اے ہم نفسانِ محفلِ ما   رفتید ولے نہ از دل ِما

(ترجمہ:اے ہماری محفل  کے ہم نفس ساتھیو تم چلے تو گئے ہو مگر ہمارے دلوں سے نہیں)

جب سے یہ حدیث مبارک پڑھی ہے کہ ’الأرواحُ جُنودٌ مُجنّدۃ‘کہ روحیں جھنڈ در جھنڈ لشکر ہوتی ہیں۔ تواس کی روشنی میں جب میں اپنے گردو پیش کاجائزہ لیتا ہوں تو لگتا ہے کہ شاید رب ذوالجلال نے ہم سب کو عالمِ ارواح میں کہیں ایک ہی جگہ جمع فرمایا تھا کہ اب اس کاظہور ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔رفیقی صاحب مرحوم کی رفاقت پر میں اللہ تعالی کا بے انتہا شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے ایک بڑا ہی خوبصورت ‘خوب سیرت دلآویز ساتھی عنایت فرمایا ۔ و لا نزکّی علی اللہ أحدا

اللہ پاک برادر مکرم کی وہ دعا قبول فرما لے جو انھوں نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر فرمائی ہے کہ ’’ اللہ تعالی ہمیں جنت میں اکٹھے فرما دے‘‘۔

میں نے نوعمری میں واربرٹن کانام تو سنا تھابالخصوص مولانا عزیز زبیدی  کے حوالے سے‘کہ علمی حلقوں میں آنجناب اس قصبے کی پہچان ہیں ۔ ہمارے ابّا جی ( مولانا عبدالعزیز سعیدی ؒ) کے وہ قریبی دوست تھے کہ دور ِطلب علمی میں دہلی میں یہ ایک دوسرے کے ہم عصر تھے‘ اور ہمارے شیخ مولانا سلطان محموؒد کے وہ شاگرد رشید بھی تھے۔ میرے حاشیہ خیال میںنہ تھاکہ میں بھی اس قصبہ میں جاؤں گا کہ اللہ تعالی نے درس وتدریس کے لیے جگہ جگہ پھرنے کی چاہت سے محفوظ رکھا ہے۔

بہرحال  ۲۰۰۵ء میںحافظ عبدالعظیم صاحب نے مجھے جامعہ مِرآۃ القران والحدیث ( للبنات ) کی تدریس کے لیے دعوت دی تو میں نے اپنی مصلحت کے پیش نظراستخارہ و استشارہ کے بعد یہاں آنے کی دعوت قبول کر لی اور جامعہ ابی بکر کراچی سے یہاں منتقل ہوآیا۔بلکہ حافظ صاحب مجھے بڑے پیار اور اکرام کے ساتھ اٹھا لائے۔ تو جناب رفیقی صاحب کی رفاقتِ خاصہ حاصل ہوئی کہ وہ اس جامعہ کے ایک مدت سے استاد تھے او ر پھر ہمیں ان کی ہمسائیگی بھی مل گئی ۔ انھوں نے مجھے اپنا ’تایا استاد‘کہا ‘ اس نسبت سے کہ وہ میرے چھوٹے بھائی سعید مجتبیٰ سعیدی صاحب کے رحمانیہ لاہور میں شاگرد تھے ۔اور میں انھیں ’رفیقی ‘کہنے لگا ( عربی کی یائے متکلم کے ساتھ یعنی میرا رفیق) اور اس سے وہ بڑے محظوظ ہوتے۔ اللہ تعالی نے انھیں  وجہِ طلیق  سے نوازا تھا تو اسی لحاظ سے خُلُق حَسَن  سے بھی مزین  تھے ۔ 

 ان سے ان کے تخلص رفیقی  کے بارے میں معلوم کیاتو بتایا کہ نو عمری میں مجھے حکایت رسالہ پڑھنے کا  بڑا شوق تھا اور میں اسے خو ب پڑھتا تھا۔ اس میں فوجی او رتفتیشی مہمات قسم کے مضامین ہوا کرتے تھے۔ اس کا ایک قلم کار رفیقی تھا تو اس سے متأثر ہو کر میں نے بھی  اینے آپ کورفیقی لکھنا شروع کردیا ۔ اور بتایا کہ ایک بار رفیقی برادری کا کوی بڑا اجتماع تھا تو اس نام کی مناسبت سے مجھے بھی دعوت آئی تھی۔

رفیقی صاحب aاپنے اسباق بڑی محنت سے تیار کرتے تھے اور محض اپنے حافظہ پر اعتماد نہ کرتے بلکہ کتاب کے حاشیہ پرلکھتے اور خوب لکھتے۔ اگر کہیںکوئی اشکال محسوس  ہوتا تواس کے حل کے لیے بلا جھجک مجھ سے رابطہ فرماتے اور میں حسب توفیق جو سمجھ آتا عرض کردیتا۔علم الفرائض میں انھیں خوب درک تھا ۔  جبکہ میں اس میں کمزور ہوں تو ان مسائل کو میں ان کی طر ف تحویل کردیا کرتاتھا ۔ رفیقی صاحب اپنی مسجد ریاض الاسلام کے شروع سے باقاعدہ امام تھے اور آخر تک اس اعزاز پر فائز رہے ۔نمازیوں کی صفیں درست کرانے میں بہت اہتمام فرماتے ۔ صفِ اول میں شامل ہونے کا شوق دلاتے ۔ طالب علموں کو تاکید کرتے کہ نماز کے لیے دوڑکر نہ آیا کریں اور صف میں ایک دوسرے کے ساتھ خوب مل کرکھڑے ہوں ‘ اس طرح کہ کوئی جگہ خالی نہ رہے۔ قراء ۃ قرآن میں ان کا اپنا ایک خاص لحن تھا ۔بڑا بے تکلف اور پر کشش اور اصول تجوید کے عین مطابق۔ اللہ تعالی ہمارے بھائی کی یہ ساری حسنات قبول فرما لے ۔

میں ان کا ساتھی بنا تو انھوں نے مجھے نماز عصر کاامام بنادیا ‘ اس طرح میں اپنے ان احباب کا’’ امام العصر‘‘ بن گیا۔ مسجد کے ملحقہ کمرے میں مجھے مکتبہ کی سہولت حاصل ہے ‘ اکثر میرے پاس آجاتے  ‘ دل کی باتیں کرتے ‘ مسائل کا مذاکرہ ہوتا ‘ مشورے لیتے دیتے ۔ بچوں کی تعلیم و تربیت بھی ہمارا موضوع ہو تا ۔ اپنے عزیزوں کے بارے میں اپنا کوئی عندیہ بتا کر پوچھتے کہ شرعی طورپر یہ جائز ہے یا ناجائز؟میں انھیں ان کے علم کا واسطہ دیتا — مگر وہ میری رائے لینے پر اصرار کرتے۔

ہم شروع سے ایک کے دوسرے کے ہمسائے ہیں ‘ توموقعہ بموقعہ گھر میں تیار ہونے والا کھانا ہمارے ہاںلے آتے ۔ ان کے مہمان آتے تو حسب احوال مجھے بھی دعوت دے لیا کرتے ۔ ان کی بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ نمازوں کے اوقات کی تبدیلی کا اعلان کرناہوتا تو مجھ سے دریافت فرماتے ۔ علماء و مشائخ سے بڑی محبت تھی ‘ ان سے ملاقات کا بڑا شوق تھا۔ اس مقصد کے لیے ہم نے کئی سفر کیے۔ دورانِ سفر ُان کا علمی بیگ ان کے ساتھ ہوتا ‘ اس میں قرآن مجید اور حصن المسلم بالخصوص ہوتی اور کاغذقلم بھی ۔ سفر کے دوران میں وقت ضائع نہ کرتے۔

میں کسی با ت میںکوئی رہنمائی دیتا تو فرماتے ‘دعا کریں ۔ میںعرض کرتا کہ دعا کرنا بجا ‘مگرعمل کو دعا کے بہانے ٹالا نہیں جا سکتا۔ اس پر بھی یہی کہتے کہ’’  دعا کریں‘‘۔ اور دعا کرنا ان کا من پسند وِرد تھا ‘ اس کا انھیں بڑا شغف تھا اور بڑی تفصیل کے ساتھ لمبی دعا کرتے کراتے تھے۔ میں نے توجہ دلائی تو اس کا دورانیہ کچھ کم ہو گیا۔اور مجھے احساس ہو جاتا تھا کہ یہ میری رعایت سے ہو ا ہے ۔ بازار گردی سے انھیں کوئی رغبت نہ تھی‘ سوائے کسی ضروری کام کے۔ سبزی وغیرہ ان کے بچے ہی لایا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے ان کے اوقات میں برکت دی تھی ‘ پڑھنے پڑھانے اور مطالعہ وغیرہ کے لحاظ سے آپ کثیر الاشغال تھے۔ مگر پھر بھی مجھ سے پوچھتے کہ آپ کے مشاغل کی ترتیب کیا ہے؟ ۔ بڑے خوش طبع تھے کہ مناسب مواقع پربا ت بات میںمزاح پیداکرلینا ان کا معمول تھا۔ شہر میں کہیں تعزیت وغیرہ کے لیے جانا ہوتا تو کبھی میں انھیں ساتھ لے لیتا اور کبھی وہ مجھے اپنے ساتھ لے جاتے ۔

ان کے قریبی اور بعیدی احباب انھیں اپنے عزیزوں کے جنازوں کے لیے بالخصوص دعوت دیا کرتے تھے ۔ فجر سے پہلے بروقت بیدار ہونا ان کا معمول تھا ۔ اس سے ہمارا بھی فائدہ ہوجاتا کہ حضرت جاگ گئے ہیں۔اور پھر اذان کے بعد بچوں کی سستی دور کرنے میں ان اپنا ایک مخصوص انداز تھا کہ ہم بھی اس سے چونک جاتے اورتیز ہوجاتے ۔

اہل علم کتابوں کے سلسلے میں ہمیشہ ہی تشنہ رہے ہیں ‘ کتابیں جمع کرنا ان کا شوق تھا اور ہمارا آپس میں کتابوں کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا ۔ مجھے کتاب عاریت دینے میں انھیں کوئی عار نہ تھی بلکہ جو کوئی قابل ہدیہ ہوتی عطا بھی فرما دیتے۔ رفیقی بھائی بڑے قادر الکلام خطیب اور قلمکار تھے۔

میرے سب ہی بچوں کے ساتھ انھیں بڑا پیار تھا ‘ بسااوقات انھیں اپنے مصلے پر کھڑا کرکے جماعت کرانے کا کہتے ۔ اس گھرانے کے سبھی خورد و کلاں سے ہمیں جو پیار ملا ہے بڑا قابل رشک ہے ۔ بلکہ سبھی کیلانی برادران اور وار برٹن کی جماعت نے ہمیں جو اپنائیت دی ہے ‘ اس سے ہمیں اس شہر میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی ۔ اللہ پاک ان سب کو اپنی عزتوں اور برکتوں سے مالا مال فرمائے۔ میں نے حافظ عبد العظیم صاحب سے عرض کیا ہے کہ ہمارا اور آپ کا تعلق حِلف ُالاسلام کا تعلق ہے ۔ اللہ تعالی اس کو ثبات عطا فرمائے اور اس کے حقوق و آداب نبھانے کی توفیق دے۔

میں کئی مواقع پرر فیقی جی کو ساتھ لے کر ان کے خاندانی قبرستان چاندی کوٹ بھی گیا ہوں کہ مولانا عبدالسلام  ‘والدہ صاحبہ حافظ عبد العظیم اور دیگر اکابرین کے لیے دعا کرسکوں ‘ اور اپنے بارے میں بھی  میں نے انھیں کچھ کہہ رکھا تھا  —–مگر یہ کیا ہوا — کہ وہ تو خودہی روانہ ہو گئے اور مجھے انھیں کندھا دینا پڑا —– رہے نام اللہ کا  !

یہاں ان کے تین جنازے ہوئے اور تینوں ہی قابل رشک تھے ۔ جنازے کے بعد حسب روایت جب لوگ ان کے برادران سے تعزیت کر رہے تھے ‘گلے مل رہے تھے  تو مجھ سے بھی بڑٍے اہتمام  کے ساتھ ملے ۔ بلکہ تعزیت کا  یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے کہ ہر نیا ملنے والا مجھ سے میرے رفیق کی تعزیت کررہا ہے ۔ ہم سب گھر والوں کا یہ حال ہے کہ ہمارے دل و دماغ سے ان کا ہیولا غائب نہیں ہو رہا – لگتا ہے کہ وہ آ رہے ہیں ‘  جا رہے ہیں ۔ ان کی لائبریری کا دروازہ بند دیکھ کے دل دھک سے رہ جاتا ہے – اچھا بھائی  !  رافقتک السلامۃ

وفات کی رات ‘ عشاء کے بعد ان کی عیادت کے لیے حاضر ہوا ‘ بے قرار تو تھے مگر زیان سے یہی فرمایا کہ سکون ہے ‘ بہتر ہوں  !  اور تھوڑی دیر بیٹھ کے مطمئن ہو کر ہم اپنے گھر آگئے ۔مگر جب سحر ہونے کو آئی اور حسب معمول ان کے جاگنے کا وقت قریب آیا تو وہ فی الواقع جاگ گئے  ‘ایسا   جاگنا ‘جس میں کبھی یہ عنصری نیند نہ ہوگی ۔ اور ان کا سکون  ہمیشہ کے سکون میں بدل گیا ۔ جس کے لے ہم تو قطعا تیار نہ تھے— مگر وہ تیار ہی نہیںبلکہ پرعزم تھے اور چپکے چپکے تیاری بھی کر لی تھی ۔

بہر حال رب تعالی کے فیصلے برحق ہیں اور حکمت وعدل پر مبنی ہیں   ولا نقول الّا ما یُرضی ربَّنا  ! اور یہ اس کی عطا ہے جسے چاہے عطا فرما دے کہ گھر بیٹھے  —– ہمارے ناقص گماں کے مطابق خلعتِ شہاد ت سے سرفراز ہو گئے کہ اللہ کے سچے نبی کا سچا فرمان ہے کہ’  المَبطونُ شھید‘  اور معروف معنوں میںانھیں کسی کا محتاج بھی نہیں پڑا۔

برادر گرامی بدوِّ شعور سے قرآن وحدیث کے طالب علم رہے ‘ اسی کا درس دیا اور اسی کے متعلق لکھنا پڑھنا ان کا معمول رہا –کل مُیٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍَسَّرٌ لما خُلِق له– اللہ تعالیٰ انھیں اعلیٰ علیین میں صالحین کا ساتھ نصیب فرمائے۔ ان کے گلشن کی حفاظت فرمائے‘ اسے تروتازہ اور شاداب رکھے ‘ جس کی وہ اپنی مستعار زندگی میں آبیاری کرتے رہےاور میرے بھائی کی جو نیک تمنائیں تھیں پوری فرمادے۔

میں اپنے ان شکستہ الفاظ کے ساتھ ان کے برادران گرامی ‘  فرزندان عزیز اور جملہ متعلقین کے علاوہ اپنی بھابی صاحبہ سے بھی کلمات تعزیت پیش کرتا ہوں ۔

إنّ العین تدمع  والقلب یحزن ولا نقول إلا مَا یُرضِی ربَّنا وإنّا بِِفراقک یارفیقَنا لمحزونون

آہ!

از دستِ فقیرِ بے نوا  ناید  ہیچ       

جز ایں کہ بصدقِ دل دعائے بکند([1])

اس خاک پہ بخشش کے برستے رہیں انوار

اس خاک پہ رحمت کی گھٹا ہو گہر افشاں

اور پنجابی کہ یہ بول تو میرے دل کی آواز ہیں:

لے او یار حوالے رب دے         میلے چار دِناں دے

اس دن عید مبارک   ہوسی          جس دن فیر ملاں گے  !

رفیقك المحزون

سوانحی خاکہ: 

 مولانا عبدالصمد رفیقی صاحب  اپنے قصبہ واربرٹن ضلع ننکانہ میں جامعہ مرآۃ القرآن والحدیث(للبنات) کے شیخ الحدیث اور الرحمہ انسٹیٹیوٹ کے فائق ترین  استاذ تھے کہ ۲۴ جنوری۲۰۲۰ء کو  بظاہرپیٹ کی عام سی تکلیف سے اپنے رب کے مہمان بن گئے‘اور کیلانی خاندان اپنے ایک عظیم سپوت صالح فرد اور علمی شخصیت سے محروم ہوگیا۔ ان کے جانے سے مسجدریاض الاسلام ( مکہ کالونی واربرٹن) بالخصوص سونی ہوگئی ہے۔ جامعہ مرآۃ القرآن اور معھد الرحمہ ان کی دل آویزشخصیت اور مبارک سرپرستی سے محروم ہو گئے ہیں۔ بلکہ واربرٹن کا ہر باسی آنجناب کی کمی محسوس کررہا ہے۔

 کیلانی خاندان کے حوالے سے آپ مولانا محمد مسلم ؒکے فرزند گرامی اور حافظ عبدالحی صاحب ؒ کے پوتے تھے۔ مولانا عبدالمالک مجاہد اور حافظ عبدالعظیم اسد ان کے چچا زاد ہیں۔آپ نے جامعہ سلفیہ سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا‘ قرآن کریم کا کچھ حصہ حفظ کیا ۔ پھر جھوک دادو (طور) فیصل آباد چلے گئے۔ اس کے بعد جامعہ رحمانیہ لاہور میں آ گئے ۔ اسی اثنا  میں ۱۹۸۵ء  میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ کی سعادت نصیب ہوگئی ۔ ۱۹۸۹ء میںکلیۃ الحدیث الشریف سے سندفضیلت حاصل کرکے واپس تشریف لائے تو مظفرآباد (آزاد کشمیر ) میں مولانا محمد یونس اثریؒ کے جامعہ محمدیہ میں تدریس کا آغاز فرمایا۔ اسی دوران میںانھیں جامعہ رحمانیہ لاہور میں تدریس کی پیش کش ہوگئی تو رحمانیہ میں آگئے۔ ۱۹۹۴ء میں ان کے چچا  مولانا محمد سلیم   صاحب بڑے اصرار کے ساتھ انھیں اپنے بنات کے مدرسہ میں لے آئے۔ اور پھر آخر دم تک  اس میں شیخ الحدیث کے منصب جلیل پر فائز رہے۔ الرحمہ  انسٹیٹیوٹ میں کتاب التوحید ان کا انتہائی مرغوب سبق تھا۔ قلم وقرطاس کے ساتھ تعلق کو بھی انھوں نے خوب نبھایا کہ ماہنامہ ضیائے حدیث کے باقا عدہ قلمکار تھے ۔ ان کا تخصص علم توحید تھا  اور ان کے مضامین کاموضوع بھی بالعموم یہی توحیدہی ہوا کرتا تھا ۔ دار السلام کی کئی کتابوں پرنظر ثانی اورتحقیق وتعلیق وغیرہ ان کی باقیات صالحات میں سے ہیں ۔ جہاں بھی رہے خطبہ جمعہ اور تعلیمی وتربیتی دروس ان کا مشغلہ رہا۔

ولادت  ۷ مئی ۱۹۶۴ء  میں ہوئی اور بالآخر ۲۴جنوری ۲۰۲۰ء جمعہ کے روز سحر کے وقت اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔

رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے