صحابہ کرام  کی داڑھیاں

انبیاء و رسل oکے بعد سب سے برگزیدہ ہستیاں اُن پر براہ راست ایمان لانے والے ہیں ،جنہیں ہم اصطلاح میں” صحابہ “کہتے ہیں،انکی تقدیس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ایمان لانے کے بعد وہ ہر طرح کے حالات میں انبیاء و رسل oکے نقش قدم پر چلتے رہے،حتیٰ کہ اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔رضوان اللہ علیھم اجمعین

اور جتنے بھی انبیاء و رسل oگزرے ہیں ان میں سب سے افضل محمد رسول اللہ ہیں،لہذا آپ کے صحابہ بھی دیگر انبیاء و رسل oکے صحابہ سے افضل ہوئے،اور سلف صالحین کے متفقہ عقیدے کے مطابق اصحاب محمد میں سب سے افضل سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ہیں،پھر سیدنا عثمان الغنی رضی اللہ عنہ،پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں،ان کے بعد دیگر صحابہ کرام ہیں،یہ چار وہ مقدس شخصیات ہیں جنکے متعلق مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہی چار خلفاء راشدین مہدیین ہیں،کہ رسول اللہ نےاپنے بعد انکی اتباع کو امت پرواجب قرار دیا،چنانچہ سیدنا عرباض بن الساریہ رضی اللہ عنہ نے کہا:

صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ذَاتَ يَوْمٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ فَقَالَ: أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللهِ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ .

ایک روز ہمیں رسول نے نماز پڑھائی ،پھر ہماری جانب متوجہ ہوکر ہمیں ایسا بلیغ خطبہ ارشاد فرمایاکہ اسے سن کر آنکھیں آنسوؤں سے بہہ پڑیں، اور دل دہل گئے، اور ایک شخص نے کہا کہ: اللہ کے رسول! گویا یہ کسی الوداع کہنے والے کی آخری کلمات ہوں،پس آپ ہم سے کس بات کا عہد لیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:

 میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے اور حاکم کی بات سنکر اطاعت کرنے کی وصیت (تاکیدی حکم)کرتاہوں، اگرچہ وہ حاکم کوئی حبشی غلام ہی ہو، کیونکہ میرے بعد تم میں جو زندہ رہیں گے وہ بہت سے اختلافات دیکھیں گے، پس تم میری سنت اور میرے بعد خلفاء راشدین مہدیین کے طریقے کو لازم پکڑلینا، اسکو مضبوط تھام لینا،اور اسے داڑھوں سے کس لینا، اور دین میں نت نئے کام نکالنے سے بچنا، کیونکہ ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(مسند احمد:17145،صحیح ابن حبان:05،سنن دارمی:96،سنن ترمذی:2676،سنن ابن ماجہ:42،سنن ابی داؤد: 4607، البدع لابن وضاح:73،السنۃ للمروزی:69،وجماعۃ)

ژاس روایت میں کس قدر صراحت ہے کہ رسول اللہ کے بعد امت میں اختلافات کا پیدا ہوجانا ناگذیر ہے،اور ان اختلافات سے نمٹنے کا راستہ ”سنت رسول “اور پھر”سنت خلفاء راشدین“ہے۔

ژاس مسئلے میں رسول اللہ نے بالخصوص خلفاء راشدین کو ہی خاص کیا،کیونکہ وہ سب سے زیادہ علم والے اور سب سے بڑھ کر اطاعت کرنے والے اور امت کے خیر خواہ اور دین اسلام کے داعی و محافظ تھے،

انکی زندگیاں اور انکے زمانہ خلافت میں حاصل کی

جانی والی اسلامی فتوحات ،اور عالَم اسلام کو درپیش مشکلات سے نکالنے میں انکی کامیاب تدابیراسکی عمدہ دلیل ہیں۔

ژاور داڑھی کامسئلہ تو اتنا عام ہے کہ اسکا تعلق ہر مرد سے ہے(الّا ما شاء اللہ)،انسان کے ظاہری حلیئے میں سب سے پہلے چہرہ دیکھا جاتا ہے اور داڑھی چہرے کا حصہ ہے،لہذا اس مسئلے میں ابہام رہ جانا اور داڑھی کےتفصیلی احکام کابیان نہ ہونا ناممکن ہے،اور حقیقت بھی یہی ہے،کہ اس مسئلے میں مکمل تفصیلات موجود ہیں۔

ژ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صفت یہ تھی کہ وہ اپنے اعضاء جسمانی کے بال رکھنے اور مونڈھنے اور پست کرنےکے سلسلے میں کوئی بھی سوال کئے بنا محض رسول اللہ کی اتباع کو کافی سمجھتے تھے ،چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول اللہ نے اپنے سر مبارک کے بال منڈھوائے تو آپکی دیکھا دیکھی صحابہ کرام نے بھی بال منڈھوالئےجبکہ چند صحابہ نے بال چھوٹے کرنے پر اکتفاء کیا،تو رسول اللہ نے بال منڈھوانے والوں کو تین مرتبہ دعا دی ،جبکہ بال چھوٹے کرنے والوں کو ایک مرتبہ دعا دی وہ بھی بار بار کے مطالبے پر تو صحابہ کرام نےاستفسار کیا، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:

قَالُوا: فَمَا بَالُ الْمُحَلِّقِينَ، يَا رَسُولَ اللهِ ظَاهَرْتَ لَهُمُ الرَّحْمَةَ؟ قَالَ: ” لَمْ يَشُكُّوا ” قَالَ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! آپ نے انکے لئے رحمت کی دعا کی ؟ آپ نے فرمایا:کیونکہ انہوں نے شک نہ کیا۔ابن عباس نے کہا:پھر رسول اللہ پلٹ دیئے۔(مسند احمد:3311،سنن ابن ماجہ:3045، بیہقی کبریٰ:10077،علامہ البانی نے اسے حسن کہا،ارواء الغلیل ،تحت حدیث ، رقم:1084)

یاد رہے کہ چند صحابہ کو چھوڑ کر بقیہ تمام صحابہ نے اپنے بال منڈھوادیئےتھے،چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:

حَلَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَلَقَ طَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَقَصَّرَ بَعْضُهُمْ.

رسول اللہ سر کے بال منڈھوائے اورجماعت صحابہ نے بھی بال منڈھوائے،اور چند صحابہ نے بال ترشوائے۔(صحیح مسلم،کتاب الحج،باب تفضیل؛ الحلق علی التقصیر و جواز التقصیر،یہ صلح حدیبیہ کا واقعہ ہےجیسا کہ علامہ البانی نے کہا: 1084، نیز ملاحظہ ہو :مسند احمد :4897)

اہم نکتہ:

یہ جملہ کہ”کیونکہ انہوں نے شک نہیں کیا“نہایت قابل غور ہے،دراصل یہ صحابہ کرام کے عمومی منہج و عمل کی عکاسی کرتا ہے،کہ انکے لئے بس یہی کافی ہوتا کہ رسول اللہ نے ایسا کیا ہے،یا ایسا فرمایا ہے،اسکے بعد وہ کوئی سوال نہ کرتے تھے،بس مانتے اورعمل کرتے تھے،خواہ اس عمل کی قیمت انہیں اپنی مرغوبات و مشتہیات ،حتی کہ جان و مال کی قربانی سے ہی چکانی پڑے،انکے اسی طرز عمل پر اللہ تعالیٰ نے بھی انکے متعلق یہی فرمایا کہ:

 إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (الحجرات:15)

حقیقت میں مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا، اور اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ ہی سچے مومن ہیں۔

اہم نکات:

 زگذشتہ سطور میں ذکر کردہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس طرز عمل کو سامنے رکھیں اور ہمارے اس مضمون میں بیان کردہ رسول اللہ کی داڑھی مبارک کی تفصیلات کو ملاحظہ کریں تو کوئی بھلا مانس تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کسی صحابی نے اپنی داڑھی کاٹی یا تراشی ہوگی یا خط بنوایا ہوگا،یا داڑھی کے سفید بال نوچیںہوں گے۔

ُزیہ کیسے ممکن ہے جبکہ وہ رسول اللہ  کی ہر ادا کے شیدائی تو تھے ہی ، یہ داڑھی انکی روایات کا حصہ بھی تھی جسے وہ ”ملت ابراہیم“قرار دیتے تھے،اور رسول اللہ کے طرز عمل نے ان کی اس روایت پرمہر تصدیق ثبت کردی ،جیسا کہ ہمارے اس مضمون میں رسول اللہ  کی داڑھی کے متعلق نہایت تفصیل سے بتایا جاچکا ہے،والحمدللہ

زمزید برآں یہ کہ رسول اللہ نے محض خود داڑھی رکھنے پر اکتفاء نہ کیا ،بلکہ اسے پورا رکھنے کا حکم بھی دیا جیسا کہ اس بارے میں متعدد روایات ہم ذکر کر آئے ہیں،اور حکم بصیغہ امر خطاب جب کسی قرینہ صارفہ سے خالی ہو تو وہ وجوب کے لئے آتا ہے۔

ُزمزید برآں یہ کہ رسول اللہ نے داڑھی کی تراش خراش سے منع کیا ، جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ رسول اللہ نے داڑھی کے سلسلے میں مشرکین مجوس اور اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا ،ملاحظہ ہواسی مضمون میں ہمارا دعویٰ کہ:”آپ کی داڑھی مبارک بڑی اوراعتدال کے ساتھ دراز تھی“کے تحت ”چوتھی دلیل“کی مکمل بحث۔

زاور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ مجوس و اہل کتاب کی مخالفت کا مطلب ہے کہ انکی مشابہت وموافقت نہیں کرنی،نہ داڑھی منڈھوانے کے سلسلے میں ،جیسا کہ مجوس کا رواج تھا،جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔(یہ حدیث گذر چکی ہے،ملاحظہ ہو:طبرانی اوسط:1622،1051، طبرانی کبیر:14140،بیہقی کبری:696، صحیح ابن حبان:5476،بیہقی شعب الایمان:6027، الصحیحۃ:2834)

 نہ ہی داڑھی کی تراش خراش اور بناؤ سنگھار کے سلسلے میں ، جیسا کہ اہل کتاب کا رواج تھا،کہ وہ نچلے ہونٹ کے نیچے سے داڑھی کو صاف کردیا کرتے تھےجیسا کہ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔(یہ حدیث گذر چکی ہے،ملاحظہ ہو:مسند احمد:22283،الصحیحۃ: 1245)

زاور مشرکین مجوس و اہل کتاب کی عدم موافقت بالخصوص داڑھی کے سلسلے میںکا تعلق ایمان کی سلامتی و صحت ہے،کیونکہ انکی موافقت و مشابہت اختیارکرنے والوں کے متعلق رسول اللہ نے اشاد فرمایا :

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہوگیا۔(سنن ابی داؤد:4031،ارواء الغلیل:12692384)

اور جس مشابہت سے منع کیا گیا ہے اس میں ظاہری حلیہ اور وضع قطع کی مشابہت بھی شامل ہے جیسا کہ تابعی ابو عمران عبدالملک بن حبیب الجونی رحمہ اللہ نے کہا کہ:

نَظَرَ أَنَسٌ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الجُمُعَةِ، فَرَأَى طَيَالِسَةً، فَقَالَ: كَأَنَّهُمُ السَّاعَةَ يَهُودُ خَيْبَرَ.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز (مسجد میں)لوگوں کو طیالسہ اوڑھےدیکھا تو کہا:گویا اس وقت یہ خیبر کے یہودی ہوں۔(صحیح بخاری:4208،مستدرک حاکم:7401،مسند البزار:7384)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا:

(فائدة) : الطيلسان: ضرب من الأوشحة يلبس على الكتف، أو يحيط بالبدن، خال عن التفصيل والخياطة. أو هو مايعرف في العامية المصرية ب (الشال) فارسي معرب: (تالسان) أو (تالشان) . “المعجم الوسيط”.

فائدہ:طیلسہ ایک قسم کی چادر ہے جو کندھوں پر ڈالی جاتی ہے ، یا پورے جسم پر ڈالی جاتی ہے،کٹائی اور سلائی سے خالی ہوتی ہے(یعنی اس میں صرف بنائی کا کام ہوتا ہے)،یا مصر میں عام طور پر جسے ”شال“ کہا جاتا ہے،یہ لفظ فارسی سے عربی میں آیا ہے،فارسی میں ”تالسان“ یا”تالشان“ہے۔(المعجم الوسیط)(سلسلہ ضعیفہ:14/24)

زاس قدر تاکیدات و تنبیہات کے ہوتے ہوئے یہ کیسےممکن ہے کہ صحابہ کرام میں داڑھی کی تراش خراش کا رواج ہو؟

زیہ حال عامۃ الصحابہ کا تھا توبالخصوص وہ صحابہ کرام جنکی سنت کو لازم پکڑنےکی رسول اللہ نے تاکید کی ہے یعنی خلفاء راشدین مہدیین انکی اتباع کا کیا حال ہوگا؟یقینن یہ اعزاز انہیںیونہی حاصل نہیں ہوا ،بلکہ انہوں نے خود کو اس کا اہل ثابت کیا۔

وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ

شبہ:

ان نکات کے باوجود ہمیں ایسی روایات مل جاتی ہیں جنکے مطابق بعض صحابہ کرام نے ایک مشت سے زائدداڑھی کو کاٹا ہے،جیسا کہ یہ روایات آگے آرہی ہیں ، اور اسی جگہ انکی تحقیق و درست معنیٰ بھی بیان کیا جائے گا ،ان شاء اللہ۔

ازالہ:

مختصراً کہا جائے تو :

ژیہ انکا اجتہاد تھا ، اور اجتہاد میں خطا و صواب دونوں احتمال پائے جاتے ہیں۔

ژنیز انکا یہ اجتہادخود انکی مرویات سے معارض بھی ہے ، اور جب راوی کا عمل اسکی روایت سے معارض ہو تو روایت کو ہی ترجیح حاصل ہوتی ہے۔

ژنیزانکا یہ اجتہاد ایک خاص موقع سے متعلق ہے یعنی حج کے موقع پر ،لہذا اسے عام نہیں لیا جاسکتا۔

یہ اور مزید تفصیل اپنے موقع پر آجائیگی،ان شاء اللہ ۔

پہلے خلیفہ راشد سیدنا ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ کی داڑھی:

پہلی روایت:

 امام سليمان بن احمد بن ايوب بن اللخمی الشامی، ابو القاسم الطبرانی (المتوفیٰ: 360ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، ثنا شَرِيكٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبَى حَازِمٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ عَمْرٍو الطَّائِيِّ قَالَ:

متن:

مَرُّوا بِي أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ أَوْ حَجٍّ فَتَأَمَّلْتُهُمْ فَلَمْ أَرَ مِنْهُمْ أَحَدًا أَحْسَنَ هَيْأَةً مِنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَقَدْ جَلَّلَ عَلَيْهِ كِسَاءٌ مِنَ الْحَرِّ وَالْبَرَدِ.

رافع بن عمرو الطائی نے کہاکہ حج یا غزوہ کے مواقع پر میرے سامنے سے رسول اللہ کے صحابہ گذرتے رہے،میں نے انکے حلیوں پر غور کیا تومیں نے ان میں سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ اچھی ہیئت والا کسی کو نہ دیکھا،سردی ہو یا گرمی ایک چادر انہیں ڈھانپے رہتی۔(طبرانی کبیر:4468،المتفق والمفترق للخطیب البغدادی:2/932،رقم:564،معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم:2691،علامہ ہیثمی نے کہا:رواہ الطبرانی و رجالہ ثقات،یعنی اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اسکے رواۃ ثقہ ہیں۔مجمع الزوائد:14304)

وضاحت:

اس روایت میں بظاہر داڑھی کے متعلق کوئی بات نہیں لیکن انکے حلیے کی تعریف انکی داڑھی کی خوبصورتی کو بیان کرتی ہے۔

دوسری روایت:

امام ابن سعد نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ:

متن:

أَنَّهَا نَظَرَتْ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ مَارًّا وَهِيَ فِي هَوْدَجِهَا فَقَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَجُلا أَشْبَهَ بِأَبِي بَكْرٍ مِنْ هَذَا. فَقُلْنَا: صِفِي لَنَا أَبَا بَكْرٍ. فَقَالَتْ: رَجُلٌ أَبْيَضُ. نَحِيفٌ. خَفِيفُ الْعَارِضَيْنِ. أَجْنَأُ لا يَسْتَمْسِكُ إِزَارَهُ يَسْتَرْخِي عَنْ حَقْوَتِهِ. مَعْرُوقُ الْوَجْهِ. غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ. نَاتِئُ الْجَبْهَةِ. عَارِي الأَشَاجِعِ.

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ہودج سےایک عربی کو کو گذرتے دیکھاتو کہا:میں نے اس شخص سے زیادہ کسی کو ابوبکر سے مشابہ نہیں دیکھا،ہم نے کہا:ہمیں ابو بکر کا حلیہ بتائیں ،تو انہوں نے کہا:

گورے،کمزور،ہلکے گالوں والے،کبڑے،اپنی تہبند کو روک نہیں پاتے وہ انکے پہلوسے سرک جاتی،چہرے پر کم گوشت،آنکھیں دھنسی ہوئی،ابھری پیشانی والے،انگلیوں کے جوڑوں پر کم گوشت والے۔

(طبقات ابن سعد:3/140،المعجم الکبیر للطبرانی:21،تاریخ دمشق لابن عساکر:30/2829،،انساب الاشراف للبلاذری(المتوفیٰ:279ھ) :10/57المعارف للدینوری(المتوفیٰ:276ھ):1/170،البدء والتاریخ للمطھر بن طاہر المقدسی (المتوفیٰ: 355ھ):5/76،تاریخ الطبری (المتوفیٰ:310ھ):3/424)

وضاحت:

ہم نے ”خفیف العارضین“کا ترجمہ” ہلکے گالوں والے“ کیا ہے،اس سے مراد یہ ہے کہ انکے گالوں پر داڑھی کے بال کم تھے،جیسا کہ مضمون کی شروع میں ہم بیان کر آئے ہیں، اس جملے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی داڑھی ہلکی سی تھی اور وہ خود بھی لاغر اور کمزور سے تھے۔

فائدہ:

امام ابو الفرج عبدالرحمن بن الجوزی(المتوفی:597ھ) جو سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی ذریت میںسے تھے نے بھی انکا بالکل یہی حلیہ بیان کیا ہے ، ملاحظہ ہو:المنتظم:4/54۔

تیسری روایت:

امام ابن ابی شیبہ نے کہا:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ فَضْلٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ:

متن:

كَانَ أَبُو بَكْرٍ يَخْرُجُ إِلَيْنَا، وَكَأَنَّ لِحْيَتَهُ ضِرَامُ عَرْفَجٍ مِنَ الْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ.

قیس بن ابی حازم نے کہا کہ سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لاتے ،انکی داڑھی گویا عرفج نامی پودے میں آگ بھڑکی ہو،مہندی اور کتم کے ساتھ رنگے ہونے کے باعث۔(مصنف ابن ابی شیبہ:25010، طبقات ابن سعد:3/142،الآثار لابی یوسف: 1036،الصحیح المسند من آثار الصحابہ..:1/30،رقم:28)

وضاحت:

”انکی داڑھی گویا عرفج نامی پودے میں آگ بھڑکی ہو“سے انکی داڑھی کی سرخ رنگت کی جانب اشارہ ہے،جو مہندی اور کتم کے ساتھ رنگنے کے باعث ایسی ہوجاتی۔

فائدہ:

اس معنیٰ کے الفاظ طبقات ابن سعد(3/140142) اور المعجم الکبیر للطبرانی (14302)میں بھی مروی ہیں ،اس میں اتنا اضافہ ہے عَلَى نَاقَةٍ لَهُ أَدَمًا أَبْيَضَ نَحِيفًاگندم گوں گورے، کمزور سے۔نیز علامہ ہیثمی (مجمع الزوائد:14302) نے اس روایت کے متعلق کہا: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَلَمْ أَعْرِفِ الرَّجُلَ الَّذِي مِنْ بَنِي أَسَدٍ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ۔اسے طبرانی نےروایت کیا ہے ،میں بنی اسد سے تعلق رکھنے والے راوی کو نہیں جانتا ،جبکہ بقیہ رواۃ صحیح کے(درجے کے) رواۃ ہیں۔

سیدناابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے اس حلیئے پر متقدمین و متاخرین سبھی متفق ہیں،اور گذشتہ سطور میں پیش کردہ روایات میں اور اس معنی کی دیگر روایات میں سے کسی میں بھی یہ ذکر نہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے داڑھی کو کاٹا ہو،حالانکہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو راوی اسے ضرور بیان کرتے،کیونکہ داڑھی کاکاٹنا ایسی بات ہے جسے بیان کرنا ناگذیر ہے،جبکہ داڑھی کو نہ کاٹنا اور اسکا مکمل ہونا عام سی بات ہے،اس بناء پر ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی داڑھی مکمل تھی یہ اور بات ہے کہ انکی داڑھی طبعاً ہلکی تھی۔واللہ اعلم

دوسرے خلیفہ راشد سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی داڑھی:

امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی داڑھی گھنی ، بڑی اور دراز تھی ، جیسا کہ درج ذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے۔

پہلی روایت:

امام ابو نعیم الاصفہانی (المتوفیٰ:430ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُو حَامِدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَبَلَةَ، ثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّرَّاجُ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ، ثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ، قَالَ:

متن:

كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ طَوِيلًا جَسِيمًا أَصْلَعَ شَدِيدَ الصَّلَعِ، أَبْيَضَ شَدِيدَ حُمْرَةِ الْعَيْنَيْنِ، فِي عَارِضَيْهِ خِفَّةٌ سَبَلَتُهُ كَثِيرَةُ الشَّعْرِ، فِي أَطْرَافِهَا صُهْبَةٌ.

تابعی کبیرابو رجاء العطاردی (المتوفیٰ:105ھ)نے کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دراز قد،مضبوط جسم والے،شدید روشن چہرے والے،گورے،شدید سرخ آنکھوں والےتھے،انکے گالوں کے بال ہلکے تھے،انکی داڑھی بہت بالوں والی تھی ، جسکے کنارے بھورے تھے۔ (معرفۃ الصحابہ لابی نعیم:170،الاستیعاب لابن عبد البر:3/1146، تاریخ دمشق:44/17)

تحقیق:

اس سند کے تمام رواۃ ثقات ہیں اور سند متصل ہے ، نیز ابو حامد احمد بن محمد بن جبلہ (المتوفیٰ:374ھ)بھی ثقہ ہے ۔ (الروض الباسم فی تراجم شیوخ الحاکم:1/303، رقم:178)

اس کامکمل نام” احمد بن محمد بن عبد الله بن محمد بن عبد الوہاب ابن محمد بن يزيد بن سنان بن جبلۃ الصايغ “ہے ،علامہ سمعانی نے اسکے ابو العباس محمد بن اسحاق السراج سے سماع کو ثابت کیا ہے۔(الانساب للسمعانی:8/268،تاریخ نیسابور للحاکم:80/1618،رقم:1637،تاریخ الاسلام للذہبی(طبع التوقیفیہ):26/406،رقم:135)

فائدہ:

ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ :

وكان إذا حز به الأمر فتلها.

جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو وہ اسے (داڑھی کے کناروں کو)گھماتے تھے۔(تاریخ دمشق:44/18،لیکن اسکی سند میں ”عمر بن حسن الاشنانی“کو امام دارقطنی نے ضعیف کہا ہے،ملاحظہ ہو:میزان الاعتدال: 3/185، رقم:6071)

شبہ:

بعض علماء نے اس روایت میں لفظ ”سبلۃ“ سے مونچھیں مراد لی ہیں ۔

ازالہ:

 اسی مضمون میں ہم بہت سے ائمہ لغت کے اقوال سے ثابت کر آئے ہیں کہ لفظ ”السبلۃ“ گھنی داڑھی کو کہا جاتا ہے، الّا یہ کہ کوئی قرینہ دلالت کرے کہ اس سے مراد داڑھی نہیں بلکہ مونچھیں ہیں،ملاحظہ ہو:اسی مضمو ن میں ”لفظ ”السبلۃ“ کی لغوی تحقیق“نیز امام ابن حجر العسقلانی نے (فتح الباری:10/350)کہا:

السِّبَالَ بِكَسْرِ الْمُهْمَلَةِ وَتَخْفِيفِ الْمُوَحَّدَةِ جَمْعُ سَبَلَةَ بِفَتْحَتَيْنِ وَهِيَ مَا طَالَ مِنْ شَعْرِ اللِّحْيَةِ.

”السبال“جمع ”سبلۃ“ داڑھی کے جو بال لمبے ہوں۔

البتہ امیر عمر رضی اللہ عنہ کی مونچھوں کے متعلق الگ سے بسند صحیح وارد ہے ،لیکن اس روایت میں لفظ ”شارب“ہے نہ کہ لفظ ”سبلۃ“، امام عبداللہ بن احمد بن محمد بن حنبل رحمہما اللہ(المتوفیٰ:290ھ) نے کہا:

سند مع متن:

حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ قَالَ: رَأَيْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ وَافِرَ الشَّارِب لشاربه ذنبتان فسألته عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ : حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا كَرَبَهُ أَمْرٌ فَتَلَ شَارِبَهُ وَنَفَخَ فَأَفْتَانِي بِالْحَدِيثِ.

اسحاق بن عیسیٰ(ثقہ راوی)سے روایت ہے کہ: میں نے امام مالک بن انس (رحمہ اللہ)کو دیکھا،ان کی مونچھیں گھنی تھیں،ان کی مونچھوں کے دونوں سرے باریک تھے،پھر میں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:مجھے زید بن اسلم نے عامر بن عبداللہ بن زبیرسے حدیث بیان کی،انھوں نے عبداللہ بن زبیر(رضی اللہ عنہ)سے کہ: کوئی اہم معاملہ ہوتا تو عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ)اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے اور منہ سے پھونکیں مارتے تھے۔پس انھوں(امام مالک) نے مجھے حدیث کے ساتھ فتویٰ دیا۔(العلل ومعرفۃ الرجال للامام احمد،طبرانی کبیر:54،االاحاد والمثانی لابن ابی عاصم:78، الاموال لابن زنجویہ:1110،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا:آداب الزفاف،ص: 137)

دوسری روایت:

امام ابو جعفر محمد بن جرير بن يزيدالآملی الطبری (المتوفیٰ:310ھـ) نے کہا:

سند:

وَحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:

متن:

خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَحِمَهُ اللَّهُ إِلَى حَرَّةِ وَاقِمٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِصِرَارٍ، إِذَا نَارٌ تُؤَرَّثُ، فَقَالَ: يَا أَسْلَمُ، إِنِّي أَرَى هَؤُلاءِ رُكْبًا قَصُرَ بِهِمُ اللَّيْلُ وَالْبَرْدُ، انْطَلِقْ بِنَا، فَخَرَجْنَا نُهَرْوِلُ حَتَّى دَنَوْنَا مِنْهُمْ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مَعَهَا صِبْيَانٌ لَهَا، وَقِدْرٌ مَنْصُوبَةٌ عَلَى النَّارِ، وَصِبْيَانُهَا يَتَضَاغَوْنَ، فَقَالَ عُمَرُ:
السَّلامُ عَلَيْكُمْ يَا أَصْحَابَ الضَّوْءِ- وَكَرِهَ أَنْ يَقُولَ: يَا أَصْحَابَ النَّارِ- قَالَتْ: وَعَلَيْكَ السَّلامُ، قَالَ: أَأَدْنُو؟ قَالَتِ: ادْنُ بِخَيْرٍ أَوْ دَعْ، فَدَنَا فَقَالَ: مَا بَالُكُمْ؟ قَالَتْ: قَصُرَ بِنَا اللَّيْلُ وَالْبَرْدُ، قَالَ: فَمَا بَالُ هَؤُلاءِ الصِّبْيَةِ يَتَضَاغَوْنَ؟ قَالَتِ: الْجُوعُ، قَالَ: وَأَيُّ شَيْءٍ فِي هَذِهِ الْقِدْرِ؟ قَالَتْ:
مَاءٌ أُسْكِتُهُمْ بِهِ حَتَّى يَنَامُوا، اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عُمَرَ! قَالَ: أَيْ رَحِمَكِ اللَّهُ، مَا يُدْرِي عُمَرَ بِكُمْ! قَالَتْ: يَتَوَلَّى أَمْرَنَا وَيَغْفَلُ عَنَّا! فَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ:
انْطَلِقْ بِنَا، فَخَرَجْنَا نُهَرْوِلُ، حَتَّى أَتَيْنَا دَارَ الدَّقِيقِ، فَأَخْرَجَ عِدْلا فِيهِ كبّۃ شحم، فقال: احمله على، فقلت: أَنَا أَحْمِلُهُ عَنْكَ، قَالَ: احْمِلْهُ عَلَيَّ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا، كُلُّ ذَلِكَ أَقُولُ: أَنَا أَحْمِلُهُ عَنْكَ، فَقَالَ لِي فِي آخِرِ ذَلِكَ: أَنْتَ تَحْمِلُ عَنِّي وِزْرِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لا أُمَّ لَكَ! فَحَمَلْتُهُ عَلَيْهِ، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ مَعَهُ نُهَرْوِلُ، حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا، فَأَلْقَى ذَلِكَ عِنْدَهَا، وَأَخْرَجَ مِنَ الدَّقِيقِ شَيْئًا، فَجَعَلَ يَقُولُ لَهَا: ذُرِّي عَلَيَّ، وَأَنَا أُحَرِّكُ لَكِ، وَجَعَلَ يَنْفُخُ تَحْتَ الْقِدْرِ- وَكَانَ ذَا لِحْيَةٍ عَظِيمَةٍ- فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الدُّخَانِ مِنْ خِلَلِ لِحْيَتِهِ حَتَّى أَنْضَجَ وَأَدِمَ الْقِدْرُ ثُمَّ أَنْزَلَهَا، وَقَالَ: ابْغِنِي شَيْئًا، فَأَتَتْهُ بِصَحْفَةٍ فَأَفْرَغَهَا فِيهَا، ثُمَّ جَعَلَ يَقُولُ: أَطْعِمِيهِمْ، وَأَنَا أَسْطَحُ لَكِ، فَلَمْ يَزَلْ حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَلَّى عِنْدَهَا فَضْلَ ذَلِكَ، وَقَامَ وَقُمْتُ مَعَهُ، فَجَعَلَتْ تَقُولُ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا! أَنْتَ أَوْلَى بِهَذَا الأَمْرِ مِنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ! فَيَقُولُ:
قُولِي خَيْرًا، إِنَّكِ إِذَا جِئْتِ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَجَدْتِنِي هُنَاكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ تَنَحَّى نَاحِيَةً عَنْهَا، ثُمَّ اسْتَقْبَلَهَا وَرَبَضَ مَرْبَضَ السَّبُعِ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ:
إِنَّ لَكَ شَأْنًا غَيْرَ هَذَا، وَهُوَ لا يُكَلِّمُنِي حَتَّى رَأَيْتُ الصِّبْيَةَ يَصْطَرِعُونَ وَيَضْحَكُونَ ثُمَّ نَامُوا وَهَدَءُوا، فَقَامَ وَهُوَ يَحْمَدُ اللَّهَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: يَا أَسْلَمُ، إِنَّ الْجُوعَ أَسْهَرَهُمْ وَأَبْكَاهُمْ، فَأَحْبَبْتُ أَلا أَنْصَرِفَ حَتَّى أَرَى مَا رَأَيْتُ مِنْهُمْ.

اسلم رحمہ اللہ نے کہاکہ میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حرہ واقم (مدینہ کی مشرقی جانب ایک جگہ کا نام ہے)کی جانب نکلا،جب ہم صرار (مدینہ سے تین میل ) پہنچے تو دیکھا کہ آگ بھڑکائی جارہی ہے،عمر نے کہا:اے اسلم! میرے خیال میں رات اور ٹھنڈ نے اس قافلے کو تنگ کردیا ہے،ہمیں وہاں لے چلو،۔چنانچہ ہم روانہ ہوئے ،ہم تیز تیز چل رہے تھے،جب ہم اس قافلے کے قریب ہوئے تو ایک عورت کو دیکھا اور ایک دیگ جو آگ پر رکھی ہے،اور اس عورت کے بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔

تو امیر عمر نے کہا:اے روشنی والو ! تم پر سلامتی ہو،انہوں نے آگ والے کہنا پسند نہ کیا،اس خاتون نے کہا:اور آپ پر بھی سلامتی ہو،عمر نے کہا:کیا میں قریب آسکتا ہوں؟اس نے کہا:خیر کے ارادے سے قریب آئیں یا نہ آئیں۔

عمر نے کہا:آپ لوگ کس حال میں ہیں؟اس نے کہا:اس رات اور ٹھنڈ نے ہمیں تنگ کررکھا ہے۔عمر نے کہا:ان بچوں کا کیا مسئلہ ہے؟اس نے کہا:بھوک۔عمر نے کہا:اس دیگ میں کیا ہے؟ اس نے کہا: پانی،اس بہانے میں انہیں دلاسہ دے کر چپ کرارہی ہوںتاکہ وہ سوجائیں،اور اللہ ہمارے اور عمر کے بیچ فیصلہ کرے گا۔عمر نے کہا:اللہ تجھ پر رحم کرے ،عمر کوکیا معلوم کہ تم کس حال میں ہو،اس نے کہا:وہ ہمارے حاکم ہیں،اور ہم سے بے خبر ہیں؟!۔

توامیر عمر مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے:ہمیں واپس لے چل،پس ہم تیز چلتے ہوئے وہاں سے نکل کر دار الدقیق(غلے کے گودام)آئے ، انہوں نےاونٹ کی ایک جانب لٹکایا جانے والا تھیلا نکالا جس میں گندم اور گھی تھا،پھر کہا:اسے مجھ پر لاد دے،ایسا دو تین دفعہ کہا:میں نے ہر بار یہی کہا کہ:اسے میں اٹھالیتا ہوں،تو آخری بار انہوں نے مجھ سے کہا: تیری ماں نہ رہے،کیا روز قیامت تو میرا بوجھ اٹھائے گا؟

چنانچہ میں نےوہ بوجھ ان پر لاد دیا،پھر وہ چلے،میں بھی ساتھ چلا،ہم تیز تیز چلتے رہے حتی کہ اس خاتون تک پہنچ گئے،انہوں نے وہ سامان اس کے پاس رکھا ،آٹا نکالا،اور اس خاتون سے کہا:تو آٹا ڈالتی رہ ، میں اسے ہلاتا رہوں گا،پھر ساتھ ہی وہ آگ پر پھونکیں بھی مارنے لگے،اور آپ بڑی داڑھی والے تھے،میں نے دیکھا کہ دھواں آپکی داڑھی کے بالوں میں داخل ہورہا ہے،یہانتک کہ وہ(غالباً دلیہ یا ہریسہ) پک کر تیار ہوگیا ،پھر انہوں نے وہ ہانڈی آگ پر سے اتاردی،اور کہا کہ:مجھے کوئی برتن دو،وہ عورت ایک تھال لائی،آپ نے وہ اس تھال میں بھرا اور کہا:تو یہ ان بچوں کو کھلا،اور میں تجھے یہ ٹھنڈا کرکے(یا بیل کر)دیتا رہتا ہوں،پس وہ کھاتے رہے حتی کہ سیر ہوگئے۔

پھر بچا ہوا آپ نے اسی کے پاس چھوڑا اورکھڑے ہوئے، میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوا ،وہ عورت کہنے لگی:امیر المومنین سے زیادہ آپ اس ذمہ داری کے اہل ہیں۔توامیر عمر کہنے لگے:

اچھی بات کہہ،جب تو امیرالمومنین کے پاس جائے گی تو مجھے وہیں پائے گی،ان شاء اللہ،پھر آپ اس سے تھوڑا دور ہوکر اسکے سامنے آئے اور چوپایوں کی طرح (ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل)چلنے لگے،میں نے ان سے کہاکہ:آپ کا مقام اس سے کہیں بڑھ کر ہے،تو انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا،پھر میں نے بچوں کو دیکھاجو رورہے تھے اب ہنس رہے ہیں،پھر وہ سکون سے سوگئے۔

پھر آپ وہاں سے اٹھے،اللہ کی حمد بیان کرنے لگے،اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے:اے اسلم،ان بچوں کو بھوک نے جگا یا اور رلایاتھا ، پس میں نے چاہا کہ اس وقت تک نہ جاؤں گا جب تک کہ میں انہیں پیٹ بھر سوتا نہ دیکھ لوں۔(تاریخ طبری:4/205،فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل:1/290،رقم:382،تاریخ دمشق:44/353،الرقۃ لابن قدامۃ:،اسد الغابۃ لابن الاثیر:،الکامل فی التاریخ لابن الاثیر: 2/434،مشیخۃ ابن شاذان الصغریٰ:68،التذکرۃ الحمدونیۃ لمحمد بن الحسن البغدادی(المتوفیٰ:562ھ) 1/144،رقم:308:،تخریج الدلالات السمعیۃ لعلی بن محمد الخزاعی (المتوفیٰ:789ھ) :591592، یہ روایت حسن ہے ، تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو : دراسۃ نقديۃ في المرويات الواردۃ فی شخصيۃ عمر بن الخطاب وسياستہ الاداريۃ رضی الله عنہ لعبدالسلام بن محسن آل عیسیٰ :1/100)

سوانح نگار و محدثین و مؤرخین کے اقوال:

٭امام ابو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمری القرطبی (المتوفیٰ: 463ھ)

٭ امام محمد بن ابی بکر بن عبد الله بن موسیٰ الانصاری التِّلمسانی المعروف بالبُرِّی (المتوفیٰ: بعد 645ھ)

٭ امام ابو العباس، احمد بن عبد الله بن محمد، محب الدين الطبری (المتوفیٰ: 694ھ)

٭ امام صلاح الدين خليل بن ايبک بن عبد الله الصفدی(المتوفیٰ:764ھـ)

٭ امام ابن الملقن سراج الدين ابو حفص عمر بن علی بن احمد الشافعی المصری (المتوفیٰ: 804ھ)

٭ امام محمد بن عبد الله (ابی بکر) بن محمد بن احمد بن مجاہد القيسی الدمشقی الشافعی، شمس الدين، الشہير بابن ناصر الدين (المتوفیٰ: 842ھ)

٭ امام شمس الدين محمد بن عمر بن احمد السفيری الشافعی (المتوفیٰ: 956ھ)

٭ امام حسين بن محمد بن الحسن الدِّيار بَکْری (المتوفیٰ: 966ھ) وغیرہ ائمہ سِیَر و تاریخ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے درج ذیل حلیے پر متفق ہیں:

كَانَ آدم شديد الأدمة، طوالا، جسيماً،كث اللحية، أصلع أعسر يسر، يخضب بالحناء والكتم .

پکا گندمی رنگ، لامبا قد،لحیم شحیم، گویا آپ سوار ہوں اور لوگ پیدل،گھنی داڑھی والے(کثّ اللحیۃ)، دونوں ہاتھ بیک وقت استعمال کرتے، حناء اور کتم سے بال رنگا کرتے تھے۔(الاستيعاب في معرفۃ الاصحاب:3/1146، الجوہرۃ فی نسب النبی واصحابہ العشرۃ:2/162، الرياض النضرۃ فی مناقب العشرۃ:2/274، الوافی بالوفيات:22/284، التوضيح لشرح الجامع الصحيح:2/139، الاحاديث الاربعون المتباينۃ الاسانيد والمتون:23، شرح البخاری للسفیری: 1/99، تاريخ الخميس فی احوال انفس النفيس:2/240)

شبہ:

سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی جانب ایک روایت منسوب کی جاتی ہے ،جسکا متن اس طرح ہے:

أَنه رأى رجلا قد ترك لحيته حَتَّى كَبرت فَأخذ يجذيها ثمَّ قَالَ: ائْتُونِي بحلمتين ثمَّ أَمر رجلا فجزما تَحت يَده، ثمَّ قَالَ: إذهب فأصلح شعرك أَو أفْسدهُ، يتْرك أحدكُم نَفسه حَتَّى كَأَنَّهُ سبع من السبَاع

انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنی داڑھی کو چھوڑے رکھا حتیٰ کہ وہ بہت بڑھ گئی تو اسے اوپر اٹھاکر فرمانے لگے: میرے پاس دو قینچیاں لاؤ ،پھر اس آدمی کو حکم دیا تو اس نے اپنے ہاتھ کے نیچے سے داڑھی کاٹ دی،پھر اس سے کہا:اب جا، اپنے بال سنوار،یا بگاڑ!تم اپنے بال ایسے چھوڑدیتے ہو گویا درندے ہو۔

حوالہ وازالہ:

اسے علامہ عینی (المتوفیٰ:855ھ)نے عمدۃ القاری(22/47)میں اور ابن بطال (المتوفیٰ:449ھ) نے (شرح صحیح البخاری:9/146)نقل کیا ہے ،اور اسے ابن جریر الطبری کی جانب منسوب کیا ہے،لیکن اسکی کوئی سند پیش نہیں کی،نیز تلاش بسیار کے باوجود امام طبری کی کسی کتاب میں ایسی کوئی روایت نہیں مل سکی،لہذا اس روایت کی کوئی اصل نہیں،پس یہ حجت نہیں بن سکتی۔

تیسرے خلیفہ راشد سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کی داڑھی:

امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان ذو النورَین رضی اللہ عنہ کی بھی داڑھی گھنی ، بڑی اور دراز تھی ، جیسا کہ درج ذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے۔

پہلی روایت:

امام ابو عبداللہ محمد بن عبد الله الحاکم (المتوفیٰ:405ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، مَوْلَى شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ قَالَ:

متن:

رَأَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَعَلَيْهِ إِزَارٌ عَدَنِيٌّ غَلِيظٌ قِيمَتُهُ أَرْبَعَةُ دَرَاهِمَ أَوْ خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، وَرَيْطَةٌ كُوفِيَّةٌ مُمَشَّقَةٌ ضَرْبُ اللَّحْمِ طَوِيلُ اللِّحْيَةِ حَسَنُ الْوَجْهِ .

ابو عبداللہ مولیٰ شداد بن الھاد(المتوفیٰ:110ھ)نے کہا:

میں جمعہ کے دن ، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو برسر منبر دیکھا ،انہوں نے عدنی موٹا تہبند زیب تن کر رکھا تھا،جسکی قیمت چاریا پانچ درہم تھی،اور ایک ان سلی درمیان سے چری ہوئی کوفی چادراوڑھ رکھی تھی،تھکے بدن والے، لمبی داڑھی والے، خوبصورت چہرے والے۔( المستدرک للحاکم:4532،الزہد لابن المبارک:755، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم:223225226– تاریخ دمشق:39/16، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا:صحیح الترغیب والترہیب: 2084 , 3300)

دوسری روایت:

امام ابن عساکر نے کہا:

سند:

أخبرتنا أم البهاء بنت البغدادي قالت أنا أبو طاهر بن محمود أنا أبو بكر بن المقرئ أنا أبو الطيب (محمد بن جعفر الزراد) المنبجي قال قال عبيد الله (بن سعد بن إبراهيم بن سعد القرشی الزہری) أو عمه يعقوب بلغني.

متن:

أن عثمان كان ليس بالقصير ولا الطويل حسن الوجه رقيق البشرة كبير اللحية عظيمها أسمر اللون عظيم الكراديس بعيد ما بين المنكبين يصفر لحيته ودفنه جبير بن مطعم وحكيم بن حزام وأبو جهم بن حذيفة ونيار بن مكرم وصلى عليه جبير بن مطعم بالبقيع.

وہ نہ تو دراز قد تھے نہ ہی کوتاہ قد، خوبصورت چہرے والے ،کمزورجسم والے، بڑی داڑھی والے، گندمی رنگت، بڑے جوڑ والے، اپنی داڑھی کو زعفران سے رنگتے تھے، انکی تدفین جبیر بن مطعم اور حکیم بن حزام اور ابوجھم بن حذیفہ اور نیار بن مکرم رضی اللہ عنھم نے بقیع الغرقد میںکی۔(تاریخ دمشق:39/20،رقم:7738،اس سند میں بیان کردہ رواۃ ثقات ہیں اور سند متصل ہے،البتہ آخری راوی نے کس سے روایت کیا یہ معلوم نہ ہوسکا ،نیز امام ابن سعد نے بھی واقدی کی سند سے یہی حلیہ بیان کیا ہے،اس سے اگلی روایت ملاحظہ ہو،علاوہ ازیںتمام محدثین و مؤرخین عثمان رضی اللہ عنہ کے اس روایت میں بیان کردہ حلیئے پر متفق ہیں۔واللہ اعلم)

امام ابن سعد نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ :

متن:

سَأَلْتُ عَمْرَو بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَنْبَسَةَ , وَعُرْوَةَ بْنَ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ , وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ صِفَةِ عُثْمَانَ، فَلَمْ أَرَ بَيْنَهُمُ اخْتِلَافًا، قَالُوا: كَانَ رَجُلًا لَيْسَ بِالْقَصِيرِ وَلَا بِالطَّوِيلِ , حَسَنَ الْوَجْهِ، رَقِيقَ الْبَشَرَةِ، كَبِيرَ اللِّحْيَةِ، عَظِيمَهَا , أَسْمَرَ اللَّوْنِ , عَظِيمَ الْكَرَادِيسِ , بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ , كَثِيرَ شَعْرِ الرَّأْسِ , يُصَفِّرُ لِحْيَتَهُ.

محمد بن عمر الواقدی نے کہاکہ میں نے عمرو بن عبداللہ بن عنبسہ ، اور عروہ بن خالد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان ، اور عبدالرحمن بن ابی الزناد سے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حلیئے کے متعلق پوچھا تو میں نے ان کے درمیان اختلاف نہیں دیکھا، ان سب نے کہا کہ:وہ نہ تو دراز قد تھے نہ ہی کوتاہ قد، خوبصورت چہرے والے ، کمزورجسم والے، بڑی داڑھی والے، گندمی رنگت، بڑے جوڑ والے، چوڑے کندھے والے، سر کے بال گھنے، اپنی داڑھی کو زعفران سے رنگتے تھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد:3/42)

چوتھے خلیفہ راشد سیدنا علی (الحیدرۃ )رضی اللہ عنہ کی داڑھی:

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی داڑھی بھی گھنی ، بڑی اور دراز تھی جیسا کہ درج ذیل رویات سے واضح ہے:

پہلی روایت:

امام محمد بن سعد نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا رزام بن سعد (الصواب سعید)الضَّبِّيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَنْعَتُ عَلِيًّا قَالَ:

متن:

كَانَ رَجُلا فَوْقَ الرَّبْعَةِ. ضَخْمَ الْمَنْكِبَيْنِ. طَوِيلَ اللِّحْيَةِ. وَإِنَّ شِئْتَ قُلْتَ إِذَا نَظَرْتَ إِلَيْهِ هُوَ آدَمُ. وَإِنِ تَبَيَّنْتَهُ مِنْ قَرِيبٍ قُلْتَ أَنْ يَكُونَ أَسْمَرَ أَدْنَى مِنْ أَنَّ يَكُونَ آدَمَ.

سعید الضبی نے کہاکہ درمیانے قد سے بڑھے ہوئے، بھاری کندھوں والے، لمبی داڑھی والے، اگر انہیں دیکھو تو کہہ سکتے ہوکہ گندمی رنگت والے، اور اگر قریب سے اچھی طرح جائزہ لو تو یہی کہو گے کہ گندمی رنگت کے بجائے سانولی رنگت زیادہ درست ہے۔(الطبقات الکبریٰ:3/19،تاریخ دمشق:42/23،اسکے رواۃ ثقات اور سند متصل ہے،نیز رزام اپنے والد سے روایت کرنے میں ثقہ ہے جیسا کہ امام احمد نے کہا،ملاحظہ ہو: تہذیب الکمال:9/177،رقم:1902، اور سعید الضبی کا سیدنا علی سے سماع ثابت ہے جیسا کہ امام بخاری نے کہا،ملاحظہ ہو:التاریخ الکبیر: 3/485،رقم:1621)

دوسری روایت:

امام محمد بن سعد نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ:

متن:

رَأَيْتُ عَلِيًّا وَكَانَ عَرِيضَ اللِّحْيَةِ وَقَدْ أَخَذَتْ مَا بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ. أَصْلَعَ عَلَى رَأْسِهِ زُغَيْبَاتٌ.

امام عامر بن شراحیل الشعبی نے کہا:

میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا،چوڑی داڑھی والےجو کندھوں کے درمیان پھیلی ہوئی تھی، سر سے گنجےتھے چند بال موجود تھے۔(الطبقات الکبریٰ:3/18،اسکے رواۃ ثقات اور سند متصل ہے)

تیسری روایت:

امام الحسين بن صفوان البرذعی نے کہا:

سند:

حدثنا الحسين نا عبد الله (بن ابی الدنیا) قال حدثني إبراهيم بن سعيد الجوهري قال حدثنا حسين بن محمد نا جرير بن حازم عن أبي رجاء العطاردي قال:

متن:

رأيت علي بن أبي طالب رجلا ربعة ضخم البطن عظيم اللحية قد ملأت صدره في عينيه خفش أصلع شديد الصلع كثير شعر الصدر والكتفين كأنما اجتاب إهاب شاة.

ابورجاء العطاردی نے کہاکہ میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھا،درمیانہ قد، بڑا سا پیٹ، بڑی داڑھی جس نے انکا سینہ ڈھانپ لیا تھا،انکی نگاہ میں کمزوری تھی، سر سے بہت گنجے تھے، سینے اور کندھوں پر بہت بال تھے، جیسے بکری کا بوسیدہ چمڑا۔(مقتل علی لابن ابی الدنیا:67،اسکے رواۃ ثقات اور سند متصل ہے)

شبہ:

امام ابن ابی شیبہ نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ زَمْعَةَ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ:

متن:

كَانَ عَلِيٌّ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِمَّا يَلِي وَجْهَهُ.

علی رضی اللہ عنہ اپنے چہرے سے داڑھی کے بال کاٹتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:25480)

ازالہ:

اس روایت کی سند میںزمعہ بن صالح الجندی ضعیف ہے جیسا کہ امام احمد اور امام ابن معین نے کہا،ملاحظہ ہو: تہذیب الکمال: 9/386،رقم: 2003،پس یہ روایت حجت نہیں۔

… جاری ہے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے