اللہ تعالیٰ نے فرمایا

 :قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

کہہ دیں کہ یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں۔(يوسف : 108)

أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے بڑی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ پورے کامیاب ہیں۔ (البقرة : 5)
اور فرمایا  : آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ  ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں۔(البقرة : 13) یہاں الناس سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔
ایمان صحابہ کے متعلق ارشاد فرمایا :

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقینا وہ ہدایت پا گئے اور اگر پھر جائیں تو وہ محض ایک مخالفت میں (پڑے ہوئے) ہیں، پس عنقریب اللہ تجھے ان سے کافی ہو جائے گا اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔(البقرة : 137)
سیدناعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي (ترمذی ،أَبْوَابُ الْإِيمَانِ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ،2641)

میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آچکی ہے، ( یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے )یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگراپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیاہوگا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہوگا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اورمیری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کرباقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کون سی جماعت ہوگی؟ آپ نے فرمایا:› یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے۔
نبی کریم ﷺ  نے خلفاء راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنے کے متعلق ارشاد فرمایا

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ, تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ, فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ (أبو داؤد كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي لُزُومِ السُّنَّةِ4607)

میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت اپنائے رکھنا ، خلفاء جو اصحاب رشد و ہدایت ہیں ، سنت کو خوب مضبوطی سے تھامنا ، بلکہ ڈاڑھوں سے پکڑے رہنا ، نئی نئی بدعات و اختراعات سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا ، بلاشبہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مثال کھیتی کی طرح

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا

محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔(الفتح : 29)
ہمارے استاذ گرامی جناب حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ سورہ فتح کی اس آیت

 يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ

کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، کے تحت لکھتے ہیں:
(ایمان والوں کے دل صحابہ کرام اور ان کے متبعین کے حالات دیکھ کر اور سن کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کے دل انھیں دیکھ کر اور ان کے حالات سن کر غصے سے بھر جاتے ہیں اور جل اٹھتے ہیں۔)
تفسیر التحریر والتنویر (۲۶؍۱۷۷) میں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :  مَنْ أَصْبَحَ مِنَ النَّاسِ فِيْ قَلْبِهِ غَيْظٌ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْ

أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَصَابَتْهُ هٰذِهِ الْآيَةُ

’’لوگوں میں سے جس شخص کے دل میں اصحاب رسول ﷺ  میں سے کسی ایک پر بھی غصہ اور جلن ہو، یہ آیت اس پر یقینا لاگو ہوتی ہے۔‘‘
ابنِ عاشور نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ امام مالک پر رحم کرے، ان کا استنباط کس قدر باریک ہے۔‘‘
صحابہ کا وجود امت کے بچاؤ کا سبب ہے

سیدناابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا : «النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ، فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ»(صحيح مسلم كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم بَاب بَيَانِ أَنَّ بَقَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَانٌ لِأَصْحَابِهِ وَبَقَاءَ أَصْحَابِهِ أَمَانٌ لِلْأُمَّةِ 6466 )

ستارے آسمان کے بچاؤ ہیں، جب ستارے مٹ جائیں گے تو آسمان پر بھی جس بات کا وعدہ ہے وہ آ جائے گی (یعنی قیامت آ جائے گی اور آسمان بھی پھٹ جائے گا) اور میں اپنے اصحاب کا بچاؤ ہوں۔ جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر بھی وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی فتنہ اور فساد اور لڑائیاں)۔ اور میرے اصحاب میری امت کے بچاؤ ہیں۔ جب اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی اختلاف و انتشار وغیرہ)
صحابہ کی کسی جنگ میں موجودگی اور اس کی برکت
نبی کریم ﷺ  کی صحبت ایسی اکسیر تھی کہ جس مومن کو حاصل ہو گئی اس کی طبیعت کا رنگ ہی بدل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں شہادت اور جنت کا ایسا شوق عطا فرمایا، انھیں ایسی شجاعت بخشی اور ان میں ایسی برکت رکھی کہ جب وہ حملہ آور ہوتے تو دشمن چند لمحوں میں بھاگ کھڑا ہوتا، کسی لشکر میں ایک صحابی کی موجودگی اس کی فتح کی ضمانت سمجھی جاتی۔ ان سے ملنے والوں میں بھی یہی برکت تھی۔سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا :

 يَأْتِيْ زَمَانٌ يَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَأْتِيْ زَمَانٌ فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ، ثُمَّ يَأْتِيْ زَمَانٌ فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ صَاحِبَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ (بخاري، الجھاد والسیر، باب من استعان بالضعفاء والصالحین في الحرب : ۲۸۹۷ )

’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی شخص ہے جو رسول اللہ ﷺ  کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی ہے جو رسول اللہ ﷺ  کے ساتھیوں کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی ہے جو ان کے ساتھ رہا ہو جو اصحاب رسول ﷺ  کے ساتھ رہے ہوں؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔‘‘
صحابہ تو پھر صحابہ، صحابہ کو دیکھنے والوں کے لیے خوشخبری
رسول اللہ ﷺ  کے صحابی سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:
« طوبى لمن رآني وطوبى لمن راى من رآني ولمن راى من راى من رآني وآمن بي».(سلسلة الأحاديث الصحیحة 2205 )
”‏‏‏‏جس نے مجھے دیکھا اس کے لیے خوشخبری ہے، جس نے میرے صحابی کو دیکھا اس کے لیے خوشخبری ہے اور جس نے میرے صحابی کو دیکھنے والے (‏‏‏‏یعنی تابعی) کو دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اس کے لیے بھی خوشخبری ہے۔“
صحابہ اور صحابہ کو دیکھنے والے مسلمان لوگوں میں سب سے بہتر ہیں
سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ،انھوں نے نبی کریم ﷺ   سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا

«خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ»(البخاري:2652)

«لوگوں میں سے بہترین میرے دور کے لوگ(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین )ہیں،پھر وہ جو ان کے ساتھ(کے دورکے) ہوں گے(تابعین رحمۃ اللہ علیہ )،پھر وہ جوان کے ساتھ(کے دور کے) ہوں گے(تبع تابعین۔)»
ایک صحابی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے بیعت کرنے والے صحابہ پر اللہ کا ہاتھ
رسول اللہ ﷺ  نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو حدیبیہ سے اہلِ مکہ کی طرف بات چیت کے لیے بھیجا کہ وہ مسلمانوں کو بیت اللہ کا عمرہ ادا کرنے سے نہ روکیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے واپس آنے میں دیر ہوئی تو افواہ پھیل گئی کہ انھیں قتل کر دیا گیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ  نے لڑنے کا پختہ ارادہ فرما لیا اور صحابہ کو بیعت کی دعوت دی۔

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :  كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَ أَرْبَعَ مِائَةٍ فَبَايَعْنَاهُ وَعُمَرُ آخِذٌ بِيَدِهِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ وَهِيَ سَمُرَةٌ  ( مسلم، الإمارة، باب استحباب مبایعة الإمام الجیش… : ۱۸۵۶ )

’’ہم حدیبیہ کے دن چودہ سو تھے، ہم نے آپ ﷺ  سے بیعت کی اور عمر رضی اللہ عنہ درخت کے نیچے آپ ﷺ  کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور وہ کیکر کا درخت تھا۔‘‘
بایعناہ علی الموت
سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا :

 فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنٰی هٰذِهِ يَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِهَا عَلٰی يَدِهِ، فَقَالَ هٰذِهِ لِعُثْمَانَ  (بخاري، فضائل أصحاب النبي ﷺ  ، باب مناقب عثمان بن عفان أبي عمرو القرشي رضی اللہ عنہ : ۳۶۹۹ )

’’ تو رسول اللہ ﷺ  نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔‘‘ پھر اسے دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا: ’’یہ عثمان کی بیعت ہے۔‘‘

اس بیعت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے: إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

بے شک وہ لوگ جو آپ  سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے، پھر جس نے عہد توڑا تو در حقیقت وہ اپنی ہی جان پر عہد توڑتا ہے اور جس نے وہ بات پوری کی جس پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ اسے جلد ہی بہت بڑا اجر دے گا۔(الفتح، آیت 10)
اللہ تعالیٰ ان تمام صحابہ کرام سے راضی ہو گیا جنہوں نے اس بیعت میں حصہ لیا ،فرمایا:

لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًاۙ۰۰۱۸

بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کر دی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔(الفتح آیت 18)
جب ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے شہادت دے دی کہ وہ ان پر راضی ہو گیا تو کس قدر بد نصیب ہے وہ گروہ جو ان مقبول بندوں سے ناراض اور ان سے بغض و عداوت رکھے اور کہے کہ وہ بعد میں نعوذ باللہ مرتد ہو گئے۔ کیا اللہ تعالیٰ کو آئندہ کا علم نہیں تھا اور وہ رضا کیسی ہے جس کے باوجود وہ بندے مرتد ہو جائیں جن پر وہ راضی ہے ؟
عمرو بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے ہیں :’’حدیبیہ کے دن رسول اللہ ﷺ  نے ہم سے فرمایا :

 أَنْتُمْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ

’’تم زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔‘‘
اور (اس وقت) ہم چودہ سو تھے اور اگر آج مجھے دکھائی دیتا ہوتا تو میں تمھیں اس درخت کی جگہ دکھاتا۔‘‘ ( بخاري، المغازي، باب غزوۃ الحدیبیۃ : ۴۱۵۴ )
سیدہ  ام مبشر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا کے پاس رسول اللہ ﷺ  کو یہ کہتے ہوئے سنا :

  لَا يَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللّٰهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا تَحْتَهَا (مسلم، فضائل الصحابة، باب من فضائل أصحاب الشجرة… : ۲۴۹۶)

’’اگراللہ نے چاہا تو اس درخت والوں میں سے کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہو گا جنھوں نے اس کے نیچے بیعت کی۔‘‘
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام حاطب رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا :
’’یا رسول اللہ! حاطب ضرور آگ میں داخل ہو گا۔‘‘
تو رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا :

كَذَبْتَ لَا يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ

( مسلم، فضائل الصحابة، باب من فضائل حاطب بن أبي بلتعة… : ۲۴۹۵ )
’’تو نے جھوٹ کہا، وہ آگ میں داخل نہیں ہو گا، کیونکہ اس نے تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کی ہے۔‘‘
سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی وفاداری بھی دیکھیئے
قریش مکہ نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ سے کہا

 إِنْ شِئْتَ أَنْ تَطُوفَ بِالْبَيْتِ فَطُفْ بِهِ

اگر آپ بیت اللہ کا طواف کرنا چاہتے ہیں تو کرسکتے ہیں۔
تو آپ نے فرمایا: مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ حَتَّى يَطُوفَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
میں (اکیلا رسول اللہ ﷺ  کے بغیر) کبھی بھی طواف نہیں کروں گا جب تک کہ رسول اللہ ﷺ  اس گھر کا طواف نہ کرلیں۔(مسند احمد 18431 وسندہ صحیح )
صحابہ، نبی کریم ﷺ  سے کہتے ہیں ہم آپ کے دائیں بائیں،آگےاورپیچھےجمع ہوکرلڑیں گے
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے ایک ایسی بات سنی کہ اگر وہ بات میری زبان سے ادا ہوجاتی تو میرے لیے کسی بھی چیز کے مقابلے میں زیادہ عزیز ہوتی ، وہ نبی کریم ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ رسول اکرم ﷺ اس وقت مشرکین پر بددعا کررہے تھے ، انہوں نے عرض کیا :

 لَا نَقُولُ كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى اذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا وَلَكِنَّا نُقَاتِلُ عَنْ يَمِينِكَ وَعَنْ شِمَالِكَ وَبَيْنَ يَدَيْكَ وَخَلْفَكَ

یا رسول اللہ ! ہم وہ نہیں کہیں گے جو سیدنا موسی علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا کہ جاو ، تم اور تمہارا رب ان سے جنگ کرو ، بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں ، آگے اور پیچھے جمع ہوکر لڑیں گے۔
سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَقَ وَجْهُهُ وَسَرَّهُ (صحيح البخاري، كتاب المغازي ، رقم الحديث :3952)

میں نے دیکھا کہ (مقداد کی اس بات کی وجہ سے) نبی کریم ﷺ  کا چہرہ مبارک چمکنے لگا اور آپ خوش ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ تمام صحابہ کرام سے راضی ہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں  یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔(التوبۃ : 100)
آلوسی صاحبِ روح المعانی نے فرمایا : ’’بہت سے مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ

«وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ» سے مراد رسول اللہ ﷺ  کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، کیونکہ انھیں رسول اللہ ﷺ  کی صحبت کے شرف کی بنا پر بعد والے تمام لوگوں پر سبقت حاصل ہے، جو پھر کسی کو نصیب نہ ہو سکی۔
اور فرمایا :

 رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادلة:22)

اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔ یہ لوگ اللہ کا گروہ ہے، یاد رکھو! یقینا اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
صحابہ کے عمل کو کوئی نہیں پہنچ سکتا

سیدناسعید بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ, خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ، وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ(سنن أبی داؤد كِتَابُ السُّنَّةِبَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ 4650)

ان میں سے کسی ایک کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ( جہاد میں ) حاضر رہنا اور اس کے چہرے کا غبار آلود ہو جانا تمہاری ساری زندگی کے اعمال سے کہیں بہتر ہے خواہ تمہیں سیدنا نوح علیہ السلام کی زندگی ہی کیوں نہ مل جائے ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  فرمایا کرتے تھے:

 «لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً، خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ»(سنن ابن ماجة كِتَابُ السُّنَّةِبَابُ فَضْلِ أَهْلِ بَدْرٍ ،162 ،حسن)

محمد ﷺ کے صحابہ کو برا نہ کہو، ایک صحابی کا( نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں) گھڑی بھر ٹھہرنا، تم میں سے کسی کی زندگی بھر کے عملوں سے بہتر ہے۔
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی ناک میں پڑنے والی گرد و غبار عمر بن عبدالعزیز سے بہتر اور افضل ہے۔( البدایہ والنہایہ )
صحابہ کرام کو گالی دینا منع ہے
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا :

 لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ (بخاري ،کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺبَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا»3673)

میرے اصحاب کو برا بھلامت کہو ۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر ۔
صحابہ کو گالی دینے والوں کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہیں
سیدناعویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

 «إن الله تبارك وتعالى اختارني واختار بي أصحابا فجعل لي منهم وزراء وأنصارا وأصهارا، فمن سبهم فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل» هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه،٦٦٥٦ – صحيح (المستدرك للحاكم ج3ص632طبع دار المعرفة بيروت)

اللہ تعالیٰ نے مجھے چن لیا اور میرے لیے ساتھیوں کو بھی خود چنا،پھر ان میں سے میرے وزیر،انصار و مددگار اور سسرال و داماد بنائے، لہٰذا جس نے انہیں برا بھلا کہا،اس پر اللہ،فرشتوں،اور ساری کائنات کی لعنت ہو-اللہ کریم اس کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہیں کرے گا-
اس حدیث میں رافضیوں، نیم رافضیوں اور ناصبیوں کے لیے بڑی خوفناک وعید ہے جو نبی کریم ﷺ کےدامادوں عثمان بن عفان اور ابو العاص رضی اللہ عنہا (بنو امیہ)اور علی رضی اللہ عنہ کی گستاخیاں کرتے ہیں،اوران لوگوں کے لیے بھی لعنت وپھٹکار اور تباہی اعمال کی دھمکی ہے جو خاتم الانبیآء علیہ الصلاۃ والسلام کے سسرال والوں (ابوبکر ،عمر،ابو سفیان ،اور معاویہ رضی اللہ عنہم پر طنز و تعریض اور اعتراض بازی کو مذھب و مشغلہ بنائے ہوئے ہیں ،هداهم الله
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق ماتھے پر آنے والی شکن بھی اللہ تعالیٰ کو گوارہ نہیں
سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ مکی، قرشی، مہاجرین اوّلین میں سے ہیں اورسیدہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ماموں کے بیٹے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ  انھیں اپنے اکثر غزوات میں مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا کرتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ  کے پاس مشرکین میں سے ایک بڑا آدمی بیٹھا تھا کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آئے اور کچھ مسائل پوچھنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ  نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور توجہ اس دوسرے کی طرف رکھی۔
اس پر یہ سورت نازل ہوئی :

عَبَسَ وَتَوَلَّى أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَى وَهُوَ يَخْشَى فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّى كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ(عبس:1تا12)

وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا۔(صرفٖ اس لئے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیاتجھے کیا خبر شاید وہ سنور جاتایا نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی۔جو بےپروائی کرتا ہےاس کی طرف تو پوری توجہ کرتا۔حالانکہ اس کے نہ سنورنے سے تجھ پر کوئی الزام نہیں ۔جو شخص تیرے پاس دوڑتا ہوا آتا ہےاور وہ ڈر (بھی) رہا ہے  تو اس سے بےرخی برتتا ہے یہ ٹھیک نہیں قرآن تو نصیحت کی چیز ہے۔ جو چاہے اس سے نصیحت لے۔( ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ عبس : ۳۳۳۱  البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ یہ مشرک اُبی بن خلف تھا اور اس میں یہ بھی ہے کہ یہ سورت اترنے کے بعد رسول اللہ ﷺ  ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا اکرام (عزت) کیا کرتے تھے۔( مسند أبي یعلٰی : 431/5، ح : ۳۱۲۳  اس کی سند صحیح ہے)
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ صحابہ کو اپنے آپ سے دور مت ہٹاؤ
سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ ﷺ  کے پاس بیٹھے تھے۔ مشرکین نے کہا، ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نکال دیں، تاکہ یہ ہم پر جرأت نہ کر سکیں۔ ان لوگوں میں میں تھا، ابن مسعود، ہذیل کا ایک آدمی اور دو اور جن کا میں نام نہیں لیتا، تو رسول اللہ ﷺ  کے دل میں اللہ نے جو چاہا خیال آیا، آپ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرما دی :

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ(الأنعام، آیت 52 )

اور ان لوگوں کو نہ نکالئے جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اس کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں ۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں ۔ ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔( مسلم، الفضائل، باب فی فضل سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ : ۴۶؍۲۴۱۳ )
بلکہ فرمایا جب وہ آپ کے پاس تشریف لائیں تو انہیں سلام کہو
فرمایا :

 وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ

اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہہ سلام ہے تم پر۔(الأنعام : 54)
صحابہ کا مذاق اڑانے والوں کا اللہ تعالیٰ مذاق اڑاتاہے
غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی ﷺ  نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ سکیڑ کر بیٹھےرہے، لیکن مخلص اہل ایمان چندہ لانے لگے تو یہ ان پر باتیں چھانٹنے لگے، جب کوئی شخص زیادہ چندہ لاتا تو یہ اسے ریا کار کہتے اور جب کوئی تھوڑا مال یا غلہ لا کر پیش کرتا تو یہ کہتے کہ بھلا اللہ کو اس کی کیا ضرورت ہے؟ دونوں صورتوں میں مذاق اڑاتے اور ٹھٹھا کرتے۔
سیدناابو مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب صدقے کی آیت اتری تو ہم اپنی پیٹھوں پر بوجھ اٹھاتے، یعنی اس طرح اجرت حاصل کرتے تو ایک آدمی آیا اس نے بہت زیادہ چیز کا صدقہ کیا تو (منافق) کہنے لگے، یہ دکھاوا چاہتا ہے اور ایک آدمی آیا اور اس نے ایک صاع (دو کلو غلہ) صدقہ کیا تو انھوں نے کہا، اللہ تعالیٰ اس کے صدقے سے بے نیاز ہے (اسے اس کی کیا ضرورت ہے؟) تو یہ آیت اتری۔

الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(التوبة:79)

وہ لوگ جو صدقات میں خوش دلی سے حصہ لینے والے مومنوں پر طعن کرتے ہیں اور ان پر بھی جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے، سو وہ ان سے مذاق کرتے ہیں۔ اللہ نے ان سے مذاق کیا ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔( بخاری، الزکوٰۃ، باب : اتقوا النار ولو بشق تمرۃ … : ۱۴۱۵ )
سیدناابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ابوعقیل (مزدوری کرکے) آدھا صاع (ایک کلو غلہ) لائے اور ایک اور صاحب زیادہ مال لائے، تو منافق کہنے لگے، اس (نصف صاع) کی اللہ کو کیا ضرورت تھی اور اس دوسرے نے تو محض دکھاوے کے لیے دیا ہے۔ اس پر یہ آیت اتری :  «اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ»( بخاری، التفسیر، باب قوله : الذین یلمزون المطوعین… : ۴۶۶۹ )
صحابہ کرام پر طعن کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے
فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ

بڑی ہلاکت ہے ہر بہت طعنہ دینے والے، بہت عیب لگانے والے کے لیے۔(الهمزة : 1)
صحابہ کو بے وقوف کہنے والے اللہ کے نزدیک خود بے وقوف ہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، توکہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بےوقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔(البقرة : 13)
اسی طرح تحويل قبلہ کا حکم ملنے کے بعد جب نبی کریم ﷺ  اور آپ کے اصحاب نے قبلہ تبدیل کر لیا تو جن لوگوں نے صحابہ کے اس عمل پر اعتراض کیا تھا اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ ان کے اعتراض کی نفی کی بلکہ انہیں بے وقوف قرار دیا

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

عنقریب لوگوں میں سے بے وقوف کہیں گے کس چیز نے انھیں ان کے اس قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے؟ کہہ دیں اللہ ہی کے لیے مشرق و مغرب ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے ۔(البقرة : 142)
اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے صحابہ سے محبت کرنا ضروری ہے
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا

الْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللهُ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللهُ (صحيح البخاري،كتاب المناقب ، باب حب الأنصار ، الحديث : 3783)

انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا ۔ پس جو شخص ان سے محبت رکھے اس سے اللہ محبت رکھے گا اور جوان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بغض رکھے گا۔
انصارکویہ مقام اسلام کےلیے قربانیاں دینےکےعوض ملا
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا علاقہ بطور جاگیر ان کے لیے لکھ دیں۔ انھوں نے کہا :
’’جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم نہیں لیں گے۔‘‘

( بخاري، مناقب الأنصار، باب قول النبي ﷺ  للأنصار : ’’اصبروا حتٰی تلقوني علی الحوض ‘‘ : ۳۷۹۴ )

انصار کے دل میں مہاجرین کی ایسی محبت اور ہمدردی تھی کہ مہاجرین کو کوئی چیز دی جائے تو انصار کے دل میں اپنے لیے اس کی خواہش تک پیدا نہیں ہوتی تھی اس کا مطالبہ تو بہت دور کی بات ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ  نے بنو نضیر کی چھوڑی ہوئی تمام زمینیں اور باغات مہاجرین کو دے دیں اور انصار نے بخوشی اسے قبول کیا۔
دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق کے بعد اپنے مہاجر بھائی کے نکاح میں دینے کی پیش کش
سیدنا سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنی ساری جائداد اور تمام مکانوں میں سے نصف کی اور دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق کے بعد ان کے نکاح میں دینے کی پیش کش کی، جس پر انھوں نے انھیں برکت کی دعا دی مگر یہ پیش کش قبول نہ کی۔ (دیکھیے بخاری : 2029)
’’اے اللہ کے رسول! ہمارے کھجوروں کے درخت ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان تقسیم کر دیجیے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار نے نبی ﷺ  سے کہا :
’’اے اللہ کے رسول! ہمارے کھجوروں کے درخت ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان تقسیم کر دیجیے۔‘‘
آپ ﷺ  نے فرمایا : ’’نہیں۔‘‘ تو انصار نے (مہاجرین سے) کہا : ’’تم ہماری جگہ محنت کرو گے اور ہم تمھیں پھلوں کی پیداوار میں شریک کر لیں گے۔‘‘ مہاجرین نے کہا: ’’ہم نے تمہاری بات سنی اور مان لی۔‘‘

( بخاري، الحرث والمزارعة، باب إذا قال اکفني مؤونة النخل… : ۲۳۲۵ )

نبی کریم ﷺ  کے مہمان کی خاطر میاں، بیوی اور بچوں نے رات خالی پیٹ گزار دی
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ  کے پاس آیا، آپ ﷺ  نے اپنی بیویوں کے پاس پیغام بھیجا، ان کی طرف سے جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں تو رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا :

مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيْفُ هٰذَا؟

’’اس مہمان کو اپنے ساتھ کون لے جائے گا؟‘‘ انصار میں سے ایک آدمی (جن کا نام ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تھا :صحیح مسلم) نے کہا: ’’میں لے جاؤں گا۔‘‘ چنانچہ وہ اسے لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس سے کہا : ’’رسول اللہ ﷺ  کے مہمان کی خاطر تواضع کرو۔‘‘
اس نے کہا: ’’ہمارے پاس بچوں کے کھانے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’کھانا تیار کر لو، چراغ جلا لو اور بچے جب کھانا مانگیں تو انھیں سلا دو۔‘‘ اس نے کھانا تیار کر لیا، چراغ جلا دیا اور بچوں کو سلا دیا۔ پھر وہ اس طرح اٹھی جیسے چراغ درست کرنے لگی ہے اور اس نے چراغ بجھا دیا۔ میاں بیوی دونوں اس کے سامنے یہی ظاہر کرتے رہے کہ وہ کھا رہے ہیں، مگر انھوں نے وہ رات خالی پیٹ گزار دی۔ جب صبح ہوئی اور وہ انصاری رسول اللہ ﷺ  کے پاس گیا تو آپ ﷺ  نے فرمایا :

ضَحِكَ اللّہٰ الليْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فَعَالِكُمَا

’’آج رات تم دونوں میاں بیوی کے کام پر اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا فرمایا کہ اس نے تعجب کیا۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

 « وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَاُولٰٓئكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ » [ الحشر: ۹ ]

’’اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔‘‘ ( بخاري، مناقب الأنصار، باب قول اللّٰہ عزوجل: «و یؤثرون علی أنفسہم …» : ۳۷۹۸۔ مسلم : ۲۰۵۴ )
صحابہ کے متعلق دل میں کینہ سے بچنے کی دعا کریں

اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :  وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب ! یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔(الحشر : 10)
سیدہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس آیت کے مفہوم کے پیشِ نظر اپنے بھانجے عروہ بن زبیر سے فرمایا

: يَا ابْنَ أُخْتِيْ! أُمِرُوْا أَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَبُّوْهُمْ (مسلم، التفسیر، باب في تفسیر آیات متفرقۃ : ۳۰۲۲ )

’’اے میرے بھانجے! ان لوگوں کو حکم دیا گیا تھا کہ نبی ﷺ  کے صحابہ کے لیے مغفرت کی دعا کریں، لیکن وہ انھیں گالیاں دینے لگے۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے