ارشاد باری تعالیٰ ہے :

يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ۰۰۳۲وَ قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًاۚ۰۰۳۳وَ اذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًاؒ۰۰۳۴

’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو ۔اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دےاور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقیناً اللہ تعالیٰ نہایت باریک بین پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘(الاحزاب)
قارئین کرام! اہل بیت بہت سارے معانی میں استعمال ہوتاہے اور یقیناً اہل علم نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ لفظ ’’اہل بیت ‘‘میں بیوی بھی داخل ہے جیسا کہ لغت کے امام خلیل بن احمد الفراھیدی لکھتے ہیں :

أَهْلُ الرَجل: زوجهُ، وأخصّ الناس به. والتَّأَهُّل: التَّزوُّج. وأهل البيت: سكانه (العين ، ص:45)

’’آدمی کےاہل سے مراد اس کی بیوی ہے اور تمام لوگوں میں سے خاص ہے اور تأہل کا معنی شادی کرنااور اہل البیت سے مراد گھر کے افراد یعنی گھر میں رہنے والے ہیں۔‘‘
امام ابن منظور افریقی اپنی کتاب’’لسان العرب‘‘ میں لکھتے ہیں :

أهل المذهب: من يدين به.وأهل الأمر: ولاته. وأهل البيت: سكانه. وأهل الرجل: أخص الناس به. وأهل بيت النبي، صلى الله عليه وسلم: أزواجه وبناته وصهره، أعني عليا، عليه السلام (لسان العرب ، 11 / 28و29)

’’ جو کسی دین پر چلتاہو اس کو اہل مذہب کہاجاتاہے اور حکام(حکمران) کو اہل الأمر ، اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے اہل بیت سے مراد آپ ﷺ کی بیویاں اور بیٹیاں اور داماد یعنی علی رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘
قرآن واحادیث مبارکہ کی روشنی میں اہل بیت سے مراد نبی علیہ الصلاۃ والسلام اور آپ کی ازواج مطہرات واولاد نیز آل علی ، آل عقیل ،آل جعفر وآل عباس مراد ہیں جیسا کہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا:

وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُ؟ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ قَالَ: كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ  (صحيح مسلم:2408)

’’ (سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا ) اے زید !اہل بیت سے مراد کون ہیں؟ کیا آپ ﷺ کی بیویاں اہل بیت میں سے نہیں ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کی بیویاں اہل بیت میں سے ہیں لیکن اہل بیت سے مراد وہ بھی ہیں جن پر صدقہ حرام کیاگیا ہے تو پوچھا گیا کہ وہ کون ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا آل علی ، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ، پھر سائل نے پوچھا ان سب پر صدقہ حرام ہوا ہے تو انہوں نے جواب دیا جی ہاں ۔
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل بیت کی پاکیزہ اصطلاح میں بہت سی خوش بخت ،خوش نصیب شخصیات داخل ہیں صرف پانچ شخصیات پر منحصر نہیں ہیں بلکہ قرآنی اصطلاح میں اہل بیت سے مراد آپ ﷺ کی بیویاں قطعی ہیں کیونکہ آیت تطہیر کے اندر اور اس سے پہلے اور بعد کے سارے احکام ومسائل انہی کے متعلق ہیں یعنی آپ ﷺ کی بیویوں کومخاطب کیاگیاہے۔
اس لیے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت تطہیر کا سبب نزول بیان فرماتے ہیں :

نَزَلَتْ فِي نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً

آیت تطہیر رسول اللہ ﷺ کی زوجات مطہرات کے بارے میں خصوصی طور پر اتری ہے ۔‘‘
اس کے بعد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام اور شاگرد خاص عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

مَنْ شَاءَ بَاهَلْتُهُ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي نِسَاءِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- خَاصَّةً.

’’جو مباہلہ کرنا چاہیے تو میں اس سے مباہلہ کرتاہوں کہ آیت تطہیر نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی بیویوں کے بارے میں ہی اُتری ہے۔‘‘

(سیر اعلام النبلاء 2/208، تاریخ دمشق 69/150 قال الذہبی رحمہ اللہ إسناده صالح، وسياق الآيات دال عليه2/221)
اور امام طبری نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے : كَانَ عِكْرِمَةُ يُنَادِي فِي السُّوقِ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} قَالَ: «نَزَلَتْ فِي نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً»(الطبري 22/8)

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام اور ان کے خاص شاگرد رشید جلیل تابعی سیدنا عکرمہ بازار میں اعلان فرماتے تھے کہ آیت تطہیر نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے بارے میں خاص طور پر نازل ہوئی ہے۔
لہٰذا یادرہے کہ جو لوگ ازواج مطہرات کو غیر معقول اور جھوٹے استدلالات کے ذریعے اہل بیت میں سے نہیں مانتے تو ایسے لوگ حقیقت میں نص صریح کے قطعی حکم کی خلاف وزری کررہے ہیں کیونکہ اگر آیت تطہیر سے پہلے اور آیت تطہیر کے بعد ۔ حتی کہ آیت تطہیر کے اندر بھی جن شخصیات کو مخاطب کیاگیا ہے وہ واضح طور ازواج مطہرات ہی ہیں۔ باقی رہی بات آیت تطہیر میں دو جگہوں پر ’عَنْكُمُ‘ اور’وَيُطَهِّرَكُمْ‘ میں جمع مذکر سے مخاطب کیاگیاہے اس کی وجہ بھی واضح ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ لفظ ’’اھل‘‘ عربی زبان(لغت) میں ہمیشہ جمع مذکر کیلئے ہی استعمال ہوتاہے اس لیے یہاں پر لفظ جمع مذکر کیساتھ آیا ہے۔ اور اس سے یہ قطعاً مراد نہیں ہے کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں سے شامل نہیں ہیں ۔ لہٰذا آیت تطہیر میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہی ہیں اور قرآن کریم میں بھی کئی جگہوں پر لفظ ’أھل‘ کے ساتھ جمع مذکر کی ضمیر استعمال ہوئی ہے جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ (القصص:29)

’’ اس(موسیٰ علیہ السلام) نے اپنی بیوی سے کہا ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے امید ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم سینک لو۔‘‘
یہاں پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ صرف ان کی بیوی تھی اس کے باوجود بھی جمع مذکر کا صیغہ استعمال کیاگیا اوراس طرح سیدنا  ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سیدہ سارہ نے بوڑھاپےمیں اولاد کی خوشخبری سن کر تعجب کیا تو فرشتوں نے کہا :

أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللهِ رَحْمَتُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (هود:73)

’’ کیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے تعجب کرتی ہو اےاس گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں بیشک اللہ تعالیٰ بڑا قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔‘‘
اسی طرح صحیح بخاری میں ہے :

فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ فَقَالَ: «السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ البَيْتِ وَرَحْمَةُ اللهِ» ، فَقَالَتْ: وَعَلَيْكَ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ، كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ بَارَكَ اللهُ لَكَ … (صحیح البخاری ، کتاب التفسیر، باب {لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ ..} رقم الحدیث :4793)

پس نبی علیہ السلام مسجد سے نکل کر حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف گئے پھر آپ ﷺ نے کہا اے اہل بیت (گھر والے) تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو ، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا اور آپ پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو ، آپ نے اپنے گھر والوں کو کیسے پایا اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے ۔
صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی معلوم ہو اکہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہی ہیں لہٰذا قرآن وسنت اور لغت وعرف سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوا کہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہی ہیں البتہ ان کے علاوہ سیدنا علی وحسنین کریمین رضی اللہ عنہم بھی اہل بیت میں شامل ہیں اس حدیث کی وجہ سے ہیں جو حدیث کساء سے مشہور ومعروف ہے ۔

قَالَتْ عَائِشَةُ -رَضِيَ اللهُ عَنْهَا- : خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ: « {إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}

صحيح مسلم:2424 ، كتاب فضائل الصحابة ، باب فضائل أهل بيت النبي صلى الله عليه وسلم )
سیدہ عائشہ صدیقہ أم المؤمنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک صبح اللہ کے رسول ﷺ نکلے اور آپ کے اوپر کالے بال سے بُنی ہوئی ایک نقش شدہ چادر تھی اتنے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ نے ان کو چادر کے اندر داخل کر دیا پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو وہ بھی چادر میں داخل ہوئے پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئی تو ان کو بھی چادر کے اندر داخل کیا ، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہیں بھی چادر میں داخل کر دیا پھر فرمایا اللہ تعالیٰ صرف اورصرف  تم سے رجس کو زائل کر نے کا ارادہ کرتاہے اور تم اہل بیت کو خوب پاک کرنا چاہتاہے۔‘‘
اس صحیح حدیث کی روشنی میں اہل بیت میں سیدنا  علی اور حسن وحسین رضی اللہ عنہما بھی داخل ہیں اگر اس طرح کی کوئی صحیح حدیث نہ ہوتی تو اہل بیت میں سیدنا علی وحسن وحسین رضی اللہ عنہم شامل نہ ہوتے ۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ اہل بیت میں نبی کریم ﷺ اور آپ کی تمام ازواج مطہرات اور تمام اولاد طیبات اور آل علی، آل عقیل،آل جعفر،آل عباس رضی اللہ عنہم سب شامل ہیں ۔

واللہ اعلم
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه أجمعین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے