سیدنا آدم علیہ السلام:

اس نے ايک گھر کا تالا کھول کر اس ميں سے کالے ريشم سے بنا کپڑے کا ٹکڑا نکال کر بچھايا،اس ميں سرخ رنگ سےصورت بني تھي،بڑي آنکھيں،موٹي پنڈلياں،انکے جيسي لامبي گردن ميں نے نہيں ديکھي،انکي داڑھي نہيں تھي(يعني طبعي طور پر بے ريش تھے)،دو چوٹياں تھيں، اللہ کي مخلوق ميں سب سے خوبصورت انسان(ابو نعيم کي روايت کے مطابق)لامبا قد،سب لوگوں سے زيادہ بالوں والا ايک انسان،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو؟ہم نے کہا:نہيں اس نے کہا:يہ آدم عليہ السلام ہيں،سب لوگوں سے زيادہ بالوں والے۔

سیدنا نوح علیہ السلام:

پھر اس نےدوسرا دروازہ کھول کر ايک اور کالا ريشمي کپڑا نکالاجس پر سفيد رنگ سے صورت بني تھي،انکے بال جيسے گھنگريالے بال،سرخ آنکھيں،بڑا سا سر،خوبصورت داڑھي والے(ابو نعيم کي روايت کے مطابق)بڑا ساآدمي ،بڑے سر والا،جسکے بال قبطيوں کے بالوںجيسے تھے،سب لوگوں سے بڑي پنڈليوں والے،سرخ آنکھوں والے،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو؟ہم نے کہا:نہيں، اس نے کہا :يہ نوح عليہ السلام ہيں۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام:

پھر اس نے تيسرا دروازہ کھول کر اس ميں سے کالا ريشمي کپڑا نکالا،جس ميںشکل بني تھي،بيحد گورے، خوبصورت آنکھيں،کشادہ پيشاني،لمبے گال،سفيد داڑھي، گويا مسکرارہے ہوں(ابو نعيم کي روايت کے مطابق)سفيد سر اور داڑھي والا،گوياتروتازہ ،مسکراتا ہواچہرہ،اس نے پوچھا کيا تم اسے جانتے ہو؟ہم نے کہا:نہيں ،اس نے کہا يہ ابراہيم عليہ السلام ہيں۔

محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم :

پھر اس نےچوتھادروازہ کھول کر ايک اور کالا ريشمي کپڑا نکالاجس پر سفيد رنگ سے صورت بني تھي،اللہ کي قسم وہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  تھے،اس نے پوچھا: کيا تم انہيں جانتے ہو؟ہم نے جواب ديا:ہاں،محمد رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم ، پھر ہم روديئے،ہشام نے کہا:اللہ جانتا ہے،ہرقل کھڑا ہوگيا،پھر بيٹھا،پھر کہنے لگا:ميں تمہيں اللہ کاواسطہ ديکر پوچھتا ہوں،کيا يہ وہي ہيں؟ہم نے کہا:بے شک يہ وہي ہيں،گويا ہم انہيں ابھي ديکھ رہے ہوں،پھر وہ کچھ دير رک کر کہنے لگا:يہ آخري باب تھا،ليکن ميں نے جلدي کي،تاکہ ميں ديکھ سکوں کہ تم کيا کہتے ہو۔

سیدنا موسیٰ وہارون علیہما السلام:

پھر اس نے پانچواںدروازہ کھول کر ايک اور کالا ريشمي کپڑا نکالاجس پر صورت بني تھي،پختہ گندمي رنگت، چھوٹے گھنگھريالے بال،گہري آنکھيں، تيزنگاہ، سلوٹي پيشاني،دانت باہم جڑے ہوئے،ہونٹ سکيڑے ہوئے،گويا غصے ميں ہوں(ابو نعيم کي روايت کے مطابق)ہونٹ سُکيڑے،دھنسي آنکھيں،باہم جڑے ہوئے دانت،گھني داڑھي،پيشاني پہ بل،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو؟ہم نے کہا:نہيں،اس نے کہا :يہ موسيٰ عليہ السلام ہيں۔

اور اس کے پہلو ميں انہي سے مشابہہ ايک شخص تھا ،سر پر تيل لگا ہوا،چوڑي پيشاني، اسکي آنکھ ميں کچھ بھينگا پن تھا(ابو نعيم کي روايت کے مطابق)گول سر،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو؟ہم نے کہا:نہيں،اس نے کہا:يہ ہارون عليہ السلام ہيں۔

سیدنا لوط علیہ السلام:

پھر اس نے چھٹا دروازہ کھول کر اس ميں سے سفيد ريشم نکالا جس پر سفيد رنگت سے ايسے شخص کي تصوير بني تھي،جسکي رنگت گندمي،سيدھے بال،ميانہ قد،گويا وہ غصے ميں ہو، خوبصورت چہرہ،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو ؟ہم نے کہا :نہيں،اس نے کہا:يہ لوط عليہ السلام ہيں۔

سیدنا اسحاق علیہ السلام:

پھر اس نے ساتواں دروازہ کھول کر اس ميں سے سفيد ريشم نکالا جس پر سفيد رنگت سےايک شخص کي تصوير بني تھي ،گورا،سرخي مائل،کاندھے ڈھلکے ہوئے،گالوں پر کم بال،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو ؟ہم نے کہا :نہيں،اس نے کہا:يہ اسحاق عليہ السلام ہيں۔

سیدنا یعقوب علیہ السلام:

پھر اس نے آٹھواں دروازہ کھول کر اس ميں سے سفيد ريشم نکالا جس پر سفيد رنگت سے ايسے شخص کي تصوير بني تھي،جو اسحاق عليہ السلام کي صورت سے مشابہہ تھي،البتہ انکے نچلے ہونٹ پر کالا تل تھا،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو ؟ہم نے کہا :نہيں،اس نے کہا:يہ يعقوب عليہ السلام ہيں۔

سیدنا اسماعیل علیہ السلام:

پھر اس نے نواں دروازہ کھول کر اس ميں سے سفيد ريشم نکالا جس پر سفيد رنگ سے ايک شخص کي تصوير بني تھي،گورا،خوبصورت چہرہ،ابھرے بانسے ، تنگ نتھنے والي ناک،اچھا قد،چہرے پر نور طاري،خشوع ٹپکتا ہوا،سرخي مائل،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو ؟ہم نے کہا :نہيں،اس نے کہا:اسماعيل عليہ السلام ہيں،تمہارے نبي کے دادا۔

سیدنا یوسف علیہ السلام:

پھر اس نے دسواں دروازہ کھول کر اس ميں سے سفيد ريشم نکالا جس پر سفيد رنگت سے ايک شخص کي تصوير بني تھي،گويا آدم عليہ السلام کي صورت ہو،چہرہ گويا چمکتاسورج ہو،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو ؟ہم نے کہا :نہيں،اس نے کہا:يہ يوسف عليہ السلام ہيں۔

سیدنا داؤد علیہ السلام:

پھر اس نے گيارہواں باب کھول کر اس ميں سے سفيد ريشمي کپڑا نکالا جس پرتصوير بني تھي،گوري رنگت،پتلي پنڈلياں،چھوٹي آنکھيں،بڑا پيٹ،ميانہ قد،تلوار لٹکائے ہوئے(ابو نعيم کي روايت کے مطابق)ميانہ قد،اس نے پوچھا: کيا تم اسے جانتے ہو؟ہم نے کہا :نہيں،اس نے کہا:يہ داؤد عليہ السلام ہيں۔

سیدنا سلیمان علیہ السلام:

پھر اس نے بارہواںا دروازہ کھول کر ايک اور کالا ريشمي کپڑا نکالاجس پر صورت بني تھي،موٹي پنڈلياں،لامبي ٹانگيں،گھوڑے پر سوار(ابو نعيم کي روايت کے مطابق) ايک لمبي ٹانگوں ،چھوٹي پشت والا شخص گھوڑے پر سوار ،اسکي ہر شے گويا پر ہوں جسے ہوا اڑائے لے جارہي ہو،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو؟ہم نے کہا:نہيں،اس نے کہا:يہ سليمان عليہ السلام ہيں۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام:

پھر اس نے تيرہواںدروازہ کھول کر ايک اور کالا ريشمي کپڑا نکالاجس پر سفيد رنگ سے صورت بني تھي،نوجوان، کالي سياہ داڑھي،گھنے بال،خوبصورت آنکھيں، خوبصورت چہرہ(ابو نعيم کي روايت کے مطابق)ايک جوان جسکي رنگت ميں پيلاہٹ غالب تھي،کشادہ پيشاني، خوبصورت داڑھي،اسکي ہر شے ان(غالباً سليمان عليہ السلام) کے مشابہہ تھي،اس نے پوچھا:کيا تم اسے جانتے ہو؟ہم نے کہا:نہيں،اس نے کہا:يہ عيسيٰ عليہ السلام ہيں۔

ہم نے پوچھا:تمہيں يہ تصاوير کہاں سے مليں،کيونکہ ہميں يقين ہے کہ يہ ويسي ہي ہيں جيسي صورت انبياء عليہھم السلام کو دي گئي،کيونکہ ہم نے اپنے نبي کي تصوير اُنہي کے جيسي پائي ہے؟اس نے کہا:آدم عليہ السلام نے اپنے رب سے دعا کي کہ وہ انہيں انکي اولاد ميں ہونے والے انبياء کو دکھائے،تو اس نے ان پر انکي تصاوير اتاريں، پھر وہ مغرب الشمس ميں خزانہ آدم عليہ السلام ميں پڑي رہيں،پھر ذوالقرنين انہيںنےمغرب الشمس ميں خزانہ آدم عليہ السلام سے حاصل کر کے دانيال عليہ السلام کو ديں۔

پھر اس نے کہا:اللہ کي قسم ميرا جي چاہتا ہے کہ اپني بادشاہت چھوڑ دوں،اور يہ کہ ميں ايسا غلام ہوتا جسکي مِلکِ يمين کبھي بھي ختم نہ کي جاتي حتيٰ کہ مرجاتا(اسماعيل الاصبہاني کي روايت کے مطابق)اللہ کي قسم ،ميں چاہتا ہوں کہ ميں بادشاہت چھوڑ کر تم ميں سے ايسے شخص کا غلام بن جاؤں جو غلامي کے معاملے ميں بدترين ہو۔

پھر اس نے ہميں اعزاز و اکرام سے نواز کر رخصت کرديا،پھر ہم نے سارا ماجرا ابو بکر الصديق رضي اللہ عنہ کو سنايا تو وہ روکر کہنے لگے:بيچارہ،اگر اللہ اسکے ساتھ خير کا ارادہ کرتا تو وہ ايسا ضرور کرتا،پھر کہا کہ:رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے ہميں آگاہ کيا تھا کہ وہ(نصاريٰ)اور يہود محمد کا حليہ اپنے ہاں پاتے ہيں۔

تخریج وتحقیق:

اسکے تين طرق ہيں،اور مجموعہ طرق کي بناء پر يہ روايت حسن درجے کو پہنچ جاتي ہے۔واللہ اعلم

اسکے طُرُق کي تفصيل درج ذيل ہے:

پہلا طریق:

ابو امامۃالباہلی کا طریق:

 إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَلَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْعَاصِ:

(دلائل النبوة للبيہقي: 1/385، دلائل النبوةلاسماعيل الاصبہاني:8889،تاريخ دمشق،ج:74،ص:12، رقم:10057، نيز امام ابو نعيم الاصبہاني(دلائل النبوة:13)نے بھي اس طريق کي جانب اشارہ کيا ہے، نيزعلامہ ذہبي (تاريخ الاسلام:1/359،سير اعلام النبلاء:2/313) کے بقول امام محمد بن اسحاق الاصبہاني المعروف بابن مندہ(المتوفيٰ:395ھ)نے بھي يہ قصہ اپنے شيخ اسماعيل بن يعقوب کي سند سے روايت کيا ہے)

تحقیق الرواۃ:

ابرہيم بن الہيثم البلدي ثقہ ہيں۔(الثقات ممن لم يقع في الکتب الستة:2/263،رقم:1269)

عبد العزيز بن مسلم بن ادريس سے مراد اغلباً ”القسملي“ ہيں جو کہ ثقہ ہيں۔(سير اعلام النبلاء:8/192،رقم:30)

عبداللہ بن ادريس سے مراد غالباً ”عبداللہ بن ادريس بن يزيد بن عبدالرحمن الاودي“ہيں جو کہ ثقہ ہيں۔

(اکمال تہذيب الکمال: 7/233،رقم:2796،نيز علامہ ذہبي کے بقول ابن مندہ کي روايت ميں اس نے شرحبيل سے تحديث کي صراحت کي ہے)

شرحبيل بن مسلم الخولاني ثقہ ہيں اور سيدنا ابو امامہ سے انکا سماع صحيح ہے۔(الثقات لابن حبان:4/363، رقم:3361، تہذيب الکمال:12/430،رقم: 1721)

اس طريق کے متعلق  امام ابن کثير (المتوفيٰ:ھ)نے کہا:

وَإِسْنَادُهُ لَا بَأْسَ بِهِ

اسکي سند ميں کوئي خرابي نہيں ہے۔(تفسير ابن کثير،ط:العلمية:3/437)

نيز علامہ  محمد بن رزق بن طرہوني حفظہ اللہ نےکہا:

فلو کان الرجال علی ما ذکرناہ فھو اسناد حسن وعلی کل فالطریق الآتیۃ تقویہ.

اگر اسکے رجال وہي ہيں جو ہم نے ذکر کئے تو اسکي سند حسن ہے،اوربہر صورت آنے والے طرق اسے تقويت ديتے ہيں۔(صحيح السيرة النبوية المسماة السيرة الذہبيةطبع دار ابن تيميہ القاہرہ ،ص:341)

دوسرا طریق:

عبادہ بن الصامت کا طریق

عبادہ بن الصامت سے روايت کرنے والے 4 ہيں:

1محمد بن ابی بکر الانصاری:

الْقَاضِي أَبُو الْفَرَجِ الْمُعَافَى بْنُ زَكَرِيَّا الْجَرِيرِيُّ، قَالَ حَدثنَا الْحسن ابْن عَلِيِّ بْنِ زَكَرِيَّاءَ الْعَدَوِيُّ أَبُو سَعِيدٍ الْبَصْرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ أَبُو بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَدِينِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْكُوفِي قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن أَبِي بَكْرٍ الأَنْصَارِيُّ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ.

(تاريخ دمشق،ج:40،ص:154،رقم:4669، الجليس الصالح الکافي والانيس الناصح الشافي لابي الفرج النہرواني (المتوفيٰ: 390ھ):614)

2عبد اللہ بن الزبیر

الزبير بن بكار، قال: حدثني عمي مصعب بن عبد الله، عن جدي عبد الله بن مصعب، عن أبيه ، عن جده (عبداللہ بن الزبیر بن العوام)، عن عبادة بن الصامت.

(تاريخ الاسلام:1/359،طبع التوقيفيہ ،سير اعلام النبلاء:2/313،طبع دارالحديث القاہرہ)

اس ميں مصعب بن ثابت بن عبداللہ بن الزبير بن العوام ضعيف ہے۔(تہذيب الکمال:28/18،رقم:5980)

3ایوب بن موسیٰ:

علي بن حرب الطائي قال حدثنا دلهم بن يزيد، قال: حدثنا القاسم ان سويد، قال: حدثنا محمد بن أبي بكر الأنصاري، عن أيوب بن موسى قال: كان عبادة بن الصامت.

(تاريخ الاسلام:1/359،طبع التوقيفيہ ،سير اعلام النبلاء:2/313،طبع دارالحديث القاہرہ)

 اس ميں ايوب بن موسيٰ (المتوفيٰ:132ھ)کي عبادہ بن ثابت (المتوفي:34ھ)سےملاقات ثابت نہيں ہے۔ (تقريب التہذيب ،رقم،:625)

4موسیٰ بن عقبہ:

(البلدان لابن الفقيہ (المتوفيٰ: 365ھ) :186)

تیسرا طریق:

موسیٰ بن عقبہ القرشی کا طریق:

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ، ثنا مَسْعُودُ بْنُ يَزِيدَ الْقَطَّانُ، قَالَ: ثنا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: ثنا عَبَّادُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ الْقُرَشِيِّ،  أَنَّ هِشَامَ بْنَ الْعَاصِ.

(دلائل النبوةلابي نعيم:13،نيز البلدان لابن الفقيہ:186کے مطابق موسي بن عقبہ نے اسے عبادہ بن صامت سے بھي روايت کيا ہے)   علامہ محمد بن رزق بن طرہوني حفظہ اللہ نےکہا:

وہذا منقطع الا ان مغازی موسیٰ بن عقبۃ من اصح المغازی ذکر ذلک البخاری،فلا باس بالاستشھاد بہ ، فمن مجموع ما تقدم یکون الجزء الذی ذکرناہ علی الاقل حسنا ، واللہ تعالیٰ اعلم۔

يہ روايت منقطع ہے ليکن موسيٰ بن عقبہ کے مغازي سب سے صحيح مغازي ميں سے ہے،يہ امام بخاري نے ذکر کيا ہے،لہذا اس سے استدلال ميں کوئي حرج نہيں،گذشتہ مجموعہ روايات کي بناء پر ہمارا نقل کردہ جزء(يعني انبياء کي تصاوير والا جزء،ص:207) کم از کم حسن ضرور ہے،واللہ تعاليٰ اعلم۔( صحيح السيرة النبوية المسماة السيرة الذہبيةطبع دار ابن تيميہ القاہرہ ،ص:343)

تنبیہ:

ياد رہے ہم نے يہ روايت بطور حجت شرعيہ کے نہيں بلکہ تاريخي حجت کے طور پر نقل کي ہے،کيونکہ اسکے رواة ميں ايک موسي بن عقبہ بن ابي عياش القرشي (المتوفيٰ:141ھ)  بھي ہيں، جنکے مغازي کوامام مالک ، امام احمد، امام شافعي ، امام خطيب بغدادي ، وغيرہم نے اَصَحّ ”صحيح ترين“مغازي قرار ديا ہے۔

(تہذيب الکمال:29/119،رقم:6282،تاريخ الاسلام للذہبي،ط: بيروت:2/299،التذکرة في الاحاديث المشتھرة:34،الجامع لاخلاق الراوي: 2/164،1498)

چند فوائد وخارجی قرائن:

سندکے اعتبار سےاس روايت کي تحقيق آپ ملاحظہ کرچکے،اب متن کے اعتبارسے ،خصوصاً انبياء کرام کي تصاوير کے پہلو سےديکھا جائے تو اس پہلو کے اعتبار سے بھي يہ روايت کافي حد تک درست معلوم ہوتي ہے ، کيونکہ:

٭ صحيح حديث سے ثابت ہے کہ يہود و نصاريٰ ميں انبياء و صالحين کي تصاوير بنانے کا رواج موجود تھا۔

(صحيح بخاري:1341،نيز ملاحظہ ہو:رحلة الصيرافي(المتوفيٰ بعد 330ھ):1/62،معجم البلدان للحموي:2/500)

٭ آج تک انکے کنيسوں اور گرجوں ميں انکي تصاوير آويزاں کي جاتي ہيں۔(خطط الشام لمحمد بن عبدالرزاق:4/108)

٭ بلکہ يہ رواج مشرکين مکہ ميں بھي تھا،چنانچہ انہوں نے ابراہيم و اسماعيل عليہما الصلاة والسلام کي تصاوير بناکر خانہ کعبہ ميں رکھ چھوڑي تھيں،نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فتح مکہ کے موقع پر ان تصاوير کو تلف کرديا اور کہا کہ:

قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّهُمَا لَمْ يَسْتَقْسِمَا بِهَا قَطُّ.

اللہ انہيں(مشرکين مکہ)برباد کرے،وہ خوب جانتے ہيں کہ ان دونوں(ابراہيم و اسماعيل عليہما السلام)نے کبھي پانسے کے تير نہيں پھينکے۔(صحيح بخاري:1601،اخبار مکة للارقي:1/165)

 ٭رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے ان تصاوير کے جعلي ہونے کا تاثر نہيں ديا،بلکہ انکے اصلي ہونے کا تاثر ديا،ايک روايت کے مطابق اس موقع پر اس طرح کہا:

أَمَا لَهُمْ، فَقَدْ سَمِعُوا أَنَّ المَلاَئِكَةَ لاَ تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ، هَذَا إِبْرَاهِيمُ مُصَوَّرٌ، فَمَا لَهُ يَسْتَقْسِمُ.

کيا انہوں(مشرکين) نے سن نہيں رکھا کہ فرشتے اس گھر ميں داخل نہيں ہوتے جس ميں تصوير ہو،يہ ابراہيم عليہ السلام کي تصوير بني ہے،انہوں نے پانسے کے تير نہيں چلائے۔(صحيح بخاري:3351)

٭حتيٰ کہ بيت اللہ ميں موجود ان تصاوير ميں ايک تصوير سيدہ مريم عليھا السلام کي بھي تھي،اور انکي گود ميں عيسي عليہ السلام بيٹھے ہوئے تھے۔(صحيح بخاري:3351،تاريخ مکہ للازرقي:1/159،الموسوعة في صحيح السيرة النبوية لابي ابراہيم الفالوذة:129)

مشرکين مکہ نے يہ تصوير يقيناً نصاريٰ سے حاصل کي ہوگي۔

٭فتح مکہ کے اس واقعہ اور ابراہيم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے مابين تقريباً تين ہزار سال کا وقفہ ہے،نيز عربوں ميں تحرير و تسطير کا رواج بھي نہ تھا(صحيح بخاري: 1913)اسکے باوجود انہوں نے ابراہيم و اسماعيل کي تصاوير بنارکھي تھيں،جبکہ بني اسرائيل ميں شروع سے ہي تحرير و تسطير اور تصوير (صورت سازي)و تنحيت (سنگ تراشي) کا رواج موجود تھا،بلکہ اس عمل کو ان کے ہاں مذہبي حيثيت سے جائزمانا جاتا تھا اور ہے،اسکي سب سے واضح دليل يہ ہے کہ قرآن مجيد کے مطابق موسيٰ عليہ الصلاة والسلام کو توراة (پتھر کي سلوں پر) لکھي ہوئي عطاء کي گئي،اورجنات سليمان عليہ الصلاةوالسلام کے حکم سے تماثيل بنايا کرتے تھے۔ (الاعراف:145،سبا:13)

پس ان قرائن کے پيش نظر عين ممکن ہے کہ انہوں نے انبياء و رسل عليہم الصلاة والسلام کي تصاوير بنالي ہوںجو ان کے مابين نسل در نسل چلي آرہي ہوں،کيونکہ صُحُف سماويہ سے زيادہ انکي دلچسپي انہي تصاوير اور انکے گرد گھومتے باطل عقائد ميں تھي۔واللہ تعاليٰ اعلم وعلمہ اتم

ضروری تنبیہ:

تصویر سازی کا شرعی حکم

گزشتہ سطور سے ہرگز يہ نہ سمجھا جائے کہ ذي روح /جاندار کي تصوير سازي جائز ہے ،ہرگز نہيں،کيونکہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا:

إِنَّ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، الَّذِينَ يُشَبِّهُونَ بِخَلْقِ اللهِ.

روز قيامت سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کي مخلوق کي شبيہ بناتے ہيں۔(صحيح مسلم،کتاب کتاب اللباس والزينة،باب لاتدخل الملائکة بيتا)

امم سابقہ ميں،انبياء علماء،فقہاءوصالحين کي تصاوير بنانے کا رواج اس سوچ کے تحت شروع ہوا کہ اس طرح وہ بزرگ ہستياں اور انکي تعليمات انہيں ياد رہيں گي،ليکن پھر يہ چيز بعد کي نسلوں ميں بت پرستي کا سبب بن گئي،جبکہ دور حاضر ميں علماء و صالحين کي تصاوير کو اس سوچ کے تحت جائز قرار ديا جاتا ہے کہ باطل کا مقابلہ کرنے کے لئے ايسا کرنا ناگزير ہے،حالانکہ اللہ تعاليٰ کسي کو اسکي طاقت سے بڑھ کر تکليف نہيں ديتا،نيز دين اسلام کا غلبہ تقدير الٰہي ہے جسے کوئي ٹال نہيں سکتا،لہذا مجبوري کو جواز کي دليل نہيں بنايا جاسکتا۔واللہ اعلم

انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام کی داڑھیوں کے متعلق ایک اور دلیل:

 صحيح حديث(آگے آرہي ہے) سے ثابت ہے کہ مکمل داڑھي امور فطرت سے ہے،اور داڑھي کے امور فطرت سے ہونے کا معني يہ ہے کہ يہ روئے زمين پر آنے والے ہر انسان کے لئے اللہ سبحانہ و تعاليٰ کا پسنديدہ طريقہ ہے،باالفاظ ديگر ”دين اسلام“ہي وہ فطرت انسان ہے جس پر اسے پيدا کيا گيا،جيسا کہ ايک جنگ کے موقع پر مشرکين کے بعض بچے بھي نشانہ بن گئے تو رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے اس پر ناراضگي کا اظہار کرتے ہوئے ارشادفرمايا کہ:

أَوَلَيْسَ خِيَارُكُمْ أَوْلَادَ الْمُشْرِكِينَ، مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا عَلَى فِطْرَةِ الْإِسْلَامِ حَتَّى يُعْرِبَ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ وَيُمَجِّسَانِهِ.

کيا(تم نے يہ کام کرديا)حالانکہ مشرکين کے بچے تم سے بہتر نہيں ہيں؟ہر پيدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پيدا ہوتا ہے،حتي کہ وہ( مافي الضمير کا) اظہار کرنے لگے،پھر اسکے والدين اسے يہودي يا عيسائي يا مجوسي بناديتے ہيں۔(صحيح ابن حبان:132،القضاء والقدر للبيہقي:600،طبراني کبير: 827،الاحاديث المختارة:1446،الاستيعاب لابن عبدالبر:1/89، المعجم في اسامي شيوخ ابي بکر الاسماعيلي:376،سلسلہ صحيحہ:402)

اور”اسلام“ہي تمام انبياء و رسل کا ”دين“رہا ہے جيسا کہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا:

أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَالْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ – وَ زَادَ مُسلِم –:فَلَيْسَ بَيْنَنَا نَبِيٌّ.

ميں دنيا و آخرت دونوں ميں عيسي بن مريم کے سب سے زيادہ قريب ہوں،اور سبھي انبياء علاتي بھائي ہيں،انکي مائيں مختلف ہيں،اور ان کا دين ايک ہے-صحيح مسلم ميں ہے-پس ہمارے (يعني محمد و عيسي عليھما السلام)کے درميان کوئي نبي نہيں ہے۔(صحيح بخاري:3443،صحيح مسلم کتاب الفضائل باب فضائل عيسيٰ عليہ السلام)

زمان ومکان کے تقاضوں کے مطابق رسولوں کي شرائع اگرچہ مختلف رہي ہيں ليکن جو امور تمام شرائع ميں متحد رہے ہيں وہ ہي دين فطرت کہلاتے ہيں جيسے عقيدہ توحيد،طہارت،زيرناف بال صاف کرنااور داڑھي کو بڑھانا بھي انہي امورميں سے ہے،اور اسي لئے اللہ تعاليٰ نے اسے انسان کي پيدائشي فطرت کا حصہ بناديا اور اسي پر اسے پيدافرماياکہ ہرمرد کي داڑھي نکلتي ہے،جبکہ عورت کي داڑھي نہيں نکلتي،چنانچہ ارشاد فرمايا:

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ.

پس آپ اپنا آپ يکسو ہوکر دين کي جانب متوجہ کرليں،يہي اللہ کي وہ فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پيدا کيا،اللہ کي تخليق ميں کوئي تبديلي نہيں ہوسکتي،يہي مضبوط ترين دين ہے،ليکن اکثر لوگ جانتے نہيں ہيں۔(الروم:30)

اس آيت ميں اللہ تعاليٰ نے عقيدہ توحيد کو فطري عقيدہ قرار ديا اور صراحت کردي کہ اسي فطري عقيدے کے ساتھ اس نے سبھي انسانوں کو پيدا کيا اور اسي فطري عقيدے پر قائم رہنے کا مطالبہ کيا،جس طرح اللہ تعاليٰ نے عقيدہ توحيد کو فطرت کا حصہ قرار ديا ہے اسي طرح رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے بھي بہت سے امور کو فطرت کا حصہ قرار ديا ہے ،ان ميں سے چند درج ذيل حديث ميں مذکور ہيں،چنانچہ سيدہ عائشہ صديقہ رضي اللہ عنہا نے کہا:

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ « قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ زَادَ قُتَيْبَةُ، قَالَ وَكِيعٌ: « انْتِقَاصُ الْمَاءِ: يَعْنِي الِاسْتِنْجَاءَ «.

رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا:دس کام فطرت سے ہيں، مونچھيں پست کرنا،داڑھي بڑھانا،مسواک کرنا،ناک ميں پاني چڑھانا،ناخن تراشنا،انگليوں کے جوڑوں کو دھونا،بغل کے بال اکھيڑنا،زير ناف بال مونڈھنا،اور کم پاني خرچ کرنا،راوي مصعب نے کہا:دسويں بات ميں بھول گيا،شايد وہ کلي کرنا ہے،امام وکيع نے کہا،پاني کم خرچ کرنے سے مراد استنجاء ہے۔(صحيح مسلم،کتاب الطہارة ، باب خصال الفطرة)

چونکہ داڑھي کو مطلقاً چھوڑ دينا اور مونچھوں کو پست کرنا امور فطرت سے ہے اور انبياء کرام سے زيادہ فطرت پر عمل کرنے والا کوئي نہيں ہوسکتا،بلکہ تمام انبياء کے متفقہ  طريقے کو بھي فطرت کہا جاتا ہے،چنانچہ علامہ سيوطي رحمہ اللہ نے کہا:

أي: السنة القديمة التي اختارها الأنبياء، واتفقت عليها الشرائع، فكأنها أمر جبلي فطروا عليها، هذا أحسن ما قيل في تفسيرها وأجمعه.

يعني وہ قديم طريقہ جسے انبياء نے اختيار کيا،اور سبھي شرائع اس پر متفق ہوں،گويا وہ پيدائشي معاملہ ہے جس پر انسانوں کو پيدا کيا گيا،يہ فطرت کي تشريح ميں کہي جانے والي سب سے اچھي اور جامع بات ہے۔(التوشيح :8/3603،رقم:5888)

لہذا ہم پورے وثوق کے ساتھ يہ کہتے ہيں کہ اللہ تعاليٰ نے جن و انس کي رشد و ہدايت کے لئے جتنے بھي انبياء و رسل عليہم الصلاة والسلام مبعوث فرمائے ان سب کے حسين وجميل چہرے مکمل داڑھي کے نور سے منور تھے ، ان ميں سے کسي نے داڑھي کو نہ کاٹا نہ تراشا،نہ ہي خط بنايا ،نہ ہي اپني داڑھي کا کوئي سفيد بال نوچا،نہ ہي کوئي ايسا حکم دياکيونکہ ان سے زيادہ رب تعاليٰ کي پسند پر عمل کرنے والا کوئي نہيں ہوسکتا اور داڑھي کو بڑھانا امور فطرت يعني رب تعاليٰ کے پسنديدہ اعمال ميں سے ہے،چنانچہ اللہ تعاليٰ نے ارشاد فرمايا:

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

اللہ وہ ہے جس نے زمين کو ٹہرا ہوا بنايا،اور آسمان کو چھت،اور تمہاري صورتيں بنائيں پس اس نے تمہاري صورتيں حسين بنائيں،اور تمہيں پاکيزہ اشياء عطا کيں،يہ ہے اللہ تمہارا رب،پس اللہ ،جہانوں کا مالک برکت والا ہے۔(غافر:64،نيزملاحظہ ہو: التغابن:3،البقرة:138، الاسراء: 70،الانفطار:68)

نيز ارشاد فرمايا:

وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ  وَطُورِ سِينِينَ  وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ  لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ.

قسم ہے انجير کي،اور قسم ہے زيتون کي اورطور سيناء اور اس امن والے شہر کي قسم،ہم نے انسان کو سب سے خوبصورت سانچے ميں ڈھالاہے۔(التين:14)

يہ سبھي آيات صراحت کررہي ہيں کہ اللہ تعاليٰ نے انسان کو جملہ مخلوقات ميں سب سے خوبصورت پيدا کيا ہے،خاص طور پر اسکےچہرے کو خصوصي شرف عطاء کيا ہے،چنانچہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے ارشاد فرمايا:

إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ وَلا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدم على صورته.

جب تم ميں سے کوئي پيٹنا چاہے تو چہرے سے بچے،اور ہرگز اس طرح نہ کہے کہ اللہ تيرے چہرے کو رسوا کرے،کيونکہ اللہ تعاليٰ نے آدم کواپني صورت پر پيدا کيا-واللہ اعلم

(السنة لابن ابي عاصم ومعہ ظلال الجنة للالباني:520،نيز ملاحظہ ہو:صحيح مسلم ، کتاب البر والصلة،باب النھي عن ضرب الوجہ)

اور يہ بات تو بديہي ہے کہ ہر مرد کي داڑھي نکلنا طبيعي ہے ، گويا يہ بھي”احسن صور “اور” احسن تقويم“ کا ہي حصہ ہے۔

فائدہ:

”صورتہ“ميں ”ہ“ضمير کا مرجع مضروب نہيں ہوسکتاکيونکہ اس صورت ميں عبارت اس طرح ہوني چاہيئے تھي:”فان اللہ تعاليٰ خلقہ عليٰ صورة آدم“يعني اللہ تعاليٰ نے اسے آدم کي صورت پر پيدا کيا،نہ کہ يہ کہ ”اللہ تعاليٰ نے آدم کو اسکي صورت پر پيدا کيا“۔واللہ اعلم

احتراز:

اس سے خالق و مخلوق ميں تشبيہ لازم نہيں آتي،کيونکہ خالق و مخلوق ميں کوئي مشابہت نہيں،اور کوئي بھي خالق کي مثل نہيں۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے