اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد عالم ارواح میں اُن کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد سے عہد لیا : 

اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ  قَالُوْا بَلٰي شَهِدْنَا

’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں سب نے جواب دیا کیوں نہیں ؟ ہم سب گواہ ہیں ۔‘‘ (الاعراف : 172)

 عہد میثاق میں اصلاب آدم نے اللہ کے رب ہونے کی گواہی دی اس طرح اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی یہ گواہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہے اسی مفہوم کو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایاکہ :

’’ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یانصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘(بخاری)

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دوسرا عہد عالم ارواح میں انبیاء سے لیا ۔

وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ  قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ  قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا  قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ  

’’جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔‘‘(آل عمران : 81)

تمام مفسرین کرام نے ’’ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْل ‘‘ سے مراد خاتم النبیین کو لیا ہے ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالہ سے اس کی تفسیر یہ منقول ہے : 

 مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا أُخِذَ عَلَيْهِ الْمِيثَاقُ، لئن بَعَث محمدًا وَهُوَ حَيّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ وَلَيَنْصُرَنَّهُ، وأمَرَه أَنْ يَأْخُذَ الْمِيثَاقَ عَلَى أُمَّتِهِ: لَئِنْ بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ أَحْيَاءٌ ليؤمِنُنَّ به ولينصرُنَّه

اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس سے یہ عہد لیا کہ اگر تمہاری زندگی میں اللہ نے نبی کریم ﷺ کو مبعوث کیا تو اُن پر ضرور ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں اس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس نبی کو(جسے مبعوث کیا) حکم دیا کہ آپ اپنی امت سے پختہ عہد لیں کہ اگر اس امت کے ہوئے وہ نبی(خاتم النبیین) تشریف لائیں تو وہ امت ضرور ان پر ایمان لائے اور اس کی مدد کرے۔‘‘(ابن کثیر،ص:177۔ جامع البیان ،ص:55)

اس آیت میں رسول کا لفظ نکرہ ہے مگر سیدنا علی،ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اس کی تخصیص کرکے اس سے انکار کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا۔هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا ۔ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ

ان آیات میں بھی اصول نکرہ ہے اگر ان کی تخصیص کرکے ان کا مصداق جناب محمد ﷺ کو لیا جاتا ہے تو ’’جَاۗءَكُمْ رَسُوْل‘‘ میں بھی درست ہے۔

’’ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْل ‘‘ کے الفاظ قابل غور طلب ہیں ، ان میں نبی کریم ﷺ کا تمام انبیاء کرام کے بعد تشریف لانے کو ’’ثم‘‘ کے ساتھ ادا کیا گیا ہے ، اس کے معنی یہ ہوئے کہ تمام انبیاء کے آنے کے بعد سب سے آخر میں جناب محمد ﷺ تشریف لائے، اس سے عقیدہ ختم نبوت ثابت ہوا۔

عالم ارواح میں اس عہد کی تکمیل کا تذکرہ احادیث میں موجود ہے ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اب تک زندہ رکھا گیا ، وہ تشریف لاکر آپ ﷺ کی امت اور آپ کے دين کی مدد فرمائیں گے۔ یوم آخرت میں سب انبیاء علیہم السلام کا آپ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہونا ۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے لیکر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا اپنے اپنے ادوار میں نبی کریم ﷺ کی آمد کی خبر دینا ۔

مفاد پرست طبقوں نے تورات اور انجیل میں تحریف کی اس کے باوجود خاتم النبیین ﷺ کی رسالت کے ارشادات اب بھی موجود ہیں ۔

’’خداوند سینا سے آیا اور شعر سے اُن پر آشکار ہوا اور کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا اور وہ دس ہزار قدسیوں میں سے آیا۔ (استثناء 33:2 ، طبع 1906ء)

کوہ سینا پر اُتری سے مراد تورات اور کوہِ شعیر پر آشکار سے مراد انجیل ہے جبکہ کوہِ فاران پر جلوہ گر سے مراد قرآن مجید ہے تورات کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی کوہِ فاران کی غار میں نبی کریم ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ دس ہزا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔

معراج کی رات تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے خاتم النبیین ﷺ کی اقتداء کرکے عالم ارواح میں کئے گئے عہد کی تکمیل کی ۔

سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا  ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ  

’’پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نبی کریم ﷺ کو جسمانی معراج ہوا کیونکہ عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کے مرکب پر بولا جاتاہے اور سبحان کا لفظ موقع تعجب پر بولا جاتاہے اگر اسراء روحانی ہوا تو کونسی تعجب کی بات تھی کیونکہ اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں ۔

وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي
وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ

اس طرح ان سے مراد ان کو حالت بیداری میں لے جانا تھا اور مشرکین مکہ نے منکرانہ سوالات کیئے اگر اسراء جسمانی نہ ہوتا بلکہ خواب ہوتا تو مشرکین کو یہ انکار کیوں ہوتا ۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کو حالت بیداری میں اور جسمانی طور پر معراج ہوا جس میں آپ نے مکہ معظمہ سے لے کر فلک الافلاک تک سیر کی۔

عالم ارواح میں کئے گئے عہد کا ایفاء معراج کی رات ہوا ، سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام تک تمام انبیاء کرام جن کی پیدائش ظہور قدسی سے قبل ہوچکی تھی انہوں نے اپنے اپنے دور میں دعوت وجہاد کا فریضہ سرانجام دیا پھر موت کا ذائقہ چکھ کر آخرت کے سفر پر کوچ فرماگئے سوائے سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے جن کو زندہ آسمان پر اُٹھالیئے گئے جو قیامت سے قبل تشریف لاکر آپ  کی امت اور آپ ﷺ کے دین کی اشاعت میں عملی مدد فرمائیں گے۔ گویا عالم ارواح میں عہد میثاق کی توثیق کے لیے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جملہ انبیاء کرام کی نمائندگی کریں گے ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سمیت تمام انبیاء کرام علیہم السلام مقتدی تھے ان کے امام سید الانبیاء خاتم النبیین ﷺ تھے چنانچہ بحیثیت مسلمان ان تمام انبیاء کرام کی تصدیق کرنا ایمان کا جزء ہے جنہوں نے مسجد اقصیٰ میں آپ ﷺ کی امامت میں اقتداء کی اسی طرح اُن کے امام کو خاتم النبیین تسلیم کرنا بھی ایمان کا جزء ہے۔

جس طرح نبی کریم ﷺ سے قبل کسی نبی کی نبوت کا انکار کرنا کفر ہے اسی طرح خاتم النبیین ﷺ کے بعد کسی نبی کی پیدائش پر یقین کرنا اور اس کی نبوت پر ایمان لانا صریحاً کفر ہے۔

نبی کریم ﷺ کی اقتداء کرنے والے انبیاء علیہم السلام کی پیدائش آپ ﷺ سے قبل ہوئی جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی پیدائش ظہور قدسی کے بعد ہوئی اس بناء پر وہ معراج کی رات اقتداء میں ہرگز نہ تھا اس بناء پر مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت کذب ودجل ہے ۔

قادیانیو! آپ کو یہی دعوت فکر ہے۔

اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل امین نے سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے بچا کر زندہ آسمان پر اُٹھا لیا وہ قیامت سے قبل دنیا میں تشریف لاکر امام الانبیاء محمد ﷺ کی امت اور آپ  کے دین اسلام کی دعوت میں نصرت فرمائیں گے اس طرح وہ عالم ارواح میں کئے گئے وعدہ کو پورا کرنے کی خاطر جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف سے نمائیدگی کا فریضہ انجام دیں گے اُن کو زندہ رکھنے میں یہی حکمت الٰہی ہے۔

مخبر صادق محمد ﷺ نے سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے حلیہ اور کمالات سے امت کو آگاہ فرمادیا : 

 حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ آدَمَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ- يَعْنِي عِيسَى-، وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ, رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ, كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ، فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الْإِسْلَامِ, فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ، وَيُهْلِكُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، ثُمَّ يُتَوَفَّى، فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ (سنن ابي داود:4324)

سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ‘ اور وہ اترنے والے ہیں ‘ جب تم انہیں دیکھو گے تو پہچان جاؤ گے کہ درمیانی قامت والے ہیں اور رنگ ان کا سرخ و سفید ہو گا ‘ ہلکے زرد رنگ کے لباس میں ہوں گے ‘ ایسے محسوس ہو گا جیسے ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہو ‘ حالانکہ نمی ( پانی ) لگا نہیں ہو گا ۔ ( انتہائی نظیف اور چمکدار رنگ کے ہوں گے ) وہ لوگوں سے اسلام کے لیے قتال کریں گے ‘ صلیب توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے ‘ جزیہ موقوف کر دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں اسلام کے علاوہ دیگر سب دینوں کو ختم کر دے گا ۔ وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے ۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زمین میں چالیس سال رہیں گے ‘ پھر ان کی وفات ہو گی اور مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے ۔ “

مرزا محمد قادياني خليفه نے اپنے موقف کی خاطر مذکورہ حدیث کو حقیقۃ النبوۃ ، ص:192 پر درج کیا ہے ۔

مذکورہ حدیث میں مثل عیسی بن مریم کے پیدا ہونے کا ذکر نہیں بلکہ ان کے نازل ہونے کا تذکرہ ہے ۔سیدنا عیسیٰ کی والدہ ابن مریم کا ذکر ہے جبکہ مرزا کی والدہ چراغ بی بی کا نام ونشان نہیں ۔

اُس شخصیت نے نازل ہونا ہے جو نبی کریم ﷺ سے پہلے تشریف لاچکے ہیں ان کے اور محمد ﷺ کے درمیان کوئی نبی نہیں یقیناً وہ عیسیٰ بن مریم ہیں مرزا قادیانی نہیں۔

حدیث سے واضح ہے کہ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے نازل ہونے کے بعد تمام ادیان باطلہ مٹ جائیں گے لیکن مرزا قادیانی کے زمانہ میں نصرانیت کو تبلیغ کے وافر مواقع میسر آئے۔ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے دورمیں دین اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ حاصل ہوگا جبکہ مرزاقادیانی کے دور میں حکومتی سطح پر اسلامی قانون کی بجائے عوامی قانون رائج ہوا۔

سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے زمانہ میں دجال اُن کے ہاتھوں ہلاک ہوگا جبکہ مرزاقادیانی کے زمانہ میں دجال کا نہ تو ظہور ہوا نہ ہی وہ قتل ہوا۔ مرزا قادیانی کے زمانہ میں حدود وتعزیرات کے خاتمہ سے عوام کی عزت جان ومال غیر محفوظ ہوگئے ، عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہوگئی جبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں دنیا میں اس طرح امن وامان قائم ہوجائے گا کہ جنگلی درندے اور پالتو جانور مل کر پانی پئیں گے اور چریں گے۔

اس حدیث میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ’’إنه نازل‘‘ کا لفظ واضح ہے کیا پورے ذخیرہ احادیث میں قادیانی ’’إن مثيله مولود کا لفظ دکھا سکتے ہیں۔

اس حدیث میں ’’ثم یتوفی‘‘( ان امور کے بعد) عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوں گے ، کیا قادیانی کسی صحیح حدیث میں قد توفی کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں دکھلاسکتے ہیں ؟

حدیث مذکور میں ہے ’’فیصلی عليه المسلمون‘‘ (مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے) کیا قادیانی کسی صحیح حدیث سے ’’قد صلی عليه المسلمون‘‘ (مسلمان ان کی نمازجنازہ پڑھ چکے) دکھا سکتے ہیں ؟

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے آسمان سے نازل ہونے کے بعد قیامت سے قبل جب یہ تمام باتیں ظاہر ہوں گی تب ان کی وفات ہوگی۔

حیات عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی حدیث ہے : 

 قَالَ الْحَسَنُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْيَهُودِ «إِنَّ عِيسَى لَمْ يَمُتْ، وَإِنَّهُ رَاجِعٌ إِلَيْكُمْ قَبْلَ يَوْمِ الْقَيَّامَةِ ( اخرجه ابن جرير في تفسيره ،ص:202، ج:3 وابن ابي حاتم كما ذكره السيوطي في الدر المنثور ، ص:36، وابن كثير في تفسيره ، ص:366،ج:1)

’’امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کو مخاطب کرکے فرمایا :’’تحقیق عیسیٰ فوت نہیں ہوا ، لاریب وہ تمہاری طرف اُترے گا قیامت سے قبل۔‘‘

محمد بن جریر بڑے پایہ کا محدث ہے خود مرزا غلام احمد قادیانی نے اقرار کیا ہے کہ ’’جریر نہایت معتبر اور ائمہ حدیث میں سے ہے۔‘‘

حاشیہ ، چشمہ حرفت،ص:250،خزائن ، جلد:23،ص:261

نجران کا عیسائی وفد امام الانبیاء محمد ﷺ کے پاس آیا ان سے عقیدہ تثلیث پر گفتگو ہوئی تو سرور کائنات محمد ﷺ نے فرمایا : 

أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَبَّنَا حَيٌّ لَا يَمُوتُ , وَأَنَّ عِيسَى يَأْتِي عَلَيْهِ الْفَنَاءُ (اخرجہ ابن جریر فی تفسیرہ ،ص:108،ج:3 وابن ابی حاتم فی الدر المنثور ، ص: 3،ج:2)

’’او انسان کے پرستارو! کیا تم جانتے نہیں کہ همارا رب حی لایموت ہے مگر عیسیٰ علیہ السلام پر تو موت آئے گی۔‘‘

قابل غور پہلو ہے اگر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہوتے تو نبی کریم ﷺ واضح طور پر ارشاد فرماتے کہ’’إِن عیسیٰ قد ماتَ‘‘ مگر آپ ﷺ نے ’’یأتی‘‘ صیغہ مضارع زمانہ آئندہ کا استعمال فرمایا کہ اس کو موت آئے گی اس سے ثابت ہوا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں ۔

سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام فج الروحاء سے احرام باندھ کر عمرہ کرکے حج کریں گے۔

عَنْ حَنْظَلَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُهِلَّنَّ ابْنُ مَرْيَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَاءِ، حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا، أَوْ لَيَثْنِيَنَّهُمَا (صحیح مسلم،ص:408 ، ج:1 کتاب الحج باب جواز التمتع فی الحج واحمد فی مسندہ ، ص:390،ج:2 والحاکم فی المستدرک)

’’  حنظلہ اسلمی کے واسطے سے حدیث بیان کی کہا : میں سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ نبی كريم ﷺ سے حدیث بیان کر رہے تھے (کہ آپ ﷺ نے) فرمایا: «اس ذات اقدس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے ۔!ابن مریمؑ (زمین پر دوبارہ آنے کے بعد ) فج روحاء (کے مقام ) سے حج کا یا عمرے کا یا دونوں کا نام لیتے ہو ئے تلبیہ پکا ریں گے ۔(یعنی عمرہ ادا کرکے اسی احرام سے حج کریں گے)۔

اس حدیث میں الفاظ ’’والذی نفسی بیدہ‘‘ آئے ہیں لہذا اس میں نہ کوئی تاویل ہے اور نہ استثناء ہے جبکہ مرزا قادیانی نے حدیث سے انکار نہیں کیا بلکہ خودساختہ حیلہ تراشا۔

’’ہمارا حج تو اس وقت ہوگا جب دجال بھی کفر اور دجل سے باز آکر طواف بیت اللہ کرے گا کیونکہ بموجب حدیث صحیح کے وہی وقت مسیح موعود کے حج کا ہوگا۔‘‘ ( ایام الصلح ، ص:169، خزائن ، ص:416، ج:14)

ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مرزا قادیانی بغیر حج کیئے منہ مانگی ہیضہ کی موت سے مرگیا اس بناء پر وہ ہرگز مسیح موعود نہیں۔

مسیح موعود کے زمانہ میں دین اسلام کو ادیان باطلہ پر غلبہ نصیب ہوگا جبکہ مرزا قادیانی کے دور میں مسلمان سیاسی طور پر مغلوب رہے جبکہ مرزا غلبہ اسلام کے لیے جہاد کرنے کی بجائے اپنے پروردگاروں کو جہاد کی منسوخی اور انگریز وں کی اطاعت کا گُر سکھاتا رہا ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : 

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ  ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ   (التوبۃ:33)

اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک برا مانیں ۔

اس آیت سے قبل آیت نمبر 29 تا 32 میں سیدنا عیسیٰ  علیہ السلام کا تذکرہ ہے ۔

مفسرین نے غالب ہونے کی تین صورتیں بیان کی ہیں : 

1۔ دلیل اور حجت کے ساتھ غلبہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

2۔مسلمان اقتدار کے اعتبار سے غالب ہوں ، سرور کائنات محمد ﷺ کے دور میں عرب اور گردونواح میں اسلام کو غلبہ نصیب ہوا جبکہ خلفاء اسلامیہ کے دور میں ایشیاء افریقہ اور یورپ کے بیشتر حصہ میں مسلمان غالب رہے اس وقت بھی مسلمان دنیا کے اہم حصوں پر برسراقتدار ہیں۔

3۔جبکہ تیسری صورت یہ ہے کہ تمام اقوام جو مختلف ادیان کے ماننے والے ہیں وہ مسلمان ہوجائیں اور دنیا میں اسلام ہی اسلام ہو ایسا قیامت سے پہلے ضرور ہوگا یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت ہوگا۔ جب وہ دمشق کی مسجد کے شرقی مینار پر آسمان سے اُتریں گے۔آپ علیہ السلام نبی کریم ﷺ کی امت اور دین اسلام کی مدد فرمائیں گے۔ تو اقوام عالم ایک ملت اسلامیہ میں استوار ہوجائے گی دین اسلام کے سوا کوئی دین باقی نہ رہے گا۔اس طرح شریعت محمدی کے نفاذ کے بعد امن وامان قائم ہوجائے گا ، جنگ کی ضرورت نہ رہے گی ، جزیہ ختم ہوجائے گا۔

انبیاء کرام علیہم السلام نے عالم ارواح میں ختم نبوت کے تذکرہ کی تائید کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جملہ انبیاء علیہم السلام کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیں گے ، حیات عیسیٰ علیہ السلام کا یہی فلسفہ دراصل حکمت الٰہی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے