الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين وعلى آله وأصحابه وأزواجه الطيبين الطاهرين.

اہل  السنۃ  والجماعۃ  کے نزدیک تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن امہات المومنین (مومنین کی مائیں) ہیں
وہ خواتین اسلام کے لیے اسوہ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ان  کو اللہ تعالیٰ نے خواتين عالم میں افضل ترين، پاکیزہ، اور انتہائی معزز ترین خواتین کا شرف بخشا ہے۔ ان کا اجر باقی خواتین سے بڑھ کر ہے۔ وہ تمام پاکباز ، پاکدامن او رثقہ ہیں ۔ان امہات المومنین کی سیرت  کے تذکرے حدیث، سیرت، وتاریخ  کی کتب میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔
اور بہت سے اہل علم نے ان کے بارے میں مستقل تصانیف بھی تحریر کی ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے مختلف اوقات میں بہت سے دینی سیاسی واجتماعی مصلحتوں کے تحت، اللہ رب العلمین کی اذن سے 11 عورتوں سے عقد نکاح کیا۔
نکاح کی ترتیب کے لحاظ سے ان کے نام درج ذیل ہیں:
سیدہ خدیجہ، سیدہ سودہ، سیدہ  عائشہ، سیدہ حفصہ، سیدہ زینب بنت خزيمہ (ام المساکین)، سیدہ ام سلمہ، سیدہ زینب بنت جحش ، سیدہ جویریہ، سیدہ ام حبیبہ، سیدہ میمونہ اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہن۔
جبکہ وفات کے وقت آپ کے عقد میں 9 بیویاں تھیں۔
کیونکہ سیدہ خدیجہ اور سیدہ زينب بنت خزیمہ  رضی اللہ عنہما آپ ﷺ کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں تھیں۔
جبکہ انکے علاوہ نبی کریم ﷺ کی چار باندیاں بھی تھیں۔
جن کے نام درج ذیل ہے:
ماریہ قبطیہ، ریحانہ، نفیسہ، اور ایک چوتھی باندی جن کا نام معلوم نہیں ہے۔
اس مضمون میں ہم  قرآن و حدیث کے آئینے میں امہات المومنین کے مقام و مرتبے کا مختصر جائزہ لیں گے تاکہ ہمیں ان کا احترام اور آدب  ملحوظِ خاطر رہے اور شیاطین الإنس والجن ہمارے اذہان میں انکے متعلق کوئی منفی خیال ووسوسہ  ڈال نہ سکیں۔
رسول اللہ ﷺ ان ازواج مطہرات کی بہت عزت کرتے تھے اور ان کے بارے میں بہت فکرمند تھے جیساکہ درج ذیل حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول : ‏”‏ اِنَّ اَمْرَكُنَّ مِمَّا يُهِمُّنِي بَعْدِي وَلَنْ يَصْبِرَ عَلَيْكُنَّ اِلاَّ الصَّابِرُونَ ‏ ( سنن الترمذي :3749 ، المناقب – مسند أحمد :6/77 صحیح ابن حبان)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی حیات مبارکہ میں ازواج مطہرات سے فرمایا کرتے تھے : اپنی وفات کے بعد تم لوگوں کے معاملے میں میں بڑا فکرمند ہوں اورمیرے بعد تمہارے[امور کے ] بارے میں صبر کرنے والا ہی حقیقی صابر ہوگا ۔
تو آئیے ان معزز اور محترم خواتین کے چند فضائل اور حقوق کا قرآن، حدیث اور سیرت النبی ﷺ کے روشنی میں تذکرہ کرتے ہیں
1-اللہ تبارک وتعالی نے ان ازواج مطہرات کو ایک عمومی شرف اور فضیلت سے نوازا ہے جو کہ شرف صحابیت ہے۔
یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جتنے بھی فضائل ہیں وہ امہات المومنین کے لیے بالطریق الاولی ثابت ہیں۔
2- اور دوسرا خاص شرف ہے
کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبی کریم ﷺ کی عقد زوجیت میں آنا نصیب فرمایااور انہیں ”امہات “ اور ”ازواج“ کے الفاظ سے تعبیر کر کے تمام (امہات المومنین اور ازاوج مطہرات) کو یہ شرف اور اعزاز بخشا ہے کہ وہ عام مسلمان عورتوں کے نسبت احترام، عزت، اور شرف، میں حد درجہ افضل و اکرم ہیں
جبکہ کوئی زن و شوہر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ان کے مابین عقد کا دربارِ الٰہی میں کیا درجہ ہے؟
3- انہیں امہات المومنین (تمام مسلمانوں کی مائیں) قرار ديکر عام مسلمانوں کو ان کی عزت اور احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے،
یعنی جس طرح کوئی شخص اپنی ماں کا احترام کرتا ہے ، اس کی تعظیم میں کوتاہی نہیں کرتا ، اس کی طرف سے دفاع اور اس کی حفاظت کرتا ہے ،اس کے بارے میں کوئی نازیبا بات سننا گوارا نہیں کرتا ،بعینہ اسی طرح ایک مسلمان کو چاہئے کہ تمام ازواج مطہرات کا احترام، تعظیم اور تکریم کرے ، ان کی طرف سے دفاع کرے اور ان کی تعظیم و احترام کا وہی جذبہ ہو جو اپنی ماں کے لئے ہوتا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے:

النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ  وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا (الاحزاب :6)

”نبی ﷺ کا مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق ہے، اور آپ ﷺ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں،اور اللہ کے حکم میں آپس کے رشتہ داروں کا ایک دوسرے پر زیادہ حق ہے عام مسلمانوں اور ہجرت کرنے والوں سے، سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی احسان کرو، یہ کتاب کا لکھا ہوا ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی فضیلت عالیہ کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ کی ازواج مطہرات کا  تذکرہ کر کے مسلمانوں کو یہ ذہن نشیں کرایا کہ جس طرح رسول اکرم کی ذات گرامی شرافت اور فضليت کا درجہ رکھتی ہے، اسی طرح ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی اپنی شخصیت اور ذات میں نہایت افضل اور اشرف ہیں لہذا نبی کریم ﷺ  کی بیویاں مسلمانوں کے لیے اس طرح حرام اور قابل احترام و تکریم ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں ہیں۔
یہ مخصوص فضيلت ازواج مطہرات کے سوا دنیا کے کسی اور انسان کو حاصل  نہیں۔
4- ازواج مطہرات عام عورتوں سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہیں کہ اللہ تعالی نے کسی بھی نیک عمل پر انہیں عام لوگوں کے مقابلے میں دوگنے اجر کا وعدہ فرمایا ہے، ارشاد باری تعالی ہے :

وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ للهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا(الأحزاب:31)

اور جو تم میں اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار بن جائے اور نیک عمل کرے تو ہم اسے اجر بھی دوگنا دیں گے اور اس کے لئے ہم نے باعزت روزی تیار کر رکھی ہے ” ۔
تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ ان آیات نازل ہونے کے بعد بلا استثنا ء تمام ازواج مطہرات نے ہر چھوٹے بڑے کام میں اللہ و رسول کی اطاعت کو حرز جان بنالیا تھا اور آپ سے کسی بھی دنیاوی چیز کا مطالبہ نہیں کیا ۔ “ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
5- اللہ تبارک وتعالی نے ازواج مطہرات کو دیگر عورتوں کے برخلاف یہ حیثیت دی ہے کہ وہ عام مسلمان عورتوں کے لئے ایک نمونہ کی حیثیت رکھیں ، چنانچہ جس طرح کہ نبی ﷺ لوگوں کے لئے نمونہ تھے اسی طرح ان کا گھرانہ بھی مسلمانوں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے ، ارشاد باری تعالی :

يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا(الأحزاب:32)

اے نبی کی بیویو! تم عورتوں میں سے کسی ایک جیسی نہیں ہو، اگر تقویٰ اختیار کرو تو بات کرنے میں نرمی نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے طمع کر بیٹھے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو۔
یعنی تمہارا معاملہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے بلکہ تمہارے کردار کے نتائج بڑے دور رس ہیں ، تمہارے افعال و کردار ایسے ہونے چاہئے کہ لوگ تمہیں اپنا آئیڈیل سمجھیں اور بطور حجت کے پیش کریں ۔
اس لیے نبی ﷺ کی بیویوں کو حکم دیا گیا کہ مردوں سے بات کرتے وقت ایسا لہجہ اختیار کریں جس میں نرمی اور دل کشی کے بجائے قدرے سختی اور مضبوطی ہو، تاکہ دل کا کوئی بیمار کسی غلط خیال میں مبتلا ہو کر آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرے۔
اس سے معلوم ہوا کہ امہات المومنین کو ایسے لہجے میں غیر محرم مردوں سے بات کرنے کی اجازت تھی جو لوچ اور ملائمت سے خالی ہو۔ خصوصاً اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی گھریلو زندگی اور عورتوں کے مسائل کے متعلق امت کو وہی بہتر اور پوری طرح آگاہ کر سکتی تھیں اور فی الواقع انھوں نے یہ فریضہ بہترین طریقے سے ادا کیا۔ عام طور پر جو کہا جاتا ہے کہ عورت کی آواز غیر محرم کو سننا جائز نہیں، یہ بات درست نہیں۔ واضح رہے کہ یہ حکم امہات المومنین کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ امت کی تمام عورتوں کے لیے ہے۔
6- اللہ تعالیٰ نے ازواج النبی ﷺ کے بیوت (گھروں ) کو وحی الٰہی کا مھبط(منزل ) بتایا، ان گھروں کو حکمتِ ربّانی کا گہوارہ ٹھہرایا اور سب جانتے ہیں کہ مکان کی عزت مکین سے ہوتی ہے۔

وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (الاحزاب:34)

اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں اللہ کی آیتیں اور حکمت بے شک اللہ ہر باریکی جانتا خبردار ہے۔
یعنی تمھارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت کی جو تلاوت کی جاتی ہے، اسے یاد کرو اور یاد رکھو، کبھی اس سے غفلت نہ کرو اور اسے دوسرے لوگوں کے سامنے بھی ذکر کرو اور ان تک پہنچاؤ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری یہ تھی کہ اللہ کے احکام امت تک پہنچا دیں۔ آپ ﷺ کے ایک مرد یا ایک عورت تک کوئی حکم پہنچا دینے سے آپ کا فریضہ ادا ہو جاتا تھا، پھر اس مرد یا عورت کا فرض ہوتا کہ اسے آگے پہنچائے، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْ آيَةً ( بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بني إسرائیل : ۳۴۶۱ )
’’میری طرف سے آگے پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہو۔‘‘ امت کے ہر فرد کو ہر حکم بہ نفس نفیس پہنچانا نہ آپ کے ذمے تھا، نہ آپ کے لیے ممکن تھا۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کے بہت سے اقوال و افعال اور احوال ایسے تھے جن کا تعلق گھریلو زندگی سے تھا اور جن کا علم صرف ازواج مطہرات کو ہوتا تھا۔
اس لیے انھیں آیات و حکمت کو یاد کرنے،  یاد رکھنے اور لوگوں کے سامنے ذکر کرنے کا حکم دیا۔
اور امہات المومنین نے یہ فریضہ نہایت خوش اسلوبی اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا۔
چنانچہ دینی مسائل کا بہت بڑا حصہ انھی کے ذریعے سے امت تک پہنچا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی وہ ان سے پوچھتے اور انھیں ان کے پاس سے، خصوصاً سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس سے اس کا تسلی بخش حل مل جاتا۔
7-کسی زوجہ محترمہ کے بارے میں کسی نازیبا کلام سے منع فرمایا ازواج مطہرات سے شادی کرنے کے تصور سے روکا حتی کہ ایسی کسی بات پر کان دھرنے کی بھی اجازت نہیں دی کیونکہ اس سے رسول ﷺ کو تکلیف پہنچتی ہے ، ارشاد ہے:

وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللهِ عَظِيمًا (الأحزاب:53)

تمہارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کو ایذا دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کی وفات کے بعد کبھی ان کی بیویوں سے شادی کرو ، بلاشبہ اللہ کے یہاں یہ بڑے گناہ کی بات ہے “۔
اس لئے جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کی جماعت ! اس شخص سے میری طرف سے کون نپٹے گا جس کی اذیتیں اب میری بیوی تک پہنچ گئی ہیں ۔(صحیح البخاری )
8-ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالٰی نے انہیں آزمایا تو وہ اس آزمائش میں کامیاب ہوئیں۔اور ” سمعنا و اطعنا“ کی مصداق بن کر رسول اللہ سے علیحدگی اختیار کرنے پر آپ کی صحبت میں رہنے کو ترجیح دی۔
قرآن کریم نےانکا وہ نقشہ  اس طرح پیش کیا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا  وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا

اے نبی(ﷺ) ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آو میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔ اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانوکہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں۔(الاحزاب29,28)
اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہو گئی تو انصار و مہاجر ین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔
نبی اکرم ﷺ چونکہ نہایت سادگی پسند تھے ،اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی جو ایک مہینہ تک جاری رہی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے آیتِ مذکور نازل فرما دی۔
اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا تا ہم آپ نے انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے والدین سے مشورہ کے بعد کوئی اقدام کرنا۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپکے بارے میں مشورہ کروں ؟ بلکہ میں اللہ اور رسول اللہ کو پسند کرتی ہوں۔ یہی بات دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول ﷺکو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔
جب رسول اللہ ﷺ نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا۔
تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو چھوڑنا پسند نہ کیا اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دی تو انھیں اللہ کی طرف سے ایک دنیاوی بدلا یہ ملا کہ رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ اب آپ ان کے سوا کسی اور عورت سے نکاح نہیں کر سکتے، نہ ہی ان میں سے کسی کو چھوڑ کر اس کے بدلے دوسری لا سکتے ہیں، گو اس کا حُسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَقِيبًا

آپ کےلیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان کے بدلے کوئی اور بیویاں کر لے، اگرچہ ان کا حسن آپ کو اچھا لگے مگر جس کا مالک آپ کا دایاں ہاتھ بنے (یعنی باندی) اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح نگران ہے۔
9- اللہ تبارک وتعالیٰ نے ازواج النبی ﷺ کی شانِ ارفع میں آیتِ تطہیر کو نازل کیا اور ان کو اہل بیت قرار دیا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [الأحزاب : ۳۳]

اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ ہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی اور نماز قائم رکھو او زکوۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور آپ سب کوپاک کرکے‘ خوب ستھرا کردے۔
ان آیاتِ کریمات میں اوّل سے آخر تک تمام کلام کی مخاطب ازواج النّبی ہیں اس لیے اہل البیت کے لفظ کا خطاب بھی انہیں کے لیے.
جیسا کہ بیوتکن کا خطاب بھی انہیں کے لیے ہے، اس کی تائید عرفِ عام سے بھی ہوتی ہے کیونکہ صاحبِ خانہ یا گھر والی ہمیشہ بیوی ہی کو کہا جاتا ہے، اہل البیت، گھروالی کا عربی ترجمہ ہے
بیوی کو مستثنیٰ کرکے اہل خانہ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔
اسکی مزید وضاحت ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے:
1-جب ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگائی گئی تو ایک دن رسول اللہ ﷺ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :

 يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ! مَنْ يَّعْذِرُنِيْ مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِيْ أَذَاهُ فِيْ أَهْلِ بَيْتِيْ؟ ( بخاري، التفسیر، باب : « لو لا إذ سمعتموہ… » : ۴۷۵۰ )

’’اے مسلمانوں کی جماعت! ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے اہلِ بیت (یعنی میرے گھر والوں) تک پہنچ گئی ہے؟‘‘
2-سیدنا ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے سوال کیا : یا رسول اللہ ! ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس طرح پڑھو :

اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أزواجه و ذريته كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أزواجه و ذريته كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ‏.‏( صحيح البخاري :3369 – صحيح مسلم :407 )

ان آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات ہیں۔
مگر دیگر احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنھم کو بھی اہلِ بیت میں شمار فرمایا ہے۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے ربیب عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں :

 نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : « اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا » [الأحزاب : ۳۳] فِيْ بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ اَللّٰهُمَّ هَؤُلاَءِ أَهْلُ بَيْتِيْ فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِيْرًا قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَ أَنَا مَعَهُمْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ ، أَنْتِ عَلٰی مَكَانِكِ وَ أَنْتِ إِلٰی خَيْرٍ  (ترمذي، المناقب، باب في مناقب أھل بیت النبي ﷺ : ۳۷۸۷، و قال الألباني صحیح)
جب یہ آیت : « اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا »

نبی ﷺ پر ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں اتری تو آپ ﷺ نے فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور انھیں ایک چادر کے اندر ڈھانپ لیا اور علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی پیٹھ کے پیچھے تھے، تو انھیں ایک چادر کے اندر ڈھانپ لیا، پھر کہا : ’’اے اللہ! یہ میرے اہل بیت (گھر والے) ہیں، سو ان سے ناپاکی  دور کر دے اور انھیں پاک کر دے، خوب پاک کرنا۔‘‘ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے کہا : ’’اے اللہ کے رسول! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’تو اپنی جگہ پر ہے اور تو بھلائی کی طرف ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنھم کو دعا کر کے اہلِ بیت میں شامل کروایا اور ان کے لیے ناپاکی  دور کرنے اور انھیں پاک کرنے کی دعا فرمائی۔
لہذا جو آل محمد سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف ازواج مطہرات کو اہل بیت نہیں مانتے یا ان  میں سے کسی ایک پر بھی طعن وتشنیع کرتے ہیں ان کو برا بھلا کہتے ہیں وہ ان آیات واحادیث کے رو سے ملعون او ر خارج ایمان ہیں۔
نبی کریم ﷺ کا گھریلو ماحول:
ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن  کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا روزانہ کا معمول یہ تھا کہ آپﷺ  عصر کی نماز کے بعد تمام ازواج مطہرات کے حجروں میں باری باری تشریف لے جایا کرتے تھے۔
سب سے حال احوال پوچھتے تھے اور ضروریات کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے۔ اور پھر جس کی باری ہوتی تھی ان کے پاس رات گزار لیتے تھے۔
آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ: اے اللہ! جو میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں برابری کرتا ہوں، لیکن جو میرے اختیار میں نہیں ہے  اے اللہ اس میں میرا مواخذہ نہ کرنا۔
یعنی دل کے معاملات میں میرا  اختیار نہیں ہے۔
ازواج مطہرات کے آپس میں کبھی کبھار ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات بھی پیدا ہوجاتے تھے۔
کیونکہ یہ ایک فطری بات ہے کہ جہاں ایک سے زیادہ بیویاں ہوں وہاں آپس میں اختلاف کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
محدثین اس بارے میں بہت سے واقعات ذکر فرماتے ہیں۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی اور یہ امت کی تعلیم کا ایک اہتمام تھا کہ مختلف مزاج کی عورتیں آپ  کے ساتھ مل جل کر رہیں، ان کی آپس میں نوک جھونک بھی ہو، لیکن اس سب کے باوجود ایک دائرے کی پابند بھی رہیں۔
ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سب سے زیادہ معاصرت سیدہ عائشہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہما کے درمیان تھی۔ کبھی کبھی بات سخت بھی ہو جاتی تھی، دونوں حسب موقع ایک دوسرے پر فخر بھی جتلایا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ میرا قرآن کریم میں ذکر ہے:

فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا (سورۃ الاحزاب ۳۷)

کہ پھر جب زید اس (زینب) سے حاجت پوری کر چکا تو ہم نے آپ سے اس کا نکاح کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو۔
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا دوسری ازواج مطہرات سے فرمایا کرتی تھیں کہ تم سب کا نکاح زمین پر ہوا جبکہ میرا نکاح آسمانوں پر ہوا۔ تم میں سے کسی کے نکاح کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے لیکن میرے نکاح کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سب ازواج اکٹھی ہوئیں کہ رسول اکرم ﷺ  سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اس کے لیے انہوں نے آپس میں فیصلہ کر کے سیدہ زینب رضی اللہ عنہاکو متکلم بنایا۔
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے لمبی گفتگو کی کہ یا رسول اللہﷺ  ازواج مطہرات کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ  کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں وغیرہ۔
جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بات مکمل کر چکیں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ  مجھے بھی اجازت ہے کہ میں کچھ بات کروں؟ آپﷺ  نے فرمایا ہاں تمہارا بھی حق ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بہت فصیح اللسان تھیں ان کی فصاحت اپنے زمانے میں ضرب المثل تھی۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے گفتگو شروع کی تو سب ازواج خاموش ہوگئیں۔ آپ ﷺ نے آخر میں ایک ہی جملہ فرمایا کہ آخر ابوبکرکی بیٹی ہے، یعنی باقی ازواج سے کہا کہ اب بولو عائشہ کے سامنے۔
چنانچہ اس قسم کی باتیں ازواج مطہرات میں آپس میں نوک جھوک ہو جایا کرتی تھیں۔
یہ فطری بات ہے کہ ایک خاوند کی زیادہ بیویاں ہوں تو ان کا آپس میں کسی نہ کسی بات پر اختلاف ہوجاتا ہے۔
لیکن جب منافقوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تو ازواجِ مطہرات سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کردار کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس واقعہ کے گزرجانے کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ زینب رضی اللہ عنہا سے تھا۔
لیکن سب سے زیادہ صفائی سیدہ زینب نے ہی بیان کردی۔ انہوں نے فرمایا ’’ما علمت فیھا الا خیرًا‘ یا رسول اللہﷺ  میں نے تو عائشہ میں خیر کے سوا کوئی بات نہیں دیکھی۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ازواج کے درمیان باہمی زندگی کا ایک نمونہ بتایا کہ یہ موقع ہوتا ہے فائدہ اٹھانے کا، لیکن سیدہ زینب نے باوجود معاصرت کے وہ بات کہی جسے وہ دیانت داری کے ساتھ سچ سمجھتی تھیں۔
خرچے کا معاملہ یہ تھا کہ جو کچھ آپ کے پاس ہوتا آپﷺ  برابر تقسیم فرما دیتے تھے۔
آپﷺ  کا کوئی مستقل کاروبار نہیں تھا، غنیمت میں سے جو حصہ مل جاتا، یا بیت المال سے کوئی چیز مل جاتی، یا کوئی ہدیہ پیش کر دیتا، تو آپ ازواج میں تقسیم فرما دیتے۔
گھر کی صورتحال کے بارے میں ام المؤمنین  عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ کبھی ہم پر ایسا وقت نہیں گزرا کہ ہم نے عام قسم کی کھجوریں تین دن تک مسلسل پیٹ بھر کر کھائی ہوں، کئی کئی دن چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی۔ کبھی کچھ کھجوریں مل جاتیں، کبھی ستو وغیرہ مل جاتا اور کبھی کچھ بھی نہ ملتا۔
فرماتی ہیں کہ جب آپ ﷺ حیات تھے تو ہم میں سے ہر ایک کے پاس صرف ایک ایک جوڑا کپڑوں کا ہوتا تھا۔
یہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت تھی کہ زندگی میں غیر ضروری سہولتیں اختیار نہ کی جائیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اختیاری طور پر اور حکمت کے طور پر یہ زندگی اختیار کی تھی اور آپ  کے بعد  ازواج مطہرات نے آخر وقت تک یہی طرز زندگی اپنائے رکھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپﷺ  کے وفات کے بعد ازواج کے پاس مال زیادہ آتا تھا لیکن وہ سب ضرورت مندوں پر خرچ بھی ہو جاتا تھا۔
یہ  نبی کریم ﷺ کے گھر کا ماحول تھا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے زندگی بھر ہم ازواج کو گھر کے معاملات میں نہیں ٹوکا، آپ سختی نہیں فرماتے تھے۔
اپ ﷺ نے خود فرمایا کہ ’’أنا خیرکم لأھلی‘‘ کہ میں تم میں سے اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے بہتر ہوں۔
البتہ دینی معاملے میں کمی بیشی ہوتی تو آپﷺ  اس کا نوٹس لیتے تھے لیکن گھر کے اندر دنیوی معاملات میں کسی قسم کا کوئی نقصان ہوتا تو رسول اللہﷺ  ہمارے ساتھ اس کے متعلق نرمی سے پیش آتے۔
اس طرح گھر کے کاموں میں بھی آپ ﷺ ازواجِ مطہرات کی مدد فرمایا تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے