پيارے بچو ! رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے صحابي سيدنا جابر بن عبداللہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے ساتھ غزوات ميں شريک ہوتے تھے اور کفار کو للکارتے اسلام کي سربلندي کےليے اپنے آپ کو پيش فرماتے اور رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے محافظ بن جاتے غزوہ خندق ميں بھي وہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  اور ديگر صحابہ کرامy کے ساتھ شريک تھے وہ کہتے ہيں کہ ہم غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ايک بہت سخت قسم کي چٹان نکلي ( جس پر کدال اور پھاوڑے کا کوئي اثر نہيں ہوتا تھا اس ليے خندق کي کھدائي ميں رکاوٹ پيدا ہو گئي ) صحابہ رضي اللہ عنہم رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کي خدمت ميں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کيا کہ خندق ميں ايک چٹان ظاہر ہو گئي ہے۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا کہ ميں اندر اترتا ہوں۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور اس وقت ( بھوک کي شدت کي وجہ سے ) آپ کا پيٹ پتھر سے بندھا ہوا تھا۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے کدال اپنے ہاتھ ميں لي اور چٹان پر اس سے مارا۔ چٹان ( ايک ہي ضرب ميں ) بالو کے ڈھير کي طرح بہہ گئي۔ ميں نے عرض کيا: يا رسول اللہ! مجھے گھر جانے کي اجازت ديجيے۔ ( گھر آ کر ) ميں نے اپني بيوي سے کہا کہ آج ميں نے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کو ( فاقوں کي وجہ سے ) اس حالت ميں ديکھا کہ صبر نہ ہو سکا۔ کيا تمہارے پاس (کھانے کي ) کوئي چيز ہے؟ انہوں نے بتايا کہ ہاں کچھ جَو ہيں اور ايک بکري کا بچہ۔ ميں نے بکري کے بچہ کو ذبح کيا اور ميري بيوي نے جَو پيسے ، پھر گوشت کو ہم نے چولہے پر ہانڈي ميں رکھا اور ميں رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کي خدمت ميں حاضر ہوا ، آٹا گوندھا جا چکا تھا اور گوشت چولہے پر پکنے کے قريب تھا۔ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  سے ميں نے عرض کيا : گھر کھانے کے ليے مختصر کھانا تيار ہے ، يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ! آپ اپنے ساتھ ايک دو آدميوں کو لے کر تشريف لے چليں۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے دريافت فرمايا کہ کتنا ہے؟ ميں نے آپ کو سب کچھ بتا ديا۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا : يہ تو بہت ہے اور نہايت عمدہ ہے۔ پھر آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا : اپني بيوي سے کہہ دو کہ چولہے سے ہانڈي نہ اتاريں اور نہ تنور سے روٹي نکاليں ميں ابھي آ رہا ہوں۔ پھر صحابہ رضي اللہ عنہم سے فرمايا کہ سب لوگ چليں۔ چنانچہ تمام انصار و مہاجرين تيار ہو گئے۔ جب جابر رضي اللہ عنہ گھر پہنچے تو اپني بيوي سے انہوں نے کہا اب کيا ہو گا؟ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  تو تمام مہاجرين و انصار کو ساتھ لے کر تشريف لا رہے ہيں۔ انہوں نے پوچھا، نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  نے آپ سے کچھ پوچھا بھي تھا؟ جابر رضي اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے صحابہ سے فرمايا کہ اندر داخل ہو جاؤ ليکن اژدھام (بھيڑ)نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  روٹي کا چورا کرنے لگے اور گوشت اس پر ڈالنے لگے۔ ہانڈي اور تنور دونوں ڈھکے ہوئے تھے۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے اسے ليا اور صحابہ

کے قريب کر ديا۔ پھر آپ نے گوشت اور روٹي نکالي۔ اس طرح آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  برابر روٹي چورا کرتے جاتے اور گوشت اس ميں ڈالتے جاتے۔ يہاں تک کہ تمام صحابہ شکم سير ہو گئے اور کھانا بچ بھي گيا۔ آخر ميں آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے ( سيدناجابر رضي اللہ عنہ کي بيوي سے ) فرمايا کہ اب يہ کھانا تم خود کھاؤ اور لوگوں کے يہاں ہديہ ميں بھيجو کيونکہ لوگ آج کل فاقہ ميں مبتلا ہيں۔  ( صحيح بخاري : 4104 )

پيارے بچو ! مذکورہ واقعہ سے ہم کو چند انتہائي اہم نصحتيں حاصل ہوئي ہيں جن ميں سے بعض درج ذيل ہيں ۔

1 اللہ کےليے بھوک برداشت کرنے والے کو اللہ بہتر رزق عطا فرماتا ہے ۔

2  اللہ تعالي کے بعد دنيا کي ہر چيز سے زيادہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  محبت کے حقدار ہيں ۔

3 رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کي ذات بابرکت ہے ۔

4  رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے تمام معجزات برحق ہيں ۔

5  کھانا پہلے مہمان کو کھلائيں بعد ميں خود کھائيں ۔

6  بچا ہوا کھانا ضائع کرنے کے بجائے پڑوس ميں ہديہ کريں يہ اجر ہے ۔

7  مہمان کو چاہيے کہ ميزبان کے ہاں ادب احترام ملاحظہ رکھے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے