قوم یہودچالبازیوں، مکاریوں ، ریشہ دوانیوں اور ظلم و بربریت کا وہ عفریت ہے جس نے پوری دنیا اور خصوصاً عالم اسلام کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔درندگی، سفا کیت اور غیر انسانی سلوک اس قوم کی فطرتِ ثانیہ ہے۔مسلمانوں کے خون کا پیاسا اسرائیل اپنی دفاعی قوت اور عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے بل پر گھمنڈ، تکبراور حیوانیت کی تمام حدیں پھلانگ گیا ہے۔

اگر قوم یہود کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہونے والی ایک منظم اور مربوط تحریک ’’ زاؤ نسٹ تحریک ‘‘ تھی۔جس کا بانی مشہور یہودی لیڈر تھیوڈور ہر تزل (Hartzl  )تھا۔ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس نے تہذیب و شا ئستگی اور اعلیٰ انسانیت کے معیارات اور تقاضوں کو یکسر بدل دیا۔اور اس میں یہ طے کیا گیا کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ کر کے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔یہودی سرمایہ داروں نے اس غرض کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی کہ فلسطین منتقل ہونے والے یہودی خاندان وہاں زمینیں خریدیں  اور منظم طریقے سے اپنی بستیاں بسائیں۔پھر 1901ء میں ہر تزل نے سلطان عبد الحمید خان (سلطان ترکی) کو باقاعدہ پیغام بھیجا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں، آپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے دیں۔ مگر سلطان نے اس پیغام پرکسی ڈر اور خوف کے بغیر صاف کہہ دیا کہ ’’ جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک ترکی سلطنت  موجود ہے اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ فلسطین یہودیوں کے حوالے کیا جائے۔تمہاری ساری دولت پر میں تھوکتا ہوں۔‘‘ چناں چہ اس واقعہ کے فوراً ہی بعد سلطان عبد الحمید کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں شروع ہو گئیں ۔ اس سازش میں فری میسن اور وہ مسلمان نوجوان شریک تھے جو مغربی تعلیم کے زیر اثر آکر ترکی قوم پرستی کے علمبردار بن گئے تھے۔ان لوگوں نے ترکی فوج میں اپنے اثرات پھیلائے اور سات سال کے اندر ان کی سازشیں پختہ ہو کر اس منزل پر پہنچ گئیں کہ سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیا گیا۔در اصل ہر وہ چیز اور اصول جو یہودی قوم کے مفاد میں ہو، وہ جائز اور اچھائی کی سند رکھتی ہے۔خواہ انہیں اس کے حصول کے لیے پوری عالم انسا نیت کو تہہ تیخ کرنا پڑے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔

  14 مئی  1948 ء کوعین اس وقت جب کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلے پر بحث کر رہی تھی ، یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔جس میں اندرونی طور پر برطانیہ اور امریکا کی پوری سرپرستی اسرائیل کو حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے امریکا اور روس نے آگے بڑھ کر اس کو تسلیم کیا۔ حالانکہ اس وقت تک اقوامِ متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔اس اعلان کے وقت تک 6  لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جا چکے تھے، اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یرو شلم (بیت المقدس) کے آدھے حصے پر اسرائیل قبضہ کر چکا تھا۔ اسرائیل کے قیام کے موقع پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ  ’’Israel is an illegitimate child of the west‘‘ یعنی اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے!پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے دورۂ امریکا کے دوران یہودیوں کی طرف سے متعدد مالی مراعات کی پیش کش کے جواب میں فرمایا تھا:   «Gentlemen!our souls are not for sale»  (ہماری روحیں بکاؤ مال نہیں ہیں)

غور طلب بات یہ ہے کہ برطانیہ اور امریکا دونوں عیسائی قومیں ہیں جن کا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے لے کر برسوں یہودیوں سے شدید اختلاف رہا ہے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔یہاںتک کہ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر عیسائیوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  سے درخواست کی تھی کہ آپ یہودیوں کو ہر گز یہاں آباد نہ ہونے دیں، سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی درخواست کے مطابق یہودیوں کو بیت المقدس میں رہائش اختیار کرنے کی تو اجازت نہیں دی البتہ ان کے ساتھ یہ رعایت برتی کہ وہ خرید و فروخت کے لیے یہاں آ جا سکتے ہیں۔اس واقعہ سے عیسائیوں کی یہود دشمنی اور مسلمانوںکی اعلیٰ ظرفی اور نرمی کا ثبوت ملتا ہے ۔جنگ عظیم سے پہلے جب یہودی جرمن میں آباد تھے تو برلن کے ہوٹلوں میں بورڈ آویزاں تھے جن پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا  ’’ کتا اور یہودی اس ہوٹل میں داخل نہیںہو سکتا‘‘۔  جرمنوں نے ان یہودیوں کو ’’ دنیا کی قوموں کا خون چوسنے والی قوم‘‘  قرار دیا تھا ۔اور اس سے انگلستان کے باشندوں کو بھی کوئی انکار نہیں تھا۔ لیکن عیسائی اور یہود کے شدید اختلاف کے باوجود آج مسلمانوں کی نسل کشی اور سفاکیت میں دونوں قومیںاپنے اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر آگئی ہیں۔ازروئے قرآن حکیم:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوْلِيَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ١ؕوَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ۰۰۵۱

’’ اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں،اور جو کو ئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ انہیں میں سے ہے۔ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (المائدہ51)

یہودی مملکت کے قیام سے لے کر آج تک اسرائیل کا وجود عالم انسانیت پر سرطان کے پھوڑے کی مانندپھیلتا جارہا ہے اور اس کی زہر آمیزی دنیا کی ہر قوم اور خاص طور پر امت مسلمہ کے لیے انتہائی ہلاکت خیز بنی ہوئی ہے۔اور امن عالم کا بہت بڑا ٹھیکے دار امریکا انسانی حقوق کی پا مالی اور ظلم و دہشت گردی پر خا موش تماشائی بنا ہوا ہے اور صیہونیوں کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے۔

پہلی جنگ عظیم کی بنیادی وجہ بھی یہودی حکومت کا با لفعل قیام تھا۔تاہم فلسطین کا قیام ہی ان کی اصل غرض و غایت نہیں تھی بلکہ یہودیت کے علاوہ تما م مذاہب کا خاتمہ، تمام غیر یہودی اقوام کو اپنا غلام اور اپنا دست نگر رکھنا ان کے ایجنڈے کا اصل منشور تھا اورہے۔   اپنے نسلی تفاخر کے سبب وہ جینے کا حقدار صرف یہودی قوم کو سمجھتے ہیں۔نزولِ قرآن کے وقت بھی وہ اللہ کی چہیتی قوم ہونے کے دعوے کر تے تھے۔ جس پر قرآن نے ان کے اس جھوٹے دعوے کی تردید کرتے ہوئے یوں تبصرہ کیا:

وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً١ؕ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۸۰

اور یہ کہتے ہیں (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیںسکے گی۔ان سے پوچھو کیا تم نےاللہ سے اقرا ر لے رکھا ہے کہ اللہ اپنے اقرار کے خلاف نہیں کرے گا۔(نہیں) بلکہ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو، جن کا تمہیں مطلق علم نہیں ۔( البقرہ 80)

آگے چل کر سورۃ البقرہ ہی کی آیت 94 میں ارشاد فرمایا:

قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۹۴

’’ (اے نبیﷺ) کہہ دو اگرآخرت کا گھر اور لوگوں (مسلمانوں) کے لیے نہیں ہے اور اللہ کے نزدیک تمہارے لیے ہی مخصوص ہے تو اگر سچے ہو تو موت کی آرزو تو کرو۔‘‘

انسانی تاریخ میںدوسری جنگ عظیم کا ذمہ دار عام طور پر پر جرمن کے ڈکٹیٹر ہٹلر کو قرار دیا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس تباہ کن جنگ کے پس منظر میں بھی یہودی سوچ کار فرما تھی ۔وہ سمجھتے تھے کہ جرمن قوم کی مکمل تباہی دنیا میں ہماری کامیابی کی ضامن ہے۔ امریکا میں ان کا اثر و رسوخ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر چکا ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک دن میں پورے واشنگٹن کو نذر آتش کر سکتے ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ فرہنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے‘‘۔یہودی اپنی مکاری اور عیاری کے سبب امریکا میں اپنے ہاتھ اتنے مضبوط کر چکے ہیں کہ وہاں کے ریاستی ڈھانچے میں عزل و نصب کے تمام فیصلوں میں کلیدی مقام رکھتے ہیں۔

کسی کو جنگ کی آگ میں جھونک دینا اور کسی کو اس آگ میں سے بحفاظت نکال لینا قوم یہود کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔در حقیقت یہ صرف اسلام ہی کے نہیں بلکہ عیسائیت، بدھ مت ،ہندو مت ہر غیر یہودی مذہب کے خلاف اپنے دل میں کینہ رکھتے ہیں۔ اپنی طویل تاریخ اور حکمرانی کے باوجود دنیا میں یہودیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے، اور ہمیشہ تھوڑی ہی رہی ہے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جو ان کے شان و شوکت اور عروج کا زمانہ تھا ، اس وقت بھی ان کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ نہیںتھی۔ عددی اعتبار سے وہ سب سے زیادہ عروج پر جنگِ عظیم دوئم سے قبل تھے۔ اس وقت ا ن کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تھی ، یہودیوں کے دعوے کے مطابق اب ان کی تعداد دو کروڑ ہے۔گویا دنیا کی دیگرا قوام کے مقابلے میں وہ مٹھی برابر ہیں۔مگر اپنی عیاریوں، فتنہ انگیزیوں اور ریشہ دوانیوں سے انہوں نے ہر قوم کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔اوریہ غلام انہیں ان قوموں کے اندر ہی سے مل جاتے ہیں جنہیں وہ غلام بنانا چاہتے ہیں۔ جنگ عظیم میں جاپان جرمن کا اتحادی تھا ، امریکا سے اس کو کوئی خطرہ نہیں تھا، مگر یہود کی مکاری اور روباہی فطرت نے وہاں بھی کام دکھایا اور جاپان کی سپلائی لائن کاٹ کر حالات کا رخ کچھ اس طرح موڑا کہ وہ ’’پرل ہاربر‘‘ پر حملہ کرے اور امریکا اس جنگ میں کود پڑنے پر مجبور ہوجائے۔1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی گن بوٹس نے امریکی جہاز یو ایس لبرٹی کو ڈبو کر الزام عربوں پر لگا دیا  ۔ 9/11 کاڈرامہ بھی در اصل یہودیوں کے مکارانہ ذہن کی پیدا وار ہے۔جس کو جواز بنا کر افغانستان کی تباہی کے ذریعے سے عالم اسلام کی مجموعی حیثیت کے مکمل خاتمے کا آغاز کر دیا۔

یہ دنیا اسباب و علل کی دنیا ہے، مسلمانوں کی ذہنی غلامی کی وجہ ترک اجتہاد ہے۔ مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے تمام دنیا کی قومیں ان کی پیروانِ مقلد رہیں۔جب وہ اکتسابِ عمل اور اجتہاد و فکر کی راہ سے تھک کر بیٹھ گئے ، تو گویا انہوں نے خود ہی د نیا کی راہ نمائی سے استعفا دے دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ، مسلمان تو رہنا چاہتے ہیں مگر ان کے دماغ مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر اسلام سے منحرف ہورہے ہیں ۔اجتہاد کی مشکل جب تک حل نہیں ہوگی ، اس وقت تک مسلمانوں میں آزاد اہل فکر پیدا نہ ہوںگے۔ کیوں کہ اپنے عقائد و نظریات کی مضبوطی اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے انسان کے جسم سے زیادہ اس کی فکر ی آزادی ضروری ہے۔ ورنہ تو اس وقت کم و بیش ساٹھ فیصد مما لک جسمانی طور پر کسی قید و بند کے پابند نہیں ہیں۔لیکن فکری، ذہنی اور قلبی طور پر آج بھی انہیں قوموں کے غلام ہیں جن سے انہوں نے آ زادی حاصل کی تھی۔

دین و اخلاق اور تہذیب و تمدن بلند تر انسانیت سے تعلق رکھتی ہیں۔اور ان کی قدر و منزلت وہی لوگ کر سکتے ہیں جو حیوانیت سے بالا تر ہوں ۔پیٹ ، روٹی ، کپڑا، آسائش بدن اور لذّاتِ نفس وہ چیزیں ہیں جو انسان کی حیوانی ضروریات سے تعلق رکھتی ہیں ، اور جب انسان مقام حیوان سے قریب تر ہوتا ہے تو اس کی نگاہ میں یہی چیزیں زیادہ اہم ہوتی ہیں، حتیٰ کہ وہ ان کی خاطر بلند تر انسانیت کی ہر متاع ِ گراں مایہ کو نہ صرف قربان کر دیتا ہے بلکہ حیوانی زندگی کی آخری حدوں پر پہنچ کر اس میں یہ احساس باقی نہیں رہتاکہ میرے لیے کوئی چیز ، ان چیزوں سے اعلیٰ اور ارفع ہوسکتی ہے۔کہا وت ہے کہ ’’ جانور بھوکا ہو تو خطرناک ہوتا ہے ، مگر انسان کا پیٹ بھر جائے تو وہ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے‘‘۔

کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن اس کی معیشت کو قرار دیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے دنیا کے معاشی نظام میں یہود کو مکمل بالا دستی حاصل ہے۔کیوں کہ ان کے نزدیک جائز اور نا جائز کا تو کوئی تصور ہی نہیںہے۔جو کچھ یہود کے عظیم تر مفاد میں ہے وہ ہر طرح سے جائز اور حلال ہے۔بینکوں کا سارا نظام پھر اس میں سودی لین دین کا پورا جال اسی قوم کا بچھایا ہوا ہے۔یہود کی چالبازیوں اور تزویراتی ہتھکنڈوں کے سبب امریکا جیساا میر ترین اور سوپر پاور قرضوں کے جال میں بری طرح جکڑا ہو ہے۔

یہود کا ایک موثر ہتھیار عالمی میڈیا پر مکمل کنٹرول ہے۔گزشتہ صدی میں بھی ذرائع ابلاغ پر ان کا اتنا مضبوط کنٹرول تھا کہ اس نے جرمن قوم کو دنیا کے سامنے ظلم و بربریت کی علامت بنا کر پیش کیا۔جھوٹ گھڑنا،الزام تراشی، افواہیں پھیلانا اور اپنی مخالف قوموں کے خلاف پروپیگنڈا کر نا اس قوم کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔اور انہیں ہتھکنڈوں سے یہ دنیا میں اپنے وجودکو قائم رکھے ہوئے ہے۔

قومِ یہود کی اسلام دشمنی،بغض و عداوت اور کینہ پروری کی شروعات نبی پاک ﷺ کی بعثت کے وقت سے ہی ہوگئی تھی جس کا تسلسل تاحال جاری ہے۔مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کی تشریف آوری اور پھر وہاں ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام نے ان کے روح و بدن میںنفرت و انتقام کی کبھی نہ بجھنے والی آگ لگا دی تھی جس کی تپش اور جلن آج تک ان کے وجود کو سوختہ کرتی رہتی ہے۔اور اس جلن اور تپش کو یہ مسلمانوں کا خون بہا کر کم کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اور امت مسلمہ کوسیا سی، معاشی اور سماجی سطح پر کمزور کرنے اور ان کی نسل کشی کرنے کے دور رس منصوبے بنا تے رہتے ہیں۔اور اپنے ان ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لیے امت مسلمہ کے اندر سے ہی انہیں دست و بازو مہیا ہوجاتے ہیں۔حبّ جاہ اور حبّ مال نے مسلم اقوام کی اکثریت کو ان کے در کا بھکاری بنایا ہوا ہے۔عالم اسلام میں جو طبقہ جتنا با اثر ہے اتنا ہی وہ عملی اور فکری طور پر مغرب کا غلام ہے۔بقول شاعر:

وہ دن بھی خوب تھے ملائکہ میرے سامنے تھے جو سرنگوں

وہ میرا  عروج  کمال  تھا ،  یہ  زوال  کتنا  عجیب  ہے

اس صورت حال کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بدقسمتی سے دنیا ئے اسلام میں عام طور سے معاملات ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو اپنے مغربی آقاؤں کے سبق کو دہرانے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔لیکن یہ صریح دھوکہ اور فریب ہے، یہود و نصاریٰ کو اپنا آقا، مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر مسلمان خوش فہمی اور خود فریبی کے حصار میں پھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔جس سے باہر نکلنا اب ان کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل تر ہو گیا ہے۔اگرچہ عالمی سطح پر مغرب کی فریب کاریوں اور اس کا اثر  و رسوخ کی سنگینی کو ختم کر نے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں، مگر بے سود ر ہیں۔

1970 ء کی دہا ئی میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل شہید کی مدبرانہ اور حکیمانہ قیادت، لیبیا کے حکمراں کرنل معمر قذافی اور پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی منصوبہ بندی کے باعث مشرق وسطیٰ سمیت جملہ اسلامی ممالک کو اغیار کی لوٹ مار سے نجات حاصل کرنے کا خیال آیا۔چناں چہ 1973 ء  میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر اہل عرب نے تیل کو پہلی مرتبہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تو یورپ اور امریکا میں گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں لگ گئیں۔یورپ اور امریکا کو عربوں سے ایسے حربے کی ہر گز توقع نہیں تھی۔لہٰذا جب بھٹو کے مشورے پر یورپ اور امریکا کو مشرق وسطیٰ سے تیل کی ترسیل بند ہوئی تو طاغوتی طاقتیں بلبلا اٹھیں، اور امریکا اور یورپ کی صنعت و معیشت کو بہت بڑا دھچکا پہنچا۔

فروری 1974 ء میں بھٹو کی میزبانی میں لاہور میں اسلامی سر براہی کانفرنس منعقد ہوئی تو عالم اسلام کے اس مثالی اتحا د پردشمنان مسلم انگشت بدنداں رہ گئے اور ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔یہ سوچ کر کہ آپس میں شدید ترین شخصی و نظریاتی اختلاف رکھنے والے مسلم مما لک اور حکمران بھی غیر مشروط طور پر اس کانفرنس میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ موجود تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کو اسلامی سربرہی کانفرنس کا چیئرمین چنا گیا۔اور ان کی مرتب کر دہ سفارشات کی روشنی میں درج ذیل نکات کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی۔

1۔ تمام اسلامی ممالک یورپی اور امریکی بنکوں سے اپنا سرمایہ نکال کر مجوزہ ’’ اسلامی ترقیاتی بنک‘‘ میں جمع کرا ئیں گے۔جس کا ہیڈ کواٹر پاکستان میں ہوگا۔

2۔ تمام اسلامی ممالک اپنے باہمی تنازعات اقوام متحدہ میں لے جانے کے بجائے اسلامی سربراہی کانفرنس کی تنظیم میں طے کریں گے۔

3۔ عالم اسلام کو علوم و ہنر سے بہرہ مند کرنے کے لیے امریکا پر انحصار ختم کرکے جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خود کفیل بنائیں گے۔

4۔ بھاری اور جنگی صنعتوں کے شعبہ میں اسلام دشمن طاقتوں پر انحصار ختم کر دیا جائے گا۔اس کے لیے ملت اسلامیہ کا ایک مشترکہ فنڈ قائم کیا جائے گا۔

5۔ عالم اسلام کے تمام ممالک بیرونی تجارت کے لیے ایک مشترکہ کمیشن قائم کریں گے جو ملت اسلامیہ کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے بیرونی تجارت کے ایسے مشترکہ رہنما اصول وضح کر ے گا جس کی پابندی تمام اسلامی ممالک پر لازمی ہوگی۔

لیکن اسلام دشمن طاقتوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس میں ہونے والے انقلابی اقدام پر عمل درآمد ہونے سے پہلے ہی ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کا عمل سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی اور مشرق وسطیٰ کے تیل کی دولت پر قبضہ کرنے اور اسلامی ممالک کو اپنا محتاج بنائے رکھنے کے لیے ’’  نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سے ایک طویل المیعاد اور کثیر الجہتی منصوبہ تیا رکیا۔اسی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت ہی اسرائیل کی سرحدوں میں مسلسل توسیع کا عمل جاری ہے۔

یہ ہے یورپ و امریکا اور اسرائیل کا وہ گٹھ جوڑ جس کے تحت وہ عالمی سطح پر اور خاص طور پر اسلامی ممالک پر جس میں ان کا خاص ہدف اور ان کی آنکھ کا کانٹا پاکستان ہے، مسلسل اسرائیل کو تسلیم کر لینے پر دباؤ ڈال رہے ہیں جس کی شدت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔عرب ممالک مخمصہ کا شکار ہیں۔ ترقی پزیر اسلامی حکومتیں لرزہ بر اندام ہیں کہ کیا فیصلہ کریں۔پاکستان کے بارے میں تو اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن گوریان نے پیرس میں 1967 ء کی جنگ میں فتح کا جشن مناتے ہوئے کہا تھا،  ’’یہ عرب ہر گز ہمارے مقابل نہیں آسکتے۔ ہمارا اصل دشمن اور حریف پاکستان ہے،کیوں کہ پاکستان واحد اسلامی نظریاتی ملک ہے۔‘‘

مسلمانوں نے یہودیوں کو بد عہدی کی بنیا د پرپہلے مدینہ اور اس کے انواح و اطراف سے نکالااور بعد ازاں خیبر سے ان کو نکال باہر کیا گیا۔سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں جب بیت المقدس پر قبضہ ہوا تو ہاں یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت نہ دی گئی اور یہ پابندی خلافت اسلامیہ کے خاتمہ تک قائم رہی۔اسی لیے یہودیوں کی دشمنی امت مسلمہ سے دوسری قوموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید ہے۔

قرآن حکیم نے یہود کے بارے میں اصولی طور پر تنبیہی یا تعزیری قسم کے تین ہی اعلانات تصریحاً بیان کیے ہیں:

۱۔ ذلت و مسکنت

۲۔ان پر بے چینیوں کا تسلسل

۳۔دینی حجت و برہان میں ان کی دوامی مغلوبیت ، علم الٰہی اور ہدایت ربانی سے محرومی۔

دنیا کی کسی قوم کی طرف سے عائد کر دہ ذلت و حقارت نہ حقیقی ہوتی ہے اور ہمہ جہتی۔ لیکن اللہ کی طرف سے اگر کسی پر پھٹکا ر پڑجائے تو  پھر اس کو دور کرنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ازروئے قرآن حکیم:

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُٞ  وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِيَدِكَ الْخَيْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۲۶

کہو کہ اے اللہ (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ۔ ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے

اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ ( آلِ عمران :26)

اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی پھٹکار نہ وقتی ہوتی ہے نہ مقامی بلکہ یہ تو ہمہ گیریت اختیار کر لیتی ہے۔با لخصوص جب کہ اس مذِلّ حقیقی نے خود یہ فرمایا ہو:

مَّلْعُوْنِيْنَ١ۛۚ اَيْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا۰۰۶۱

’’(وہ بھی) پھٹکارے ہوئے ، جہاں پائے گئے پکڑے گئے اور جان سے مار ڈالے گئے‘‘ ( الاحزاب  61)

ظاہر ہے ایسی ذلت و مسکنت شعار اور محتاج و مقہور قوم طبعاً کبھی سکھ اور چین نہیں پاسکتی، کیوں کہ اپنی اندرونی خرابیوںاور پھر پے بہ پے تذلیلوں اور بے اعتنایوں سے اس قوم کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔اور وہ مایوسی کی اندرونی کوفت اور قلق و اضطراب سے کسی وقت بھی اطمینان اور سکون کا سانس نہیں لے سکتی۔

تیسرا قرآنی دعویٰ یہ ہے کہ یہود دینی حجت اور علم حق سے یکسر محروم ہو چکے ہیں، اور اپنی مسلسل شرارتوں کی وجہ سے ان کے قلوب اور فطرتیں اس حد تک مسخ ہوچکی ہیں کہ قبولیت حق کی استعداد ہی من حیث القوم ان سے رخصت ہوچکی ہے۔جس سے وہ کبھی دینی حجت میں اپنے حریفوں پر غالب نہیں آسکتے۔

یہودی قوم شروع سے ہی پروپیگنڈا کرنا خوب جانتی ہے۔ افواہیں پھیلانا ، کسی مخالف کے خلاف اسکینڈلز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کرنے کا فن بھی انہیں خوب آتا ہے۔جس کی وجہ سے بڑی بڑی قد آور شخصیات ان کی مٹھی میں رہتی ہیں۔یہی لوگ برطانیہ اور امریکا میں ذرائع ابلاغ پر قابض ہیں اور عوام کے ذہنوں اور خیالات کو اپنی مرضی سے کوئی بھی رخ دینے کی پوری قوت رکھتے ہیں۔

پاکستان کے کسی بھی گاؤں میں ہونے والی کسی چھوٹی سی واردات کو چاہیں تو بین الاقوامی تشہیر کے ذریعے سے پاکستان کو بدنام کر دیں اور چاہیں تو لاکھوں مسلمانوں کی اجتماعی قبروں سے نگاہیں پھیر لیں اور کسی کو خبر بھی نہ ہو۔لومڑی جیسی مکار اور چیرہ دست یہودی قوم کی یہ ایک ہلکی سی تصویر ہے۔ ورنہ اس کے بہیمانہ اور سفاکانہ کارناموں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔

یہودی قوم کی اس کینہ فطرت روش کے پیش نظر کیا پاکستان کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی جواز بنتا ہے۔جب کہ اسرائیل کا اصل ہدف پاکستان ہی ہے ،وہ اس کی نظریاتی بنیادوں کو جڑ سے اکھیڑنے کے لیے ہمہ جہت سے حملہ آور ہے۔کیا اسرائیل کو تسلیم کر لینے کے بعد پاکستان کی سلامتی اور اس کی بقا کی کوئی ضمانت دی جاسکتی ہے۔یہ خیال ہے جو محال ہے۔پاکستان کی ایک مخصوص لابی ماضی کی طرح ایک بار پھر سرگرم ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا ہرج ہے۔اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے بے شمار مالی فوائد بھی گنوائے جارہے ہیں۔کیوں کہ ابن الوقت قسم کے لوگوں کی سوچ اپنے وجود کی سیوا تک ہی محدود رہتی ہے، انہیں اس بات کا کوئی ادرا ک ہی نہیں ہوسکتا کہ ایک مسلمان کی عزت نفس اور اس کی دینی غیرت و حمیت کاکیا مقام ہے۔بطن و فرج کے رسیا اس پہلو سے کبھی سوچ ہی نہیں سکتے۔اور ان کی اسی کمزوری نے دشمن اقوام کے حوصلے بلند کیے ہیںاور ان کے ہاتھ ہمارے گریبانوں تک پہنچے ہوئے ہیں۔

آج اسرائیل کے عالمی ایجنڈے کے تحت ہر مسلم ملک کا حکمراں ان کا ہدف ہے۔سوڈان کو مراعات دینے کا اعلان بھی ہوچکا ہے،

پاکستان بھی اس اہم ممالک میں شامل ہے جن کو دباؤ میں لاکر اسرائیل کو تسلیم کر والیا جائے گا۔(خاکم بدہن)جو قومیں اپنے نظریے کو پس پشت ڈال کر زمانہ کے ڈھب پر خود کو ڈھال لیتی ہیں ان کے ساتھ دنیا اسی طرح کھلواڑ کرتی ہے۔تاریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے اور جو قوم اپنی تاریخ بھلادیتی ہے تو گویا وہ اپنا حافظہ کھو دیتی ہے ۔جو قوم اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہے ، اس کا جغرافیہ اسے فراموش کردیتا ہے۔پھر وہ دوسروں کی حریت و مفادات تو کیا خود اپنی راہ بھی کھوٹی بیٹھتی ہے۔ ماضی کا مطالعہ حال کو سمجھنے اور مستقبل کو بہتر بنانے میں بڑی مدد دیتا ہے۔گزرے ہوئے زمانے کو فراموش کر کے حال اور مستقبل کو سازگار بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔

 اگرآج پاکستان اپنی نظریاتی اور جغرافیائی حیثیت کو فراموش کر کے بڑی طاقتوں کے دباؤ میں آکر اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے زہر آلود خنجر کی نوک ہمیشہ اس کی رگ جاں پر ٹکی رہے گی، بلکہ وہ کشمیر کے معاملہ پر بھی آواز اٹھانے کے قابل نہیں رہے گا۔کشمیر کی حمایت سے بھی اسے دستبردار ہونا پڑے گا۔اور کسی بھی مظلوم کے لیے آواز اٹھانا صدا بصحرا ثابت ہوگا،کیوں کہ کسی مظلوم کی داد رسی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے قدم مضبوط ہوں ااور آہنی دیوار بن کر باطل کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت اور پہاڑ جیسی استقامت موجود ہو ورنہ ریت کی دیوار کو تو تیز ہواؤں کے جھکڑ بھی گرادیتے ہیں۔اپنے مقام اور حیثیت سے گری ہوئی قوم اس گرے ہوئے مکان کی طرح ہوتی ہے جس کی لوگ اینٹیں بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں اورپھر اسے آنے جانے کا راستہ بنا لیتے ہیں۔اور وہ گھر شارع عام بن جاتا ہے۔

کتابیات

۱۔ترجمہ قرآن حکیم ، مولانا فتح محمد جالندھری

۲۔اسرائیل کتاب و سنت کی روشنی میںاز مولانا قاری محمد طیب

 ۳۔یہودیت قرآن کی روشنی میں ازسید ابو الاعلیٰ مودودی

۴۔ مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام  از پیر محمد فضل حق

۵۔ تاریخ فرشتہ از محمد قاسم فرشتہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے