انسانی زندگی میں پیدائش اور موت دونوں ہی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ پیدائش کے مقابلے میں موت کے اثرات کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔

موت کے بعد کا صدمہ اور رنج انسان کے جذبات کو بےقابو کردیتاہے۔آزمائش کے اس موقع پر بھی شیطان انسان کے دین وایمان پر حملہ آور ہوتاہے۔مسنون طریقہ سے ہٹا کر خلاف سنت کاموں پر لگادیتاہے۔

ہمارے معاشرے کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو محض جہالت اور غلط راہنمائی کی وجہ سے شرکیہ افعال کر رہی ہے ، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو معاشرے کے رسم ورواج ، آباء واجداد کی اندھی تقلید اور خاندانی عادات میں جکڑے ہوتے ہیں۔

نبی کریم نے جس طرح زندگی کے ہر پہلو سے متعلقہ مسائل میں اپنی امت کو شریعت کے احکامات بتاکر راہنمائی فرمائی ہے اسی طرح موت اور اس سے متعلقہ احکامات بھی صادر فرماتے ہوئے میت کے ساتھ خیرخواہی کا حکم فرمایا۔ مرنے کے بعد تجہیز وتکفین تک کے لیے کیے جانے والے تمام اعمال بتلا دیئے ہیں۔

قبل از اسلام رواج تھا کہ میت کو عورتوں میں رکھا جاتا تھا اور عورتیں اس پر بین کرتی تھیں۔اسلام نے بین کی ممانعت کر دی اگر آج کوئی بین کرتاہے تو وہ قبل ازاسلام زمانۂ جاہلیت کا عمل ہے۔

رسول اللہ کا فرمان ہے :

إِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ

’’میت کو اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے(بین) کی وجہ سے عذاب دیاجاتاہے۔‘‘(بخاری:3978)

میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے اس وقت عذاب ہوگا جب اس نے اپنے اہل وعیال کے لیے نوحہ پسند کیا ہو یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس پر نوحہ وماتم کریں گے، انہیں اس کام سے باز رہنے کی وصیت نہ کی ہو کیونکہ ایام جاہلیت میں لوگ اپنے مرنے پر نوحہ کرنے کی وصیت کیا کرتے تھے۔ اسلام نے نوحہ سے منع فرمایا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا نبی کریم نے فرمایا :

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الجَاهِلِيَّةِ (صحیح البخاری:1294)

’’جوشخص اپنے رخسار پیٹے اور گریبان پھاڑے، نیز زمانہ جاہلیت کی طرح چیخ وپکار کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو نوحہ سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہیے اور اگر کوئی بہن، بھائی غلطی کر بیٹھے تو دوسروں کو چاہیے کہ فوراً سے منع کر دیں تاکہ رسول اللہ کی بددعا کے مصداق نہ بنیں۔

کسی کی موت پر اس کے عزیز واقارب کا رنجیدہ اور غمگین ہونا اور اس کے نتیجہ میں آنسؤوں کا ٹپک پڑنا اور بے اختیار رونا آجانا بالکل فطری بات ہے۔ لیکن یادرکھیں زبان سے برے کلمات نکالنا منع ہے اور اسی طرح اپنے عمل سے کوئی ایسی حرکت کرنا جو صبر کے خلاف ہو یہ بھی سخت منع ہے۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا :

دَخَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي سَيْفٍ القَيْنِ، وَكَانَ ظِئْرًا لِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمَ، فَقَبَّلَهُ، وَشَمَّهُ، ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِبْرَاهِيمُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ، فَجَعَلَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَذْرِفَانِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ عَوْفٍ إِنَّهَا رَحْمَةٌ ، ثُمَّ أَتْبَعَهَا بِأُخْرَى، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ العَيْنَ تَدْمَعُ، وَالقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلاَ نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ

’’ ہم رسول اللہ کے ساتھ ابو سیف لوہار رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے جو سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کا رضاعی باپ تھا۔رسول اللہ نے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کو لے کر بوسہ دیا اور اس کے منہ کے اوپر اپنا منہ رکھا اس کے بعد ہم دوبارہ ابو سیف رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے تو سیدنا ابراہیم رضی اللہ حالت نزع میں تھے۔رسول اللہ  کی آنکھیں اشک بار ہوئیں۔ سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’ اے اللہ کے رسول آپ بھی روتے ہیں؟ نبی کریم نے فرمایا: اے ابن عوف! یہ تو ایک رحمت ہے‘‘، پھر نبی کریم نے روتے ہوئے فرمایا : ’’ آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے لیکن ہم کو زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا مالک راضی ہو، اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے یقیناً غمگین ہیں۔‘‘(بخاری : 1303)

بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ تکلیف اور دکھ کے وقت خاص طور پر غم اور موت کے وقت اپنے چہرے پر طمانچہ مارتے ہیں، دیوار پر سردےمارتے ہیں، گریبان پھاڑتے ہیں، نوحہ وماتم اور بین کرکے روتے ہیں یہ سب عمل خلاف سنت ہیں۔

بعض جگہ عورتیں فرط غم سے اپنے نامحرم عزیزوں مثلاً دیور، جیٹھ،چچازاد،تایازاد،خالہ زاد وغیرہ سے لپٹ لپٹ کر روتی ہیں ، یہ عمل بھی شریعت کے خلاف ہیں۔

ہماری ذمہ داری ہے کہ مرنے والے کے لواحقین کو صبر کی تلقین کریں اور میت کی سنت طریقے سے جلد ازجلد تجہیز وتکفین کا انتظام کریں۔

سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : 

أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ، فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا، وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ

’’ جنازے کو جلدی لے کر چلو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف لے جارہے ہو اور اگر بُرا ہے تو بری چیز کو اپنی گردنوں سے اُتار کر سبکدوش ہوجاؤگے۔(بخاری : 1315)

ہمارے معاشرے میں میت کو غسل وکفن دینے کے بعد میت کی چار پائی عورتوں کے حلقے میں رکھ دی جاتی ہے، ہر آنے والی عورت میت کا چہرہ ضرور دیکھتی ہے، چاہیے میت مرد کی ہو ، نامحرم کی ہو یا عورت کی۔ یہ سلسلہ میت کے اُٹھانے تک چلتا ہے ، ہوناتو یہ چاہیے کہ گھر کی عورتیں دوسری عورتوں کو نامحرم کا چہرہ دیکھنے سے روکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے :

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ

’’ مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘(النور:31)

اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے جس طرح مردوں کے لیے غیر عورتوں کو دیکھنا ممنوع ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی غیرمردوں کو دیکھنا مطلقاً ممنوع ہے۔(احسن البیان)

عرب علماء کے فتاویٰ کے مطابق کسی مرد یا عورت کے لیے غیر محرم کے چہرے کو بلاوجہ دیکھنا جائز نہیں خواہ زندگی میں ہو یا بعد از وفات۔(فتاوی الشبکۃ الإسلامیۃ)

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 

 وَذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ 

’’ اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان داروں کو نفع دے گی۔‘‘(الذاریات:55)

آج کے مسلمان کو قرآن سے نصیحت کیوں نہیں ملتی؟ قرآن کی بات دل میں کیوں نہیں اُترتی؟

نصیحت مؤمنین کو فائدہ دیتی ہے جن کے دل میں آخرت کی فکر ہو ایمان کی خاطر عمل کرنے کا ارادہ ہو۔

اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ نصیحت ضرور فائدہ دیتی ہے ، دلوں پر اَثر کرتی ہے ، بات دراصل یہ ہے کہ پردہ کی بات تو آج کے مسلمان کے دل میں اُترتی ہی نہیں۔

قرآن کی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مطابق عمل ہونا چاہیے ۔ چچازاد،پھوپھی زاد سے پردہ، ماموں زاد، خالہ زاد، دیور، نندوئی،جیٹھ، بہنوئی سے پردہ زندگی میں بھی ہے اور مرنے کے بعد بھی ہے۔

میت کو گھر سے رخصت کرنے کے موقع پر بعض عورتیں بلند آواز سے رونے اور بین کرنے لگتی ہیںیاجنازہ کے ساتھ گھر سے باہر نکل آتی ہیں اور پردہ سے بھی غافل ہوجاتی ہیں ، ان سب اعمال سے خود بھی بچنا اور دوسروں کو بھی بچانا ضروری ہے۔

اگر میت کا کوئی قریبی رشتہ دار مثلاً : بیٹا،بیٹی یا بھائی وغیرہ جنازے میں شرکت نہ کرسکے تو سب کو میت کے اس جہاں فانی سے رخصت ہونے سے زیادہ اس بات کا افسوس ہوتاہے کہ فلاں اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔

اس کے بعد میت کو مرد حضرات کے درمیان لے جایاجاتاہےاور تمام مرد حضرات بھی اس کےچہرہ کا دیدار کرتے ہیں یہ سلسلہ دیر تک چلتاہے اس طرح نمازِ جنازہ کے بعد بھی لوگ میت کا چہرہ ضرور دیکھتے ہیں۔

اکثر یہ دیکھنے میں آتاہے کہ جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتاہے تو پھر قبر کے اندر میت کے چہرے سے کفن ہٹادیتے ہیں قبر کے باہر چاروں طرف لوگ میت کا دیدار کرتے ہیں۔ یہ عمل بھی وقت کا ضیاع ہے۔

یہ تمام اعمال تدفین میںتاخیر کا سبب ہیں جبکہ اسلام ہمیں میت کو جلد ازجلد سپرد خاک کا حکم دیتاہے۔ یہ قطعاً مناسب نہیں کہ کسی مسلمان میت کو دیر تک گھر والوں کے درمیان لوگوں کو چہرہ دکھانے کے لیے رکھا جاتاہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یقیناً وہ لوگ خوش نصیب اور سعادت مند ہیں جو نہ معاشرے کے رسم ورواج کو،روش عام کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کے طعن وتشنیع کی پروا کرتے ہیں بلکہ صرف اتباع رسول  کا اہتمام کرتے ہیں اور صحابہ اور سلف صالحین کے منہج کو اختیار کرتے ہیں ، اس لیے کہ مسلمانوں کو اسی بات کی ہدایت اور تلقین کی گئی ہے۔

رسول اللہ  نے فرمایا :

عَلَيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ (سنن ابن ماجہ:42)

’’ میں تم کو وصیت کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور(اپنے حکمران کی)بات سنو اور مانو چاہے وہ حبشی غلام ہی ہو(بشرطیکہ اس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو) بلاشبہ جو میرے بعد زندہ رہے گا ، وہ بہت اختلاف دیکھے گا اس لیے تم میرے طریقے اورمیرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنا، اس کو مضبوطی سے تھامنا اور دانتوں سے اس کو پکڑنا اور (دین میں) نئے نئے کاموں سے بچنا اس لیے کہ(دین میں) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : 

وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا 

’’ اور جس شخص کے سامنے ہدایت واضح ہوجائے اور اس کے بعد وہ رسول کی مخالف کرے اورمسلمانوں(صحابہ کرام) کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ جانا چاہے اور ہم انہیں جہنم میں ڈالیں گے اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔(النساء : 115)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے حکم اور نبی کریم کی سنت کے مصداق اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے