پیارے بچو ! ہمارے پیارے پیغمبر نے فرمایا کہ :

اشْتَرَى رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ عَقَارًا لَهُ، فَوَجَدَ الرَّجُلُ الَّذِي اشْتَرَى العَقَارَ فِي عَقَارِهِ جَرَّةً فِيهَا ذَهَبٌ، فَقَالَ لَهُ الَّذِي اشْتَرَى العَقَارَ: خُذْ ذَهَبَكَ مِنِّي، إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الأَرْضَ، وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ، وَقَالَ الَّذِي لَهُ الأَرْضُ: إِنَّمَا بِعْتُكَ الأَرْضَ وَمَا فِيهَا، فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ، فَقَالَ: الَّذِي تَحَاكَمَا إِلَيْهِ: أَلَكُمَا وَلَدٌ؟ قَالَ أَحَدُهُمَا: لِي غُلاَمٌ، وَقَالَ الآخَرُ: لِي جَارِيَةٌ، قَالَ: أَنْكِحُوا الغُلاَمَ الجَارِيَةَ وَأَنْفِقُوا عَلَى أَنْفُسِهِمَا مِنْهُ وَتَصَدَّقَا

ایک آدمی تھا اس نے دوسرے آدمی سے زمین خریدی تھی، اب جس آدمی نے زمین خریدی تھی اس نے اپنی خریدی ہوئی زمین میں ایک مٹکا دیکھا جس میں سونا تھا ۔

خریدنے والا زمین بیچنے والے کے پاس آکر کہتا ہے : ” برائے کرم یہ مجھ سے اپنا سونا لے لیں ۔ میں نے تو صرف آپ سے زمین خریدی ہے نہ کہ سونا خریدا ہے ۔”

فروخت کرنے والا انکار کرتے ہوئے : اے خدا کے بندے ! میں نے تجھے زمین بھی بیچی تھی اور جو کچھ زمین میں ہے وہ بھی بیچ دیا تھا ۔”

کافی دیر آپس میں یہ بحث کرتے رہے ۔ آخر وہ اس بات کا فیصلہ کرانے کےلیے کسی فیصل کے پاس چلے گئے منصف ( انصاف کرنے والا ) دونوں سے باتیں سنتا ہے آخر میں کہتا ہے ۔

حاکم : کیا تم دونوں کی اولاد ہے ۔

دونوں میں سے ایک : “ہاں میرا ایک بچہ ہے “۔

دوسرا بولا : ” جناب میرے پاس ایک بچی ہے ۔”

قاضی : اچھا تم دونوں کے پاس لڑکی لڑکا ہے پھر تم دونوں ایسا کرو کہ اس لڑکے کا نکاح اس لڑکی سے کردو اور جتنا خرچ آئے اس سونے کے پونجی سے لگا لو اور باقی بچنے والا سونا لڑکا اور لڑکی کے درمیان حق مہر مقرر کردو ۔”

زمین خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں کو قاضی کا فیصلہ دل کو لگا ۔ لہذا انھوں نے ایسا ہی کیا اور دونوں خوشی خوشی رہنے لگے ۔” ( بخاری : 6 / 370 حدیث نمبر : 731 ، مسلم شریف ، ماخوذ : صحیح قصص النبوی از محمد بن حمید زینو )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ بہت محتاط اور پرہیز گار تھے۔ البتہ ہمارے اس پر آشوب دور میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ معمولی معمولی چیز میں بددیانتی کرتے ہیں اور لوگوں کے مال غصب کرنے میں فخر کرتے ہیں۔ شریعت مطہرہ میں ایسے مال کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ اگر قرائن سے معلوم ہو جائے کہ وہ دور جاہلیت کا مدفون خزانہ ہے تو وہ رکازہے اور اس سے پانچواں حصہ بیت المال کو ادا کرنا ہوگا ۔ اگر وہ مال دور اسلام کا ہے تو وہ لقطہ کے حکم میں ہو گا اور اگر پتہ نہ چل سکے تو تمام مال بیت المال میں جمع کردیا جائے جو مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات میں صرف کیا جائے گا۔بعض حضرات کا موقف ہے کہ جو کوئی زمین

کا مالک ہو جائے تو وہ عطا کردہ باطن کی ہر چیز کا مالک

ہو جاتا ہے اور زمین کا مالک بنتے وقت اگر اسے زمین کے باطن میں کسی چیز کا علم نہ ہو تو یہ اس کی ملکیت کو ساقط نہیں کرتا۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ اگر کوئی زمین بیچے پھر اس میں سے خزانہ نکل آئے تو وہ بیچنے والے کا ہو گا جیسا کہ گھر بیچنے کی صورت میں اس کا مال واسباب بیچنے والے کا ہوتا ہے ہاں اگر خریدنے والا شرط کر لے تو دوسری بات ہے۔ واللہ اعلم

پیارے بچو ! مذکورہ قصہ سے ہم کو بہت ہی انتہائی اہم نصیحتیں ملی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں ۔

1 امانت کو بغیر کسی خیانت کے واپس کردینا چاہیے ۔

2 خزانہ پہ قناعت کرنے والے پر خیر و برکت کی بارش ہوتی ہے ۔

3 تمام تنازعات کا فیصلہ کسی شرعی احکام جاننے والے عالم سے کروانا چاہیے ۔

4 اللہ تعالی جتنا بھی دے دے اس پر راضی رہنا چاہیے

5 ہر ایک کا رزق تقسیم شدہ ہے ہر کوئی اپنا رزق اپنے وقت معین میں کھائے گا ۔

6 مسلمان پر لازم ہے کہ وہ حلال و پاک رزق پر اکتفاء کرے ۔

7 انصاف کرنے والا قاضی ہمیشہ جھگڑنے والے لوگوں کو راضی کرتا ہے ۔

8 ایسا طمع نہ کرنا چاہیے جو دور کی کوشش سے بھی حاصل نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے