جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ان دنوں اکثر مجالس میں ایک مرض کے متعلق گفتگو زبان زد عام ہے  لوگ اس بیماری سے خوف زدہ ہیں اس کے پھیلنے اور اس میں مبتلا ہونے سے ڈر رہے ہیں.کچھ لوگوں نے بطور مزاح اس مرض کو موضوع گفتگو بنایا ہوا ہے تو کچھ لوگ خیرخواہی اور علاج دریافت کرنے کی غرض اس کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں اور کچھ لوگ بعض دیگر مقاصد کی خاطر اس بارے میں بحث مباحثہ کرتے نظر آرہے ہیں۔

جبکہ ایک مسلمان پر واجب ہے کہ چاہے نعمت کے نزول کا وقت ہو یا مصیبت کی لپیٹ کا، وہ ہرحال اور ہر وقت اپنے خالق ومالک سے اپنا تعلق مضبوط رکھے اور ذات باری تعالی پر مکمل اعتماد و بھروسہ رکھے.

اس مرض یا اس کے علاج و معالجہ کرنے سے متعلق ایک مسلمان کی گفتگو شرعی اصولوں کے مطابق مستحکم اساس پر قائم ہونی چاہیے جس میں خشیت الہی اور اللہ سبحانہ کی نگہبانی کو ملحوظ خاطر رکھاجائے۔

 

اس موضوع کے متعلق درج ذیل چھے نقاط عوام الناس کے لئے  ان کٹھن حالات میں بہت  ہی  اہمیت کے حامل ہیں :

پہلانقطہ:

ہرمسلمان پرواجب ہے کہ وہ ہرحال میں اپنے پروردگار پر مکمل توکل و بھروسہ کرتے ہوئے اس سے مضبوط تعلق رکھے اور یہ عقیدہ رکھے کہ تصرفات زمانہ کا اختیار صرف اور صرف اسی کے پاس ہے جیساکہ اللہ تعالی نے سورۃ تغابن میں فرمایاهے :

مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ

’’کوئی مصیبت بھی نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ ( سورۃ التغابن:11)

پس نفع ونقصان سب اللہ کے ہاتھ میں ہے.. جواللہ چاہے وہی ہوتاہے اور جو اللہ تعالی نہ چاہے وہ کبھی نہیں ہوسکتا اس ذات کے علاوہ کوئ بھی مصیبت سے بچانے والا نہیں جیساکہ اللہ تعالی نے سورۃ احزاب میں فرمایا:

قُلْ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْٓءًا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً١ؕ وَ لَا يَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّ لَا نَصِيْرًا ( سورۃ احزاب :17 )

’’کہہ دیجیے وہ کون ہے جو تمھیں اللہ سے بچائے گا کہ اگر وہ تم سے کسی برائی کا ارادہ کرے یا تم پر کسی مہربانی کا ارادہ کرے اور وہ اپنے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ کوئی مددگار۔‘‘

اورسورۃ  زمر میں  فرمایا :

وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ١ؕ قُلْ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَنِيَ اللّٰهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖۤ اَوْ اَرَادَنِيْ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكٰتُ رَحْمَتِهٖ١ؕ قُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ١ؕ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُوْنَ

’’اور یقینا اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہہ دے کہ تو کیا تم نے دیکھا کہ وہ ہستیاں جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے تو کیا وہ اس کے نقصان کو ہٹانے والی ہیں؟ یا وہ مجھ پر کوئی مہربانی کرنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روکنے والی ہیں؟ کہہ دے مجھے اللہ ہی کافی ہے، اسی پر بھروسا کرنے والے بھروسا کرتے ہیں۔ (سورۃالزمر : 38)

اور سورۃ فاطر میں فرمایا :

مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَ مَا يُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (سوۃفاطر :2 )

’’جو کچھ بھی اللہ لوگوں کے لیے رحمت میں سے کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو بند کر دے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘

ترمذي  میں حدیث ہے کہ نبی مکرم  ﷺ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو مخاطب کرکے فرمایا :

وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ  (سنن ترمذی :2516 )

یقین کرو اگر ساری کی ساری امت تمہیں نفع دینے پر اتفاق کرلے تو جو اللہ نے لکھ دیا ہے امت اس کے علاوہ کچھ نفع نہیں دے سکتی ، اور اگر ساری کی ساری امت تمہیں نقصان پہنچانے پر اتفاق کرلے تو جو اللہ نے نقصان لکھ دیا ہے امت اس کے علاوہ کچھ نقصان بھی نہیں پہنچا سکتی قلم اٹھالیے گئے هيں  اور صحیفے خشک ہوچکے هيں۔

اور دوسری حدیث میں فرمایا :

’’اللہ تعالی نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزارسال پہلے مخلوق کی تقدیر لكھي تھي۔‘‘ (صحیح مسلم :2653 )

ایک اور حدیث میں فرمایا :

’’ اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ قلم تھا، پھر اس (قلم) کو لکھنے کا حکم دیا۔ قلم نے کہا:  الہٰ العالمین ! کیا لکھوں؟  بارگاہ الوہیت سے جواب ملا:  تقدیر لکھو ! لہٰذا اس قلم نے ان چیزوں کو لکھا جو (اب تک) ہوچکی ہیں اور ان چیزوں کو لکھا جو آئندہ ہونے والی ہیں۔ ‘‘ ( سنن ابی داؤد: 4700)

لہذا  هرمسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ پرمکمل بھروسہ کرتے ہوئے اس کی رحمت کی امید رکھے، اس کویقین ہوناچاہیے کہ مصائب سے عافیت› بیماریوں سے شفاء اور نقصانات سے سلامتی صرف اور صرف اللہ کی طرف سے ہے۔

حوادثات زمانہ اور مصائب کے نزول کی وجہ سے کسی بھی مسلمان کا تعلق رب العالمین سے ہرگز بھی منقطع نہ ہو۔

بلکہ لازمی طور پر اپنے رب سے تعلق  مزيد مضبوط ہوجانا چاہیے اور اپنے رب کی رحمت پرکامل یقین کرلیناچاہیے

جیساکہ اللہ تبارک وتعالی نے سورۃ آل عمران میں فرمایا :

 وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ

’’اور جو شخص اللہ کو مضبوطی سے پکڑلے تو یقینا اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی گئی۔‘‘ ( سورۃآل عمران :101 )

دوسرانقطہ:

ہرمسلمان پرواجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کو ہروقت اور ہرحال میں یاد رکھے اور اوامر الہی کی بجا آوری ، اور ممنوعات سے اجتناب کرکے اللہ کا قرب حاصل کرے ۔

نبی اکرم ﷺ   نے عبداللہ بن عباس کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا :

احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ

’’تم اللہ كے احكام كي حفاظت كرو الله آپ کی حفاظت کرے گا ، تم اللہ كے حقوق كا خيال ركھو تو اسے تم اپنے سامنے پاؤگے۔‘‘ ( سنن ترمذی: 2516)

پس اوامر الہی کو بجا لانا اور ممنوعات سے پرہیز کرنا بندے کے شرور و مصائب سے سلامتی ومحفوظ ہونے کا سبب ہے اور دنیا وآخرت میں اللہ کی حفاظت اور ضمانت میں آنے کاذریعہ ہے۔

اگر کسی مسلمان کو کوئي مصیبت پہنچتی ہے یا کسی تکلیف میں  مبتلا ہوتا ہے تو یہ  قطعی طور پر اس کے لئے عنداللہ بلندئ درجات کاذریعہ ہے..

 ایسے شخص کے بارے میں نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا هے :

عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ

مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودگی پہنچتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہے، اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے۔ ( صحیح مسلم:2999)

پس مومن خوشی و غمی میں،  دکھ سکھ میں، عسرویسر میں،  آسانی ومشکل میں خیر سے مزيد خیر كي طرف بڑھتا  رہتاہے،  ہرحال میں اس کے لیے بھلائي ہی بھلائي ہے ، اور یہ شرف و مقام نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق مومن کے علاوہ کسی کو بھی حاصل نہیں۔

تیسرا نقطہ:

اس بات میں کوئي  شک وشبہ نہیں کہ شریعت محمدی میں بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسباب اختیار کرنے اور علاج معالجه کروانے کا ذکر موجود ہے ، علاج معالجہ کروانا یا دواء استعمال کرنا قطعا توکل علی اللہ کے منافی نہیں۔

یاد رکھیے! جس علاج معالجہ کا تصور دین اسلام نے پیش کیا ہے وہ دو قسموں  پرمشتمل  ہے :

1۔بیماری سے قبل از وقت بچاؤ کی تدبیر : وہ علاج جو بیماری کے نازل ہونے سے پہلے بطور احتياط ہو ( یعنی پرہیز )

2۔بیماری کو زائل کرنے کا علاج : وہ علاج جو بیماری لگنے کے بعد بیماری دور کرنے کے لیے کیا جائے ۔

ان اقسام کا ذکر شریعت میں موجود ہے اور اس میں شریعت نے علاج ودواء کے ایسے اصول وضوابط مقرر کیے ہیں جو دنیا وآخرت میں ایک مسلمان کیلیے سلامتی و عافیت کے ضامن ہیں ۔

جو شخص علامہ ابن القیم کی کتاب «الطب النبوی» کا بغور مطالعہ کرے وہ شریعت محمدیہ کے بتائے گئے اور نبی کریم ﷺسے ثابت شدہ علاج سے متعلق متحیر العقول نسخے پائے گا ۔

جہاں تک احتياطي علاج  کي بات ہے تو تو نبی کریمﷺ نے فرمایا : ’’جوشخص صبح صبح سات عدد عجوہ کھجوریں کھا لے تو اس دن اس آدمی پر زہر اور جادو اثر نہیں کرسکتا۔‘‘(صحیح بخاری :5779 )

اسی طرح سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:جوشخص ہر روز صبح وشام تین مرتبہ یہ دعا پڑھتا ہے :

 بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

تواسے کوئي  چیز نقصان نہیں دے سکتی۔ ( سنن ترمذی :3388 )

اور آپ نے فرمایا :’’جوشخص رات کے وقت سورۃ بقرہ کی آخری دو آیات پڑھتاہے تو یہ اس کو ہر شرسے حفاظت کیلیے کافی ہوجاتی ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری :4008 )

عبداللہ بن خبیب سے روایت ہے ،  فرماتے ہیں : ہم ایک اندھیری رات میں بارش کے وقت نبی اعظمﷺ کو بلانے کے لئے نکلے کہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں، آپ سے ملاقات ہوئي توآپ نے فرمایا:

عبداللہ پڑھو ، میں نے کچھ نہ پڑھا،آپ نے پھر فرمایا : پڑھو!  میں نے کچھ نہ پڑھا، آپ نے  پھر فرمایا : پڑھو! میں نے کہا کیاپڑھوں؟

آپ نے فرمایا :’’قل ھواللہ احداور معوذتین (سورۃ الفلق والناس)‘‘  ہر روز صبح شام تین تین مرتبہ پڑھاکرو ، اللہ تعالی هر چيز سے آپ كے لئے كافي هو جائے گا ۔ (سنن ابی داؤد :5082 )

یعنی یہ ہرقسم کی مصیبت  سے  بچاؤ کے لیے کافی ہیں۔

اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ صبح اور شام کے وقت یہ کلمات ہمیشگی کے ساتھ پڑھاکرتے تھے  :

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اللَّهُمَّ استُرْ عَوْرَاتي، وآمِنْ رَوْعَاتي، اللَّهمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَينِ يَدَيَّ، ومِنْ خَلْفي، وَعن يَميني، وعن شِمالي، ومِن فَوْقِي، وأعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحتي (سنن ابی داؤد:5074 )

اس دعا میں بندے کی تمام جہتوں سے مکمل طور پر حفاظت ونگرانی کی التجاء موجود ہے ۔

جہاں تک بیماری کو زائل کرنے کے نسخے اور علاج کی بات ہے تو اس بارے میں نبی اکرم ﷺ  کے بہت ہی عالی شان فرامین اور عظیم الشان اصول موجود ہیں، آپ ﷺ کے فرامین میں متعدد بیماریوں کے علاج کیلئے مختلف دوائیوں کے مرکبات سے بنے نسخوں کا ذکر موجود ہے .

ان کا ذکر کرنے سے بات لمبی ہو جائے گی جو شخص اس بارے مین معلومات لینا چاہتا ہو وہ ابن القیم کی کتاب «زادالمعاد» اور «الطب النبوی» کامطالعہ کرے ۔

چوتھا نقطہ:

ہرمسلمان پر واجب ہے کہ وہ جھوٹی و بے بنیاد خبروں پر اعتماد و یقین نہ کرے اس طرح کے موقع پر بسا اوقات کچھ لوگ ایسے واقعات و خبریں بیان کرتے ہیں جو بالکل بے بنیاد ہوتی ہیں ، ان کا حقیقت حال سے کوئي تعلق نہیں ہوتا ۔

نتیجتاًعوام الناس میں خوف و هراس  اورگھبراهٹ پھیل جاتی ہے جس کی کوئي بنیاد ہوتی ہے اور نہ ہی جھوٹی افواہوں کے علاوہ ان ڈراؤنی خبروں کا کوئي وجود ہوتا ہے۔

اس لیے کسی مسلمان کے لائق نہیں کہ وہ جھوٹی افواہوں پر اعتماد کر کے مرعوب و خوفزدہ ہوجائے کہ جس کے نتیجہ میں اس کا اللہ ذوالجلال والاکرام کی ذات پر جو کامل ایمان ویقین تھا اس میں اور توکل علی اللہ میں خلل اور ضعفِ اعتقادی واقع ہوجائے۔

پانچواں نقطہ:

یقینا مسلمان کو جو بھی مصیبت و تکلیف پہنچے، چاہے اس مصیبت کا تعلق اس کی اپنی جان سے ہو یا اهل و عیال سے یا مال وتجارت کے حوالے سے ؛ کوئي بھی پریشانی آئے اگر ایک مسلمان ان مصائب و آلام پر صبر کرے اور اللہ سے اجر کی امید رکھے تو رب العالمین کے ہاں ایسا شخص  بہت  بڑا  درجہ ومقام حاصل کرسکتا ہے.

اللہ تبارک وتعالی نے سورۃ بقرہ  میں فرمایا هے :

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ١ؕ وَبَشِّرِالصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ اُولٰٓىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ١۫ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ  ( سورۃ بقرہ:155تا157)

’’اور یقینا ہم تمھیں خوف ، بھوک، مالوں ، جانوں اور پھلوں کی کمی سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے،  وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘ 

پس اللہ تبارک وتعالی اپنے بندے کو آزماتاہے کہ میرا بندہ مصیبت کے وقت شکوہ شکایت کرتا ہے یا عاجزی و انکساری اختیار کرتے ہوئے مجھ سے اس مصیبت کے حل کی دعا کرتا ہے اور صبر کرتے ہوئے میرے فیصلے پر راضی رہتاہے۔

جبکہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں کو مصائب میں مبتلا کرکے امتحان لیتا ہے اور ان مصیبتوں کے موقع پر وہ اپنے بندوں کے ظاھری وباطنی رد عمل کو جانتے ہوئے ہربندے کی نیت و ارادہ کے مطابق ایسی جزاء دیتا ہے جس کا وہ صبر و بے صبری کے اعتبار سے حقدار ہوتا ہے۔

لہذا جس مسلمان کو بھی بیماری،قحط سالی و آفت ،مال کی کمی یا کسی بھی صورت میں مصیبت پہنچے تو وہ اللہ سے اجر کی امید رکھے اورصبرکا پہاڑ بن جائےتاکہ وہ بغیر حساب کے اجر حاصل کرنے والے صابرین میں شامل ہوکر عظیم کامیابی حاصل کرسکے ۔

اس کے برعکس جو مسلمان مصائب و آلام سے محفوظ ہو وہ اللہ کی حمد و ثناء کرے تاکہ وہ شاکرین میں شامل ہوکر حقیقی فوز و فلاح حاصل کر سکے۔

چھٹانقطہ :

یقینا ً دنیا و آخرت کی سب  سے بڑی مصیبت دین میں مصیبت ہے (یعنی دین اسلام سے کلی یا جزوی محرومی) جس سے بڑی کوئي  مصیبت ہے ہی نہیں. یہ مصیبت ایسا خسارہ ہے جس کے بعد کوئي  بھی نفع نہیں ہے اور ایسی محرومی ہے جس کے بعد کامیابی کی کوئي  امید نہیں ہے،اس لیے اگر مسلمان کو جان ومال میں کوئي مصیبت پہنچے تو اسے اللہ کا شکر کرتے ہوئے کثرت سے رب العالمین کی حمد و ثناء کرنی چاہیے کہ اللہ نے اسے دینی مصیبت سے بچایا ہے ۔

اور اس کا دین وعقیدہ محفوظ ہے۔

امام بیہقی نے اپنی کتاب «شعب الایمان» میں قاضی شریح کا  قول نقل کیاہے وہ فرماتے ہیں  مجھے جب بھی کوئي مصیبت آتی ہے تومیں چار مرتبہ اللہ کا شکر ادا کرتاہوں :

1۔میں اللہ کاشکر  ادا کرتے ہوئے اس کی حمد بيان کرتا ہوں کہ اس نے اس  سے بڑی  مصیبت سے بچا لیا ۔

2۔میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے مجھے اس مصیبت  پر صبر کی توفیق دی۔

3۔میں اللہ کاشکر بجا  لاتا ہوں کہ اس نے مجھے اس مصیبت کے موقع پر اپنی طرف رجوع کرنے کاموقع دیا اور اس کی توفیق بھی دی کیونکہ میں اس عمل سے اپنے رب سے ثواب کی امید رکھتا ہوں۔

4۔ اور میں اللہ کے شکر کے طور پر اس کی تعریف کرتا ہوں کہ اس نے مجھے دینی مصیبت سے محفوظ رکھا۔ (شعب الایمان:9507 )

شیخ عبدالرزاق البدر حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاکرنی چاہیے کہ وہ ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور اللہ تعالی ہمیں دین و دنیا اور مال و اولاد میں عافیت سے نوازے یقینا وہ دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا ہے۔

آمین یارب العالمین
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے