اِنَّ هٰذَا اَخِيْ لَهٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَةً وَّلِيَ نَعْجَةٌ وَّاحِدَةٌ فَقَالَ اَكْفِلْنِيْهَا وَ عَزَّنِيْ فِي الْخِطَابِ (صٓ:23)

یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاںہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے یہ کہتا ہے کہ یہ دُنبی میرے حوالے کر دے اور یہ گفتگو میں مجھے دبا رہا ہے ۔‘‘

سیدناداؤدجلیل القدر پیغمبر اور بہت بڑے حکمران تھے۔ دیوار پھلانگ کر داخل ہونے والوں نے زیادتی کی حد کر دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود سیدناداؤدuنے ان سے درگزر کرتے ہوئے ٹھنڈے دل سے ان کی بات سُنی اوراپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ فرمایا۔ان میں سے ایک نے کہا یہ میرا بھائی ہے جو مجھ پر زیادتی کرنے پرتلا ہوا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اورمیرے پاس صرف ایک ہے ۔یہ مجھ پر دبائو ڈالتا ہے کہ میںاپنی دنبی اس کے حوالے کردوں۔ سیدناداؤدu نے اس کی بات سُن کر فرمایا کہ اس کا تجھ سے دنبی کامطالبہ کرنا سرا سر ظلم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر شراکت دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جوایمان دار اورصالح کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (ص:24)

سوچیں کہ داؤد غیب جانتے تو انہیں ڈرنا نہیں چاہیے تھا۔

ا س کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے تھے۔

جن و انس ،ہوائوں اور فضائوں پر حکمرانی کرنے والے سیدناسلیمانبھی غیب نہیں جانتے تھے

سیدناسلیمان u اپنے وقت کے نبی اور بہت بڑے حکمران تھے۔ انہوں نے دعا کی۔ الٰہی مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ جو میرے بعد کسی کو نہ مل سکے۔ (ص: 35) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی۔

سیدناسلیمانuپہلے پیغمبر اور حکمران ہیں جو بیک وقت جنوں ، انسانوں ، پرندوں ، ہوائوں اور فضائوں پر حکمرانی کرتے تھے ۔ ان کے لیے ’’ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ ‘‘کے الفاظ لا کر ثابت کیا گیا کہ جن وانس اور پرندوں کو مسخر کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھاورنہ انہیں تابع فرماں کرنا سلیمانu کے بس کی بات نہ تھی ۔

سفر کے دوران ایک مقام پر پہنچ کر سیدناسلیمان نے اپنے لشکر کا جائزہ لیا تو ہدہد پرندے کوغائب پایا ۔غضبناک ہو کر فرمایا۔ کیا وجہ ہے کہ ہد ہد نظر نہیں آیا ۔کیا وہ غیر حاضر ہے ؟ اگر اُس نے غیر حاضری کی معقول وجہ نہ بتلائی تو میں اُسے سخت سزا دوں گا یا پھر اُسے ذبح کرڈالوں گا ۔

ہد ہد کی غیر حاضری کے بارے میں ابھی طیش کے عالم میں تھے کہ ہد ہد اُن کے حضو رپیش ہو کر معذرت خواہانہ انداز میں اپنی غیر حاضری کی وجہ ان الفاظ میں عرض کرتا ہے ۔جناب میں ملک ِسباسے ایک ایسی مستند خبر آپ کے حضو رپیش کرتا ہوں جسے آپ نہیں جانتے۔ میں نے وہاں ایک عورت کو حکمران پایا ۔جس کے پاس ہر قسم کے

وسائل ہیںاور وہ ایک عظیم تخت پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔

اب قرآن کے الفاظ میں سماعت کریں اور فیصلہ فرمائیں کیا وقت کے پیغمبر۔ دنیا کے سب سے بڑے حکمران جناب سلیمانu غیب جانتے تھے؟

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا اَرَى الْهُدْهُدَ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآىِٕبِيْنَ (نمل:20)

’’سلیمان uنے پرندوں کاجائزہ لیا اورفرمایا کیابات ہے کہ میں ہُد ہُدکونہیںدیکھتا؟وہ کہاں غائب ہوگیاہے؟‘‘

لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗ اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ (نمل:21)

’’میںاسے سخت سزادوںگا یااسے ذبح کردوں گایا پھر اسے میرے سامنے اپنی غیر حاضری کا ٹھوس ثبوت پیش کرنا ہوگا۔‘‘

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ (نمل:22)

’’تھوڑی دیر گزری تھی کہ ہُدہُدنے آکرکہا میں ایسی معلومات لایاہوں جوآپ نہیں جانتے ۔میںملکِ سَبا کے متعلق قابلِ یقین معلومات لے کر حاضر ہوں۔‘‘

اِنِّيْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّلَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ (نمل:23)

’’میں نے سبامیں ایسی عورت دیکھی جواپنی قوم کی حکمران ہے اور اسے ہرقسم کے وسائل دیئے گئے ہیں ،اس کاتخت بڑاعظیم الشان ہے۔‘‘

وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُوْنَ (نمل:24)

’’میں نے دیکھاکہ وہ اور اس کی قوم’’ اللہ‘‘ کی بجائے سورج کے سامنے سجدہ کرتی ہے۔ شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنادیے اورانہیں ہدایت کے راستہ سے روک دیا اور وہ سیدھے راستے پر نہیں ہیں۔‘‘

 اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ (نمل:25)

وہ ’’اللہ ‘‘کوسجدہ نہیںکرتےجوآسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے اور ظاہرکرتے ہو۔

اَللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ (نمل:26)

’’ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ عرش عظیمِ کامالک ہے۔‘‘

سیدنا یونسuغیب جانتے ہوتے تو مچھلی کے پیٹ میں نہ جاتے

سیدنایونس uبھی انبیائے کرام o میں شامل ہیں۔ انہیں نینوا کے علاقہ میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی آبادی کے لیے مبعوث کیا گیا۔ نہ معلوم سیدنا یونسu نے کتنا عرصہ اپنی قوم کو سمجھایا لیکن قوم سُدھرنے کی بجائے بگڑتی چلی گئی۔ یونس u نے انہیں انتباہ کیا کہ اگر تم راہِ راست پر نہ آئے تو ’’اللہ‘‘ کا عذاب تمہیں آلے گا۔ لیکن عذاب نہ آیا تو قوم نے انہیں طعنے دیئے اور جھوٹا قرار دیا۔سیدنایونسu پریشان ہو کر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ جس کے لیے قرآن مجید نے ’’اَبَقَ اور مُغَاضِباً ‘‘کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ’’اَبَقَ‘‘کا معنٰی اپنے آقا سے بھاگنے والا غلام اور ’’ مُغَاضِباً‘‘ کا معنٰی ہے ناراض ہونے والا۔

سیدنا یونسu اپنے شہر سے نکلے اور دریا عبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوئے۔ کشتی تھوڑی دیر چلی تو ہچکولے کھانے لگی ۔ملاح نے کہا ۔ جب کشتی ہموار موسم میں ہچکولے کھانے لگے تو میرا تجربہ ہے کہ کشتی میں کوئی ایسا شخص ضرور سوار ہوتا ہے جو اپنے مالک سے بھاگ آکر آیا ہوتا ہے ۔لگتا ہے آج بھی کوئی سوار اپنے مالک سے بھاگ کر آیا ہے ۔ اس پر قر عہ ا ند ا ز ی کی گئی بالآخر قرعہ سیدنایونسuکے نام نکلا۔ یونسu نے کشتی کو بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ جونہی دریا میں کودے تو ایک مچھلی نے انہیں نگل لیا ۔اس کسمپرسی کے عالم میں اپنے رب کو پکارنے لگے۔

وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَ هُوَ مُلِيْمٌ (الصٰفّٰت:139تا142)

’’اور یقیناً یونس رسولوں میں تھے جب وہ ایک بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ نکلا۔پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اور اس میں مات کھائی آخر کار مچھلی نے اسے نگل لیااور وہ ملامت زدہ ہوا۔‘‘

فَلَوْ لَا اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِيْنَ لَلَبِثَ فِيْ بَطْنِهٖ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ (الصٰفّٰت:143۔144)

’’اگر وہ ذکر کرنے والوں میں نہ ہوتا۔تو قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا۔‘‘

وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادٰى فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ وَ نَجَّيْنٰهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذٰلِكَ نُـْۨجِي الْمُؤْمِنِيْنَ (الانبیاء:87۔88)

اور یادکرو جب وہ ناراض ہو کر چلا گیا اورسمجھا کہ ہم اسے پکڑ نہیںسکیں گے اس نے اندھیروں میں پکاراکہ تو پاک ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں بلاشبہ میں نے ظلم کیا ہے ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو غم سے نجات دی اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔ ‘‘

سیدنازکریاuغیبی امور سے بے خبر تھے

قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَاَتِيْ عَاقِرٌ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّيْ اٰيَةً قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْرًا وَّسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ (اٰل عمران:40۔41)

’’زکریاuکہنے لگے اے میرے رب! مجھے کیسے بیٹا ملے گا؟ میں تو بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے فرمایا: اسی طرح دے گا اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے زکریاuکہنے لگے پروردگار!مجھے اس کی کوئی نشانی بتلا دیں فرمایا: تیرے لئے نشانی یہ ہے کہ تین دن تک تو اشارے کے سوا لوگوں سے بات نہیں کر سکے گااورصبح وشام اپنے رب کا ذکر اور تسبیح پڑھتے رہیں۔‘‘

سیدہ مریم[ کی والدہ نے منت مانی کہ اللہ تعالیٰ بیٹا عطا فرمائے گا تو اسے اس کے لئے وقف کروں گی۔ لیکن بیٹے کی بجائے سیدہ مریم [ پیدا ہوئیں۔ جب مریم[ بڑی ہوئیں تو انہیں سیدنا زکریا u کی کفالت میں دیا گیا ۔ اس زمانے کے مذہبی رواج کے مطابق کچھ لوگ تارک الدّنیا ہوکر مسجدِ اقصیٰ میں تعلیم وتربیت اور ذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے۔ ان میں وہ عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں جنہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے معاملات سے الگ کرلیا ہوتا تھا۔سیدہ مریم [ بھی ذاکرات میں شامل ہوکر اپنے حجرے میں محوِ عبادت رہا کرتی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام ان کے خالوسیدنازکریاu کے ذمّہ تھا ۔ ایک دن زکریا u نے مریم[ کے پاس بے موسم پھل دیکھے تو پوچھا اے مریم! یہ پھل کہاں سے آئے ہیں؟ مریم[ نے عرض کیا کہ خالو! یہ اللہ تعالیٰ کی عطاہے وہ جسے چاہے بغیر اسباب اور بے حساب رزق عطافرماتا ہے۔ زکریاu کے دل پر چوٹ لگی سوچا کہ اس حجرے میں مریم کو بے موسم پھل مل سکتے ہیں تو مجھے اس عمر میں اولاد کیوں نہیں مل سکتی؟ چنانچہ بے ساختہ دعا نکلی اے رب ! مجھے اپنی قدرتِ کاملہ سے نیک اولاد عطا فرما۔ زکریاuکی دعا قبول ہوئی فرشتے نے انہیں بیٹے کی خوشخبری سنائی اور کہا کہ آپ کے بیٹے کا نام یحییٰ ہوگا اور اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص نہیں ہو ا۔زکریاu سمجھتے تھے کہ فرشتہ اپنی طرف سے بات نہیں کرتا اس لئے حیرت زدہ ہو کر عرض کرتے ہیں۔

سیدناعیسیٰuغیب نہیں جانتے تھے

وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ اَنِّيْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اَنِّيْ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْـَٔةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًا بِاِذْنِ اللّٰهِ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْيِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ فِيْ بُيُوْتِكُمْ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (اٰلِ عمران:49)

’’اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا عیسیٰ نے فرمایا کہ بلا شبہ میں تمہارے پاس رب کی نشانیاں لایا ہوں میں تمہارے لیے پرندے کی طرح مٹی کا جانور بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں وہ اللہ کے حکم سے اُڑنے والاپرندہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہوں اور اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاتے ہواورجو تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہووہ تمہیں بتاتا ہوں اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔‘‘

عظیم معجزے پانے کے باوجود سیدناعیسیٰu نہ مختارِ کل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ وہ غیب کا علم جانتے تھے وہ اپنے معجزات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہو گا۔ اس میں میرا کوئی اختیار نہیں۔ وہ قیامت کے دن رب ذوالجلال کے حضور یہ بھی عرض کریں گے کہ میں غیب نہیں جانتا ۔

يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَا ذَا اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ (المائدۃ:109)

جس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا پھراستفسار فرمائے گا تمہیں کیا جواب دیاگیا ؟وہ کہیںگے ہمیں کچھ علم نہیںبے شک تو ہی غیب کی باتوں کوجاننے والاہے۔

یہی سوال عیسیٰuسے کیاجائے گا وہ عرض کریں گے ۔

وَاِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ بِحَقٍّ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَ لَا اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَا اَمَرْتَنِيْ بِهٖ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَاَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ (المائدۃ:116تا117)

’’اورجب ’’اللہ‘‘ فرمائے گا اے عیسیٰ ابن مریم! کیاتو نے لوگوں سے کہاتھا کہ مجھے اور میری ماں کو ’’اللہ‘‘ کے سوا معبود بنالو؟عیسیٰu کہیں گے توپاک ہے میرے لیے جائز نہیں کہ وہ بات کہوں جس کے کہنے کا مجھے حق نہیں اگر میں نے ایسی بات کہی ہے تو یقیناً آپ اسے جانتے ہیںآپ جانتے ہیں جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جوآپ کے دل میں ہے یقینا توغیب کی باتوں کوجاننے والاہےمیں نے انہیںوہی کہا جس کا آپ نے مجھے حکم دیاتھا کہ صرف ایک ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرو جو میرا اورتمہارا رب ہے اور میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میںموجود رہا جب تو نے مجھے اٹھالیا توہی ان پر نگران تھااور تو ہرچیز پر گواہ ہے۔‘‘

اصحاب کہف اپنے بارے میں لا علم تھے

سورہ کہف میں آٹھ موّحد نوجوانوں کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے جو ’’اللہ‘‘ کی توحید کی خاطر اپنے وطن سے نکلے اور انہوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ جن کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ انہیں تین سو نو سال کے بعد اٹھایا گیا تاکہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ یہاں ہم کتنی دیر ٹھہرے ہیں ۔ اس لیے کہ اس واقعہ کوآخرت کے منکرین کے لیے دلیل بنایا جائے۔ اصحابِ کہف جونہی وہ اپنی اپنی جگہ سے اٹھے تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ بھائی! یہاں ہم کتنی دیر ٹھہرے رہے ہیں ؟ہر ایک نے سورج کا حساب لگا کر بتایا کہ ہم چند گھنٹے یا ایک دن سوئے رہے ہیں۔ اس اندازے کی دووجہ تھیں۔ جب وہ سورج کو دیکھتے تو سوچتے غروب ہونے میں ابھی وقت باقی ہے۔ اس بنیاد پر کچھ ساتھی کہتے ہیں کہ ہم چند گھنٹے سوئے ہیں ۔لیکن جب اپنی طبیعت کے سکون او ر جسمانی آرام پر توجہ دیتے تو کہتے ہیں نہیں ہم ایک دن سوئے ہیں۔ گویا کہ ان کا اس بات پر اتفاق نہ ہو سکا کہ وہ کتنی دیر ٹھہرے ہیں۔ قرآن مجید نے ان کی برادرانہ بحث کو من وعن نقل فرمایاہے ۔اس کے بعد انہیں بھوک محسوس ہوئی اور انہوں نے فیصلہ کیاکہ اپنے میں سے ایک ساتھی کو کچھ رقم دے کر قریب کے شہر میں بھیجاجائے اوراسے تاکید کی کہ صاف ستھراکھا نا لائے اورآنے جانے میں بھی احتیاط کرے تاکہ ہمارے بارے میں کسی شخص کو کوئی خبر نہ ہونے پائے اگر لوگوں کو خبر ہوگئی تو وہ ہمیں پکڑ کر سنگسار کردیں گے یا ہمیں شرک کرنے پر مجبو ر کریں گے۔شرک کرنے کی صورت میں ہم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔

وَكَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِيَتَسَآءَلُوْا بَيْنَهُمْ قَالَ قَآىِٕلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوْا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖ اِلَى الْمَدِيْنَةِ فَلْيَنْظُرْ اَيُّهَا اَزْكٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا (الکھف:19)

’’اور اسی طرح ہم نے انھیں دوبارہ اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں ان میں سے ایک نے کہا آپ کتنی دیر ٹھہرے رہے ہیں؟وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے ہیں پھر آپس میں کہا تمھارا رب خوب جانتا ہے کہ تم کتنی مدت ٹھہرے رہے ہو اپنے میں سے ایک کو یہ چاندی دے کر شہر کی طرف بھیجو کہ وہ دیکھے کہ ان میں کس کا کھانا زیادہ پاک صاف ہے وہ تمھارے لئے کھانا لائےاور نرم رویہ اختیار کرے اور تمھارے بارے میں کسی کو ہر گز معلوم نہ ہونے دے۔ ‘‘

نبی آخر الزمان uکے غیب نہ جاننے کے بارے میں قرآن مجید کے ارشادات

نبی آخر الزماںeتمام انبیاء کے سردار اور خاتم المرسلین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آ پ کو وہ مقام اور مرتبہ عطا فرمایا ہے جو کسی نبی کو عطا نہیں کیا گیا۔ سب سے اعلی اور ارفع مقام پانے کے باوجود آپe بھی غیب کے علم اور معاملات سے بے خبر تھے۔ آپe کی حیات طیّبہ کے کئی واقعات ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اگرآپ غیب جانتے ہوتے تو آپ اور آپ کے اصحاب اندوہناک حادثات سے دوچار نہ ہوتے۔ یہاں قرآن مجید کے حوالے سے چند واقعات کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ سرورِ گرامیe واقعتا غیب نہیں جانتے تھے۔

اہلِ مکہ نے مدینہ کے یہودیوں کے پاس ایک وفد بھیجا۔ یہودیوں نے انہیں تین سوالا ت بتلائے کہ اگر محمدe نے ان سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا تو وہ حقیقی نبی ہے۔اگر ٹھیک جواب نہ دے سکا تووہ جھوٹا ہے۔ وفد نے مدینہ سے واپس آکر آپe سے تین سوال کیے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں کل جواب دوں گا۔ لیکن کئی دن تک وحی نہ آئی۔ جس پر کفا ر نے بغلیں بجائیں اور پروپیگنڈہ کیا کہ یہ شخص جھو ٹا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان جاری کیا ’’اے نبی!کسی کام کے بارے میں آئندہ ا س طرح نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا۔ایسی بات کہتے وقت انشاء اللہ کہا کریں ۔ جب اپنے رب کا نام لینا بھو ل جائیں تو یادآنے پر فوراً ان شاء اللہ کہا کرو۔

وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّيْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا اِلَّا اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ وَقُلْ عَسٰى اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّيْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا (الکھف:23۔24)

’’اور کسی کام کے بارے میں یہ نہ کہیں کہ میں یہ کام کل ضرور کروں گا مگر جو اللہ چاہے جب بھول جائو تو اپنے رب کو یاد کر و۔ اور کہو امید ہے کہ میرا رب مجھے نیکی کا اس سے قریب تر راستہ دکھائے گا ۔ ‘‘

سیدہعائشہ rفرماتی ہیں نبی اکرمeکسی غزوہ اور سفر کے لیے تشریف لے جاتے تو اس سے پہلے اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ جس بیوی کا قرعہ نکلتا آپ اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ غزوہ بنی مصطلق میں قرعہ میرے نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ سفر میں تھی واپسی پرایک رات مجھے حاجت کے لیے پڑائو سے دور جانا پڑا۔ جب فارغ ہو کر پڑائوکی جگہ آنے لگی تو میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر نیچے گرپڑا ۔ میں اسے تلاش کرتی رہی جب پڑائو کے مقام پر پہنچی تو قافلہ جا چکاتھا۔

سیدنا صفوان tبن معطل کی ڈیوٹی تھی کہ وہ قافلہ کے آخر میں رہیں تاکہ گری پڑی چیز کاخیال رکھیں ۔وہ کچھ دیر کے بعد میرے قریب پہنچے تو اس نے مجھے پہچان لیا ۔ کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا ہوا تھا ۔اس نے میرے قریب آکر قدرے بلند آواز سے ’’اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ‘‘کہا۔ اس کی آواز سن کر میں اُٹھ کر بیٹھ گئی اور میں نے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا ۔اللہ کی قسم نہ اس نے مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے اس سے کلام کی۔اس نے اپنی سواری کو میرے قریب لا کر بٹھایا تاکہ میںسوار ہوجائوں ۔میں اونٹ پرسوار ہوئی وہ مہار تھامے ہوئے پیدل چلنے لگے۔ہم دوپہر کے وقت قافلے سے جا ملے۔

اس واقعہ کو عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے اچھالا تھا۔سفر سے واپسی پر میںبیمار پڑ گئی مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ میرے خلاف کیا طوفان برپا کیا گیا ہے۔ البتہ رسول کریمe کارویّہ میر ے ساتھ پہلے جیسا نہ تھا۔ پہلے بیمار ہوتی تو رسول کریمe کی شفقت ومہربانی غیر معمولی ہوتی۔ لیکن اس مرتبہ آپ میرے گھر تشریف لاتے تو فقط اتنا پوچھتے عائشہ آپ کیسی ہیں۔ ایک دو جملوں کے سوا کوئی بات نہ کرتے میںسمجھ گئی کہ معاملہ بدلہ ہوا ہے ۔ایک دن میں امّ مسطحr کے ساتھ قضائے حاجت کے لئے باہر گئی تو اس نے مجھے پوری بات بتلائی۔میں گھر آئی تو میری طبیعت بالکل نڈھال ہوچکی تھی۔ رسول کریم e تشریف لائے۔ آپ نے پہلے کی طرح میری طبیعت کے بارے میں پوچھا ۔ میں نے آپ سے عرض کی کہ آپ مجھے میکے جانے کی اجازت عنایت فرمائیں۔ آپ نے بلاتاخیر اجازت دے دی۔ میں اپنے والدین کے گھر آئی۔ میرے گھروالے انتہائی پریسان تھے ۔میں نے دن رات روتے ہوئے گزارے۔ اس حالت میں تقریباً ایک مہینہ گزرگیا۔ ایک دن نبی کریمe ہمارے گھر تشریف لائے۔ میرے پاس تشریف فرما ہو کر فرمانے لگے۔ عائشہr اگر تو پاکباز ہے تو اللہ تعالیٰ تیری برأت فرمائے گا اگر تجھ سے غلطی ہوگئی ہے تو اللہ سے معافی مانگو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے۔ آپ eکی باتیں سنتے سنتے میرے آنسو تھم گئے ۔میں نے اپنی والدہ سے کہا۔ آپ نبی کریمe کو میری صفائی پیش کریں۔ انہوں نے فرمایا ۔بیٹی میں کیا جواب دوں! میں نے اپنے والدسے درخواست کی کہ ابو۔ آپ میری صفائی دیں لیکن انہوں نے بھی فرمایا :واللہ میں کیا جواب دوں۔آخر میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا اللہ کی قسم! میں سمجھتی ہوں کہ یہ بات آپ لوگوں کے دل میں بیٹھ گئی ہے اگر میں کہوں کہ ’’اللہ‘‘ جانتا ہے میں پاک صاف ہوں توآپ لوگ یقین نہیں کریں گے۔ اگر میں اپنے آپ پر لگنے والے الزام کو تسلیم کرلوں، تو آپ لوگ اس پر یقین کر لیں گے۔ اللہ کی قسم! میرا معاملہ سیدنایوسفuکے والد جیسا ہے۔ پریشانی میں مجھے سیدنا یعقوب uکا نام بھول گیا ۔اس لیے میں نے سیدنایعقوبu کا نام لینے کی بجائے کہا کہ میرا معاملہ سیدنایوسفu کے باپ جیسا ہے۔ میرے لیے صبرکرنا ہی بہتر ہے۔ ’’اللہ ‘‘ ہی میری مدد فرمائے گا۔ یہ کہہ کر میں نے کروٹ بدل لی۔ مجھے یقین تھا کہ میں اس الزام سے بری ہوں اس لئے اللہ تعالیٰ ضرور میری برأت فرمائے گا۔ لیکن یہ خیال نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میری برأت قرآن مجید میں نازل فرمائے گا۔ابھی نبی کریمe اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے کہ آپ پروحی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ سردی کے باوجود آپ کی مبارک پیشانی سے پسینہ ٹپکنے لگا ۔وحی ختم ہوئی تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: عائشہ! تجھے مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تیری برأت نازل فرما دی ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْا بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (نور:11)

’’تم میں سے جولوگ یہ بہتان گھڑلائے ہیں وہ تم میں ایک گروہ ہے تم اس واقعے کواپنے حق میں بُرا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہوا ہے جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ کیا اورجس شخص نے اس میں زیادہ حصہ لیا اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘

لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَّقَالُوْا هٰذَا اِفْكٌ مُّبِيْنٌ (نور:12)

’’جس وقت تم نے اسے سنا اس وقت مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے دل میں کیوں نہ نیک گمان کیا اورکیوں نہ کہا کہ یہ تو کھلا بہتان ہے ؟‘‘

لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاِذْ لَمْ يَاْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ (نور:13)

’’وہ لوگ چارگواہ کیوں نہ لائے ؟جب وہ گواہ نہیں لائے تو ’’اللہ‘‘ کے نزدیک وہ جھوٹے ہیں ۔‘‘

 اگردنیا اورآخرت میں تم پر اللہ کافضل اور اس کا رحم نہ ہوتا توجن باتوں میں تم پڑگئے تھے ان کی پاداش میںبڑا عذاب تمہیں آلیتا۔ جب تم اپنی زبانوں سے جھوٹ پھیلا رہے تھے اورتم اپنے منوں سے وہ کچھ کہے جارہے تھے۔ جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے ۔حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔کیوں نہ تم نے سنتے ہی کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا سبحان اللہ یہ توعظیم بہتان ہےاللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا ۔اللہ تمہیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے اوروہ علیم وحکیم ہے۔جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کی جماعت میں بے حیائی پھیلے وہ دنیا اورآخرت میں دردناک سزاکے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(نور: ۱۴ تا ۲۰)

حضرات! اپنے ضمیر سے پوچھیں اگر سرورِ دو عالمe غیب جانتے تو آپ اور آپ کے گھر والے اور صحابہ کرامy اتنے دن پریشان رہے سکتے تھے؟

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيْمَا اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ(الانفال: 67۔68)

’’کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں، اور وہ انہیں زمین میں ان کا خون نہ بہائے چھوڑ دے تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور ’’اللہ‘‘ تمہاری آخرت چاہتا ہے اور ’’اللہ ‘‘ سب پر غالب اور حکمت والاہے۔ اوراگر اللہ کے ہاں پہلے سے لکھی ہوئی بات نہ ہوتی توجو تم نے لیاہے۔ اس کے بدلے تمہیں بڑاعذاب دیا جاتا۔‘‘

نبیe کو ارشاد ہواکہ آپ کے لیے مناسب نہ تھا کہ آپ کفار کی کمر توڑے بغیر قیدیوں کو فدیہ کے بدلے چھوڑ دیتے۔ قیدیوں کے بارے میں نبی اکرمe کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن فدیہ کے بارے میں صحابہy کو مخاطب کیا ہے کیونکہ نبی eنے صحابہy کے مشورہ اور ان کے فائدے کے لیے ہی قیدیوں سے فدیہ لینا قبول فرمایا تھا۔ اس لیے صحابہy سے فرمایا کہ تم دنیا کا تھوڑا اور عارضی مال چاہتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آخرت کی بیش بہا اور دائمی نعمتوں کا ارادہ رکھتا ہے اگر تم قیدیوں کا فدیہ لینے کی بجائے ان کو قتل کر دیتے تو یہ تمہارے مستقبل کے لیے نہایت ہی بہتر ہوتا۔

فَهَوِيَ رَسُولُ اللهِ e مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جِئْتُ، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ eوَأَبُو بَكْرٍ قَاعِدَيْنِ يَبْكِيَانِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَخْبِرْنِي مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَبْكِي أَنْتَ وَصَاحِبُكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِe أَبْكِي لِلَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ أَخْذِهِمِ الْفِدَاءَ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُهُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ – شَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ (رواہ مسلم: بَابُ الْإِمْدَادِ بِالْمَلَائِكَةِ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَإِبَاحَةِ الْغَنَائِمِ)

’’سیدنا عمرt کا بیان ہے کہ رسول اللہe نے سیدنا ابوبکرt کی بات پسند فرمائی اور میری بات پسند نہ کی گئی، چنانچہ قیدیوں سے فدیہ لینا طے کرلیا اس کے بعد جب اگلا دن آیا تو میں صبح ہی صبح رسول اللہe اور ابوبکرt کی خدمت میں حاضر ہوا وہ دونوں رورہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بتائیں آپ اور آپ کا ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر مجھے رونے کی وجہ ہوئی تو روؤں گااور اگر نہ معلوم ہو سکی تو آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے روؤں گا۔ رسول اللہ eنے فرمایا: فدیہ قبول کرنے کی وجہ سے تمہارے اصحاب پر جو چیز پیش کی گئی ہے اسی وجہ سے رو رہا ہوں ۔ آپ نے ایک قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مجھ پر اللہ کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب کر دیا گیا۔‘‘

عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ (التوبۃ: 43)

’’اللہ نے آپ کو معاف کردیاآپ نے انہیں کیوں اجازت دی یہا ں تک کہ آپ کے سامنے وہ لوگ واضح ہوجاتے جنہوں نے سچ کہا اور آپ جھوٹوں کو بھی جان لیتے۔‘‘

رسول رحمت eنے اپنے حلم اور بردباری کی بناء پر منافقین کو غزوۂ تبوک سے پیچھے رہنے کی اجازت دی لیکن وقت آچکا تھا کہ انھیں پوری طرح آشکار کر دیا جائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت شفقت و مہربانی کے الفاظ میں آپ کو فرمایا: اے نبی! ’’اللہ‘‘ آپ کو معاف کرے جس کا دوسرا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کر دیا ہے ۔ منافقین کو اس وقت تک اجازت نہیں دینا چاہیے تھی۔ جب تک کھرے اور کھوٹے ، سچے اور جھوٹے کا فرق واضح نہ ہو جاتا۔ ظاہر ہے کہ نبی مکرمe پہلے سے جانتے ہوتے تو کبھی انہیں اس طرح نہ چھوڑتے اور اللہ تعالیٰ یہ فرمان نازل نہ فرماتا کیونکہ نبیeغیب نہیں جانتے تھے اس لئے آپ نے بدر کے قیدیوں کو رہا کر دیا۔

عَبَسَ وَتَوَلّٰی اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّٰی اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰى وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّٰى وَاَمَّا مَنْ جَآءَكَ يَسْعٰى وَهُوَ يَخْشٰى فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى (عبس: 1 تا 10)

’’ماتھے پر شکن ڈالی اور چہرہ پھیر لیا۔ یہ کہ ایک نابینا اس کے پاس آیا۔ آپ کو کیا معلوم! شاید وہ سدھر جائے۔ یا نصیحت پر توجہ دے اور نصیحت اس کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ لیکن جو شخص بے پروائی کرتا ہے۔ آپ اس کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ وہ نہیں سدھرتا تو آپ پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟جو خود آپ کے پاس دوڑا ہوا آتا ہے اور وہ ڈرنے والا ہےاس سے آپ بے رخی کرتے ہیں۔‘‘

تمام مفسرین نے اس سورت کے نازل ہونے کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک دن سرورِ دو عالمe کی مجلس میں چند قریشی سردار حاضر ہو کر آپ سے دین کے بارے میں گفتگو کررہے تھے۔ اسی دوران سیدناعبداللہ بن امِ مکتوم آئے اور انہوں نے آپ کی گفتگو میں مداخلت شروع کر دی ۔ آپeنے ناصرف بے توجہگی کی بلکہ اس مداخلت کو ناگوار سمجھا۔ آپ کی بے توجہگی کے دواسباب تھے ۔

1 آپeقریش کے سرداروں کے ساتھ محوِ گفتگو تھے اور حضرت ابن مکتوم نے انتظار کیے بغیر آپ کی خدمت میں سوال کر ڈالا۔ جس سے آپ کے چہرے اقدس پر ناگواری کے کچھ اثرات ظاہر ہوئے ۔

2آپ کی ناگواری کی دوسری وجہ یہ تھی کہ قریشی سردار بہانہ بنائے ہوئے تھے کہ ہم آپ کی مجلس میں اپنے سے کم درجہ لوگوں کے برابر نہیں بیٹھ سکتے، لہٰذا ہم آئیں تو کوئی دوسرا نہیں ہونا چاہیے تاکہ ہم سکون کے ساتھ آپ کا موقف سمجھ سکیں۔ ان دو وجوہات کی وجہ سے آپ نے ابنِ ام مکتوم tکی آمد کوناگوار سمجھا جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو توجہ دلانے کے لیے یہ انداز اختیار فرمایا ۔

بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ آپeنے سیدناابن ام مکتوم کے نابینا ہونے کی وجہ سے اس سے اعراض کیا تھا۔ یہ بات ناقابلِ اعتماد ہے، کیونکہ نبی کریمe نہایت ہی کریمانہ اخلاق کے مالک تھے اورآپ سے زیادہ کون معذوروں اور غریبوں کاہمدرد تھا؟ آپ نے سیدناعبد اللہ بن امِ مکتومt کے نابینا ہونے کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ ابن مکتومt نے انتظار کیے بغیر آپ سے سوال کیا تھا ج مجلس کے آداب کے خلا ف تھا، اسی وجہ سے آپ کو توجہ دلانے کے لیے مخاطب کی ضمیر استعمال نہیں کی گئی تاکہ آپ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں کوئی شخص حرفِ گیر نہ ہوسکے۔ یہ واقعہ بھی اس حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے کہ آپe کو اللہ تعالیٰ کی منشا کا علم نہ تھا ورنہ آپ یہ انداز اختیار نہ کرتے۔

يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (تحریم: 1)

’’اے نبی!آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے؟ آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

التحریم کا لفظ حرمت سے نکلا ہے جو عام طور پر کھانے پینے کے بارے میں استعمال ہوتا ہے،اس کا معنٰی ہے کہ کسی چیز کو حرام کرنا یاسمجھنا ۔ واقعہ اس طرح ہے کہ نبی کریمe عصر کی نماز کے بعد اپنی ازواجِ مطہرات کے ہاں باری باری کچھ وقت گزارتے تاکہ گھریلو حالات سے آگہی اور ہر گھر کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ آپe حضرت زینبrکے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ کی خدمت میں شہد پیش کرتیں، بسااوقات آپ ان کے ہاں زیادہ دیر ٹھہر جاتے۔ سیدہ عائشہ اورحفصہw نے اس بات کو محسوس کیا اور انہوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد سیدہ سودہrکو ساتھ ملایا اور کہا کہ جب اللہ کے رسول ہمارے گھروں میں آئیں تو ہم آپ سے یہ بات کہیں۔ کیا آپe نے مغافیر کا رس پیا ہے، یہ ایسا پھول ہے۔ جس سے تھوڑی سی بو ساند آتی ہے۔ ازواجِ مطہرات جانتی تھیں کہ آپ خوشبو سے رغبت رکھتے ہیں اور بدبو سے انتہائی نفرت کرتے ہیں۔ اللہ کے نبی حسبِ معمول اپنی بیوی زینب rکے ہاں چند گھڑیاں بیٹھنے کے بعد یکے بعد دیگرے سيده عائشہ ،سیدہ سودہ اور سیدہ حفصہg کے گھر تشریف لے گئے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق تینوں نے آپ سے یہ بات کہی۔ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے۔ جس وجہ سے آپ کے منہ سے ہلکی سی بو محسوس ہو رہی ہے۔ آپe نے فرمایا:میں نے مغافیر نہیں بلکہ شہد کھایا ہے۔ انہوں نے کہا :آپ کے منہ سے ہلکی بو آ رہی ہے۔ ازواجِ مطہرات کی گفتگو سے متاثر ہو کر آپ نے قسم اٹھا لی میں آئندہ شہد نہیں کھاؤں گا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے نبیe! اللہ آپ کو معاف فرمائے کہ آپ نے اپنی بیویوں کی خاطر اس چیز کو حرام کر لیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کر رکھا ہے۔ کیا اللہ کے نبیeعلم ہونے کے باوجود یہ فیصلہ کر سکتے تھے؟

عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَتَاهُ رِعْلٌ، وَذَكْوَانُ، وَعُصَيَّةُ، وَبَنُو لَحْيَانَ، فَزَعَمُوا أَنَّهُمْ قَدْ أَسْلَمُوا، وَاسْتَمَدُّوهُ عَلَى قَوْمِهِمْ، فَأَمَدَّهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعِينَ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ أَنَسٌ: كُنَّا نُسَمِّيهِمُ القُرَّاءَ، يَحْطِبُونَ بِالنَّهَارِ وَيُصَلُّونَ بِاللَّيْلِ، فَانْطَلَقُوا بِهِمْ، حَتَّى بَلَغُوا بِئْرَ مَعُونَةَ، غَدَرُوا بِهِمْ وَقَتَلُوهُمْ، فَقَنَتَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَبَنِي لَحْيَانَ، قَالَ قَتَادَةُ: وَحَدَّثَنَا أَنَسٌ: أَنَّهُمْ قَرَءُوا بِهِمْ قُرْآنًا: أَلاَ بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا، بِأَنَّا قَدْ لَقِيَنَا رَبَّنَا، فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا، ثُمَّ رُفِعَ ذَلِكَ بَعْدُ (رواہ البخاری: بَابُ العَوْنِ بِالْمَدَدِ)

’’سیدنا انس بن مالک  بیان کرتے ہیںکہ رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان کے کچھ لوگ اللہ کے رسولeکے پاس آئے اور انہوںنے آپ سے اپنے دشمنوں کے مقابل مدد چاہی، آپeنے ستر انصاری صحابہy کو ان کے ساتھ روانہ کیا۔ سیدنا انس کہتے ہیں:ہم ان حضرات کو قاری کہا کرتے تھے۔ یہ لوگ اپنی معاش کے لیے دن میں لکڑیاں جمع کرتے تھے اور رات کو نماز پڑھا کرتے تھے۔ جب یہ صحابہy بئرمعونہ پر پہنچے تو اُن لوگوں نے انہیں دھوکے سے شہید کر دیا۔ جب اللہ کے رسولe کو اس ہندو ناک واقعہ کی خبر تو آپ نے صبح کی نماز میںان قبائل کے لیے ایک مہینے بددعا کی۔‘‘

بھائیو! ظلم اور جہالت کی انتہا ہے کہ اس کے بارے میں بعض نادان بلکہ جاہل علماء کہتے ہیں کہ آپe نے انہیں شہادت کے مرتبہ پر فائز کرانا تھا اس لئے جاننے کے باوجود انہیں بھیجا تھا ۔

نعوذ باللہ کیا جانتے ہوئے بے دست پا مسلمانوں کو دشمن کے مقابلہ میں بھیجا جا سکتا ہے؟

کیا رحمتِ دو عالمe جاننے کے باوجود اتنا بڑا نقصان گورا کر سکتے تھے۔

کیا حادثاتی شہادت کا زیادہ درجہ ہے یا دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہونے کا زیادہ مقام ہے؟

 نعوذ باللہ! اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تھا تو ان ظالموں کے لئے ایک مہینہ بددعائیں کرنے کا کیا مقصد؟

قارئین اور سامعین حضرات! بیان کیے جانے والا ہر واقعہ ایک سے ایک بڑھ کر ثابت کر رہا ہے کہ نبی مکرمe غیب نہیں جانتے تھے۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے