جب بہاولپور یونیورسٹی کا بغداد کیمپس بہت حد تک بن چکا تھا اور کچھ زیر تعمیر تھا انہی دنوں میں پہلی بار وہاں گیا ۔ابھی ایک عمارت سے دوسری عمارت کے درمیان ریت ہی ریت تھی – سبزہ کم تھا اور سڑکیں یا صحرا کی باقیات کہ جس میں ایک نیا شہر اتر رہا تھا – طبیعت میں موجود رومانیت نے وہ دن بھولنے نہیں دئیے- اسی سفر میں ،میں نے پہلی بار چولستان دیکھا تھا ۔ وہاں کچھ وقت ہاسٹل میں قیام رہا ، اپنا لڑکپن تھا اور ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر صاحب کی ڈھلتی جوانی کے دن …

ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر مکتبہ قدوسیہ تشریف لائے اور مکتبے میں ہی نہیں دل میں بھی آ کے بیٹھ گئے ….ان کو یونی ورسٹی کی لائبریری کے واسطے کچھ کتب خرید کرنی تھی ، کتابیں منتخب کیں اور رخصت ہوئے مگر دل پر گہرا نقش چھوڑ گئے – میں سرکاری اداروں کے ساتھ بہت کم کام کرتا ہوں کہ وہاں کے تقاضے نبھانے میرے لیے ہمیشہ مشکل رہے ہیں ، لیکن ڈاکٹر صاحب مزاج کے عجیب درویش آدمی تھے اپنی یونی ورسٹی کے لیے بھی مخلص اور جن سے کتب خریدی جا رہی ہیں ان کے بھی ہم درد -سو کتب انتخاب کر کے رخصت ہوئے لیکن کہاں رخصت ہوئے ، آج بھی دل کی بستی میں اسی شکل و صورت میں موجود ہیں کہ

وہ کب کے آئے بھی گئے بھی نظر میں اب تک سما رہے ہیں

یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں ، یہ آ رہے ہیں وہ جا رہے ہیں

آج میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ان سے آخری ملاقات کو صرف آٹھ گھنٹہ گزرے ہیں ، جی ہاں آج صبح سویرے میں ان کو مل کے آیا کہ جب وہ سفید لٹھا لباس پہنے گہری نیند سو رہے تھے – میں کہ جو کبھی بھی کسی مرحوم کے جنازے کے ہجوم میں جا کے کسی کا چہرہ نہیں دیکھتا کہ احباب جب پوچھتے ہیں کہ ایسا کیا سبب کہ آخری دن آپ مرحومین کا چہرہ نہیں دیکھتے تو میں کہا کرتا ہوں کہ میں اپنے دوست کو ، اپنے عزیز کو یا اپنے یار کو اس کی زندہ اور جیتی جاگتی صورت میں اپنے دل میں رکھنا چاہتا ہوں کہ وہ یونہی میرے دل کے ویرانے کو آباد رکھے اس کی جیتی جاگتی صورت ہی میرے اندر رہے کہ جیسے آخر شب کی ہم سفر شمع جو میرے ساتھ ہی بجھے تو بجھے ورنہ ٹمٹماتی رہے اور مجھے میرے یار کی یادوں کے جھولے جھلاتی رہے _

لیکن آج جب میں ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر صاحب کے جنازے میں گیا تو ہجوم میں گھس کے ان کو « مل کے آیا» میں نے دیکھنا چاہا کہ ایسے متحرک ، پارہ صفت ، ہر دم بے چین اور مصروف ہمارے ڈاکٹر صاحب کیونکر سفید لٹھے میں دم سادھے چپکے پڑے ہوں گے …..لیکن عجیب سی بات وہ تو ویسے ہی تھے جیسے آج سے تین دن پہلے ہی میں ان کو مل کے آیا تھا ….جی ہاں ابھی صرف تین دن پہلے میں ان کے دفتر گیا ، میری اہلیہ بھی ساتھ تھیں ، وہی شفقت بھرا انداز ، ایک بے ساختہ ابھرتی ہوئی مسکراہٹ کہ جو پل بھر میں نرماہت بھری قوس قزح میں بدل جائے اور سب کچھ محبت کے رنگ میں رنگ جائے مجھے بھی رنگ دے –

لیں یہ کیا کہ میں نے چند سطور میں تین عشروں کا فاصلہ طے کر لیا ..ذکر تھا ان کی پہلی پہلی بار مکتبہ قدوسیہ آمد کا ….. مدت پر مدت گزرتی گئی ۔ اپنا لڑکپن رخصت ہوا ، جوانی آئی اور رخصت ہوئی اب بڑھاپا آنگن میں قدم دھر چکا ۔۔۔لیکن ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر ویسے کے ویسے جوان ۔۔۔۔ہاں قریب پینسٹھ برس کے جوان اور اسی جوانی میں آج دنیا سے رخصت ہوئے ۔ وہ بڑھاپے میں بھی جوان تھے ، حوصلہ مند اور اسی حوصلہ مندی کے سبب ہمیشہ ظفر مند ۔۔۔بالکل اپنے نام کی طرح۔۔۔۔

پہلی ملاقات ان کی مکتبہ قدوسیہ آمد پر ہوئی اور پھر یہ تعلق ایسا مضبوط ہوا کہ جیسے جنم جنم کا ساتھ ۔۔

شائد ستائیس برس سے بھی زیادہ وقت گذرا ۔۔میں صاف ستھری صبح بہاولپور اترا ۔ بہت صاف اور نکھرا دھلا شہر ۔۔۔ان سے ملاقات مقصود تھی اور غرض اس ملاقات کی ایک بل کی ادائیگی تھی کہ جس میں شائد کوئی رکاوٹ تھی ۔بہاول پور یونیورسٹی نے مکتبہ قدوسیہ سے کچھ کتب خریدی تھیں، اس کے بل کی وصولی کا مرحلہ تھا ۔ ۔ ان دنوں بہاولپور میں ابھی سائیکل رکشے چلتے تھے ۔میں ایک ایسے ہی سائیکل رکشے پر بیٹھا اور یونی ورسٹی کے اولڈ کیمپس چل دیا کہ جہاں انہوں نے مجھے بلایا تھا …سائیکل رکشے پر میرا یہ پہلا سفر تھا اور اس سواری کی پہلی ہی زیارت – اب تو ریاست بہاول پور سے ان کو ختم ہوئے بھی مدت ہو گئی – کچھ برس پہلے میں نے اپنی چھوٹی بیٹی کو اپنے اس سفرکے بارے بتایا اور یہ کہ میں سائیکل رکشے پر بیٹھا تھا تو مجھے یوں تیکھی نظروں سے دیکھنے لگی کہ جیسے میں ہی انسانیت کا سب سے بڑا قاتل ہوں، بہت مشکل سے اسے یہ باور کروانے میں کامیاب ہوا کہ سائیکل رکشے پر بیٹھنا انسانیت کا کوئی ایسا بڑا قتل نہیں بلکہ اصلی قتل اس سے بھی بڑھ کے ہیں جو آج بھی کامیابی سے جاری ہیں یہ میری بیٹی ایسی حساس ہے کہ جب اس کو خبر ملی کہ ڈاکٹر صاحب رخصت ہوئے تو دیر تک کمرے میں گھس کے روتی رہی ۔

یونیورسٹی کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوا ، لمبی روش کہ جس کے دو اطراف سرسبز پودے اور سڑک پر پانی کا تازہ تازہ چھڑکاؤ کیا گیا تھا  ’’ماشکی‘‘ابھی اپنا کام کر رہا تھا ۔ ہمارے آج کے بچوں کو ’’ماشکی‘‘یعنی سقے کی کیا خبر کہ کیا ہوتا ہے ، ہم نے خود لاہور میں اپنے بچپن میں ’’ماشکی ‘‘ پہلو میں پانی کا مشکیزہ جمائے سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے دیکھے ہیں ۔

مٹی کی تازہ تازہ مہک ، سبزے کی بہار ، ٹھنڈے ٹھنڈے ماحول نے سفر کی کلفت کو راحت میں بدل دیا ، مقررہ مقام پر پہنچا تو ڈاکٹر صاحب موجود نہ تھے لیکن کچھ ہی دیر میں چلے آئے ، یہ میری مکتبہ قدوسیہ کی ملاقات کے بعد ان سے دوسری ملاقات تھی ،جس کو شائد اب ستائیس برس کا طویل عرصہ بیت گیا انہوں نے نہایت توجہ سے بلکہ عملے کے سر پر سوار ہو کے ، کسی سے محبت سے اور کسی سے جھگڑ کے میرا کام کروایا اور اس کے بعد مجھے ساتھ لیے نیو کیمپس جسے بغداد کیمپس کا نام دیا گیا تھا ، کی طرف چل دیے کہ جو تب شہر سے باہر تھا ، وہاں وہ اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے اور مجھے وہاں موجود بعض وہابی دوستوں نے سنبھال لیا ، سہ پہر وہ مجھے لیے سیٹیلائٹ ٹاؤن چلے آئے جہاں ان دنوں ان کی رہائش تھی ،خاصا پرتکلف کھانا ہمارا منتظر تھا ،رات کو میں احمد پور شرقیہ چلا گیا اور اگلے روز پھر ان کے سر پر آ سواری کی ، لیکن مجال ہے کہ وہ معمولی سا بھی الجھے ہوں ۔

ان کا مزاج آتے جاتے بادلوں کے سبب بنتی دھوپ چھاؤں کی طرح تھا کہ ایک بارگی ایسے غصے میں آ جاتے کہ کہ جیسے اب جان ہی لے کے ٹلیں گے لیکن دوسرے ہی لمحے جیسے سورج کے آگے کوئی اڑتی بدلی آگئی اور ماحول کی سب گرمی بہار بن گئی ،پھر اس بھرپور غصے کے بعد ایک ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہوتی ۔

دو ستوں کے لیے ہمہ وقت ان کا دامن دل کھلا ہوتا ، ان کو جائز حدود میں رہ کے بھرپور فائدہ دیتے لیکن اصل مقصود یہ ہوتا کہ ان کے اس تعلق کا فائدہ ان کے ادارے کو ہو جائے  ایک بار انہوں نے دو جلد پر مشتمل مقالات سیرت النبی ﷺ کی کتاب مجھے سے چھپوائی ، کوٹیشن وغیرہ کے مراحل طے کرتے ہوے انہوں نے آرڈر مجھے دیا، باقاعدہ کاغذ درآمدی لگانا مقرر ہوا ،یہ شرائط میں باقاعدہ لکھا ہوا تھا ، میں نے کچھ لاپروائی کی اور کاغذ والے کو بنا نمونہ دیکھے کہہ دیا کہ بھائی امپورٹڈ کاغذ اتنی مقدار میں بھجوا دو …ستم یہ کہ پہنچنے کے بعد بھی میں نے کاغذ نہ دیکھا اور کتاب چھپ کے جلدبندی سے بھی گذر گئی …جب کتاب چھپ کے ہاتھ میں آئی تو میں نے سر پکڑ لیا ، معیار سے خاصا کم کاغذ تھا ،  کاغذ والے دوست کو شکوہ کیا تو ان صاحب نے بولا کہ ہے تو درآمدی کاغذ ، مقامی ہرگز نہیں ،اب ان صاحب سے بھی ناتا کاروباری سے بڑھ کے دوستانے کا تھا ..سو پنجابی کا ’’ میسنا ‘‘ بن کے چپکے سے دو نسخے ڈاکٹر صاحب کے پاس دھڑکتے دل سے لے کے چل دیا ۔

نقصان کا ا ندیشہ اوپر سے ڈاکٹر صاحب کا مزاج شاہی کہ جانے کب کس وقت عتاب کی کالی گھٹا برس اٹھے – لیکن ایک امید شائد «افسر « کی نظر سے ’’مال ‘‘بچ کے نکل جائے ،آپ کسی کام سے پنجاب یونی ورسٹی لاہور آئے اور وہیں یونی ورسٹی کے گیسٹ ہاوس میں ٹھہرے تھے – کتاب ان کے ہاتھ دی اور ’’دھاڑم دھاڑ ‘‘شروع ہو گئی ،ان سے اول اول کی ملاقاتوں کو اب شائد دس برس بیت چلے تھے ، محبت پرانی ہو چکی تھی ’’ہنی مون ‘‘پیریڈ کب کا ختم ہو چکا تھا اور اب ان کے غصے کو کھل کے برسنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی، سو بن بادل برکھا برسی اور مجھ فقیر پر کھل کے برسی ، لیکن ..کچھ ہی دیر میں محبت کی قوس قزاح کے رنگ نکھرنے شروع ہوئے ،مسکراتے ہوے محبت آمیز لہجے میں بولے :

’’ یار اگر میں یہ کتاب منظور کر لوں تو معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور ساتھ اس بات کا امکان کہ کسی کی انگلی نہ اٹھے کہ جانے میں نے کیوں یہ کتاب منظور کر لی ۔‘‘

انہوں نے یہ کہا تو ہم ، کہ مزاج کے بادشاہ ، فورا کہا ڈاکٹر صاحب کتاب دوبارہ چھپ جائے گی  اس پر مزید کھل اٹھے ،کچھ ہی روز میں میں نے نہایت عمدہ معیار پر دو جلدوں کے ہزار نسخے دوبارہ چھاپ کے بھجوا دیے اور پہلی شائع کردہ تمام کتب اپنے گودام میں رکھوا لیں اور ابھی تک وہاں ’’ رونق افروز ‘‘ہیں ،تب بیس برس پہلے ان کی مالیت شائد پانچ لاکھ روپے تھے – اس بات پر وہ مجھ سے بہت خوش ہوے –

جامعہ اسلامیہ بہاولپور سے اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ برس پہلے انہوں نے تیسری سیرت کانفرنس منعقد کی ، تب یہ کتب دوبارہ شائع کی گئیں  ڈاکٹر خالد ظفراللہ کو ساتھ لیے مکتبہ قدوسیہ چلے آئے –

‘دیکھو ! کانفرنس میں اتنے روز ہیں ، کتاب کی کمپوزنگ کا آخری مرحلہ ہے ، تم نے چھاپنی ہیں :

جبکہ ڈاکٹر خالد ظفراللہ نے بھی بہتیرا کہا کہ یہ کوئی ایسا آسان نہیں ہے ، ایک نہیں بلکہ تین کتابوں کی ابھی کمپوزنگ بھی جاری ہے ،اور آپ چھاپنے چلے ہیں ،لیکن وہ کہ اپنی ہی دھن کے بندے تھے :’’ بس تینو کہہ دتا اے تو چھاپنی اے ‘‘۔

یقین کیجئے کسی حد تک ناممکن کام تھا ، مجھے نہیں معلوم کہ کیسے ہو گیا لیکن ہو گیا ،تب مجھ سے بہت خوش ہوئے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے ریٹائر ہوئے تو سرگودھا یونیورسٹی میں چلے گے – تب ان کے بچے لاہور میں مصروف تھے – وہ بھی لاہور منتقل ہو گئے – آخری دنوں میں یونی ورسٹی آف لاہور آ گئے – اب میری ان سے ملاقات جلدی جلدی ہونے لگی – قصہ یہ ہوا کہ ان کے یہاں آنے سے دو تین ماہ پیشتر میری اہلیہ نے ایم فل میں داخلہ لے لیا – اس داخلے کے شائد دو ماہ بعد ہی وہ بھی اسی یونیورسٹی میں آ گئے – ان کو معلوم ہوا ، پہلے تو مجھے کہنے لگے ..کیا ضرورت تھی اب اس عمر میں یوں خود کو مشقت میں ڈالنے کی …پھر جیسے رضا مند سے ہو گئے « اچھا چلو ٹھیک ہے ‘‘ – ایسے شفقت سے پیش آتے کہ میری اہلیہ نہال نہال ہو جاتی – دو تین ماہ پہلے خاتون کو ایک معاملہ پیش آیا تو الجھ گئیں – میں نے کہا کیوں غم کرتی ہیں ، ڈاکٹر صاحب کو کہتا ہوں دیکھ لیں گے – ڈاکٹر صاحب کو کہا تو کہنے لگے دیکھ لیتا ہوں ۔اگلے روز طالبہ خود ان کے پاس جا پہنچیں تو یوں فکر مند ہوئے کہ جیسے سگی بیٹی کے لیے کوئی باپ تڑپ اٹھے – سچی بات ہے تب تک مجھے بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ مجھ سے اور میرے سے متعلق افراد سے یوں پیار کرتے ہیں – میرے بچوں کی تعلیم کے ایک ایک مرحلے کے بارے مجھ سے کرید کرید پوچھتے ،کچھ نصیحت کرتے کچھ ہدایات دیتے اور پھر ڈھیر ساری دعائیں ۔جب بھی ملتے بطور خاص میری بڑی بیٹی کی ڈگری کا پوچھتے ۔جب ان کو بتایا کہ اب ڈاکٹر بن گئی ہے تو ان کا چہرہ چمک اٹھتا ،پھر مسیب کا پوچھتے کہ اسلام آباد میں کیسا جا رہا ہے ۔ایک ایک کو یاد رکھتے اور احوال دریافت کرتے ۔

مزاج میں کبھی تلخی آ جاتی تھی لیکن ایک دم ہی ایسے شفیق ہوجاتے کہ جیسے کبھی غصہ آیا ہی نہ ہو – جس پر غصے ہو جاتے اسی سے بعد میں یوں پیار سے پیش آتے کہ دل کی سب کلفتیں محبتوں میں بدل جاتیں اور ان کے غصے کا غصہ نہ رہتا ۔۔ان کو خود بھی اپنے مزاج کا اندازہ تھا ۔ڈاکٹر سمیع اللہ زبیری بتاتے ہیں کہ ایک روز اسلام آباد آئے اور آ کے مجھے فون کر دیا کہ ’’آ جاؤ ‘‘ ۔ڈاکٹر سمیع الله ایک دوست کو ہم راہ لے کے پہنچ گئے ۔ دونوں دوست ان کو دبانے لگ گئے ۔ جب دبا چکے تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ « میں تم لوگوں کو تلخ و ترش کہہ لیتا ہوں ان باتوں کو محسوس نہ کیا کرو ۔۔۔اور پھر خود ہی آبدیدہ ہوگئے ۔۔اب سمیع الله زبیری حیران ۔۔۔ظاہر ہے ڈاکٹر صاحب جیسا بنده آبدیدہ ہو حیرت تو ہو گی ۔۔۔اس رم جھم کرتے موسم کے بیچ کہنے لگے ’’جھلیا سانوں تیرے نال پیار اے، تینوں نئی پتا ‘‘

لوگوں کے کام آتے اور مسلسل آتے اور کبھی نہ تھکتے ،میں نے ان جیسا کوئی دوسرا نہیں دیکھا کہ جو کوئی اس طرح لوگوں کے کام آیا ہو ۔ ملک بھر میں ان کی اس خدمت طلباء کی مثالیں ہر طرف بکھری پڑی ہیں ۔آج بہت سے افراد کی پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ان کے سبب ہی لفظ ڈاکٹر کا سابقہ لیے ان کے نام کا حصہ ہیں ۔لیکن عجیب بات کہ کبھی ان کے منہ سے اس پر تحسین کی طلب نہیں دیکھی گئی اور نہ ہی انہوں نے کبھی اس پر داد طلب کی ۔بلکہ خود کھینچ کھینچ لوگوں کو « ڈاکٹر « بناتے رہے ۔جب بہاولپور تھے تو مسلسل مجھے کہتے رہے کہ اپنی اہلیہ کو کہو کہ یہاں سے ہی ڈاکٹریٹ کر لے ۔لیکن ہمارا «مشترکہ تساہل» رکاوٹ رہا ، اب جب محنت و مشقت بھرا ایم فل کرنا پڑا تو میری اہلیہ کو ان کی یہ محبت بھری مسلسل پیش کش بہت یاد آتی رہی ۔۔وہ الگ بات کہ «خواتین کے اصولوں کے عین مطابق» اس نہ ہو سکنے کا سبب میں ہی تھا ۔۔

پچھلے دنوں ڈاکٹر صاحب کی والدہ کی وفات ہوئی اور قریب پندرہ دن بعد ہی وہ بھی رخصت ہوئے ۔جب ان کی والدہ محترمہ کی وفات کی

خبر آئی تو بعض احباب کو اچنبھا ہوا ۔ سبب اس حیرت کا یہ تھا کہ عموما جب بنده خود ستر برس کے لگ بھگ ہو گمان یہی ہوتا ہے کہ اس کے والدین رخصت ہو چکے ہوں گے ۔لیکن ڈاکٹر صاحب کی والدہ آپ سے صرف سولہ برس بڑی تھیں ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کی بوقت وفات عمر انہتر برس تھی اور ان کی والدہ پچاسی برس کی عمر پا کے اس جہاں رنگ و بو سے رخصت ہوئیں ۔۔

میں نے بارہا دیکھا کہ ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر اس عمر میں بھی اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ باپ والا سلوک روا رکھتے محبت کے وقت محبت اور پوری توجہ کےساتھ ڈانٹ ڈپٹ بھی ۔۔۔اور مجال ہے کہ بھائی ان کے آگے سے بول بھی جائیں ۔ ان کے دو بھائیوں سے میری خاصی ملاقات رہی ۔ان میں سے بھی ایک اور چھوٹے بھائی عبد القہار سے خاصی بے تکلفی بھی ہے ۔سب بھائی ان کا نہایت احترام بھی کرتے اور ان کے غصے سے ڈرتے بھی تھے ۔باپ جیسے شفیق ہمارے ڈاکٹر صاحب نے اپنے بھائیوں کے مستقبل کے لیے واقعی بہت محنت کی۔عبد القہار کی پنجاب اسمبلی میں عالی عہدے پر تعیناتی بھی ان کی محنت اور توجہ کا نتیجہ تھی۔

پسماندگان میں ہزاروں شاگردوں کے علاوہ ڈاکٹر عبد الخالق، پروفیسر حماد ظفر ، بیٹی جو کہ پی ایچ ڈی ہیں اور خواتین کالج میں تدریسی فرائض سرانجام دے رہی ہیں آپ مولانا محمد شریف حصاری صاحب کے بھانجے تھے ان کی نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی حفظہ اللہ نے لاہور میں پڑھائی ، اسی روز بہاولنگر میں ان کے ماموں جان پروفیسر میاں عبد المجید حفظہ اللہ نے ان کے آبائی گاؤں پنجکوسی ضلع بہاولنگر میں پروفیسر منیر احمد صاحب نے اور بعد میں شیخ الحدیث مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے پڑھائی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے