انسانی تاریخ کا سب سے سنہرا دور نبی اکرم ﷺ کا دور ہے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کا مبارک دور ہے جیسا کہ فرمان رسول ﷺ ہے:

 خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ( صحیح بخاری: 6429)

’’سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے ، خلافت راشدہ کے زمانہ میں اسلام سرزمین عرب سے نکل کر آس پاس کے ممالک میں پھیلا۔ زمانہ خلافت راشدہ میں تمام اسلامی قوانین کا عملی نفاذ تھا۔ آج وہ تمام محکمے جو کسی حکومت کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں ان کی بنیاد اس دور میں رکھ دی گئی تھی۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا اسلامی حکومت کے ذمے تھا۔ بلکہ نبی کریم ﷺ کی پیشین گوئی بھی عہد خلافت راشدہ میں پوری ہوئی آپ نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:

وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ، يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ فَلاَ يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهُ مِنْهُ ( صحيح البخاري:3595)

’’وہ وقت آنے والا ہے کہ ایک شخص سونا اور چاندی لے کر گھر سے نکلے گا کہ کوئی اس سے مال زکوۃ وصول کرلے مگر اس سے کوئی لینے والا نہ ہوگا۔‘‘
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ خلافت راشدہ کے مبارک ایام میں وسیع تر عوامی مفاد اور ترقی یافتہ معاشی نظام ایک جال کی طرح پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔ امن وامان، عدل و انصاف اور معاشی ترقی کا حصول سب کے لیے سہل اور آسان تھا۔ لاریب خلافت راشدہ کا نظام اس وقت کے لیے اور آج دنیائے انسانیت کے لئے بھی ایک مینارہ نور حیات آفریں پیغام ہے۔
خلفاء راشدین عہدوں کے طالب نہ تھے:
رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد جب سقیفہ بنی سعد میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر مہاجرین و انصار نے بیعت کی کرلی تو سیدنا ابوبکر نے مجمع عام میں یہ خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا :

وَاللهِ مَا كُنْتُ حَرِيصًا عَلَى الْإِمَارَةِ يَوْمًا وَلَا لَيْلَةً، وَلَا سَأَلْتُهَا اللهَ فِي سِرٍّ وَلَا عَلَانِيَةٍ

یعنی اللہ کی قسم امارت و خلافت کی مجھے ذرہ برابر حرص و طمع نہ تھی اور رات یا دن کی کسی بھی ساعت میں مجھے اس کی لالچ نہ ہوئی اور نہ میں نے اس کی آرزو میں کبھی کوئی دعا  اللہ تعالیٰ  سے مانگی اور نہ خلوت و جلوت میں میں کبھی خلافت کے لیے چاہت کی۔( البدایہ والنہایہ8/93)
اسی طرح سے جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا تو سیدنا عمر نے فرمایا «لا حاجة لی بھا» مجھے خلافت کی ضرورت نہیں ہے۔ سیدنا ابوبکر نے فرمایا «  ولكن بها إليك حاجة « تمہیں خلافت کی حاجت نہ ہو تو نہ سہی مگر خلافت کو تمہاری حاجت  ہے۔ اور فرمایا میں نے تم کو خلافت نہیں دی بلکہ خلافت کو تمہیں دیا ہے۔ تم کو خلافت سے زینت نہیں ملے گی بلکہ تم سے خلافت کو زینت ہوگی۔ ( الإمامة والسياسية ج1)
اسی طرح سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی بلاطلب مسلمانوں کی مجلسِ شوریٰ اور عوامی انتخاب کے ذریعے عہدہ خلافت پر فائز ہوئے۔ ( تفصیلات الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب وغیرہ میں موجود ہیں)
خلفاء راشدین کی امانت و دیانت کی اعلی مثالیں:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امانت کا یہ عالم تھا کہ خود اپنے نفس پر بیت المال سے وظیفہ لیکر آپ نے جو خرچ کیا تھا اس کی ایک ایک پائی  اپنے مرض الموت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو واپس کرنے کی وصیت فرمائی نیز یہ وصیت بھی فرمائی کے میرے پاس مسلمانوں کے بیت المال میں سے ایک لونڈی اور دو اونٹوں کے سوا کچھ نہیں۔ میرے مرنے کے بعد یہ چیزیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دی جائیں اگر کوئی اور چیز نکل آئے تو اس کو بھی عمر کے پاس بھیج دینا۔ گھر کا جائزہ لیا گیا تو کوئی چیز برآمد نہ ہوسکی۔ ( الامامة والسياسية ج1ص 11 ماخوذ از ایام خلافت راشدہ ص50 )
ایک بار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے طبیب نے شہد کے استعمال کا مشورہ دیا خلیفہ کے گھر رقم نہیں تھی کہ شہد خرید کر ضرورت کے لئے محفوظ رکھتے۔ بیت المال میں شہد کا کپ پڑا ہوا تھا مگر بلا اجازت استعمال کی جرأت نہ کی۔ الله کا خوف تھا۔چنانچہ باہر تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا یہ بات پیش آئی ہے اگر آپ حضرات اجازت دیں تو میں بیت المال کے شہد سے تھوڑا سا استعمال کر لوں، ورنہ بلا اجازت تو مجھ پر حرام ہے۔ لوگوں نے یک زبان ہوکر اجازت دے دی۔ ( طبقات ابن سعد ج3 ص 198 )
ایک واقعہ ہے جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ نے اپنے بعد والے خلفاء وفا کا قافیہ تنگ کر دیا ہے۔ اس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر بیت المال سے ایک بکری کا بچہ بھی گم ہو جائے  تو عمر سے روز محشر مؤاخذہ ہو گا۔ ( سیرت عمر لابن جوزی ص14 )
ایک شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دربار خلافت میں ان کے پاس ضرورت سے آیا اور دیکھا کہ آپ ایک چھوٹے سے مکان میں فروکش ہیں اور پرانی  چادر اوڑھے ہوئے ہیں جاڑے کا موسم تھا۔ راوی کا بیان ہے کہ» وھو یرعد فیھا « یعنی سردی کی شدت سے کانپ رہے تھےناس نے کہا کہ آپ بیت المال سے بقدر ضرورت کیوں نہیں لے لیتے۔ اس قدر سختی کیوں برداشت کرتے ہیں؟ فرمایا یہ سادی اور پرانی چادر گھر سے لایا ہوں مجھے اپنی ضرورت کے لئے بیت المال میں اس کے بقدر بھی نقصان پہنچانا گوارا نہیں ہے۔ اس واقعہ سے آپ کی دیانتداری اور امانت پسندی کا حال صاف ظاہر ہوتا ہے۔ ( کتاب الاموال ص 270)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو حکم دیا: دیکھو میرے ذمہ کتنا قرضہ ہے۔ حساب لگایا گیا تو کل قرضہ 86 ہزار درھم تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر یہ قرضہ عمر کے خاندان کے مال سے ادا ہو جائے تو بہتر ہے۔ ورنہ بنو عدی سے سوال کرنا، اگر پھر بھی ادا نہ ہو سکے قریش سے سوال کرنا ان کے علاوہ کسی اور کے پاس نہ جانا۔ تم میری طرف سے یہ قرضہ لازماً ادا کر دینا۔ ( سیرت عمر فاروق از دکتور محمد علی الصلابی ج2 ص583)
امیرالمومنین کا احتساب:
ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے:
ایھاالناس اسمعوا واطیعوا
اے لوگو!! بات سنو اور اس کی اتباع کرو۔
اسی دوران میں ایک آدمی کھڑا ہو گیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا اے عمر کوئی سمع و اطاعت نہ  ہوگی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نرمی سے پوچھا کیوں؟ تو اس نے کہا کہ غنیمت میں سے ہم سب کے حصےمیں تن ڈھانپنے کو ایک چادرآئی ہے اس سے ایک قمیص تیار نہ ہو سکتی تھی۔ لیکن آپ کےحصے  میں آنے والی چادر سے آپ کی قمیض کیسے تیار ہوگی؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس یہی رک جاؤ!!! پھر اپنے بیٹے کو آواز دی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فورا آگے آگئے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ایک چادر سے میرے والد محترم کا لباس مکمل نہ ہو سکا اس لئے میں نے اپنے حصے کی چادر ان کو دے دی  تاکہ ان کا لباس مکمل ہوجائے۔ یہ وضاحت سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مطمئن ہوگئے۔ اور سوال کرنے والے نے بڑے احترام سے عرض کیا: اے امیر المومنین اب فرمائیے ہم سمع و طاعت کے لئے تیار ہیں۔ ( انسائیکلوپیڈیا سیرت صحابہ کرام ص 258-259 بحوالہ عیون الاخبار 55/1)
محاسبہ نفس:
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ہر آن فکر آخرت دامن گیر رہا کرتی تھی اور اکثر فرمایا کرتے تھے:
أكثِرُوا ذكرَ النار، فإنَّ حرَّها شديد، وقعرَها بعيد، وإنَّ مقامعها حديد (جامع الأصول: 8060)
( جہنم کی ) آگ کا کثرت سے ذکر کیا کرو۔ اس کی گرمی انتہائی تیز اس کے گڑھے انتہائی گہرے اور اس کے ہتھوڑے لوہے کے ہیں۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ قول منقول ہے» اگر میں جنت اور دوزخ کے درمیان ہوں اور مجھے علم نہ ہو کہ میرا ٹھکانہ کونسا ہے تو میں خواہش کروں گا کہ اپنے ٹھکانے کے علم ہونے سے پہلے مٹی ہو جاؤں» اور آپ جب آخرت کا تذکرہ کرتے تو جسم پر پر کپکپی طاری ہو جاتی، روح مضطرب ہو جاتی ہے اور آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی تھیں۔ جب قبر اور حشر کے حالات اور حساب کتاب کا تصور فرماتے تو آپ پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ ( انسائکلوپیڈیا سیرت صحابہ کرام ص 334- 335 بحوالہ نظام الحکم فی عھد الخلفاء الراشدین)

مناقب خلفاء راشدین:
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ المَدِينَةِ فَجَاءَ رَجُلٌ فَاسْتَفْتَحَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» فَفَتَحْتُ لَهُ، فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ، فَبَشَّرْتُهُ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللهَ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَاسْتَفْتَحَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» ، فَفَتَحْتُ لَهُ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللهَ، ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ، فَقَالَ لِي: «افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ» ، فَإِذَا عُثْمَانُ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللهَ، ثُمَّ قَالَ: اللهُ المُسْتَعَانُ ( متفق علیہ)

سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی معظم ﷺ کے ساتھ ایک باغ میں مدینہ کے باغوں میں سے تھا۔ ایک شخص آیا اس نے دروازہ کھلوایا رسول اللہ ﷺنے فرمایا:  اس کے لیے دروازہ کھول دے اور اس کے لئے جنت کی خوشخبری دے۔ میں نے اس کے لئے دروازہ کھولا وہ ابوبکر تھے میں نے ان کو بشارت دی اس چیز کے ساتھ جو پیغمبر اسلام نے فرمائی تھی۔ تو ابوبکر نے اللہ کی تعریف کی یعنی شکر ادا کیا۔ پھر ایک اور شخص آیا اور دروازہ کھلوایا نبی کریمﷺ نے فرمایا اس کے لئے دروازہ کھول دو اور اس کو جنت کی خوشخبری دے دو۔ میں نے اس کے لئے دروازہ کھولا وہ عمر تھے۔ میں نے ان کو خوشخبری جو نبی کریمﷺ نے فرمائی تھی۔ اس نے اللہ کی حمد بیان کی۔ پھر ایک اور آدمی نے دروازہ کھلوایا آپ نے فرمایا اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اس کو جنت کی خوشخبری سنا دو بڑی آزمائش اور مصیبت کے ساتھ جو اس کو پہنچے گی۔ وہ عثمان تھے۔ میں نے ان کو خبر دی جو نبی مکرمﷺ نے فرمائی تھی۔ عثمان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اللہ سے مدد طلب کی جاتی ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُرِيَ الليْلَةَ رَجُلٌ صَالِحٌ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ نِيطَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنِيطَ عُمَرُ، بِأَبِي بَكْرٍ، وَنِيطَ عُثْمَانُ، بِعُمَرَ» ، قَالَ جَابِرٌ: فَلَمَّا قُمْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: أَمَّا الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَّا تَنَوُّطُ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ فَهُمْ وُلَاةُ هَذَا الْأَمْرِ الَّذِي بَعَثَ اللهُ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ( سنن أبي داود :4636)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمیں خواب میں دکھایا گیا کیا آج کی رات ایک مرد صالح، گویا کہ ابوبکر لٹکائے (معلق کیئے)گئے ہیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ،  اور عمر ابوبکر کے ساتھ لٹکائے گئے اور عثمان عمر کے ساتھ لٹکائے گئے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس اٹھے تو ہم نے کہا مردے صالح جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ خود آپ ہی ہیں اور بعض کا بعض کے ساتھ اتصال کا معنی یہ ہے کہ یہ والی ہیں اس کام کے جس کے لیے اللہ تعالی نے اپنے نبی کو مبعوث فرمایا ہے۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: «لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يَفْتَحُ اللهُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ» قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا، قَالَ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُلُّهُمْ يَرْجُونَ أَنْ يُعْطَاهَا، فَقَالَ أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالُوا: هُوَ يَا رَسُولَ اللهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، قَالَ فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ، فَأُتِيَ بِهِ، فَبَصَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ، وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ، حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا، فَقَالَ: «انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ، حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللهِ فِيهِ، فَوَاللهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ» ( متفق عليه)

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا کہ: میں کل کو یہ جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا کہ فتح کرے گا اللہ خیبر کے قلعہ کو اس کے ہاتھوں پر، وہ اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھے گا اور اللہ اور اس کا رسول اس کو دوست رکھیں گے۔ جب لوگوں نے صبح کی رسول اللہ  ﷺ کے پاس آئے اس حال میں کہ سب صحابہ امید رکھتے تھے کہ ان کو جھنڈا دیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا علی کہاں ہے؟ صحابہ نے کہا ا ے اللہ کے رسول  وہ آنکھوں کی تکلیف کی شکایت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کسی کو ان کے پاس بھیجو۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ لائے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی کی آنکھوں میں میں آب دہن ڈالا علی رضی اللہ عنہ تندرست ہوگئے یہاں تک کہ ان کو کبھی درد ہوا ہی نہیں۔ ان کو جھنڈا دیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میں ان سے لڑوں یہاں تک کہ وہ ہماری مثل ہو جائیں- آپ نے فرمایا چل نرمی اور آہستگی سے یہاں تک کہ تو ان کی زمین میں اترے۔ پھر ان کو اسلام کی دعوت دے اور ان کو اسی کی خبر دے جو ان پر واجب ہے اللہ کی طرف سے اسلام میں، خدا کی قسم اگر ایک شخص کو بھی تیری وجہ سے ہدایت مل گئی تو تیرے لیے یہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ
وہ جلیل القدر اور عظیم المرتبت صحابی جس نے کاتب وحی کا اعزاز پایا۔ اپنے دور کا عظیم عبقری انسان جس  نے بحر روم کے ساحل پر انطاکیہ سے لے کر طرطوس تک فوجی مراکز قائم کئے۔ جس نے بحری بیڑہ کے قیام سے خشکی سے نکل کر سمندر کی وسعتوں پر بھی مسلمانوں کی نگرانی اور برتری قائم کردی۔ جس کا بارعب چہرہ، عقابی نگاہیں، دراز قد، سفیدرنگ سنہری داڑھی، سڈول، پھرتیلا مضبوط اور گھٹا ہوا جسم، دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ جو کہ 39 سال 8 ماہ کا طویل عرصہ مسند اقتدار پر جلوہ افروز رہے  جس نے بیس سال سرزمین شام کے گورنر اور انیس سال آٹھ ماہ ماہ اسلامی حکمران کی حیثیت سے گزارے۔
جنہوں نے تاریخ اسلام میں پہلی مرتبہ بحری بیڑا تیار کیا۔ بحری فوج کی بنیاد رکھی اور اس کے ذریعے بحر روم کے اہم جزیرہ قبرص پر قبضہ کیا۔ جو سیدہ ام المومنین ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہا کا بھائی اور قریش کے سردار سیدناابوسفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ کا فرزند ارجمند تھا۔ جسے رسول اکرم ﷺ کو وضوء کرانے اور عمرہ القضاء کے موقع پر قینچی سے رسول اکرم ﷺ کے سر مبارک کے بال کاٹنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔  جس نے اپنے دور حکومت میں زراعت کو ترقی دینے کے لیے سلطنت کے طول و عرض میں نہروں کا جال بچھایا۔ جس سے لاکھوں ایکڑ اراضی سراب ہونے لگی۔ نہروں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ جن کے حق میں نواسہ رسول سردار نوجوانان جنت سیدنا حسن رضی اللہ نے مسند خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا۔جو پوری زندگی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے رہے۔ جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے دعا فرمائی:

اللهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْكِتَابَ وَالْحِسَابَ، وَقِهِ الْعَذَابَ ( فضائل الصحابة :1748)

’’اے اللہ! معاویہ کو قرآن اور حساب کا علم سکھلانا اور  اسے عذاب سے بچائے رکھنا۔‘‘
دوسری دعا اس کے حق میں یہ فرمائی:-

اللهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ، وَمَكِّنْ لَهُ فِي الْبِلَادِ، وَقِهِ الْعَذَابَ  ( فضائل الصحابة :1750)

’’اے اللہ!! اس قرآن کا علم سکھا اور اسے ملک میں اقتدار عطاء کر اور اسے عذاب سے بچانا۔‘‘
ایک دعا آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں ان الفاظ سے فرمائی:-

اللهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ (سنن الترمذي:3842)

’’اے اللہ!! اسے ہدایت دینے والا، ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعے ہدایت دے۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے