وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ۰۰۱۳ (سورۃ البقرۃ:13)
نبی کریمکےجانثارصحابہ کرام پر سبّ وشتم کرنا اور اپنی زبانوں کو اُن مقدّس ہستیوں کے خلاف بےلگام کرنا یہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کی ابتداء اُسی دن سے شروع ہوگئی تھی جس دن سے اصحاب محمد نے جناب محمد رسول اللہکا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا سب کچھ اللہ اور اُس کے دین کی سر بلندی کے لیےوقف کردیا تھا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رسولِ اکرمکی بعثت کے بعدجس دن سے حق و باطل کا پہلامعرکہ شروع ہوا اُسی دن سےاسلام کے خلاف جہاں یہود و نصاریٰ اورمشرکین سرگرم ہوئے وہیں اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے منافقین جواپنے دلوں میں دینِ اسلام کو مٹانے کی خواہش رکھتے ہیں ،اس مشن میں اُن کےساتھ لگ گئےاوراپنے مقصد کی تکمیل کی خاطرانہوں نے پہلے رسولِ اکرمکی مقدّس شخصیت کو مجروح کرنا چاہالیکن وہ کر نہ سکے کیونکہ اس طرح اُن کا نفاق اور کفر ظاہرہوجاتاتھااوروہ مسلمانوں میں گھل مل نہ سکتے ،اسی لیے اُنہوں نے رسولِ اکرمکےصحابہ کرام کواپناہدفِ تنقید بنایا اور اُن کے خلاف پرا پیگنڈہ شروع کیا ، کبھی اہلِ بیت کی محبّت کو بنیاد بناکرتوکبھی صحابہ کرامکےباہمی سیاسی اختلافات کو بنیادبنا کر اور کبھی کسی اور بات کا بہانہ بناکر، یہ لوگ کوئی موقع اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیتے،اور ہرممکن کوشش کرتے تھے کہ کسی بھی طرح صحابہ کرام کی شخصیات کو مسلمانوں کی نگاہ میں مشکوک کردیا جائے ۔ آج اس کام کےلیے اسلام دشمنوں نے ممبرومحراب استعمال کیے ، مسلکی رسومات ، نجی محفلوں اور دیگر تقاریب کے موقعوں پر لوگوں کی ذہن سازی کرنی شروع کی ،قلم و تحریر کے ذریعہ مختلف رسائل و جرائد میں مضامین لکھے ،کتابیں شائع کیں ،تعلیمی ادارے قائم کیے اورسب سے بڑھ کر الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کو استعمال کیا ،انٹرنیٹ کا سہارا لیااور صحابہ کرام کے خلاف ایک تحریک کھڑی کرنے کی کوششیں کیں اور آئے روزاس کام میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔
یاد رکھیں!ایک بندہ مومن امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ کے جانثار صحابہ کرام کے خلاف کسی بھی قسم کی گفتگو نہ کرسکتاہے اور نہ سن سکتاہے ،وہ ہمیشہ صحابہ کرام کی عزت کا دفاع ہی کرتاہے۔اسی مناسبت سے آج کی گزارشات صحابہ کرام کے فضائل ومناقب سے ہٹ کر دفاع صحابہ اور گستاخان صحابہ کے عبرت ناک واقعات پر مشتمل ہوں گی تاکہ ہم میں سےہر شخص صحابہ کرام کے خلاف زبان درازی سے محفوظ رہ سکے۔
صحابہ کرام کادفاع کیوں ضروری ہے؟
یوں تواس کی بہت ساری وجوہات ہیں،مگریہاں چند ایک کی طرف اشارہ کیے دیتے ہیں:
سب سے پہلے تویہ ہے کہ قرآن مجید میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کا دفاع کیاہے۔اس لیےہمارابھی فرض بنتاہے کہ ان کا دفاع کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحابہ کرام کادفاع ہمارے پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ نے کیا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ صحابہ کرام کا دفاع دین اسلام کا دفاع ہے،جیساکہ حافظ ابن حجر العسقلانی نے امام ابوزرعہ رازی کا قول ذکر کیاہے:
إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُلَ يَنْتَقِصُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَّ فَاعْلَمْ أَنَّهُ زِنْدِيقٌ , وَذَلِكَ أَنَّ الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَّ عِنْدَنَا حَقٌّ , وَالْقُرْآنَ حَقٌّ , وَإِنَّمَا أَدَّى إِلَيْنَا هَذَا الْقُرْآنَ وَالسُّنَنَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَّ , وَإِنَّمَا يُرِيدُونَ أَنْ يُجَرِّحُوا شُهُودَنَا لِيُبْطِلُوا الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ , وَالْجَرْحُ بِهِمْ أَوْلَى وَهُمْ زَنَادِقَةٌ ( الكفایۃ في علم الرواية للخطیب البغدادی:49)
جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ کے اصحاب میں سے کسی کی تنقیص کرتاہے،توسمجھ لو کہ وہ زندیق ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول برحق ہے،قرآن برحق اور جو دین آپ لائے وہ دین برحق ہے اور بیشک قرآن واحادیث ہم تک صحابہ کرام نے پہنچائے ہیں۔لہٰذا صحابہ ہمارے لیے رسالت محمدیہ (کے) گواہ ہیں اور یہ لوگ ہمارے گواہوں کو مجروح کرکے کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتے ہیں۔لہٰذا یہ لوگ خود لائقِ جرح ہیں اور یہ لوگ بدترین زندیق ہیں۔
صحابہ کرام معیار ہدایت ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا (سورۃ البقرۃ:137)
پھر اگروہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے تویقیناً وہ ہدایت پاگئے۔
خود نبی کریم صحابی کےلیے اپنی جان قربان کرنے کےلیے تیارہونے والے تھے،جس کی واضح مثال بیعت رضوان کا موقع ہے کہ صرف ایک صحابی سیدنا عثمان کی خاطر وہاں موجود تمام صحابہ کرام اور خود سرور دوعالم جناب محمد رسول اللہ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر موت کی بیعت کی۔اس بیعت کے نتیجے میں اگر یہ جنگ کفار کے ساتھ ہوجاتی تواس میں کتنے لوگ شہید ہوتے؟اور خود پیارے پیغمبر بھی شہید ہوسکتے تھے لیکن آپ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر خود کو ایک صحابی کے بدلے پیش کیا۔اگر اس حد تک ہمارے نبی اپنے صحابہ کرام کا دفاع کرنے والے تھے توہم کیوں نہیں کرتے؟
صحابہ کرام کا دفاع اس لیے بھی ضروری ہے کہ نبی کریم سےلیکر صحابہ کرام،تابعین عظام،تبع تابعین اور تمام ائمہ دین صحابہ کادفاع کرتے آرہے ہیں،اس لحاظ سے ہمارا فرض بنتاہے کہ جس طرح ہمارے سلف صحابہ کرام کی عزت کا دفاع کرتے تھےہم بھی اسی انداز سے صحابہ کرام کی شان کے محافظ بنیں۔
دفاع صحابہ قرآن مجید کی روشنی میں
قرآن میں جہاں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے جابجا فضائل کاتذکرہ کیاہے،وہیں صحابہ کرام کی عزت کا دفاع بھی فرمایاہے،ہم قرآن مجید سے تین مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
پہلی آیت:
ارشادربانی ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ۰۰۱۳
اورجب ان(منافقین)سے کہاجاتاہے کہ ایمان لاؤجس طرح لوگ(صحابہ کرام)ایمان لائے،تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بیوقوف ایمان لائے ہیں؟سن لو!بے شک وہ خود ہی بیوقوف ہیں اورلیکن وہ نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرۃ:13)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہواکہ منافقین جو صحابہ کرام کو بے وقوف کہتے تھے،کسی اور نے نہیں بلکہ خود اللہ رب العزت نے ان کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا کہ بے وقوف وہ نہیں بلکہ تم لوگ بے وقوف ہو۔
دوسری آیت:
غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ نے صحابہ کرام سے چندے کی اپیل کی تو بہت سارے صحابہ کرام نے دل کھول کر تعاون کیا اور بعض نے اپنی استطاعت کے مطابق مال اللہ کی راہ میں دیا۔منافقین جو ہمیشہ سے اسلام دشمن رہے ہیں،اس موقع پرجو زیادہ مال لاتااسے کہتے کہ اللہ کو تواتنے زیادہ مال کی ضرورت نہیں ،کیونکہ وہ خود غنی ہے اور جو کم مال لاتااسے کہتے کہ اتنے تھوڑے مال کی اللہ کو ویسے ہی ضرورت نہیں،صحابہ کرام کا دفاع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق فرمایا کہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے،جیساکہ قرآن مجید میں ہے:
اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ١ٞ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۷۹
وہ لوگ جو صدقات میں خوش دلی سے حصہ لینے والےمومنوں پر طعن کرتے ہیں اوران پر بھی جو اپنی محنت کے سواکچھ نہیں پاتے،سووہ ان سے مذاق کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان سے مذاق کیا ہے اورا ن کے لیے دردناک عذاب ہے۔(سورۃ التوبۃ:79)
تیسری آیت:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں صحابہ کرام کادفاع فرمایا ہے وہاں صحابیات کی عزت کا دفاع بھی کیا ہے،جیساکہ سیدہ عائشہ rپر جب بعض منافقین نے تہمت لگائیں تواللہ تعالیٰ سیدہ عائشہ rکی عزت کادفاع کرتے ہوئے قرآن مجید میں آیات نازل فرمادیں،چنانچہ اللہ تعالیٰ ہے:
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا١ۖۗ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ۰۰۱۶يَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٖۤ اَبَدًا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَۚ۰۰۱۷
اور کیوں نہ جب تم نے اسے سنا توکہاہماراحق نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کلام کریں،توپاک ہے،یہ بہت بڑا بہتان ہے۔اللہ تمہیں نصیحت کرتاہے ا س سے کہ دوبارہ کبھی ایساکام کرو،اگرتم مومن ہو۔ (سورۃ النور:16۔17)
اور جو لوگ یہ برائی کا کام کرنے والے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کو دردناک عذاب کی دھمکی دیتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ١ۙ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۱۹
بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیائی پھیلے جو ایمان لائے ہیں،ان کے لیے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتاہے اور تم نہیں جانتے۔(سورۃ النور:19)
دفاع صحابہ حدیث رسول کی روشنی میں
صحابہ کرام کی شان کادفاع صرف اللہ رب العزت ہی نے نہیں کیابلکہ ہمارے پیارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہنے بھی اپنے صحابہ کادفاع کیا ہے، اس ضمن میں ہم چند ایک روایات پیش کرتے ہیں:
پہلی روایت:
آپکا فرمان ہے:
إذا ذُكِرَ أصْحابِيْ فَأمْسِكُوْا (المعجم الکبیر للطبرانی ح: 10448،10/198 ،وصححه الألبانی فی الصحیحة : 34)
جب بھی میرے صحابہ() کا ذکر ہو تو(اُن کے خلاف کسی بھی طرح کی بات کرنے سے) بہر صورت رُک جاؤ۔
اس روایت سے چند ایک باتیں سمجھ آتی ہیں:
cصحابہ کرام کے خلاف امّت کے کسی بھی فرد کو (اگرچہ وہ کوئی بھی حیثیت یا مقام رکھتا ہو)کسی بھی صورت میں یہ اجازت نہیں کہ وہ صحابہ کےبارے میں کوئی بھی ایسی بات کرے جوبے ادبی یا گستاخی کے زمرہ میں آتی ہو۔
c اس روایت میں مذکور کلمہ» فَأَمْسِکُوْا «امر کا صیغہ ہے جوکہ وجوب پر دلالت کرتا ہے،یعنی یہ رسولِ اکرمکاحکم ہےجس پر عمل واجب ہے، اور یہ جمع کا صیغہ ہے جس میں سب شامل ہیں ، یعنی امّت کے ہر فرد کو یہ حکم ہے اورکوئی بھی اس حکم سےمستثنیٰ نہیں ہے۔
cجب صحابہ کرام کی مخالفت میں کسی بھی قسم کا تبصرہ تک حرام ہے تو اصحابِ محمدﷺکے خلاف بد کلامی کرنا،سبّ وشتم کرنا یا تبرّاء کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟
cوہ مسائل جن میں صحابہ کرامکےمابین اختلاف ہوا ہو،وہ اگرچہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ، اُن کو بنیاد بناکر بعدمیں آنے والے اُمّت کے کسی بھی فرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ طرفین میں سے کسی بھی صحابی پر کسی بھی طرح کی تنقید کرے ،کیونکہ صحابہ کرام کی ذات مغفور ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نےدنیاہی میں معاف فرمادیاہے۔ البتہ اگر اُس مختلف فیہ مسئلہ کا تعلق شریعت کے عملی احکامات سے ہو تواُس میں دلیل کے مطابق راجح رائے کو عملاً اختیار کیا جائے گا اور مرجوح رائے کوبغیر اُس کے قائلین پر تنقیدکیے ترک کردیا جائےگا۔
دوسری روایت:
سيدنا ابو سعید خدری tسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ (صحيح البخاري : 3673)
میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
كَانَ بَيْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَبَيْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ شَيْءٌ، فَسَبَّهُ خَالِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ (صحیح مسلم:2541)
خالد بن ولید اور عبدالرحمن بن عوف کے درمیان کچھ جھگڑا ہوا، سیدناخالدنے سیدناعبدالرحمن بن عوف کوبُرا بھلا کہا تو رسول اکرم نے فرمایا:میرے کسی صحابی کو بُرا مت کہو، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرے تو اُن میں سے کسی کے دو چلو یا ایک چلو بھر صدقہ کے برابر نہیں ہوسکتا۔
قارئین کرام ذرا غور فرمایئے! اگرسیدنا خالد بن ولید جیسے صحابی، (جو صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے) اس قدر بڑا عمل (اُحد پہاڑ کے برابر سونے کا صدقہ) کرنے کے باوجود عبدالرحمٰن بن عوف جیسے (قدیم الاسلام مہاجر) صحابی کے قلیل عمل (ایک مد صدقہ) کونہیں پہنچ سکتےحالانکہ دونوں ہی شرفِ صحبت رکھتے ہیں تو جنہیں شرفِ صحابیت حاصل نہیں، انہیں اُن افضل الامہ افراد سے کیونکر نسبت ہوسکتی ہے؟ یہاں تو زمین و آسمان کا فرق ہے، زمین کی خاک کو ثریا سے کیا نسبت ہوسکتی ہے؟سوچیں! اگر ایک بعد والا قدیم الاسلام صحابی کو برا بہلا کہے تو نبی کریم فوراًروک دیں توپھراس شخص کے بارے میں کیا کہیں گےجو آج کے دور میں صحابہ کرام کوبرا بھلاکہتاہے؟
تیسری روایت:
رسول اللہ کا ارشادگرامی ہے :
مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ .
جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ (سلسلة الأحاديث الصحيحة : 2340)
اس روایت کی روشنی میں وہ تمام لوگ جو اصحابِ محمدﷺ پر تبرّاء اور طعن و تشنیع کرتے ہیں ملعون ہیں اور ہر قسم کی خیر و بھلائی اور انسانی ہمدردی سے محروم و مستثنیٰ ہیں ، جس پر اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے اور تمام لوگ لعنت کریں وہ اس لائق ہے کہ اس کی اس قبیح حرکت پر سخت سے سخت گرفت کی جائے اوراُس کا معاشرہ میں بائیکاٹ کیا جائے ، اور اربابِ اختیار پر یہ لازم ہے کہ اسے قرار واقعی سزا دی جائے اور اُسکے معاملہ میں کسی بھی قسم کی کوئی نرمی مت برتی جائے۔
چوتھی روایت:
صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ افراد ہیں اُن پر طعن اللہ کے انتخاب پر طعن ہے، جیسا کہ رسول اللہ کافرمان ہے:
إِنَّ اللهَ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلا عَدْلا (المعجم الکبیر للطبرانی(349)17/140، المستدرک للحاکم:6656 وقال: صحيح الإسناد)
’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے (نبوت کے لیے) میرا انتخاب فرمایا اور میرے لیے ساتھیوں (صحابہ) کا انتخاب فرمایا ، پس اُن (صحابہ ) میں سے کچھ کو میرا وزیر بنایا ، کچھ کو مددگار ، اور کچھ کو میرا سُسرو داماد بنایا، (اور پھر فرمایاکہ) جو اُنہیں (صحابہ کو) بُرا کہے اُس پر اللہ تعالیٰ ،فرشتوں اور کائنات کے تمام لوگوں کی لعنت ہو،کل روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اُس کا کوئی فرضی یا نفلی عمل قبول نہیں فرمائے گا ۔‘‘
یہ روایت اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ رسولِ اکرمکے لیے صحابہ کرامکاانتخاب اللہ ربّ العالمین نے فرمایا ہے ،اور جو صحابہ کرامyپر طعن کرتا ہے وہ معاذ اللہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کے انتخاب پر طعن کرتا ہے ۔
دفاع صحابہ ،صحابہ وآئمہ کے اقوال کی روشنی میں
cسیدنا عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں:
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ، فَلَمَقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةِ أَحَدِكُمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً
اصحابِِ رسول کو بُرا بھلا مت کہو، ان کی رسولِ اکرم سےایک گھڑی شرفِ صحبت، تمہارے چالیس سال کی عبادت سے بہتر ہے۔(فضائل الصحابۃ:1/60)
cایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ، فَلَمَقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ
اصحابِِ رسول کو بُرا بھلا مت کہو، ان کی رسولِ اکرم سےایک گھڑی شرفِ صحبت، تمہارے ساری زندگی کے اعمال سے بہتر ہے۔(فضائل الصحابۃ:1/57)
cسیدنا سعید بن زید نے عشرہ مبشرہ صحابہکا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ، خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ، وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ
صحابہ کرام میں سے کسی کی ایک بھی غزوہ میں رسول اکرم کے ساتھ حاضری تم میں سےکسی کے اعمال سے بہتر ہے اگرچہ وہ عمر نوح (950سال)ہی پالے۔(سنن أبی داؤد:4650،قال الألبانی:صحیح)
cسیدنا جابرفرماتے ہیں:
سیدہ عائشہrسے کہا گیا کہ کچھ لوگ اصحابِ رسول حتیٰ کہ سیدناابوبکروعمرکی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں، تو سیدہ عائشہفرمانے لگیں، تمہیں اس سے تعجب کیوں ہے؟ ان اصحابِِ رسول کے اعمال تو (ان کی وفات کے ساتھ) منقطع ہوگئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کااجر منقطع نہ ہو۔(جامع الأصول لابن الأثير الجزري:6366)
cسیدہ عائشہکے اس قول کی شہادت اس عمومی روایت سےبھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ نےفرمایا:
إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ
میری اُمت سے مفلس وہ ہے کہ جو قیامت کے دن نمازوں، روزوں اور زکوٰۃ کی صورت میں اعمال لے کر آئے گا، لیکن اس نے کسی کو گالی دی، کسی پر تہمت لگائی، کسی کامال ہڑپ کیا، کسی کا خون بہایا او رکسی کو مارا۔ یہ تمام لوگ اپنے حقوق کے عوض اس ظالم کی نیکیاں لے جائیں گے، اگر ان کے حقوق کی ادائیگی سے قبل اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان مظلوم لوگوں کے گناہ اس پر ڈال کر اسےجہنم رسید کردیا جائے گا۔(صحیح مسلم:2581)
گستاخان صحابہ کا عبرت ناک انجام
قارئین کرام! مذکورہ بالا سطور میں پڑھ چکے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا بہت بڑا جرم ہے،جس سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ نے منع فرمایا ہے۔اس کے باوجود بعض لوگ باز نہ آئے اور صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے ، جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ہی نشانہ عبرت بنا دیا ۔ ہم ایسے بعض واقعات آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ ہم سب کے لیے عبرت ہو ۔
سیدناسعد بن ابی وقاص کے گستاخ کا انجام:
سيدنا ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ:
اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص کی عمر سے شکایت کی۔اس لیے عمر نے ان کو معزول کرکے عمار کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ : وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔
چنانچہ عمر نے ان کو بلاوہ بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا : اے ابواسحاق ! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو ؟ اس پر آپ نے جواب دیا : اللہ کی قسم ! میں تو انہیں نبی ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا ۔ اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی پہلی دو رکعات میں ( قرآت ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔
سیدناعمر نے فرمایا : اے ابواسحاق ! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سعد کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوااور اس نے کہا :
أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا، فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لَا يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ ، وَلَا يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَا يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّةِ، قَالَ سَعْدٌ : أَمَا وَاللهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلَاثٍ : اللهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ : شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ : فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الْكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ
جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ ہی فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ (یہ سن کر) سعدنے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد ( وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا : ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد کی بد دعا لگ گئی ہے ۔ عبدالملک فرماتے ہیں : میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھیں۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔ (صحیح البخاری : 755)
سیدناسعید بن زید کی گستاخ عورت کا انجام:
سیدنا عروہ بن زبیرtسے روایت ہے کہ (ایک خاتون) اروی بنت اویس نے سعید بن زیدکے خلاف دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس کی کچھ زمین پر قبضہ کر لیا ہے اور مروان بن حکم کے پاس مقدمہ لے کر گئی تو سیدنا سعید نے کہا : کیا میں اس بات کے بعد بھی اس کی زمین کے کسی حصے پر قبضہ کر سکتا ہوں جو میں نے رسول اللہ سے سنی؟ اس ( مروان ) نے کہا : آپ نے رسول اللہ سے کیا سنا ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ eسے سنا، آپ فرما رہے تھے : جس نے کسی کی زمین ایک بالشت بھی ظلم سے حاصل کی اسے سات زمینوں تک کا طوق پہنایا جائے گا۔ تو مروان نے ان سے کہا : اس کے بعد میں آپ سے کسی شہادت کا مطالبہ نہیں کروں گا۔ اس کے بعد سعید رضی اللہ عنہ نے کہا:
اللهُمَّ، إِنْ كَانَتْ كَاذِبَةً فَعَمِّ بَصَرَهَا، وَاقْتُلْهَا فِي أَرْضِهَا، قَالَ: فَمَا مَاتَتْ حَتَّى ذَهَبَ بَصَرُهَا، ثُمَّ بَيْنَا هِيَ تَمْشِي فِي أَرْضِهَا، إِذْ وَقَعَتْ فِي حُفْرَةٍ فَمَاتَتْ .
اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کو اندھا کر دے اور اسے اس کی زمین ہی میں ہلاک کر دے۔ عروہ نے کہا : وہ ( اس وقت تک ) نہ مری یہاں تک کہ اس کی بینائی ختم ہو گئی، پھر ایک مرتبہ وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں جا گری اور مر گئی۔(صحيح مسلم : 1610)
cمحمد بن زید راوی کہتے ہیں :
فَرَأَيْتُهَا عَمْيَاءَ تَلْتَمِسُ الْجُدُرَ تَقُولُ: أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشِي فِي الدَّارِ مَرَّتْ عَلَى بِئْرٍ فِي الدَّارِ، فَوَقَعَتْ فِيهَا، فَكَانَتْ قَبْرَهَا
میں نے اس عورت کو دیکھا وہ اندھی ہو گئی تھی، دیواریں ٹٹولتی پھرتی تھی اور کہتی تھی : مجھے سعید بن زید کی بددعا لگ گئی ہے۔ ایک مرتبہ وہ گھر میں چل رہی تھی، گھر میں کنویں کے پاس سے گزری تو اس میں گر گئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا۔ (صحيح مسلم : 1610)
سیدناحسین کے گستاخ کا انجام:
ابو رجاء عطاردی فرماتے ہیں :
تم سیدنا علی کو برا بھلا نہ کہو اور نہ ہی انکے گھر والوں کو ۔ ہمارا ایک پڑوسی جو کوفہ سے آیا تھا سیدنا حسین کے متعلق کہنے لگا :
أَلَمْ تَرَوْا هَذَا الْفَاسِقَ ابْنَ الْفَاسِقِ؟ إِنَّ اللهَ قَتَلَهُ، يَعْنِي الْحُسَيْنَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: فَرَمَاهُ اللهُ بِكَوْكَبَيْنِ فِي عَيْنِهِ، فَطَمَسَ اللهُ بَصَرَهُ.
تم اس فاسق ابن فاسق کو نہیں دیکھتے جسے اللہ نے ہلاک کر دیا ہے ۔ پس (اس گستاخی کی وجہ سے) اللہ تعالی نے اس کی آنکھ میں دو کیل (میخ) پھینکے اور اسے اندھا کر دیا ۔ (فضائل الصحابة : 972)
عبیداللہ بن زیاد کا انجام:
عمارہ بن عمیر بیان کرتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے اور کوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیا گیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے:
قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زِيَادٍ، فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا.
آیا آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہو کر آیا اور عبیداللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہو گیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلا گیا، یہاں تک کہ غائب ہو گیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا، اس طرح دو یا تین بار ہوا ۔ (سنن الترمذی : 3780،قال الألبانی:صحیح الإسناد)
cحافظ ابن کثیر فرماتے ہیں :
وأما ما روى من الأحاديث وَالْفِتَنِ الَّتِي أَصَابَتْ مَنْ قَتَلَهُ فَأَكْثَرُهَا صَحِيحٌ، فإنه قل من نجا من أولئك الذين قتلوه من آفة وعاهة في الدنيا، فلم يخرج منها حتى أصيب بمرض، وأكثرهم أصابهم الْجُنُونُ.
سیدنا حسین کی شہادت کے بارے میں جو امور و فتن بیان کیے گئے ہیں ان میں زیادہ تر صحیح ہیں ، جن لوگوں نے آپ کو شہید کیا ان میں سے بہت کم ہی کوئی آفت و مصیبت سے بچا ہوگا ، ان میں سے اکثر پاگل ہو گئے اور کوئی کسی موذی مرض میں مبتلا ہوگیا ۔(البداية والنھایة : 8/202)
سیدناابوہریرہ کے گستاخ کا انجام:
قاضی ابو طیب بیان کرتے ہیں کہ ہم جامع منصور میں ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا تو اس نے جانوروں کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے کے متعلق سوال کیا اور دلیل کا مطالبہ کیا تو ایک استدلال کرنے والے نے اس مسئلہ میں سیدنا ابوہریرہ کی بیان کردہ حدیث پیش کی تو وہ نوجوان بولا :
أَبُو هُرَيْرَةَ غَيْرُ مَقْبُولِ الْحَدِيثِ، قَالَ الْقَاضِي: فَمَا اسْتَتَمَّ كَلامَهُ حَتَّى سَقَطَتْ عَلَيْهِ حَيَّةٌ عَظِيمَةٌ مِنْ سَقْفِ الْجَامِعِ فَوَثَبَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِهَا .
سیدنا ابوہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے ۔ قاضی ابو طیب فرماتے ہیں : اس نوجوان نے ابھی اپنی بات پوری ہی نہیں کی تھی کہ اتنی میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گر پڑا تو لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا ۔ بعد میں یہ سانپ غائب ہو گیا ۔(المنتظم لابن الجوزي:18/ 106)
سیدناعثمان کے گستاخ کا انجام:
محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں بیت اللہ شریف کا طواف کر رہا تھا کہ ایک آدمی کو دیکھا ، وہ دعا مانگ رہا تھا اور کہہ رہا تھا : اے اللہ ! مجھے معاف کر دے لیکن میرا گمان ہے کہ تو مجھے معاف نہیں کرے گا ۔میں نے کہا : اے اللہ کے بندے ! میں تجھے کیا کہتے ہوئے سن رہا ہوں ؟ ایسا تو کوئی نہیں کہتا ۔ اس نے کہا :
كُنْتُ أَعْطَيْتُ لله عَهْدًا إِنْ قَدَرْتُ أَنْ أَلْطِمَ وَجْهَ عُثْمَانَ إِلَّا لَطْمَتُهُ، فَلَمَّا قُتِلَ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ في البيت والناس يجيئون فيصلون عَلَيْهِ، فَدَخَلْتُ كَأَنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ، فَوَجَدْتُ خَلْوَةً فرفعت الثوب عن وجهه فلطمت وجهه وسجيته وَقَدْ يَبِسَتْ يَمِينِي. قَالَ ابْنُ سِيرِينَ: فَرَأَيْتُهَا يابسة كأنها عود.
میں نے اللہ سے یہ عہد کر لیا تھا کہ اگر مجھے قدرت ہوئی تو میں عثمان کو تھپڑ ماروں گا (ان کی زندگی میں تو مجھے ایسا کوئی موقعہ نہیں ملا) لیکن جب وہ شہید ہو گئے اور ان کی چار پائی گھر میں رکھی گئی تو لوگ آتے رہے اور آپ پر جنازہ پڑھتے رہے تو میں بھی داخل ہوگیا گویا کہ میں بھی جنازہ پڑھنا چاہتا ہوں ۔ میں نے دیکھا کہ جگہ خالی ہے تو کفن کا کپڑا اٹھایا اور تھپڑ مار دیا اور پھر چہرہ ڈھانپ دیا ۔ اب میرا یہ دایاں ہاتھ سوکھ گیا ہے ۔
علامہ ابن سیرین فرماتے ہیں : میں نے اس بد بخت کا ہاتھ دیکھا وہ لکڑی کی طرح سوکھا ہوا تھا ۔(تاريخ دمشق 80/141والبداية والنهاية 7/191)
cآپ کے قاتل بھی اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکے۔ چنانچہ علامہ صلابی نقل کرتے ہیں :
وإن المتتبع لأحوال أولٰئك الخارجين علي عثمان رضي الله المعتدين عليه يجد أن الله تعالي لم يمهلهم، بل أذلهم و أخزاهم وانتقم منهم فلم ينج منهم أحد .
سیدنا عثمان کے خلاف خروج کرنے والے ان ظالم باغیوں کے حالات کا جو بھی جائزہ لے گا اس کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اللہ تعالی نے ان ظالموں کو نہیں بخشا ، بلکہ اللہ تعالی نے انہیں اسی دنیا میں ہی رسوا و ذلیل کیا اور انتقام لیا ، ان میں سے کوئی بھی بچ نہیں سکا۔(عثمان بن عفان شخصيته و عصره للصلابي : 419)
سیدناابوبکر سیدناعمر کے گستاخ کا انجام
ممتاز اہل حدیث عالم شیخ سبطین شاہ نقویبیان کرتے ہیں کہ ہمارے گھر میں میرا حقیقی ماموں جب فوت ہوا تو اس سے اس طرح کی آوازیں نکل رہی تھیں جیسے کوئی کتا بھونک رہا ہو ۔ چہرے کا رنگ بدل گیا کیونکہ اس کا وطیرہ تھا کہ جب گھر میں کوئی کتا داخل ہوتا تو کہتا (معاذ اللہ) ابوبکر آگیا عمر آگیا ۔ اتنی گندی زبان استعمال کرتا تھا اس لیے جب وہ مرا تو اس سے کتے کی آوازیں آتیں تھیں ۔(خطبات أہل حدیث ص : 226)
cامام مستغفری ایک بزرگ کا ارشاد بیان کرتے ہیں کہ میں نے ملک شام میں ایک امام کے پیچھے نماز ادا کی جس نے نماز کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق اورسیدنا عمر فاروق کی شان میں بے ادبی کرتے ہوئے بددعاء کی۔ دوسرے سال جب میں اسی مسجد میں نماز کیلئے آیا تو امام نے نماز کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق کے حق میں دعاء فرمائی۔ میں نے نمازیوں سے پوچھا کہ تمہارا پُرانا امام کہاں ہے۔ وہ لوگ اپنے ہمراہ مجھے ایک مکان میں لے گئے جہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا جس کی شکل کتے جیسی ہوچکی تھی اور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ لوگوں نے کہا یہ ہے وہ امام۔ میں نے اس سے کہا کیا تم ہی ہو وہ امام جو سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق کی شان میں بددعاء کرتے تھے تو اس نے سر ہلا کر جواب دیا، ہاں!۔(شواہد النبوۃ 156 إمام عبدالرحمٰن جامی)