اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا فرمایا پھر انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ شروع کیا تو ہر نبی کے لیے اس کی امت میں سے کچھ اصحاب اور وزراء کا انتخاب فرمایا جو اس امت کے افضل ترین طبقہ  دار شخصیات ہوتی ہیں۔ ہمارے نبی اعظم ﷺ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے اصحاب کرام کو بطور وزراء ومعاونین منتخب فرمایا ، جس طرح نبی کریم ﷺ تمام سابقہ انبیاء سے افضل ہیں اسی طرح آپ کے صحابہ بھی تمام سابقہ اصحاب سے افضل ہیں ۔ مسند احمد وغیرہ میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول مذکور ہے کہ جس میں وہ فرماتے ہیں :

إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ (مسند احمد:3600)

’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کے دلوں کو دیکھا تو محمد ﷺ کا دل سب سے بہتر پایا تو اس کو اپنے لیے انتخاب کر لیا اور اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا ، پھر باقی بندوں کے دلوں کو پرکھا تو صحابہ کے دل سب سے بہتر پایا تو انہیں اپنے نبی کریم ﷺ کے لیے بحیثیت وزراء انتخاب کر لیا جو ان کے دین کی بقاء کے لئے اللہ کے راستہ میں قتال کرتے ہیں-
اس سے معلوم ہوتاہے کہ جس طرح محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ  سے منتخب ہیں اسی طرح صحابہ کرام بھی اللہ تعالیٰ کی ہی انتخاب کردہ ہستیاں ہیں اسی لیے قرآن مجید میں بھی متعدد مقامات پر ان کا تذکرہ ملتاہے جن میں ان کی فضیلت،مناقب،قربانی کے جذبے اور پیارے نبی محمد ﷺ کو ان کے بارے میں وصیتیں ملتیں ہیں انہی آیات قرآنی میں سے چند آیات کی روشنی میں ان کی فضیلت اورمقام کو سپرد قلم کرنا مقصود ہے ۔
یوں تو پورا قرآن ان کی فضیلت کو بیان کرتاہے کیونکہ یہ وہ پاکدامن ہستیاں ہیں جنہوں نے وحی الٰہی کا مشاہدہ کیا ہے اس لیے قرآن مجید میں جہاں بھی مومنوں کو مخاطب کیاگیا ہے یہ صحابہ سب سے اولین مصداق ہیں ۔یہاں چند آیات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن میں رب تعالیٰ نے ان کی فضیلت اورمقام کو بیان فرمایا ہے سورۃ الفاتحہ قرآن مجید کی پہلی سورت ہے جس کی بڑی فضیلت آئی ہے بلکہ اس سورت سے معلق کہاگیا ہے کہ یہ سورت پورے قرآن کا خلاصہ ہے۔اوریہ وہ سورت ہے جس کو پڑھے بغیر نماز بھی باطل ہوجاتی ہے ، اس میں رب کی تعریف،تمجید بیان کرنے کے بعد بندہ اپنے رب سے ایک وعدہ کرنے کے بعد اپنا سوال پیش کرتاہے

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ

کہ اے رب ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے۔صراط مستقیم سے متعلق مفسرین کے بیچ اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ کسی نے اسلام،کسی نے قرآن ، کسی نے نبی کریم ﷺ مع صاحبین مراد لیا ہے ۔ اور قرآن میں بھی مختلف مقامات پر صراط مستقیم کی تفسیر آئی ہے اللہ تعالیٰ کو اپنا رب ماننا اور صرف اسی کی عبادت کرنے کو صراط مستقیم سے تعبیر کیاگیاہے۔ اور جو دین اسلام ،ملت ابراہیمی ہے اس کو بھی صراط مستقیم کہاگیاہے۔الغرض یہ وہ راستہ ہے جو بندے کو سیدھا جنت کی طرف لے کر جاتاہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سیدھا خط(لکیر) کھینچا پھر اس کے دائیں بائیں بھی کچھ خطوط کھینچے پھر یہ آیت پڑھی :

وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

’’کہ یہ جو بیچ کا راستہ ہے میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور جو دائیں بائیں راستے ہیں ان سے دور رہو ورنہ تم بھٹک جاؤ گے۔‘‘
جب نبی کریم ﷺ یہ پیغام لے کر آئے اور لوگوں کو دعوت دینے لگے تو یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جنہوں نےآپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ’’آمنا وصدقنا، سمعنا وأطعنا‘‘ کی صدا لگائی تو یہی صحابہ کرام تھے جو صراط مستقیم کی تلاش میں تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دی اور یہ لوگ ہمیشہ اسی پر ثابت قدمی کا سوال کرتے رہتے تھے اب ان کے بعد اگر کوئی شخص صراط مستقیم پر چلنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ ان صحابہ کے نقش قدم پر چلے، اگر ان کا راستہ اختیار کیاگیا تو وہ شخص صراط مستقیم پر ہے اورکامیاب بھی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب اپنی امت کی تفرقہ بازی کی پیشگوئی کی توصحابہ نے استفسار کیا کہ کامیاب اورجنتی کون لوگ ہوں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :

مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي (سنن الترمذي:2641)

جس راستے پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں اس پر چلنے والے کامیاب ہوں گے آج ہم بھی صراط مستقیم کے طلبگار ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کے تقاضے پورے کریں تاکہ صراط مستقیم پر چل سکیں اورثابت قدمی بھی نصیب ہو اور وہ تقاضا اللہ کے رسول اور اس کےصحابہ کے نقش قدم پر چلناہے۔
اگلی آیت میں صراط مستقیم پر چلنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرمایا :
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
’’اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلائے اور ثابت قدمی دےدن پر تو نے انعام کیاہے‘‘۔ اللہ نے کن لوگوں پر انعام کیا ہے؟ اس کا جواب بھی قرآن میں ہی ملے گا۔ رب تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَ١ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًاؕ

اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے پس وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا نبیوں،صدیقین،شہداء اور صالحین میں سے۔‘‘
یہ وہ ہستیاں ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، ان ہستیوں میں انبیاء کرام کے بعد جن لوگوں کا تذکرہ ہے وہ اگرچہ عام ہے مگر صحابہ کرام بدرجہ اتم واولیٰ مصداق ہیں۔کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تب نبی کریم ﷺ کی تصدیق کی جب کفار اورمشرکین مخالفت میں کھڑے ہوگئے تھے اور آپ کو تکلیف دینے میں لگے ہوئے تھے ، ان کی تصدیق کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی دی ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا :

وَ الَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ

’’اور جوشخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ ہی متقی ہیں۔‘‘
نبی کریم ﷺ سچ لے کر آئے اور صحابہ کرام نے آپ کی تصدیق کی تو یہی لوگ صدیقین ہیں۔مزید ارشاد فرمایا :

وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ۠

١ۖۗ
’’اور وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی صدیقین ہیں۔‘‘
اور سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے والے یہی صحابہ کرام ہیں۔ اور وہ صدیقین میں بدرجہ اتم شامل ہیں اگرچہ ان کے درجات میں تفاوت ہے۔ اور یہی صحابہ کرام ہیں جنہوں نے تصدیق کرنے کے بعد ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہے اور پیش کرتے رہے یہاں تک کہ اپنی جانوں کی قربانی دینے میں بھی دریغ نہ کیا اور یہ شہداء بھی انہی منعم علیہم میں شامل ہیں ان کی اس قربانی کی گواہی بھی خود رب تعالیٰ نے قرآن میں دی ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ١ۖٞ ۙ\

’’مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنہوں نے وہ بات سچ کرکے دکھائی دی جس پر انہوں نے اللہ سے عہد کیاتھا،پھر ان میں سے کوئی تو وہ ہے جو اپنی نذر(شہادت کی صورت میں) پوری کر چکا اور کوئی وہ ہے جو انتظار کر رہا ہے۔‘‘
اسی طرح بہت ساری احادیث میں بھی کچھ صحابہ کے شہید ہونے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف انعام ملنے کا تذکرہ ہے۔ اس طرح جو شہداء ہیں ان میں افضل شہید یہی صحابہ کرام کی جماعت ہے۔
ان کے بعد صالحین بھی منعم علیہم میں شامل ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ اور رسول ﷺ کے تابعدار اور فرمانبردار ہیں ان میں بھی سرفہرست صحابہ کرام ہیں جو اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے ہمیشہ عبادات میں مصروف رہے اورکبھی بھی نافرمانی نہیں کی اس کی گواہی بھی رب نے خود قرآن میں دی ہے :

تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١ٞ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ

’’آپ ان کو رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جس سے وہ رب کی رضامندی کے متلاشی ہوتے ہیں۔‘‘
بلکہ قرآن میں جہاں بھی ایمان اورعمل صالح کا بیان ہے اس سے مراد اورمخاطب سب سے پہلے صحابہ کرام کی جماعت ہے کیونکہ یہی لوگ وقت نزول قرآن موجود تھے تو آیت کے اس حصہ میں منعم علیہم کا راستہ مانگا گیا ہے دوسرے حصے میں دوصفات والے لوگوں کے راستوں سے دور رکھنے کا سوال کیاگیاہے فرمایا :

غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَؒ

’’اے رب! ہمیں ان لوگوں کے راستوں سےدور رکھنا جن پر تیراغضب ہوا ہے اور نہ ان کا جو گمراہ ہوگئے ہیں۔‘‘
مفسرین کے مطابق یہ دونوں صفتیں یہودونصاریٰ کی ہیں اگر ہم اس کے مفہوم پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی کہ جب مغضوب علیہم اور ضآلین کے راستے سے بچنے کی التجا کی گئی ہے تو مرضی علیہم اورمھتدین کے راستے کے طلبگار ہیں اس پر چلانے اورثابت قدم رکھنے کی دعا کی گئی ہے۔
اب مرضی علیھم اورمھتدین کون ہیں ؟ اس کا جواب بھی قرآن سے ہی پوچھتے ہیں قرآن میں اللہ تبارک وتعالی نے متعدد مقامات پر صحابہ کرام کو رضامندی اور ہدایت یافتہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے کا اعلان فرمایا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ

’’اورمہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ(صحابہ) اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔‘‘
اس آیت میں اللہ نے بغیر کسی شرط کے صحابہ سے رضامندی کااعلان فرمادیا ہے جبکہ ان کے بعد آنے والوں کے لیے ایک شرط رکھی ہے کہ وہ احسان کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلے۔اسی طرح ایک اور جگہ صحابہ کرام کے کچھ اوصاف بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا :

رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَؒ

’’ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے ، یہ لوگ اللہ کا گروہ ہے یاد رکھو یقیناً اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جوکامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘
ان دونوں آیتوں کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن میں اللہ نے صحابہ کرام کو رضامندی کی نوید سنادی ہے۔اور جو ہدایت یافتہ لوگ ہیں ان کے بارے میں قرآن کیا کہتاہے؟جب ہم سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرتے ہیں تو شروع میں اللہ تعالیٰ نے تین اقسام کے لوگوں کا تذکرہ فرمایا ہے پہلی قسم مؤمنین اورمتقین کی ہے اور وقت نزول قرآن صرف یہی صحابہ ہی تھے جو مؤمن اور متقی تھے ان کےکچھ اوصاف بیان کرنے کے بعد فرمایا :

اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

’’یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
اور بھی چند مقامات پر اللہ نے ان کے ایمان اور ہدایت کی گواہی دی ہے ، جیسے فرمایا :

اُولٰٓىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ

’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو لکھ دیاہے۔‘‘
مزید فرمایا :

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْۤا اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا

’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو)جگہ دی اور مدد کی وہی سچے مؤمن ہیں۔‘‘
یہ تمام آیات صحابہ کرام سے متعلق ہیں ، صرف ہدایت یافتہ یا مؤمن ہونے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کودوسرے لوگوں کے لیے بطور نمونہ پیش فرمایا :

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا

’’پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ ہدایت پاگئے۔‘‘
تو ہدایت پانے کے لیے صحابہ کے نقش قدم پر چلنا ضروری ہے ان باتوں سے یہ پتہ چلتاہے کہ ہم جس صراط مستقیم کے طلبگار ہیں وہ منعم علیہم کا راستہ ہے جن میں انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کا درجہ ہے وہ مرضی علیھم کا راستہ ہے یہ بھی صحابہ ہی ہیں جنہیں رب نے اپنی رضا مندی کی خوشخبری سنادی اور وہ راستہ ہدایت یافتہ لوگوں کا راستہ ہے یہ بھی صحابہ کرام ہی ہیں جنہیں رب نے خود ہدایت یافتہ اورسچا مؤمن قرار دیا ہے۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین)
سورۃ الفتح میں بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی فضیلت اور مقام بیان فرمایا ہے ۔خصوصاً وہ صحابہ جو بیعت رضوان میں شریک تھے ان کی فضیلت کے لیے صرف یہی کافی ہے کہ رب نے فرمایا :

يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ

’’ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘(الفتح:10)

لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ

’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔‘‘(الفتح:18)
آخری آیت میں عموماً صحابہ کا تذکرہ فرمایا ہے :

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١ٞ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ

’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ(صحابہ) جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں آپس میں نہایت رحمدل ہیں تو انہیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں سجدہ کرنے والے ہیں اپنے رب کا فضل اور اس کی رضا ڈھونڈتے ہیں ان کی شناخت ان کےچہروں میں موجود ہے سجدہ کرنے کے اثر سے۔‘‘(الفتح:29)
اس آیت میں صحابہ کے چنداوصاف کا تذکرہ ہے جن میں سے سب سے اہم وصف صحبت ومعیت رسول ﷺ کا حصول ہے اس کے بعد کچھ ایسے اوصاف ہیں جو ان کے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کافروں کے ساتھ سخت ہوتے تھے اور آپس میں نہایت رحم والے ہوتے تھے یہی اللہ کا حکم بھی ہے جیسا کہ فرمایا :

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ان لوگوں سے لڑو جوکافروں میں سےتمہارے قریب ہیں اور لازم ہے کہ وہ تم میں کچھ سختی پائیں۔ ‘‘(التوبۃ:123)
اور ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا :

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ

’’تم ان لوگوں کو جو اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں نہیں پائے گا کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کا خاندان جو بھی ہو وہ ان سے محبت اوردوستی نہیں کرتے تھے۔‘‘(المجادلۃ:22)
اس کے برعکس کوئی مسلمان بھائی ہو تو اس سے دوستی اور بھائی چارگی کرتے اور ہر قسم کی قربانی بھی دیتےہیں جیسا کہ فرمایا :

وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ وَ لَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ

’’اور جنہوں(انصار) نے ان سے پہلے اس گھر میں اور ایمان میں جگہ بنالی ہے ، وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کی طرف آئیں اور وہ اپنے سینوں میں اس چیز کی کوئی خواہش نہیں پاتے جو ان(مہاجرین)کودی جائے اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں خواہ انہیں سخت حاجت ہو۔(الحشر:9)
یہ ہے ان کی آپس میں رحمدلی کی ایک چھوٹی سی مثال، کہ وہ اپنے آپ پر اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو ترجیح دیتے تھے پھر آگے ان کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کیسا تھا؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رکوع اور سجدے میں بیٹھتے اور رب کی رضا تلاش کرتے، پھر ان کو وہ بھی حاصل ہوگئی۔اس کے بعد چند ایسی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو صحابہ سے متعلق کچھ نصیحتیں کی ہیں کہ ان کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے؟ فرمایا :

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ

’’اے نبی! آپ ان لوگوں کو دور نہ ہٹا جو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔‘‘(الانعام:52)
جب مشرکوں نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ آپ اپنی مجلس سے ان فقراء ومساکین صحابہ کو دور کر دیں پھر ہم آپ کے پاس آئیں تو اللہ نے یہی آیت نازل فرمادی اور اپنے نبی کو حکم دیا کہ آپ ایسا بالکل نہ کریں، کیونکہ یہ فقراء ومساکین صحابہ جو بھی عمل کرتے ہیں وہ صرف رب کی رضا کے لیے کرتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ بھی فرمایا :

لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ يَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ

’’(یہ مال) فقراء مہاجرین کے لیے ہیں جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے وہ اللہ کی طرف سے کچھ فضل اور رضا تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں اور یہی لوگ سچے ہیں۔‘‘(الحشر:8)
یہ لوگ بظاہر فقراء ومساکین ہیں مختلف قبائل سے تعلق رکھتے ہیں مگر اللہ کے ہاں ان کی قدر وقیمت ہے اورمنزلت ہے۔ ایک اور جگہ اللہ نے اپنے نبی سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا :

وَاِذَا جَآءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ

’’اور جب آپ کے پاس ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے لوگ(صحابہ) آجائیں تو آپ فرمادیجیے ’’سلام علیکم‘‘ تم پر سلامتی ہو۔‘‘(الانعام:54)
پہلے آپ کو یہ حکم دیاگیا کہ آپ اپنے صحابہ کو مشرکین کی خواہش پر دور مت کیجیے پھر فرمایا کہ جب وہ آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کے لیے سلامتی کی دعا کریں پھر آپ کو ان کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ

’’جن کا تعلق صبح وشام اپنے رب کو پکارنا اس کی عبادت کرنا ہے آپ اپنے آپ کو ان کے ساتھ رکھیے اور ان سے منہ مت پھیریں۔‘‘(الکہف:28)
پھر کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے آپ کو حکم دیاگیاہے کہ آپ ان سے مشورہ کریں فرمایا : وَشَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ
’’کسی بھی معاملے آپ ان سے مشورہ کیجیے۔‘‘(آل عمران:159)
آخر میں ہمیں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق کیا حکم ہے ؟ یہ بھی رب نے قرآن میں بیان فرمایا ہے :

وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌؒ۰۰۱۰

’’اور جو لوگ ان کے بعد آئے وہ یہ کہتے ہوئے (ان صحابہ کے )حق میں دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اورہمارے ایمان کی حالت میں گزر جانے والے بھائیوں کو بخش دیں اور ہمارے دلوں میں کسی بھی مؤمن کے حق میں بغض وعداوت نہ ڈال دے بلکہ ہمارے دلوں کوصاف کردے بیشک تو رؤوف اوررحیم ہے۔(الحشر:10)
یہی ہماری ذمہ داری ہےکہ ہم اپنے دلوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق صاف رکھیں اور زبان کو بھی ان کے خلاف بات کرنے سے باز رکھیں اور احسان کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے کی سعی کریں تاکہ ہمیں بھی رب کی رضا حاصل ہوسکے اور ان کی مخالفت سے بچے رہیں کیونکہ اس میں ہلاکت اور بربادی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِيْرًاؒ

’’اور جو کوئی رسول کی نافرمانی کرے بعد اس کے کہ ہدایت واضح ہوگئی اور مؤمنین کے راستے کے خلاف چلے تو وہ جس طرف مڑے ہم اس کو موڑ دیں گے اور اس کو جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ کتنا ہے بُرا ٹھکانہ۔(النساء:115)
اس آیت میں جس طرح نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرنے کی وعید آئی ہے اسی طرح مؤمنین کے راستے کے خلاف چلنے کا انجام بھی بیان کیاگیاہے اور وقت نزول قرآن جو مؤمن تھے وہ یہی صحابہ کرام تھے اور یہ لوگ قیامت تک آنے والے تمام مؤمنین سے اکمل واتم ایمان والے ہیں جن کے ایمان کی گواہی خود رب تعالیٰ نے دی ہے اور انہیں ہمارے لیے مشعل راہ بنادیاہے لہٰذا جو بھی ان کی خلاف ورزی یا ان کے خلاف زبان درازی کرے گا تو وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے اورآخرت میں منعم علیہم کے ساتھ حشر فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے