آیت و ترجمہ:

لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ

نیکی یہی تو نہیں ہے کہ اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو

وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ

بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اﷲ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتابو ں اور (اس کے )نبیوں پرایمان لائیں

وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ

اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کریں

وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ

اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں

وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا

اور جب کوئی عہد کر لیں تو اسے پورا کرنے کے عادی ہوں

وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ

اور تنگی اور تکلیف میں، نیز جنگ کے وقت، صبر واستقلال کے خوگر ہوں

أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ

 ایسے لوگ ہیں جو سچے (کہلانے کے مستحق) ہیں اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں

ترجمانی و وضاحت:

 آیت ’’نیکی کا تعارف ‘‘ کے تین حصے ہیں جو درج ذیل ہیں :

پہلا حصہ : نیکی کے سطحی و محدود تصور کی نفی

دوسرا حصہ :نیکی کرنے والے کو جن صفات کا حامل ہونا چاہیے ان کا بیان

تیسرا حصہ :           نیکی کا مکمل تعارف اور اس میں چار درجات بیان کیے گئے ہیں: انسانی ہمدردی یا خدمت خلق، عبادات، ایفائے عہد، صبر

پہلا حصہ :نیکی کے سطحی و محدود تصور کی نفی

لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ

نیکی یہی تو نہیں ہے کہ اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو۔

سب سے پہلے مذکورہ بالا نیکی کے تمام سطحی و محدود تصورات جو معاشرے میں پائے جاتے ہیں ان کی نفی کر دی گئی اور یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا تاکہ جب نیکی کا تعارف کروایا جائے تو یہ سطحی و محدود تصورات اس کے ساتھ مل کر نیکی کی حقیقت کو مسخ نہ کریں یہ بالکل وہی اسلوب ہے جو کلمہ طیبہ میں اختیار کیا گیا کہ سب سے پہلے ہر قسم کے معبودان باطلہ کی مکمل نفی کر دی گئی تاکہ حقیقی معبود کا اثبات ممکن ہو یعنی غلط اور صحیح کا بیک وقت پایا جانا درست نہیں لہذا اسی لیے کہا گیا کہ سب سے پہلے اپنے اپنے اذہان صاف کر لو ہر قسم کے تصورات سے ۔کیونکہ انسان اپنی معنوی زندگی کی بقا کے لیے نیکی کے کسی نہ کسی تصور کو اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے ضمیر کو مطمئن کرےگویا یہ انسان کی ناگزیر مجبوری ہے کہ وہ نیکی کا کوئی نہ کوئی کھاتہ اپنی زندگی میں کھولے اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرے کہ اگرچہ میرے اندر یہ اور یہ برائی ہے تاہم میں فلاں فلاں نیکی کے کام بھی تو کرتا ہوں.اور اس طرح وہ اپنے ضمیر کی خلش کو مٹاتا اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرتا ہے.چنانچہ معاشرے کے تمام طبقات کے نزدیک نیکی کا کوئی نہ کوئی تصور اُن کے ہاں بھی موجود ہے جیسا کہ :

٭ ڈاکو‘جیب کترے‘حتیٰ کہ جسم فروشی کرنے والی فاحشہ عورتوں کے یہاں بھی ثواب کے باقاعدہ کھاتے کھلے ہوتے ہیں۔

٭کاروباری اور تاجر پیشہ لوگوں :

یہ لوگ دیندار ہیں. نماز‘ روزہ‘ زکو ٰۃ ‘حج و عمرہ‘مدارسِ دینیه کی خدمت‘علماء کی خدمت وغیرہ امور میں یہ لوگ پیش پیش ہیں. لیکن اس طبقے کی ایسی باتیں بھی سامنے آئیں گی کہ غلط حساب کتاب بھی ہو رہا ہے‘بلیک مارکیٹنگ اور اسمگلنگ بھی ہو رہی ہے‘ذخیرہ اندوزی بھی ہے ‘ ملاوٹ بھی ہے اورسودی معاملات میں بھی ملوث ہیں۔

٭ جدید تعلیم یافتہ لوگ:

ان کے نزدیک اصل نیکی تو یہ ہے کہ انسان اپنے فرائضِ منصبی صحیح طورپر ادا کرے.باقی رہا نماز‘روزہ وغیرہ کا معاملہ تو یہ اس کا نجی اور ذاتی معاملہ ہے.اگر کوئی کرتا ہے تو اپنے لیے کرتا ہے‘ اگر نہیں کرتا تو بہرحال یہ بھی اس کا ذاتی معاملہ ہے. ایک اور عدم توازن اس صورت میں نظر آجائے گا کہ اکثر لوگوں کی دین کے ظاہری اور رسمی پہلوؤں پر تو بڑی کڑی نگاہ ہے‘اس کے بارے میں حساس بھی بہت ہیں‘ذرا سی کمی بیشی کو بھی گوارا کرنے کو تیار نہیں‘لیکن جو روحِ دین ہے‘اصل تقویٰ ہے‘اصل خدا ترسی ہے‘اس پر بالکل کوئی توجہ نہیں۔

٭عام لوگ:

حسب پسند و استطاعت عبادات کی ظاہریت کو اختیار کر لیا اور اس میں بھی بنیادی فکر یہ ہے کہ کم سے کم میں زیادہ سے زیادہ ثواب مل جائے لہذا شارٹ کٹ ہی اصل نیکی تصور ہے

دوسرا حصہ :نیکی کرنے والے کو جن صفات کا حامل ہونا چاہیے ان کا بیان

وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ

بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اﷲ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتابو ں اور (اس کے )نبیوں پرایمان لائیں

اس آیت پر تدبّر کے ضمن میں سب سے پہلی بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ نیکی کی بحث میں سب سے پہلے ایمان کا ذکر کیوں ہو رہا ہے۔ کیونکہ ہم تونیکی کا تعلق عمل سے جوڑتے ہیں یہاں آغاز ہی ایمان سے ہو رہا ہے پھر صرف ایمان باللہ ہی نہیں بلکہ ایمانیات کے چند دیگر ابواب کا ذکر بھی شدّومدّکے ساتھ ہو رہا ہے. لہذا قابل غور بات یہ ہے کہ ان ایمانیات کا نیکی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔

لہذا ایمانیات ثلاثہ کو اس حوالے سے سمجھنا بہت ضروری ہے :اللہ پر ایمان، آخرت پر ایمان، رسالت پر ایمان

جہاں تک بات ہے اللہ اور آخرت پر ایمان کا نیکی سے کیا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے تفصیل میں جائے بغیر یہ سمجھ لیجیے کہ ایمانیات نیکی کے لیے قوتِ محرکہ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ اور اس قوتِ محرکہ کا منبع اور سرچشمہ ہے ایمان باللہ۔ واضح رہے کہ یہ مثبت قوتِ محرکہ ہے‘اور اس کے بالمقابل منفی قوت محرکہ کو آخرت پر ایمان کے نام سے یاد کر سکتے ہیں یعنی یہ احساس کہ ایک دن آنے والا ہے جب محاسبہ ہو گا‘ ہمیں ایک ایک عمل کی جوابدہی کرنی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پر ایمان کے بعد آخرت پر ایمان کو بیان کیا گیا کہ انسان کا جو عمل اِن دو محرکات پر مبنی نہ ہو وہ خواہ بظاہر کتنا ہی بڑے سے بڑا نیکی کا کام نظر آئے وہ نیکی نہیں بلکہ اس میں کوئی نہ کوئی دُنیوی غرض پوشیدہ ہوتی ہے‘جب کہ تاکیدی ہدایت یہ ہے کہ نیکی کو کاروبار نہ بنا لینا‘نیکی سے دُنیوی منفعت کو مدِّنظر مت رکھنا‘نیکی کا فائدہ اس دنیا میں حاصل کرنے کی نیت نہ رکھنا۔

ایسا کریں گے تو اس نیت و ارادے کے تحت نیکی کے جتنے کام کیے جائیں گے سب باطل ہو جائیں گے کہ کوئی نیکی اخلاص کے بغیر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے :

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِی مَا نَویٰ

’’اعمال کا دارومدار (نیکیوں کا انحصار) نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو‘‘۔

یعنی اگر ایک شخص نے ایک اچھا عمل کیا لیکن اس کے پیچھے کوئی بُری نیت تھی تو اُس کا عمل بھی بُرا شمار ہو گا اور اس کا نتیجہ بھی بُرا نکلے گا.اگرچہ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہو گا کہ اگر انسان ایک برا عمل کرے جس میں اس کی نیت اچھی ہو تو اس کو اس کا اجر ملنا۔ اس لیے کہ حدیثِ مبارکہ میں’’اعمال‘‘ کالفظ استعمال ہوا ہے اور اعمال سے مراد نیکی کے اعمال ہیں. ’’افعال‘‘ کالفظ آتا تو وہ دونوں کا احاطہ کر لیتا۔

اس کے بعد اس آیت میں بقیہ جو تین ایمانیات مذکور ہیں:یعنی ملائکہ پر ایمان‘ کتابوں پر ایمان اور نبیوں پر ایمان۔

تو اگر ان تینوں کو جمع کر لیا جائے تو ان کو ایک نام دیا جا سکتا ہے ’’ رسالت پر ایمان‘‘ اس لیے کہ اگر غور کیا جائے تو فرشتے رسولوں تک وحی لانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اوراس وحی کو کتابوں کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ‘اور جن پر وحی نازل ہوئی وہ انبیاء و رُسل ہیں۔

رسالت پر ایمان کا تعلق نیکی کی اس بحث کے ساتھ یہ ہے کہ انسان کے اندر جس طرح دوسرے جذبات ہوتے ہیں اسی طرح نیکی بھی ایک جذبہ ہےاور جذبات کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ ان میں حدود سے تجاوز کا رجحان و میلان فطری طور پر پایا جاتا ہے۔چنانچہ نیکی کے ضمن میںبھی یہ خدشہ موجود ہے کہ کسی بھی وقت حدِّ اعتدال سے تجاوز نہ کر جائے اور نتیجتاً نیکی سے بدی ظہور میں آجائے۔مثلاًایک شخص پر نیکی کا اتنا غلبہ ہوا کہ اس نے دنیا کو چھوڑ دیا اوررہبانیت اختیار کر لی کہ بس ربّ سے لو لگانی ہے۔رہبانیت کا نظام اسی نیکی کے جذبہ کے حدِّ اعتدال سے تجاوز کی وجہ سے وجود میں آیالیکن یہ رویّہ فطرت کے خلاف بغاوت ہے۔ یعنی نیکی میں افراط و تفریط کا امکان موجود ہے اور رسالت پر ایمان ہی نیکی کو حد اعتدال پر رکھتی ہے۔

اس حوالے سے ایک معروف حدیث جس میں تین صحابہ کا طرزعمل بیان کیا گیا کہ : ایک نے کہا کہ میں تو پوری رات نفلی نمازوں میں گزاروں گا‘کبھی ناغہ نہیں کروں گا.دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا‘کبھی ناغہ نہیں کروں گا.تیسرے نے کہا میں شادی نہیں کروں گا ساری عمر تجر ّدکی زندگی بسر کروں گا۔ رسول اللہ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے اُن تینوں کو بلایا اور فرمایا کہ:’’میں تم میں سے ہر ایک سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں‘ لیکن میں رات کو سوتا بھی ہوں اور نفلی نماز بھی ادا کرتا ہوں.میں نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں.میں نے شادیاں بھی کی ہیں اور میرے حبالۂ عقد میں متعددازواج ہیں‘‘۔

پھر آپ نے فرمایا:

فَمَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ

’’جس کسی نے میری سنت اور میرے طریقے کو چھوڑ دیااس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘

یعنی کسی کا عمل چاہے کتنے ہی نیکی کے جذبے کے تحت ہو‘لیکن اگر وہ رسول اللہ کے طریقے کے مطابق نہیں تو وہ نیکی نہیں ہے بلکہ بدعت کے زمرے میں گردانا جائے گا ۔ عصر حاضر میں مختلف مہینوں کی مناسبت سے نیکی کے خود ساختہ طریقے ایجاد کیے گئے ہیں وہ اسی لیے غیر شرعی ہیں کہ اس میں اتباع رسالت نہیں ہے ۔لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ نیکی میں ایک اسوۂ حسنہ‘ایک کامل نمونہ‘ایک آئیڈیل ہمارے سامنے رہے جس میں نیکی کے تمام اعمال ایک توازن اور اعتدال میں سموئے ہوئے مل جائیں۔نیکی کے ہر عمل کے بارے میں اس کی طرف رجوع کریں کہ یہ عمل اس معیارِکامل میں کتنا ہے اور دوسرے اعمال کے ساتھ اس کا تناسب کیا ہے۔اس طرح یہ بات واضح ہو گئی کہ نیکی کرنے والے کے وجود میں ایمانیات ثلاثہ کا پایا جانا بنیادی شرط ہے۔نیکی کا یہ روحانی و ایمانی معیار جب کسی انسان میں پایا جائے تو اس آیت کی رُو سے اس کے نتیجے میں اس انسان کی شخصیت‘اس کی سیرت و کردار‘اس کے معاملات‘اس کے اعمال اور اس کے رویے میں کن کیفیات کا ظہور ہوتا ہے جن کو قرآنِ حکیم نیکی کے عملی مظاہر قرار دیتا ہے ۔

تیسرا حصہ : نیکی کا مکمل تعارف اور اس کے چار درجات: انسانی ہمدردی یا خدمت خلق، عبادات، ایفائے عہد، صبر

نیکی کا سب سے اعلی درجہ : خدمت خلق اور انسانی ہمدردی

وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ

اور اﷲ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں اور غلاموں کو آزادکرانے میں خرچ کریں

 ایمانیات کے بعد نیکی کا جو مظہرِاوّل بیان ہو رہا ہے وہ’’خدمتِ خلق‘‘ اور ’’انسانی ہمدردی‘‘ ہے۔ جبکہ عمومی تصور عبادات کا ہے یعنی نماز ، روزہ ،زکوۃ و حج وغیرہ لیکن اس آیت میں عبادات کو دوسرے درجے پر رکھا گیا ہے۔ اور اس سے پہلے اپنے مال کو بنی نوع انسان کی تکالیف کو رفع کرنے‘ان کی احتیاجات کو دُور کرنے اور ان کی مصیبتوں سے انہیں نجات دلانے میں صرف کرنے کا ذکر نہایت اہتمام کے ساتھ ہورہا ہے۔

یہ معاملہ بہت اہم ہے اور واقعہ یہی ہے کہ جہاں کہیں نیکی کی حقیقت کی بحث ہو گی وہاں ترتیب وہ ہو گی جو اِس آیت میں ہے‘لیکن جہاں ارکانِ اسلام کی گفتگو ہو گی وہاں ترتیب وہ رہے گی جو مشہور حدیث میں بیان ہوئی ہے:

بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (صحیح البخاری:8،صحیح مسلم:16)

’’اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر تعمیر کی گئی ہے: کلمۂ شہادت‘ نماز‘ زکو ٰۃ ‘ حج اورصوم ِ رمضان ‘‘ ۔

لیکن یہاں چونکہ بحث نیکی کی حقیقت سے ہے لہذا یہاں اس کی مناسبت سے ترتیب قائم کی گئی ہے کہ انسان کے عملی رویّے میں نیکی کا ظہورِ اوّل’’انسانی ہمدردی‘‘ کو قرار دیا گیا ہے.قرآن مجید اس بات پر جس قدر زور دیتا ہے اس کا اندازہ اس آیت سے بھی لگا سکتے ہیں :

 لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ

’’تم نیکی کے مقام تک پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ تم خرچ نہ کرو (اللہ کی راہ میں) وہ چیز جو تمہیں محبوب ہے‘‘۔(آل عمران 92)

یعنی وہ چیز نہیں جو دل سے اتر گئی ہوبلکہ وہ چیز جو محبوب ہواور تم اللہ کی راہ میں اللہ کی مخلوق کی تکالیف رفع کرنے میں خرچ نہیں کر سکتے تو یہ بات جان لو کہ نیکی میں سے تم کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔اس آیت کے الفاظ سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے ‘لیکن اپنی اہمیت کے اعتبار سےیہی بات قرآن مجید میں بعض دوسرے مقامات پر بھی مختلف اسالیب سے بیان ہوئی ہے۔

 سورۃ اللّیل میں ارشادِ الٰہی ہے :

اِنَّ سَعیَکُم لَشَتّٰی

’’لوگو!یقینا تمہاری سعی وجہد کے نتائج بڑے مختلف اور متضاد ہوتے ہیں‘‘۔(اللیل : 4)

پھر اللہ ربّ العزت نے دو مختلف نتیجوں کا ذکر فرمایا:

فَاَمَّا مَن اَعطٰی وَ اتَّقٰی وَ صَدَّقَ بِالحُسنٰی فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلیُسرٰی

’’سوجس نے سخاوت اختیار کی‘اور برائی سے بچا‘ اور بھلی بات کی تصدیق کی‘تواسے ہم رفتہ رفتہ بڑی آسانی کا اہل بنا دیں گے‘‘۔(اللیل : 5۔7)

گویا ایک راستہ وہ ہے جس کا پہلا قدم ہے’’اعطاء‘‘یہ راستہ آسانی کی طرف لے جانے والاہے.اس کے برعکس راستہ وہ ہے جس کا پہلا قدم بخل ہے.فرمایا گیا:

وَاَمَّا مَن بَخِلَ وَاستَغنٰی وَکَذَّبَ بِالحُسنٰی فَسَنُیَسِّرُہٗ  لِلعُسرٰی

’’اور جس نے بخل سے کام لیا اور لاپروائی اختیار کی ‘اور بھلی بات کی تکذیب کی‘ تواسے ہم رفتہ رفتہ کڑی سزا کا مستوجب بنا دیں گے‘‘(اللیل : 8۔10) گویا یہ راستہ تنگی اور سختی کا راستہ ہے۔

اسی طرح سورۃ البلد میں فرمایا کہ ہم نے انسان پر کیا کیا اور کیسے کیسے احسانات کیے:

اَلَم نَجعَل لَّہٗ عَینَینِ وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَینِ وَ ہَدَینٰہُ النَّجدَینِ

’’کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں نہیں دیں؟اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟اور اس کو دونوں راہیں(بِراور فجور) سمجھا نہیں دیں؟‘‘

لیکن یہ انسان بڑا کم ہمت اور ناشکرا نکلا۔ فرمایا:

فَلَا اقتَحَمَ العَقَبَۃَ وَ مَا اَدرٰىکَ مَا العَقَبَۃُ فَکُّ رَقَبَۃٍ اَو اِطعٰمٌ فِی یَومٍ ذِی مَسغَبَۃٍ یَّتِیمًا ذَا مَقرَبَۃٍ اَو مِسکِینًا ذَا مَترَبَۃٍ

’’پس وہ گھاٹی عبور نہ کر سکا.اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کون سی ہے؟ کسی گردن کو چھڑا دینا‘یاکسی یتیم کو قحط کے ایام میں جب کہ اپنے لالے پڑے ہوئے ہوں‘ کھانا کھلا دینا جبکہ وہ قرابت دار بھی ہو‘یا کسی مسکین کو کھانا کھلا دینا جب کہ وہ خاک میں رل رہا ہو‘‘۔

یہ ہے مشکل وادی جس کا تعلق انسانی ہمدردی اور خدمت خلق سے ہے .اگر انسان اس کو عبور کر لے اور پھر شعوری طور پر ایمان لائے تو وہ نورٌ علٰی نُور والا ایمان ہو گا.چنانچہ اسی سورۃ میں آگے فرمایا:

ثمَّ کَانَ مِنَ الَّذِینَ اٰمَنُوا وَ تَوَاصَوا بِالصَّبرِ وَ تَوَاصَوا بِالمَرحَمَۃِ

’’پھروہ شامل ہوا اُن لوگوں میں جو ایمان لائے‘اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور باہمی ہمدردی کی پُرزورتاکید کی۔

اس حوالے سے ایک حدیث اہمیت کی حامل ہے ضرور اپنی نظروں کےسامنے رکھنی چاہیے:

إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي، يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ، فَلَمْ تَسْقِنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي

’’قیامت کے دن اللہ عزوجل فرمائے گا: آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہ کی۔ وہ کہے گا: میرے رب! میں کیسے تیری عیادت کرتا جبکہ تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ تمہیں معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ وہ شخص کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جبکہ تو خود ہی سارے جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا: تو نے اسے کھانا نہ کھلایا اگر تو اس کو کھلا دیتا تو تمہیں وہ (کھانا) میرے پاس مل جاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا، تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ شخص کہے گا: میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جبکہ تو خود ہی سارے جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے اسے پانی نہ پلایا، اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو (آج) اس کو میرے پاس پا لیتا۔”(صحيح مسلم:2569)

اب اس کے بعد ان الفاظ پر ایک مرتبہ پھر غور کیجیے:

ذَوِی القُربٰی وَ الیَتٰمٰی وَ المَسٰکِینَ وَ ابنَ السَّبِیلِ وَ السَّآئِلِینَ وَ فِی الرِّقَابِ

ان میں ایک فطری ترتیب ہے اور یہ ترتیب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے حوالے سے ہمارے بہت سارے سوالات کا جواب ہے:

٭آپ کے قرابت دار جو مشکل اور تکلیف میں ہوں سب سے پہلے آپ کے حسن سلوک کے مستحق وہ ہیں اس کی مزید وضاحت بھی ایک دوسری آیت میں ہے کہ سب سے پہلے والدین اور پھر دیگر رشتہ دار وغیرھم

٭پھر وہ یتیم جو آپ کے قریب کے معاشرے میں بے سہارا ہیں

٭پھر مسکین جو اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو پا رہے ہوں‘خود کفیل نہ ہوں

٭پھر وہ شخص جو حالتِ سفر میں ہے کہ ممکن ہے کہ وہ کسی وجہ سے سفر میں محتاج ہو جائے

٭پھر وہ شخص جو دستِ سوال دراز کر رہا ہے.آپ کو کیا معلوم کہ کون سی ضرورت اسے لاحق ہوئی ہے جس کے باعث وہ اپنی خودی اور عزتِ نفس کو ہتھیلی پر رکھ کر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے۔

٭پھر وہ جس کی گردن کہیں پھنس گئی ہوپچھلے زمانے میں یہ غلامی کا معاملہ تھا اور اس وقت مقروض اس کا مصداق ہوں گے ۔

یہ خیال رہے کہ یہاں صدقاتِ نافلہ کا ذکر ہے زکوۃ کا نہیں وہ صدقۂ واجبہ ہے جس کا حکم آگے آرہا ہے‘اس کی مدّات سورۃ التوبۃ میں بیان ہوئی ہیں.فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہاروایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم سے زکوٰۃ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

اِنَّ فِی الْمَالِ حَقًّا سِوَی الزَّکوٰۃ

’’ لوگو!یہ مغالطہ نہ ہوکہ مال میں صرف زکو ٰۃ کی ادائیگی ہے.یہ تو فرض ہے‘اس کے علاوہ بھی تمہارے‘مال میں(حاجت مندوںکا) حق ہے.پھر آپ نے اس کی توثیق کے لیے یہی آیت پڑھی۔ایک مزید بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ انفاقِ مال کی جن مدّات کا یہاں ذکر ہوا ہے‘اس سے اصل مقصود انسانی ہمدردی ہے اور یہاں خرچ کی مقدار کا تعین نہیں کیا گیا بلکہ خرچ کرنے والے کی جیب اور استطاعت پر چھوڑ دیا گیا۔اقرباء کی ضرورت پوری کرنے کے بعد اگر کوئی مزید خرچ کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو وہ جتنا بھی اس دائرے میں آگے بڑھے گا اتنا ہی وہ اپنے لیے نیکی کا مزید ذخیرہ جمع کرتا چلا جائے گا۔

نیکی کا دوسرا درجہ : عبادات

وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ

اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں

نماز بدنی عبادت ہے اور زکوۃ مالی عبادت ہے گویا کہ تمام بدنی و مالی عبادات کو بیان کر دیا گیا ۔ یعنی ان دونوں کا نیکی سے گہرا ربط و تعلق ہے.اب تک دو باتیں سامنے آئی ہیں‘ایک نیکی کی روحانی کیفیت جس کا تعلق ایمانیات ثلاثہ سے ہے اور اس کی ظاہری کیفیات میں سرفہرست خدمتِ خلق ہے۔نماز و زکو ٰۃ کا ذکر ہر جگہ لازم و ملزوم کے تعلق کے طور پر آیا ہے۔نماز گو کہ بدنی عبادت ہے لیکن اس کے مختلف پہلو ہیں مثلا سماجی پہلو جس میں نمازی ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں ، اخلاقی پہلو جس میں ایک نمازی دوران نماز دوسرے نمازی کو تکلیف نہیں دیتا اور اسی بات کی کوشش کرتا ہے کہ نماز سے باہر بھی وہ دوسرے لوگوں کواپنے ہاتھ اور زبان سے محفوظ رکھے وغیرہ ۔

زکو ٰۃ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دل سے مال کا طمع دُور کرتی ہے اور بنی نوعِ انسان کے لیے دل کو کشادہ کرتی ہے۔ گویا زکو ٰۃ وہ چیز ہے جو صدقاتِ نافلہ کے لیے starter یعنی محرک کا کام انجام دیتی ہے۔زکو ٰۃ وہ چیز ہے جو فرض کر دی گئی ہےاسے تو نصاب کے مطابق ہر سال ہر حال میں ادا کرناہی ہے۔لہذا انفاق کی راہ پر چلانے کے لیے ابتدائی محرک زکوٰۃ سے فراہم ہوتا ہے.دل پر مال کی محبت کی جو مہر لگی ہوئی ہے اسے توڑنے والی چیز زکوٰۃ ہےاب جبکہ ایک کام کا آغاز ہو گیا تو پھرصدقاتِ نافلہ کے لیے بھی بند مٹھی کھل جائے گی۔صدقاتِ نافلہ کی کوئی حد نہیں ہے.اس کے بارے میں قرآن مجید میں وہ آیت بھی آتی ہے کہ:

وَ یَسَٔلُونَکَ مَا ذَا یُنفِقُونَ (البقرۃ:219)

’’اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں‘‘. یعنی اس پر جو اتنا زور دیا جا رہا ہے تو اس کی آخری حد کیا ہے؟ فرمایا: قُلِ العَفوَ۔ کہہ دیجیے کہ جو بھی تمہاری ضرورت سے زائد ہے .اس موقع پر یہ بات واضح طور پر سامنے رہنی چاہیے کہ یہ اخلاقی سطح پر ترغیب و تشویق ہے۔

نیکی کا تیسرا درجہ : معاملاتِ زندگی میں ایفائے عہد

وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا

اور جب کوئی عہد کر لیں تو اسے پورا کرنے کے عادی ہوں

ہمارے تمام معاملات معاہدات پر مبنی ہوتے ہیں خواہ سیاسی ہوں یا تجارتی یا پھر معاشرتی ۔اس کی ایک واضح مثال شادی ہے جسے ایک سماجی معاہدہ قرار دیا گیا ہے. لہذا عبادات کے بعد معاملات کے ضمن میں سرفہرست ایفائے عہد ہے۔دینی اور محاسبۂ اُخروی کے اعتبار سے اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگائیے کہ سورۃ الاسراء میں امر کے صیغہ میں فرمایا گیا:

وَ اَوفُوا بِالعَہدِ اِنَّ العَہدَ کَانَ مَسُٔولًا

 ’’اور پورا کرو عہد کو‘بے شک عہد کی پوچھ گچھ ہو گی۔

ہماری سیاست کا ایک عمومی تعارف ہی یہ ہے کہ وہ سیاست نہیں جس میں ایفائے عہد پایا جائے ، وعدہ خلافی، ایک جماعت سے دوسری جماعت کو اختیار کرنا صرف اور صرف مالی اور ذاتی مفادات کی خاطر تو یہ ایفائے عہد کی بدترین مثالیں ہیں جو ہمارے معاشرے کی سیاست میں پائی جاتی ہیں بہت کم اور نادر و نایاب ایسے سیاستدان ملیں گے جو شروع تا آخر ایک ہی جماعت کے ساتھ ہوں یا سیاسی ایفائے عہد کو نبھا رہے ہوں گے ۔ اسی طرح تجارت میں ایفائے عہد کی مخالفتوں کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں جائداد کی تقسیم ورثاء میں نہ کرنا، مزدور کو اس کا حق نہ ادا کرنا،بنکوں سے قرض لے کر معاف کروا لینا، تجارتی معاہدات میں شرکاء کا ایک دوسرے کے ساتھ ایفائے عہد نہ کرنا ، اس کی واضح مثالیں ہیں ۔

نیکی کا چوتھا درجہ : صبر

وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ

اور تنگی اور تکلیف میں، نیز جنگ کے وقت، صبر واستقلال کے خوگر ہوں

اب آخری بات فرمائی گئی :

وَ الصّٰبِرِینَ فِی البَاسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِینَ البَاسِ۔

یہاں ’’الصَّابِرُوْنَ‘‘ نہیں کہا ‘بلکہ ’’ الصّٰبِرِینَ‘‘ فرمایا جس کی وجہ سے ترجمہ کیاگیا ہے :’’خاص طور پر ذکر ہے صبر کرنے والوں کا‘‘.یہ صبر کس کس کام میں مطلوب ہے‘اس کا بیان آگے آ گیا کہ فقروفاقہ‘ تنگی اور جسمانی یا ذہنی اذیت اور کوفت کے مواقع پر‘ یا پھر میدانِ جنگ میں۔اس بات سے ایک بات مزید واضح ہو نی چاہیے راہبانہ تصورِ نیکی میں اور قرآن مجید کے اس تصورِ نیکی میں جو اِس آیت میں بیان ہورہا ہے.راہبانہ تصورِ نیکی میں نیک لوگ معاشرہ اور میدان سے فراراختیار کر کے تنہائی اور خلوت اختیار کر لیتے ہیں اور اپنے دینی یا دنیاوی مقاصد کے حصول کے لیے وظائف اور چلے کاٹتے ہیں۔ اسلام میں اس طرح کے خود ساختہ اور تصوف آمیز چلے اور وظائف کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو عین معاشرے میں رکھ کر نیکی کی تلقین کرتا ہے.پھر بدی کے ساتھ پنجہ آزمائی‘ اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے ساتھ مقابلہ کرنے کا سبق اور تلقین ہے۔ نیکی کا دنیا میں بول بالا کرنے کے لیے مصائب جھیلنا‘ فقرو فاقہ برداشت کرنا‘یہاں تک کہ جان کی بازی کھیل جانا اسلام کے نزدیک نیکی کی معراج ہے۔

وَ الصّٰبِرِینَ فِی البَاسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِینَ البَاسِ

میں ضمناً وہ بات بھی سامنے آگئی جو اس آیت کے آغاز میں بیان کی گئی تھی کہ وہ لوگ جن کے اذہان و قلوب میں ایمان کی روشنی ہے‘جو خادم ِ خلق ہیں‘جن کی کیفیت یہ ہے کہ:جو لوگ نماز اور زکو ٰۃپر کاربند ہیں‘جو ایفائے عہد پر کاربند ہیں۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ

 ایسے لوگ ہیں جو سچے (کہلانے کے مستحق) ہیں اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں

اس آیت کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ المُتَّقُونَ

’’یہی ہیں وہ لوگ جو حقیقتاً سچے اور راست گو و راست باز ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو واقعتا متقی ہیں۔ یعنی اپنے دعوائے ایمان میں سچے صرف وہ لوگ ہیں جن کے قلوب میں حقیقی ایمان جاگزیں ہو اور جن کے اعمال میں نیکی کے ان اوصاف کا ظہور ہورہا ہو جن کا اس آیت میں بیان ہوا‘اور صرف یہی لوگ حقیقی متقی کہلانے کے مستحق ہیں۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے