ وسلم کے پاس سے حق لے کر آيا ہوں اور آپ  صلي اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا ہے :

فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ

جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم ميں سے کوئي آذان کہے ، اور امامت وہ کروائے جو تم ميں سب سے زيادہ قرآن جانتا ہے «.

کہتے ہيں لوگوں نے ديکھا کوئي ايسا نہ تھا جسے مجھ سے زيادہ قرآن آتا ہو ، سو انہوں نے مجھے امامت کےلئے آگے کرديا ، اس وقت ميري عمر چھ يا سات سال تھي ۔ (صحيح بخاري : 4302 )

اس سے معلوم ہوا کہ فرض نماز ميں بچے کي امامت جائز ہے ۔ ( ابن عثيمين : مجموعة الفتاوي و الرسائل : 1005 )

 تعزیت کےلئے عورتوں کا اکٹھا ہونا

واضح رہے يہ تعزيت فنکشن نہيں ہے کہ لوگ يہاں جمع ہوں اور رات بسر کريں ۔ سننے اور ديکھنے ميں آيا ہے کہ لوگ آگ روشن کرتے ہيں اور مرگ والا گھر کوئي شادي بياہ والا منظر پيش کر رہا ہوتا ہے ، حالانکہ اصلي مقصد تو سوگوار کو تسلي تشفي دينا ہے اور يہ ظاہر و حسّي چيزوں سے ممکن ہے ۔

اسے يقين دہاني کروائي جائے کہ جو رنج اسے پہنچا ہے ، وہ رہنہيں سکتا تھا ، يہ سب اللہ کي طرف سے ، جيسا کہ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم نے اپني بيٹي کو پيغمبرکي توسط سے تلقين فرمائي کہ : « صبر کرے اور ثواب کي اميد رکھے يقيناً وہ اللہ ہي کا تھا جو اس نے ليا اور اسي کا ہے جو اس نے عطا کيا اور ہر چيز اس کے پاس ايک مقرر وقت تک کےلئے ہے «.

يہ تسلي ہے ، اس کا مقصود فرحت کا اظہار نہيں ہے ۔

سوگوار سے کہنا چاہيے ! اے بھائي صبر کر ، ثواب کي اميد رکھ ، يہ دنيا ہے اور اللہ کي بادشاہت ہے ، اسي کا ہے جو اس نے ليا اور اسي کا ہے جو اس نے ديا ، ہر چيز کا وقت مقرر ہے ، اس سے آگے اور پيچھے نہيں ہوسکتا ۔

صحابہ کرام رضي اللہ عنھم اجمعين ميت کے گھر ميں اکٹھے ہونا اور ان کےلئے کھانا تيار کرنا نوحہ شمار کرتے تھے اور يہ کبيرہ گناہوں ميں سے ہے ، ہاں قريبي رشتہ دار تھوڑي دير کےليے آجائيں اور تعزيت کرليں تو کوئي مضائقہ نہيں ۔( ابن عثيمين : مجموعة الفتاوي والرسائل : 312 )

 عورتوں کا کثرت سے قبرستان کی زیارت کرنا

 رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم نے قبروں کي زيارت کرنے والي عورتوں پر لعنت کي ہے ۔( مسند احمد : 3349 )

اور عورتيں فتنہ ہيں ، اس ميں صبر بھي کم ہے ، يہ اللہ تعالي کي رحمت اور احسان ہے کہ اس نے عورتوں پر قبروں کي زيارت کو حرام قرار دے ديا ہے تاکہ نہ خود فتنہ ميں مبتلا ہوں نہ کسي کو مبتلا کريں ۔ ( ابن باز : مجموعة الفتاوي و المقالات : 13 / 325 )

البتہ کبھي کبھار کسي قريبي رشتہ دار کي قبر کي زيارت کےليے جاسکتي ہيں ۔( المستدرک للحاکم : 1 / 376 ، ح : 1392 )

 قبر پر درخت کی ٹہنی یا شاخ رکھنا

ہمارے ليے يہ ناجائز ہے ، اس کي کئي وجوہات ہيں :

1 ہميں يہ نہيں پتہ چل سکتا کہ اسے عذاب ہو رہا ہے اور نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم کا معاملہ وحي سے منسلک ہے ۔

2 ہم ايسا کريں گے تو گويا ميت کے بارے ميں سوءِ ظن رکھيں گے کہ اسے عذاب ہو رہا ہے حالانکہ وہ اللہ کي نعمتوں ميں بھي ہوسکتا ہے ۔ ممکن ہے مرنے سے پہلے کثير اسبابِ مغفرت ميں سے کسي سبب کا مستحق ٹھہر گيا ہو اور رب العالمين نے اس کے گناہوں پر قلم عفو پھير ديا ہو ، تب وہ لائق عذاب تو نہ ہوگا ۔

3 سلف الصالحين جو دين کو ہم سے زيادہ سمجھنے والے تھے يہ استنباط ان کے خلاف ہے ، جب صحابہ کرام رضي اللہ عنھم ميں سے کسي نے ايسا نہيں کيا تو ہم کيونکر کر سکتے ہيں؟

4  اللہ تعالي نے ہميں اس سے بہتر بات کي تعليم دي ہے۔ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم جب ميت کو دفن کرنے سے فارغ ہوجاتے ، ٹھہرتے اور فرماتے :  

اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ ؛ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ  ( سنن ابی داود : 3221 )

اپنے بھائي کےلئے دعاءِ مغفرت اور ثابت قدمي کا سوال کرو کيونکہ اس سے اب سوالات کئے جائيں گے «۔ (ابن عثيمين : المجموع الفتاوي والرسائل : 981 )

تعزیت کےلئے عورتوں کا سیاہ لباس استعمال کرنا

ہماري رائے ميں تعزيت کا خاص لباس بدعت ہے ، يہ تقدير الہي کے سامنے انساني احتجاج کي خبر ديتا ہے ، کچھ لوگ اس ميں نرم گوشہ استعمال کرتے ہيں ليکن جب سلف الصالحين نے ايسا نہيں کيا اور يہ ناپسنديدگي کا مظہر بھي ہے تو اسے چھوڑنا ہي مناسب ہے کيونکہ انسان جب اس کو پہنے گا تو سلامتي کي نسبت گناہ کے زيادہ قريب ہوگا ۔( ابن عثيمين : المجموع الفتاوي والرسائل : 443 )

 میت کے کپڑوں کو سنبھال کر رکھنا

فوت شدگان کے کپڑے زيرِ استعمال لائے جاسکتے ہيں ، افرادِ کنبہ ميں سے کوئي استعمال کرے يا ضرورتمندوں کو دے دئيے جائيں ليکن ضائع نہ کيے جائيں ، يہ ميت کي وراثت ہيں ، البتہ يادگار کے طور پر رکھنا جائز نہيں ہے اور اگر تبرکا رکھے جائيں تو حرام ہے ، پھر ايسا کرنے سے ضائع کرنا لازم آئے گا اور جس چيز سے نفع حاصل کيا جائے اسے يوں بے فائدہ نہيں چھوڑا جاسکتا ۔(الفوزان: المنتقي : 343 )

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے