نام : عبد شمس بن صخر تھا۔ اسلام لانے کے بعد آپ کا نام رسول اللہ ﷺ نے عبد الرحمن رکھا ، قبیلۂ دوس یمن کے قبائل سے ہے آپ کا تعلق ہے۔ اسلام قبول کرکے 7 ہجری میں یمن سے ہجرت کی۔
والدہ ماجدہ کانام:  امیمہ بنت صفیح بن الحارث الدوسیہ
کنیت : سنن ترمذی میں ہے کہ آپ خود کہتے ہیں کہ میرے پاس بلی کا ایک بچہ ہوتا تھا ، بکریاں چرانے جاتا تو ساتھ لے جاتا پھر واپس آکر ایک درخت میں رات کو چھوڑ دیتا اور دن بھر میں اس کے ساتھ کھیلتا رہتا۔عربی میں بلی کے بچے کو ھریرہ کہتے ہیں لہذا میری کنیت ابوہریرہ پڑ گئی۔
وفات : مرض الموت میں آپ نے وصیت کی تھی کہ میرے لیے خیمہ نہ لگانا ، میرے جنازے کے ساتھ آگ نہ لے جانا، میرا جنازہ دفنانے میں تأخیر نہ کرنا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے جسے میں نے خود سنا ہے ۔ مؤمن صالح نیک آدمی کا جنازہ جب چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتاہے کہ مجھے جلدی آگے لے جاؤ جلدی آگے پہنچاؤ۔اورکافر فاجر کاجنازہ پکارتا ہے کہ مجھے کہاں لے جارہے ہو؟ میرے لیے آگے تباہی اوربربادی ہے۔
58ہجری میں سیدہ عائشہ اور سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہما دونوں کی وفات ہوئی۔
آپ کا حافظہ :
اسلام قبول کیا، ہجرت کرکے رسول اللہ ﷺ سے ملے تو آپ ﷺ سے شکایت کی میں نسیان کا شکار بہت ہوتاہوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کپڑا بچھاؤ آپ نے کچھ پڑھا اورفرمایا کہ اسے سینے سے لگاؤ اس کے بعد میں کبھی بھی نسیان کا شکار نہ ہوا۔(صحیح بخاری ومسلم)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ صُفّہ یونی ورسٹی میں :
صفہ مسجد نبوی کاایک چبوترہ ہے جہاں فقراء مہاجرین رہتے تھے جن کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا تھا یہاں کے طلبہ بہت بڑے بڑے کام سرانجام دیتے تھے مثلاً : قرآن وسنت کی تعلیم، رسول اللہ ﷺ کی سیکورٹی کسی بھی ایمرجنسی کام کے بجا لانا وغیرہ (محقق سیر اعلام النبلاء للذہبی 2/591 مؤسسۃ الرسالہ)
سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھتا ایک دفعہ راستہ میں بیٹھا کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ گزرے تو میں نے ایک آیت کے بارے میں پوچھا ، پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھے ساتھ لے جاکے کچھ کھلائیں لیکن … پھرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے لیکن وہ بھی نہ جان سکےپھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے انہوں نے میرے چہرے سے میری حالت بھانپ لی ، فرمایا : ابو ہریرہ ہیں ؟ میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! مجھے گھر لے گئے ، گھر دودھ کا پیالہ دیکھا تو مجھ سے فرمایا کہ اصحاب صفہ کو بلا کر لاؤ یہ لوگ مہمان تھے اسلام کا صدقہ آتا تو رسول اللہ ﷺ صفہ والوں کے پاس بھیج دیتے ، ھدیہ آتا تو آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ تناول فرماتے مجھے سخت حیرت ہوئی کہ بھوک میری شدید ہے اور بھیج بھی مجھے ہی رہے ہیں تھوڑا سا دودھ ہے اسے مجھے ہی پلا دیتے میں کچھ سنبھل جاتا۔
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہی میں نجات ہے سارے اصحابت صفہ تشریف لے آئے بیٹھ گئے مجھ سے فرمایا : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ لو ان کو دو میں ہر ایک کو دیتا جاتا وہ سیر ہوکر پیتا جاتا جب سب نے سیر ہوکر پی لیا تو میں نے آپ کو پیالہ تھمانا چاہا تومیری طرف دیکھ کر مسکرا کے فرمایا: اب میں اور آپ باقی ہیں ، فرمایا : آپ پئیں ، میں نے پی لیا ، فرمایا : اور پیو میں نے پھر پیا ، فرمایا اور پیو میں نے پھر پیا آپ فرماتے رہے کہ اور پیو اور پیو میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اب اورجگہ نہیں ہیں پھر آپﷺ نے خود پیا۔
سیدناابو ہریرہ اور ان کی والدہ :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہاکرتے تھے کہ ہرمؤمن مجھ سےاورمیری والدہ سے ضرور محبت کرتاہے۔پوچھا گیا : کیا مطلب ؟ کہا کہ میری ماں مشرکہ تھی میں دعوتِ اسلام دیتا وہ نہ مانتی ایک دن تو رسول اللہ ﷺ کی شان میں بہت گستاخیاں کی میں رسول اللہ ﷺ کے پاس روتا ہوا آیا اور گزارش کی آپ ان کے حق میں دعا فرمائیں ، آپ نے فرمایا :

اَللَّھُمَّ اھدِ اُمَّ أَبِی ھُرَیرَۃ

اے اللہ ! ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کو ہدایت نصیب فرمادے۔
میں دوڑتا ہوا والدہ کے پاس بشارت سنانے کے لیے گیا تو دروازہ بندتھا آواز آئی ابو ہریرہ ٹھہریے میں پانی کی آواز سن رہا تھا دروازہ کھولا تو دیکھا جبہ پہن کر آتی ہیں اور

أشھد أن لا إله إلا اللہ وأن محمداً عبدہ ورسوله

کہہ رہی ہے ، میں خوشی سے پھر روتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا جس طرح پہلے غم سے روتا ہوا گیا تھا میں نے آپ ﷺ سے کہا کہ دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے اورمیری ماں کومؤمن بندوں میں محبوب بنادے۔ آپ نے دعا فرمائی :

اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ وَحَبِّبْهُمْ إِلَيْهِمَا

’’اے اللہ! اپنے اس پیارے بندے اور اس کی ماں کو اپنے مؤمن بندوں میں محبوب بنادے اورمؤمن بندوں کو ان دونوں کا محبوب بنادے۔ (سندہ حسن أحمد 2/219 ، مسلم:2491 سیر أعلام النبلاء 2/293)
کثرت روایت اور بعض تابعین :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

يَقُولُونَ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الحَدِيثَ، وَاللهُ المَوْعِدُ، وَيَقُولُونَ: مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ لاَ يُحَدِّثُونَ مِثْلَ أَحَادِيثِهِ؟ وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنَ المُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمْ عَمَلُ أَمْوَالِهِمْ، وَكُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا، أَلْزَمُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، فَأَحْضُرُ حِينَ يَغِيبُونَ، وَأَعِي حِينَ يَنْسَوْنَ (صحيح البخاري كتاب البيوع بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللهِ تَعَالَى: {فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاَةُ…الحديث:2350)
تزعمون أني أكثر الرواية عن رسول الله صلى الله عليه وسلم والله الموعد … (البخاري ومسلم:2492) الحافظ ابن حجر والذهبي : والحديثان صحيحان محفوظان أخرجهما الشيخان

تم سمجھتے ہو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیثیں زیادہ کیوں ہیں؟(سير أعلام النبلاء 2/595)
فیصلہ اللہ کے ہاں ہوگا میرے انصار بھائی کھیتی باڑی میں مصروف ہوتے ، میرے مہاجر بھائی بازار میں خریدوفروخت میں مشغول ہوتے میں صفہ کا مسکین طالب علم قوت لا یموت مل جائے اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت مل جائے اور بس وہ غائب رہے میں حفظ کرتا رہا وہ بھول گئے میں نے یاد رکھا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی وجوہات :
مستدرک حاکم 2/512 میں سیدنا محمد بن  اسحاق ابن خزیمہ رحمہ اللہ علیہ کا تشفی بخش بیان پڑھیں تو خودبخود اسباب وعلاج واضح ہوتے ہیں۔

إِنَّمَا يَتَكَلَّمُ فِي أَبِي هُرَيْرَةَ لِدَفْعِ أَخْبَارِهِ مَنْ قَدْ أَعْمَى اللهُ قُلُوبَهُمْ فَلَا يَفْهَمُونَ مَعَانِيَ الْأَخْبَارِ، إِمَّا مُعَطِّلٌ جَهْمِيٌّ يَسْمَعُ أَخْبَارَهُ الَّتِي يَرَوْنَهَا خِلَافَ مَذْهَبِهِمُ الَّذِي هُوَ كَفْرٌ، فَيَشْتُمونَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَيَرْمُونَهُ بِمَا اللهُ تَعَالَى قَدْ نَزَّهَهُ عَنْهُ تَمْوِيهًا عَلَى الرِّعَاءِ وَالسَّفِلِ، أَنَّ أَخْبَارَهُ لَا تَثْبُتُ بِهَا الْحُجَّةُ، وَإِمَّا خَارِجِيٌّ يَرَى السَّيْفَ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَرَى طَاعَةَ خَلِيفَةٍ، وَلَا إِمَامٍ إِذَا سَمِعَ أَخْبَارَ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِلَافَ مَذْهَبِهِمُ الَّذِي هُوَ ضَلَالٌ، لَمْ يَجِدْ حِيلَةً فِي دَفْعِ أَخْبَارِهِ بِحُجَّةٍ وَبُرْهَانٍ كَانَ مَفْزَعُهُ الْوَقِيعَةَ فِي أَبِي هُرَيْرَةَ، أَوْ قَدَرِيٌّ اعْتَزَلَ الْإِسْلَامَ وَأَهْلَهُ وَكَفَّرَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الْأَقْدَارَ الْمَاضِيَةَ الَّتِي قَدَّرَهَا اللهُ تَعَالَى، وَقَضَاهَا قَبْلَ كَسْبِ الْعِبَادِ لَهَا إِذَا نَظَرَ إِلَى أَخْبَارِ أَبِي هُرَيْرَةَ الَّتِي قَدْ رَوَاهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِثْبَاتِ الْقَدَرِ لَمْ يَجِدْ بِحُجَّةٍ يُرِيدُ صِحَّةَ مَقَالَتِهِ الَّتِي هِيَ كُفْرٌ وَشِرْكٌ، كَانَتْ حُجَّتُهُ عِنْدَ نَفْسِهِ أَنَّ أَخْبَارَ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا يَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِهَا، أَوْ جَاهِلٌ يَتَعَاطَى الْفِقْهَ وَيَطْلُبُهُ مِنْ غَيْرِ مَظَانِّهِ إِذَا سَمِعَ أَخْبَارَ أَبِي هُرَيْرَةَ فِيمَا يُخَالِفُ مَذْهَبَ مَنْ قَدِ اجْتَبَى مَذْهَبَهُ، وَأَخْبَارَهُ تَقْلِيدًا بِلَا حُجَّةٍ وَلَا بُرْهَانٍ كَلَّمَ فِي أَبِي هُرَيْرَةَ، وَدَفَعَ أَخْبَارَهُ الَّتِي تُخَالِفُ مَذْهَبَهُ، وَيَحْتَجُّ بِأَخْبَارِهِ عَلَى مُخَالَفَتِهِ إِذَا كَانَتْ أَخْبَارُهُ مُوَافِقَةً لِمَذْهَبِهِ

سیدنا ابو هريره رضي الله عنہ کے بارے میں زبان درازی کرنے والے اور ان کی حدیث کو نہ ماننے والے وہ لوگ ہیں جن کے دل اندھے ہیں اور حدیثوں کے معانی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یا معطلہ جہمیہ فرقے کے لوگ ہیں ، ابو ہریرہ کی حدیثیں ان کے کفریہ مذہب کے خلاف نظر آتی ہیں تو ابو ہریرہ کے بارے میں وہ بے ہودہ باتیں کرتے ہیں جن سے ابو ہریرہ بالکل بری ہیں وہ عوام الناس کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ حدیثیں ناقابل حجت ہیں۔ اسی طرح خارجی کسی امام اور خلیفہ کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیتے اور مسلمانوں کا قتل عام جائز سمجھتے ہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیثیں جو نبی کریم ﷺ سے وہ روایت کرتے ہیں اپنی ضلالت سے بھرپور مذہب کےخلاف دیکھتے ہیں اور کوئی دلیل اپنی تائید میں نہیں پاتے پھر گھبرا کر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن وتشنیع کرتے ہیں اسی طرح تقدیرکے منکر لوگ اہل اسلام کو کافر سمجھتے ہیں وہ بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی برائی کرتے ہیں کیونکہ یہ حدیثیں اثبات قدر میں ہیں لہذا اپنے کفر وشرک کو چھپانے کے لیے سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کو ناقابل حجت کہتے ہیں۔یا وہ جاہل لوگ ہیں جو فقاہت کا دعویٰ کرتے ہیں اور غلط راستوں سے فقہ حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں اور تقلید کو اپنا مذہب بناچکے ہوتے ہیں وہ کسی قسم کی دلیل وحجت سے خالی ہوتے ہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیثیں ان کے مذہب کے خلاف ہوتی ہیں تو وہ بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن وتشنیع کرتے ہوئے ان کی احادیث کو رد کرتے ہیں۔
۱۔ نظام معتزلی نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن وتشنیع ہرزہ سرائی زبان درازی اس کا جواب ملاحظہ کریں۔ ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی تاویل مختلف الحدیث کا مقدمہ
۲۔ بشر بن غیاث مريسی کے جواب میں ابو سعید عثمان دارمی کی کتاب الرد
۳۔ ابو ریہ
۴۔ احمد میں وغیرہ کے رد میں

أ۔ ظلمات أبی ریه أمام أضواء السنة المحمدية محمد عبد الرزاق حمزة رحمه الله
ب- الأنوار الكاشفة لما في كتاب أضواء السنة من الزلل والتضليل والمجازفة عبد الرحمن يحيى المعلمي رحمه الله
ج۔ کتاب التنکیل
د- السنة ومكانتها لمصطفى السباعي رحمه الله
ھ- البرهان في تبرئة أبي هريرة ، عبد الله بن عبد العزيز رحمه اللہ
و- أبو هريرة رواية الإسلام ، للعجاج
ر- أبو هريرة في ضوء مروياته ، د/ محمد ضياء الأعظمي
ی- سير أعلام النبلاء ، للذهبي المجلد الثاني

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے