آج سے 1400 سو سال پہلے جب تمام عالم پر تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ ہر طرف ظلم، وحشت و بربریت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ کرہ ارض پر مذہبی بے راہ روی، اخلاقی انارکی، سیاسی پستی، طبقاتی کشمکش، علمی و فکری تنزلی اور معاشرتی لا قانونیت انتہا کو چھو رہی تھی۔ انسانیت آمریت و شہنشاہیت کی چکی میں پستی جا رہی تھی۔ مذہبی و اخلاقی پستی کا یہ عالم تھا کہ حج کے ایام میں قریش کے سوا ہزاروں کا ہجوم مرد و عورت سب کے سب بیت اللہ کا برہنہ حالت میں طواف کرتے تھے۔ ایسی کٹھن صدی میں اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے واسطے، ان کی اصلاح و فلاح کی خاطر منصب رسالت کے لیے پیکر محبت و امن، محسن انسانیت، خاتم الرسل، سید البشر محمد ﷺ کی بعثت فرمائی ۔
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے انتخاب کے ساتھ ہی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی رفاقت و مصاحبت ،غلبۂ حق و احیاء الدین کےلئے اسلام کے اولین علمبردار جماعت کا انتخاب فرمایا،بقولِ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ :

إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ ،فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لنفسه، فابتعثَهُ بِرِسَالَتِهِ ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ قُلُوبِ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءُ نَبِيِّهِ يُقَاتِلُونَ عَلى دِينِهِ ،فما رأى المسلمونَ حسناً فهو عند الله حسنٌ ، وما رأوا سيئاً فهو عِندَ الله سَيّء

اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد(ﷺ) کے دل کو سب سے بہترپایا،اس لیے انہیں اپنے لیے چُن لیا اور انہیں منصبِ رسالت سے سرفراز کیا، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے دلوں کو سب سے بہتر پایا،اس لیےانہیں نبی کا وزیر بنادیا،جواُس کے دین کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں،تو یہ مسلمان[یعنی صحابہ کرام] جس چیزکو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے‘‘۔(مسند احمدح:۳۴۶۸)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جن نفوس قدسیہ کو اپنے آخری رسول ﷺ کی صحبت کے لیے منتخب فرمایا اقوام عالم انہیں اصحاب النبی ﷺ کے نام سے جانتی ہے۔ اصحاب صحابی کی جمع ہے۔ صحابی کسے کہتے ہیں؟
صحابی کی تعریف کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

الصحابي من لقي النبي صلى الله عليه وسلم مؤمناً به، ومات على الإسلام

صحابی وہ شخص ہے جس نے رسولﷺ کی زندگی میں آپﷺ سے حالتِ اسلام میں مُلاقات کی ہو اور پھر اسلام کی حالت میں ہی وفات پایا ہو۔(الإصابۃ في تمییز الصحابۃ)
بعد الانبیاء خیر الاخیار وہ عظیم المرتب و رفیع الدرجات جماعت ہے جس نے آپ ﷺ کو آنکھوں کی بصارت اور قلب کی طہارت سے دیکھا۔ آپ ﷺ کی مصاحبت سے مشرف ہوئے، آپ ﷺسے منزل من السماء وحی کے علم کو سینہ بہ سینہ لیا۔ پھر اس امانت کی عملی نظیر بن کر امانت، دیانت، شجاعت، ثقاہت و عدالت کے امام بن کر ایسے انداز سے آئے کہ اپنے پرائے سب تعریف و تحسین میں رطب اللسان ہیں۔
صادق المصدوق ﷺ کے ان سرفروش سپاہیوں نے اقامت دین کے لیے وہ عظیم قربانیاں سر انجام دیں کہ جن کی نظیر بے نظیر
احیاء الدین و نصرت النبی ﷺ کی خاطر ان وفا شعاروں نے اپنی گردنیں کٹوائیں، دہکتے انگاروں، سلگتی صحرائی ریت پر جسم کے چیتھڑے ادھڑوائے، کہیں یہ پاکیزہ روحیں فقر و فاقہ ، تنگدستی و عسرت کے سبب بلبلاتی رہیں، تو کہیں جان و مال اور اپنے پیار و اعتبار کی آزمائش کی بھٹی سے گذرتے رہے، تو کہیں یہ وفا کے پیکر مؤاخاۃ مدینہ جیسی قربانی دیتے، تاریخ انسانی کی عظیم الشان تاریخ رقم کرتے نظر آتے ہیں۔
معزز قارئین کرام : بلاشبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایثار، وفا، عجز و انکساری سے خالق کائنات کو اس قدر راضی کردیا کہ آسمان سے ان کی منزلت اس انداز سے بیان ہوئی

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ (الحجرات:3)

یہ اصحاب محمد ﷺتو اشرف انسان ہیں جن کا ممتحن خود اللّٰہ ہے نتیجہ دینے والا بھی وہی اللّٰہ ہے رزلٹ کارڈ یہ کہ ان کے دل تقوی سے لبریز ہیں أولئك هم الراشدون  رشد و ہدایت کے پیکر ہیں أولئك حزب الله یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی جماعت ہے۔
رشد و ہدایت کی پیکر اللہ کی اس جماعت نے نبی کریم ﷺ کے بعد دینی و دنیاوی انتظام و انصرام کو نہج نبوی پر چلایا۔ محبت و الفت، عدل و انصاف کے ایسے چشمے بہادیئے کہ پورے عالم میں رسول اللہ ﷺ کے ان جاں نثاروں کی شجاعت، عدالت، ذکاوت و ذہانت، خلوص، جود و سخا اور دریا دلی کے چرچے پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے پرائے سب تعریف و تحسین کے گن گاتے نظر آتے ۔
معزز قارئین کرام! خیر الاخیار نبی کے یار انسانیت کا وہ عظیم طبقہ ہے جس کے معتبر اور معتمد ہونے کے لیے کسی گواہی کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی کی تصدیق کی ان کو حاجت ہے۔ اگر کسی نے کچھ تحریری یا تقریری صورت میں ان کی عظمت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ مساعیہ جمیلہ خود اس کے لیے شرف ہے محمد کریم ﷺ کے محبین رضی اللہ عنہم کی تعریف و تحسین، تصدیق و توثیق قرآن و حدیث میں جا بجا بیان ہوئی ہے ہم یہاں پر ان مناقب میں سے چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں۔
خیر الاخیار کے اوصاف حمیدہ سابقہ کتب شرعیہ میں
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ (الفتح:29)

’’محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کی علامتیں سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں ان کے یہ اوصاف تورات اور انجیل میں مذکور ہیں ۔ ‘‘
صحابہ کرام سارے جنتی ہیں اللّٰہ ان سے راضی ہے
اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (سورہ توبہ:۱۰۰)
صحابہ کرام کا ایمان بعد والوں کے لیے کسوٹی ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَآ اٰمَنۡتُمۡ بِه فَقَدِ اهۡتَدَوْا

پس اگر یہ لوگ بھی اس طرح ایمان لائیں، جیسے تم ایمان لائے ہو، تو ہدایت پر ہیں،( سورة البقرة 137)
سارے صحابہ عظیم تو ان کا عہد بھی عظیم ہے
سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا

خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ

سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں ، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے ، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے (صحیح البخاری 2652)
صحابہ کرام کی صحبت نیک بختی کی علامت
سیدناابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک زمانہ آئے گا کہ اہل اسلام کی جماعتیں جہاد کریں گی تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے کوئی صحابی بھی ہیں ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں ہیں ۔ تب ان کی فتح ہوگی ۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گی اور اس موقع پر یہ پوچھا جائے گا کہ یہاں رسول اللہ ﷺ کے صحابی کی صحبت اٹھانے والے ( تابعی ) بھی موجود ہیں ؟ جواب ہوگا کہ ہاں ہیں اور ان کے ذریعہ فتح کی دعامانگی جائے گی ، اس کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گی اور اس وقت سوال اٹھے گا کہ کیا یہاں کوئی بزرگ ایسے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے شاگردوں میں سے کسی بزرگ کی صحبت میں رہے ہوں ؟ جواب ہوگا کہ ہاں ہیں ، تو ان کے ذریعہ فتح کی دعا مانگی جائے گی پھر ان کی فتح ہوگی۔( صحیح البخاری 3649)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا وجود امت کی حفاظت ہے
سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ستارے آسمان کے محافظ(بچاؤ) ہیں،جب ستارے مٹ جائیں گے تو آسمان پربھی جس بات کا وعدہ ہے وہ آجائے گی(یعنی قیامت آجائے گی اور آسمان بھی پھٹ کرخراب ہوجائے گا) ،اور میں اپنے اصحاب کا محافظ ہوں،جب میں چلاجاؤں گا تو میرے اصحاب پربھی وہ وقت آجائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی فتنہ اور فساد)، اور میرے اصحاب میری امّت کے محافظ ہیں، جب اصحاب چلے جائیں گے تو میری امّت پر وہ وقت آجائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی اختلاف وانتشار ارتداد، بدعات وغیرہ)۔ (مسلم 2531)
صحابہ کرام سے محبت ایمان ہے
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لاَ يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ

ان سے محبت صرف مؤمن ہی کرے گا۔(صحیح البخاری 3783)
خیر الاخیار کا مخالف ملعون ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہ کو گالی مت دو،جس نے انہیں گالی دی اس پر اللہ کی،فرشتوں کی اور سارے لوگوں کی لعنت ہو، اللہ ایسے شخص سے نہ تو فرض قبول کرے گا اور نہ نفل۔ (المستدرک للحاکم، کتاب الشریعۃ للآجري 1923)
رسول اللہّﷺنے فرمایا

وَلاَ يُبغِضُهُم إِلاَّ مُنَافِقٌ

ان (صحابہ کرام) سے بعض صرف منافق ہی رکھے گا۔(صحیح البخاری 3783)
ارباب علم و فضل کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے عداوت کفر، فسق و طغیان ہےچنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حُبّهم دينٌ، وإيمانٌ، وإحسانٌ، وبُغضهم كُفرٌ،ونفاقٌ،وطغيانٌ

صحابہ کرام سے محبت رکھنا دین،ایمان اور احسان کی علامت ونشانی ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر،نفاق اورسرکشی ہے ۔(عقیدہ طحاویۃ)
ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ نے فرمایا:جب تو کسی شخص کو اصحاب رسولﷺ میں سے کسی کی تنقیص بیان کرتا دیکھے توجان لے کہ وہ مُلحِد (بےدین)ہے‘‘(الکفایہ في علم الروایہ،ص 97)
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:جس نے نبیﷺ کے اصحاب میں سے کسی ایک کو یا ابوبکر یا عمریا عثمان یا علی یا معاویہ یا عمروبن العاص(رضی اللہ عنہم اجمعین) کو گالی دی،پس اگراس نے کہا کہ: یہ لوگ گمراہ اور کافر تھے تواس کا کہنے والا قتل کیا جائے گا ۔ (الشفا في حقوق المصطفی قاضی عیاض ،ص299)
دشمنان صحابہ کی مجالس اور مصاحبت سے منہ پھیر لینا چاہیے
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی ہے جو سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ پر عمر بن عبد العزیز کو فضیلت دیتا ہے تو جواب میں امام احمد رحمہ اللّٰہ نے فرمایا
لا تجالسه، ولا تواكله، ولا تشاربه، وإذا مرض فلا تعده
ایسے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو، اور نہ ان کے ساتھ کھاؤ پیؤ اور جب وہ بیمار پڑ جائیں تو ان کی عیادت بھی نہ کرو۔(طبقات حنابلہ لابن رجب حنبلی)
مشاجرات صحابہ سلف کی نظر میں
بعض فاسق و فاجر، نادان و جہلاء اور نام نہاد بنے  محقق مشاجرات صحابہ کو اچھال اچھال کر بیان کرکے اپنے بدبودار منہ سے طعن و تشنیع کرتے اپنی عاقبت کو خراب کرتے نظر آتے ہیں۔
محترم قارئین کرام: سارے صحابہ سچے اور عادل تھے ان کے مابین اختلافات کو مشاجرات کہا جاتا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ صحابہ کے مشاجرات اجتہاد کی بنیاد پر تھے اور اجتہادی معاملہ ہر اعتبار سے اجر پر ہی مبنی ہوتا ہے۔ ان مشاجرات کے حوالے سے سکوت اختیار کرنا چاہیے، ان نفوس قدسیہ کو حق اور ناحق کے پلڑوں میں رکھ کر پرکھنے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ کہ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جو اسلام کے لیے مخلص اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ اس بحث و تکرار سے سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اگر ان خیر الاخیار سے بشری تقاضوں کے تحت کوئی غلطی سر زد ہوئی ہے تو یہ سید البشر ﷺ کے رفقاء عند اللہ مغفور ہیں بخشش اور جنت کا ان سے وعدہ ہے۔
ہم اخیر میں اس حوالے سے سلف صالحین کے صرف دو حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔
امام اہل السنہ ابو زرعہ رازی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا:ہم نے حجاز (حرمین) و عراق، مصر و شام اور یمن وغیرہ تمام علاقوں کے علماء کرام کو دیکھا ہے ان سب کا مذہب یہ تھا کہ محمد عربی ﷺ کے صحابہ کرام کے لیے رحمت کی دعا کرنا اور ان کے درمیان ہونے والے اختلافات کے حوالے سے اپنی زبان بند رکھنی چاہیے۔(اہل السنہ و اعتقاد الدین لابن ابی حاتم)
امام نووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم میں رقمطراز ہیں:اہلِ سنت کا مذہب یہ ہے کہ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تأویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض صواب پر تھے اور بعض مخطی پر، ان کا مخطی ہونا اجتہاد کے سبب تھا اور مجتہد مخطی پر بھی گنہگار نہیں ہوتا۔( شرح صحيح مسلم للنووی  کتاب الفتن)
اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور بدست دعاگو ہیں کہ اپنے رحمت کاملہ سے امت مسلمہ کی اصلاح فرمائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی محبت اور جنت میں مصاحبت ورفاقت نصیب فرمائے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے