قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۰۰۵۶

’’میں نےجنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔‘‘ (الذاریات:56)

اللہ تعالیٰ کی عبادت سے مراد یہ ہے کہ اس کے حضور انتہائی عاجزی ، لاچاری، بے بسی اور انکساری کا اظہار کیا جائے ، قیام ،رکوع اورسجدہ عبادت نہیں بلکہ مظاہر عبادت ہیں ، تاہم ہماری شریعت میں غیر اللہ کے لیے انہیں ادا کرنا سخت منع کیا گیا ہے ۔

احترام کے لیے سجدہ کرنا سابقہ شریعتوں میں جائز تھا ہماری شریعت میں حرام ہے۔ عبادت کے طور پر مخلوق میں کسی کو سجدہ کرنا کفر ہے۔ آج افسوس کے ساتھ ہمارے نام نہاد امام ، مذہبی راہنما،علماء،مشائخ، پیر،گدی نشین اپنے آپ کو سجدہ کروا کر کفر کا ارتکاب کررہے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بزرگوں کے قدم چومتے ہیں سجدہ نہیں کرتےیا کسی کو راضی کرنے کے لیے پاؤں پڑجاتے ہیں ، اس کے قدموں میں گر جاتے ہیں یہ بھی سجدہ ہے ، نام بدل لینے سے حرام کام حلال نہیں ہوجاتا۔ یہود ونصاریٰ اور ہنود کے رسم ورواج سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ شرعی حدود وقیود کی پابندی لازمی ہے۔ تعظیمی سجدہ مشرکین ہی کا شعار ہے ۔

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتاہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

سجدہ صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کا حق اور اسی کے ساتھ خاص ہے دوسرے کسی شخص کے لیے سجدہ قطعاً جائز نہیں ہے۔

سیدنا قیس بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگ اپنے سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں تو میں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کو سجدہ کیا جائے ، کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتایا کہ میں حیرہ گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں تو آپ اے اللہ کے رسول ﷺ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں، کہ ہم آپ کے سامنے سجدہ ریز ہوں ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’بھلا بتا کہ اگر تو میری قبر پر گزرتا تو کیا اسے سجدہ کرتا؟‘‘ میں نے کہا کہ نہیں ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تو ایسا نہ کرو ، اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا کہتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیوی پر شوہر کا بہت حق رکھا ہے ۔ (ابو داود : 2140)

نبی کریم ﷺ وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے نوع انسان کو توحید کا پیغام سنا کر جینے کا سلیقہ سکھایا اور اللہ کا حق اور شکر ادا کرنا سکھایا۔شکرگزاری کا ایک طریقہ نماز ہے۔ شکرزبان کے علاوہ عمل سے بھی ادا کرنا چاہیے۔

سیدنا مغیرہ بن شعبہ tفرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نماز تہجد میں اتنا لمبا قیام فرماتے کہ نبی کریم ﷺ کے دونوں پاؤں یا دونوں پنڈلیوں پر ورم آجاتا اور جب نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق کہاجاتا توفرماتے : ’’ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘ ( صحیح بخاری : 1130)

ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرو اور اس کی شکرگزاری ہی اس کے فضل وکرم اور لطف ورحم کی زیادتی کا سبب ہے ، اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا ایک طریقہ سجدہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بندے سے ہر حال میں نزدیک ہوتاہے لیکن سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے بہت زیادہ نزدیک ہوجاتاہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب آدم کا (مومن) بیٹا سجدے کی آیت پڑھتا ہے پھر(پڑھنے اور سننے والا) سجدہ کرتاہے تو شیطان روتا ہوا ایک طرف ہوکر کہتاہے : ہائے میرے لیے ہلاکت ، تباہی اور بربادی آدم کے بیٹے کو سجدے کا حکم دیا گیا اس نے سجدہ کیا لہٰذا اس کے لیے بہشت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیاگیا میں نے نافرمانی کی چنانچہ میرے لیے آگ ہے۔ (مسلم : 81)

سجدہ کی دو اقسام ہیں : ایک سجدہ تعظیمی اور دوسرا سجدۂ عبادت

سجدہ تعظیمی زمین پر سررکھ دینے سے پورا ہوجاتاہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ سجدۂ عبادت ہے اس میں تسبیحات کہی جاتی ہیں۔شریعت اسلامیہ میں سجدہ صرف اوپر نیچے ہونے کا نام نہیں بلکہ اس کی اصل روح یہ ہے کہ اپنی کامل عاجزی اور بے کسی کےاظہار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قدرت اورشانِ رفیع کا اعتراف کیا جائے۔

انسان کو جب کوئی خوشی ملے تو سجدۂ شکر کرنا مسنون ومستحب ہے ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جب کوئی خوشی کی خبر آتی یا آپ کو بشارت دی جاتی تو آپ اللہ کا شکر کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔(ابوداود:2774)

ایک طویل حدیث میں ہے کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی ہے یہ خبر سنتے ہی سجدے میں گر گئے۔ (صحیح بخاری : 4418)

سجدۂ شکر نعمت کے حصول جیسے اولاد،کسی چیز میں فتح اور مصیبت وتکلیف سے چھٹکارا اورخوشی ومسرت کے موقع پر یہ سجدہ مشروع ہے۔ اور ایک سجدہ کسی نشانی کے ظہور پر کیا جاتاہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سجدہ کرنا مکروہ ہے آپ نے مندرجہ بالا سطور میں پڑھ لیا ہے کہ یہ عمل اللہ کے رسول  ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے لہٰذا ایسی بات کرنا صحیح نہیں یہ عمل اور بھی بہت سی احادیث میں وارد ہے ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار! مجھے رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے سے منع کیاگیا ہے ، تم رکوع میں اپنے رب کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں خوب دعا مانگو، تمہاری دعا قبولیت کے لائق ہوگی۔ (صحیح مسلم : 479)

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں ، اس حدیث سے رکوع اور سجدہ میں قرآن پڑھنے کی ممانعت نکلی بلکہ رکوع میں صرف تسبیح کرے اور سجدے میں تسبیح اور دعا کرے۔

سجدے میں دعا مانگنے کا تعلق ہے تو اس کا محتاط طریقہ یہ ہے کہ وہی دعائیں مانگی جائیں جو سجدے سے متعلق صحیح احادیث میں وارد ہیں۔ اپنے طور پر شریعت سازی نہ کریں کہ قرآن کی دعا کے ساتھ رَبَّنَا کو اللهُمّ سے بدل کر پڑھنا یہ شریعت سازی ہے جس مقام پر شریعت خاموش ہو ہمیں بھی وہاں حد سے نہیں بڑھنا چاہتے۔

سجدۂ عبادت میں باوضو،قبلہ رخ ہونا،تکبیر اوردعائیں کہنا ضروری ہے، سجدۂ شکر میں ایسی کوئی شرائط نہیں ۔ واللہ اعلم

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتےہیں : سجدۂ شکر کے افعال ، احکام اور اس کی شروط اور طریقہ سجدۂ تلاوت والا ہی ہے ۔

( المغنی لابن قدامہ المقدسی 2/372)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :  اور کسی مصیبت اورمشکل سے نجات یا پھر انسان کے لیے کسی نعمت کے حصول کی بنا پر سجدہ شکر ادا کیا جاتاہے، جو کہ نماز کے باہر سجدہ تلاوت کی طرح ہی ہے ۔

(فتاوی منار الاسلام 1/205)

سجدہ یقیناً نیکی ہے بلکہ سجدہ تلاوت میں بھی ایسی کوئی شرائط نہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سجدۂ تلاوت چونکہ نماز نہیں ہے لہٰذا اس کے لیے نماز کی شرائط مقرر نہیں کی جائیں گی بلکہ یہ وضو اور قبلہ رخ کے بغیر بھی جائز ہے۔ (مجموعہ فتاوی 23/165)

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا اور قرآن مجید پر عمل کے لیے نبی کریم ﷺ کو ہمارے لیے بہترین عملی نمونہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اور اس کی اتباع پر بخشش کا وعدہ فرمایا۔ اگر ہم زندگی کے تمام امور میں نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق عمل کریں تو ہماری ساری زندگی عبادت بن سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سنت محمدی ﷺ کے مطابق زندگی گزارنے اور مسنون سنتوں کو زندہ کرنے والا اور ان پر عمل کرنے والا بنائے ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے