مولانا محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ کے متعلق اپنی یادوں کے گنجلکوں کو سلجھانے کی کوششوں میں ہوں شخصیت نویسی تھوڑا مشکل کام ہے لیکن جب کوئی ایک سرا ہاتھ لگ جائے تو پھر یہ مشکل کام آسان ہوجاتا ہے اللہ تعالی کا مجھ پر احسان عظیم ہے کہ اس نے مجھے ماں باپ کی پرخلوص محبت سے نوازا جو آج تک جاری ہے مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی باک نہیں ہے کہ دنیا کے ہر رشتے سے بڑھ کر اگر کسی رشتے نے مجھے خلوص اور محبت سے اپنی آغوش میں لیا تو وہ میرے والدین ہیں کہ جن کی گھنی چھاؤں نے کبھی میرے ناتواں کندھوں کو ذمہ داریوں کا احساس ہی نہیں ہونے دیا ہر لمحہ میری بارگاہ ایزدی میں التجاء ہے کہ وہ میرے والدین کو صحت و عافیت کے ساتھ کی بہترین حالتوں میں لمبی عمریں عطا فرمائے میرے والدین کا مجھ پر اتنا ہی احسان کافی تھا کہ انہوں نے مجھے لاشعور سے شعور بخشا لیکن مجھے اپنے رب کی توحید اور مجسم رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچی تعلیمات سے آشنا کراکے جو احسان مجھ پر میرے والدین نے کیا ہے میں تہی دامن اس کا بدلہ انہیں نہیں دے سکتا بس اللہ کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ اس کا بہتر بدلہ میرے والدین کو عطا فرمائے

والدین کے بعد جن اساتذہ کے سامنے میں نے زانوئے تلمذ طے کرنے کا شرف پایا ان میں سب سے نمایاں استاذ گرامی شارح قرآن و حدیث حضرت مولانا محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ ہیں کہ جن سے میں حروف و الفاظ کی مالا کونہ صرف  جوڑنا سیکھا بلکہ انہی کی خدمت کا ثمر ہے کہ مجھ ایسے لابالی اور بے پرواہ طبیعت کے حامل شخص نے صبر ، حوصلہ ، ہمت ، استقامت اور تشکر کی نعمتیں پائیں.

شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ کے اسم گرامی سے پہلی مرتبہ واقفیت جامعہ شمس الہدی اہل حدیث ڈسکہ میں گزرے ایام تحفیظ میں اس وقت ہوئی جب جامعہ شمس الہدی اہل حدیث کی جانب سے ہشت صفحاتی تعارفی پمفلٹ شائع ہوا تھا جسے زکوٰۃ و صدقات کی اہمیت اور مسائل سے آگہی کے لیے شائع کیا گیا تھا میرے تحفیظ القرآن کے پہلے استاذ استاذ الحفاظ حافظ عابد الہی صاحب نے ڈیزائن کیا تھا یک رنگہ پنفلٹ چھپ کے آیا تو اس پر مولف کے طور پر استاذ گرامی مولانا محمد یحیی گوندلوی صاحب کا نام درج تھا  دوسری مرتبہ ان کو تبھی دیکھا جب ان کے سامنے ان کے سایۂ شفقت میں تعلیمی مدارج طے کرنے کی خواہش لے کے حاضر ہوا تھا میری زندگی کی یہ کربناک حقیقت ہے کہ میں نے اثری تعلیم کا آغاز تحفیظ القرآن سے کیا تھا لیکن میں اس کی تکمیل نہ کر سکا تحفیظ القرآن کے مشن کو ادھورا چھوڑا اور اپنا رخ ہی بدل لیا ڈسکہ سے نکلے تو سیدھا ساہووالہ جاپہنچے سیالکوٹ وزیرآباد روڈ پر ساہووالہ ریلوے اسٹیشن سے کوئی 3 کلو میٹر جنوب کی جانب واقع ساہووالہ کی تاریخ «سل کوٹ» سے سیالکوٹ میں بدلنے والے سیالکوٹ جتنی ہی پرانی ہے ساہووالہ ہر دور کے انسانوں میں عمدہ تہذیب و ثقافت ما گہوارہ رہا ہے ہندوستان کی ریاست کپور تھلہ کے مختلف علاقوں سے جب ہمارے اجداد دیگر مسلمانوں کی معیت میں ہجرت کرکے آئے تو ان مہاجروں کے کچھ گھرانے ساہووالہ میں بھی آباد ہوئے اس لحاظ سے ساہووالہ سے ہمارے واقفیت ہماری قرابت داریوں کی وجہ سے بھی تھی لیکن یہ پہلاوقع تھا کہ جب مجھے ساہووالہ جانے کا اتفاق ہوا ڈسکہ سمبڑیال روڈ پر واقع بھوپال والا سے ساہووالہ کا فاصلہ قریبا پانچ کلومیٹر ہے ان دنوں ہمارے گاؤں سے ساہووالہ براستہ بھوپالول والا سفر کا کل۔خرچ 10 روپے تھا یہ پہلا موقع تھا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں ہمارا رخ ساہووالہ کی جانب ہوا یہ وہ دن تھے کہ جب ہمارے لیے ان دس روپوں کا حصول بھی ناممکن تھاگھر میں غربت اور کسمپرسی کے ڈیرے تھے لیکن میرے دادا مرحوم میری والدہ محترمہ کے شوق نے مجھے ہمت دلائی اور میں ساہووالہ جاپہنچا بھوپال والا سے تانگہ سواری کے ذریعے ساہووالہ پہنچا ان دنوں بھوپال والا سے آنے والے تانگے گورنمنٹ ہائی سکول ساہووالہ کے قریب رکا کرتے تھے کوچوان نے جہاں تانگہ روکا اس کے بالکل سامنے شمال کی جانب ساہووالہ کا مندر محلہ ہے اس چوک میں مشرقی رستہ چرچ روڈ کہلاتا ہے اس کے بالکل سامنے مغربی جانب رستہ ساہووالہ کی گنجان آبادی سے ہوتا ہوا محلہ قلعہ ساہووالہ پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے کئی رستے مختلف سمتوں چلنے والے انہی راستوں سے ہوتے ہوئے ساہووالہ سے باہر نکل جاتے ہیں

ساہووالہ کی بل کھاتی ہوئی گلیوں سے گزر کے جب جامع اہل۔حدیث مسجد قلعہ والی میں قائم جامعہ تعلیم القرآن والحدیث ساہووالہ کی لائبریری اور دفتر میں پہنچا تو ہر قسم کے گاؤ تکیہ اور تصنع سے مبرا اوراق کو  اپنے رشحات فکر سے مزین کرتے دنیا وما فیھا سے غافل اپنے کام میں منہمک اک شخصیت کو پایا ۔

کشادہ پیشانی تراش خراش سے مبراء ریش سر پر پشمینہ کی سلائیوں سے بنو ہوئی ٹوپی زیب تم کیے ہوئے سر اور داڑھی میں کہیں کہیں اترتی چاندی متبسم چہرہ میں ان کے سامنے جا بیٹھا جامعہ شمس الہدی میں رہتے ہوئے مولانا عبدالغفور طاہر حفظہ اللہ اور دیگر اساتذہ سے ادب کی جو عادتیں سیکھیں ان میں سے ایک یہ عادت سلام کرنے کی بھی تھی لائبریری میں جیسے داخل ہوا سلام کہا میرے سامنے بیٹھی شخصیت نے نگاہیں اٹھائیں اک لمحے کو میری طرف دیکھا اور سوال کیا جی بیٹا کیسے آنا ہوا ان کے استفسار پر جب مدعا بیان کیا کہ حضور والا مولانا محمد یحیی گوندلوی کو ملوا دیں تو ہمارا کام بھی ہوجائے گا نگاہ اٹھائی اور گویا ہوئے جی کہیے میں ہی ہوں محمد یحیی ایک لمحے میں تو جیسے حیرت ناک کیفیت سے دوچار ہوگیا ارے یہ کیسی شخصیت ہیں کہ جن کے ہاں کوئی قاری ، حافظ ، یا مولوی کا لاحقہ کوئی معنی نہیں رکھتا اور یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت الاستاذ ایسی شناختوں اور علامتوں کو لایعنی اور بے مقصد جانتے ہیں یہ تو بالمشافہ کی بات ہے آپ کسی اجنبی سے بھی ملتے یا کسی پر فون پر گفتگو فرماتے تو تعارف کے لیے اپنی یہی تین لفظی شناخت پیش فرماتے «جی محمد یحیی گوندلوی» ضروری انٹرویو کے بعد مجھے حکم ہوا کہ رمضان المبارک ختم ہوجائے تو تعلیمی سلسلہ شروع ہو گا تو آپ بھی آجانا رمضان المبارک کے بعد مدارس میں جب تعلیمی سال کا آغاز ہوا تو میں بھی ان کے حلقۂ تدریس میں جاپہنچا ایسا پہنچا کہ پھر وہیں سے سند فراغت پائی

مولانا محمد یحیی گوندلوی پیدائش اور تعلیم و تربیت

 مولانا محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ نے نومبر 1952ءمیں گوجرانوالہ شہر کے نواحی قدیمی علمی اور ادبی قصبے گوندلوالہ میں محمد یعقوب بن جیون خان کے ہاں آنکھ کھولی آپ کے والد گرامی اک عام سادہ لوح مگر راسخ العقیدہ مسلمان تھے اولاد میں بڑا ہونے کی وجہ سے انہوں نے محمد یحیی کو سکول کی پانچ جماعتیں پاس کروانے کے بعد مزید تعلیمی کے لیے زاویہ بدلا جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات کی دام الفت میں لابٹھایا جامعہ اسلامیہ میں آپ نے جلیل القدر شیوخ سے علوم اسلامیہ کے روایتی نصاب درس نظامی کی تکمیل کی دوران تعلیم ہی آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان ممتاز حیثیت سے پاس کیا ایام طالب علمی میں آپ نے اک محنتی طالب  علم کے طور پر شناخت پائی اور ہر امتحان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں درس نظامی سے وقت فراغت آخری امتحان کے ممتحن شارح حدیث حضرت مولانا محمد حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ تھے مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی سے آپ کے خاندانی اور قریبی مراسم تھے دوران امتحان جب آپ نے ان کو بخوشی یہ بتایا کہ «فاضل عربی کا امتحان پاس کرلیا ہے» (تب فاضل عربی ہی نہیں بالکل صرف حفظ کی سند رکھنے والے لوگ بھی محکمہ تعلیم میں بطور مدرس بھرتی ہوجایا کرتے تھے ) مولاناعطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ آپ کی قابلیت کو جانچ چکے تھے لہذا حضرت نے حکم فرمایا کہ مدرسے سے فراغت کے بعد کبھی سکول کی ملازمت نہ کرنا خود کو دینی علوم کی آبیاری کے لیے وقف کیے رکھنا اس کے لیے تعلیم مزید کے لیے آپ کو تخصص کا مشورہ دیا لہذا آپ نے فراغت کے بعد فیصل آباد میں قائم ادارہ علوم اثریہ کا رخ کیا جہاں مولانا اسحاق چیمہ رحمہ اللہ اور مولانا ارشادالحق اثری رحمہ اللہ جیسے کبار علماء کرام سے  علوم و فنون میں مزید رسوخ حاصل کیا۔

دوران تخصص علوم حدیث آپ کی تحقیق کا عنوان رہے جس پر آپ نے ادارہ علوم اثریہ کی روایت کے مطابق اک مبسوط مقالہ لکھا شومئی قسمت سے وہ ابھی تک شائع نہیں ہوسکا علوم و معارف کی تحصیل مکمل کرنے کے بعد آپ نے فضیلۃ الشیخ عطا ءاللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے علوم دینیہ کی تدریس و ترویج کی راہ اپنائی اور تادم واپسیں اسی راہ پر گامزن رہے۔

تدریسی سرگرمیوں کا آغاز

1978 میں  علوم و فنون کی تحصیل سے فراغت پائی تو تدریس کی راہ پر گامزن ہوئے اس سفر کا آغاز دارالحدیث محمدیہ سے کیا جہاں آپ نائب مدرس اعلی کے عہدے تک پہنچے تھے کہ اس دوران صدر مدرس دارالحدیث محمدیہ حافظ آباد کے صدر مدرس مولانا داود علوی قتل ہوگئے اور یہ چلتا سلسلہ رک گیا دارالحدیث محمدیہ میں آئے تعطل کے بعد آپ کی خدمات قلعہ دیدار سنگھ میں قائم جامعہ رحمانیہ کے لیے حاصل کرلی گئیں عرصہ پانچ سال آپ وہاں مقیم رہے پھر بوجوہ وہاں سے چھوڑ کرفضیلۃ الشیخ حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمہ اللہ کے قائم کردہ دارالعلوم رحمانیہ منڈی فاروق آباد میں بطور صدر مدرس خدمات انجام دیتے رہے 1993 میں فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمہ اللہ کے مشورے سے جامعہ تعلیم القرآن والحدیث ساہووالہ منتقل ہوئے اور پھر یہیں سے اپنے سفر آخرت کے لیے روانہ ہوئے.

تدریس آپ کی مصروقیت کا بہانہ جبکہ تصنیف و تالیف اپ کا نہ صرف شوق بلکہ جنون تھا ہمیں جامعہ تعلیم القرآن والحدیث ساہووالہ میں ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا موقع میسر آیا جامعہ تعلیم القرآن والحدیث ساہووالہ کی جامع قلعہ والی میں قائم ہے جبکہ استاذ گرامی کی رہائش گاہ دارہ ککے زئیاں والی مسجد سے ملحق تھی آپ روزانہ بلاناغہ جامعہ میں تشریف لاتے طلباء کی علمی تشنگی مٹانے کے ساتھ ساتھ اپنے تصنیف و تالیف کے شوق کو بھی پورا فرماتے ہمہ قسم کی تصنع اور بناوٹ سے مبراء مسند پر تشریف فرما ہوتے تو کئی کئی گھنٹے اپنے کام میں جتے رہتے ساہووالہ کی سرزمین کے لیے یہ اک سنہری دور تھا کہ جب ملک بھر سے تشنگان علم آپ کی علمی مجالس سے فیضیاب ہونے کے لیے کھنچے چلے آتے اور آپ سبھی کا خندہ پیشانی سے استقبال فرماتے اور ان طلاب دین کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے روایتی درس نظامی کی تدریس سے ہٹ کر ہر سال رمضان المبارک میں دورہ تفسیر القرآن کا اہتمام کرتے جسے خیبر سے کراچی تک شائقین شریک ہوتے اور احباب جماعت ساہووالہ ان کی مثالی مہمان نوازی کے لیے پیش پیش رہتے. دورہ تفسیر القرآن کا ریکارڈ 90 آڈیو کیسٹوں کی صورت میں ترتیب دیا گیا تھا انتہائی کام کی شیء ہے اللہ کرے کوئی اس ریکارڈکو کتابی شکل میں شائع کرنے کی کوشش کرسکے

تصنیف و تالیف

لکھنے کا شوق تو آپ کو ایام طالب علمی ہی سے تھا درس نظامی کے دور میں ہی آپ نے اس کا آغاز کیا تھا اور دوران تعلیم ہی آپ کا پہلا مضمون کسی جماعتی رسالے میں شائع ہوا تھا اس کے بعد یہ سلسلہ ایسا چلا کہ آپ کے گوہر بار قلم سے قیمتی نوادرات منصۂ شہود پر آئے.

برصغیر پاک و ہند میں اہل حدیث کے عقائد و نظریات کو عقیدہ اہل حدیث کی صورت میں لکھ کے آپ نے ایک شاندار فریضہ انجام دیا یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہر اہل حدیث گھرانے میں ہونا چاہیے اس کے علاوہ داستان حنفیہ ، مقلدین آئمہ کی عدالت میں ، خیرالبراہین ، ضرب شدید ، مطرقۃ الحدید ، جرابوں پر مسح ، نداء لغیراللہ ، تحقیق تین طلاق ، طلاق اور شریعت محمدیہ ، ضعیف اور موضوع روایات ، موضوع روایات تاریخ واسباب ، دیوبندی عالم دین مولانا احمد سعید ملتانی نے قرآن مقدس اور بخاری محدث کے نام ایک کتاب لکھی تو آپ نے اس کا جواب لکھا اسی طرح کسی گمنام حنفی عالم نے شادی کی پہلی دس راتیں کے عنوان سے کتاب لکھی تو آپ نے اس کا جواب شادی کی دوسری دس راتوں کی شکل میں لکھا جس میں مسلک اہل حدیث پر کیے گئے وار کا مسکت و مدلل جواب دیا گیا شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب معیارالحق کو کئی دہائیوں کے بعد آپ نےنئی تحقیق اور دور حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق ، تخریج اور تنقیح سے مزین کرکے شائع کیا اس میں آپ کو برطانیہ سے «ذوالفقار» نامی کسی شخصیت کا تعاون حاصل رہا اور یہ قیمتی سرمایہ شائع ہوکے اہل ذوق کے ہاتھوں میں آیا.

امریکہ میں مقیم کچھ دوستوں کی ترغیب اور تعاون پر آپ نے احادیث مبارکہ کا ترجمہ اور تشریح کا عظیم کام انجام دیا.علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے جامع ترمذی کی شرح لکھی اور شائع کی احادیث کی تشریح و توضیح کے ضمن میں آپ نے امام ترمذی رحمہ اللہ کی سیرت پر لکھی ہوئی کتاب شمائل کا ارود ترجمہ وتشریح خصائل محمدی کے نام سے کیا اور یہ بھی ایک مرتبہ چھپ چکی ہے اسے آپ نے اپنی زندگی ہی میں شائع کرالیا تھا احادیث کی شروحات کے ضمن میں آپ نے سنن ابن ماجہ کی شرح بھی لکھی تھی آپ اس جہان فانی سے داربقاء کوچ کر گئے لیکن افسوس کہ انتہائی اہمیت کی حامل سنن ابن ماجہ کی آپ کے قلم سے لکھی اردو شرح ہنوز شائع نہ ہو سکی حدیث اور اہل حدیث کا دفاع آپ کا پسندیدہ موضوع تھا آپ حدیث یا اہل حدیث پر ہونے والے ہر قسم کے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے ہر وقت مقدور بھر تیار رہتے پاکستان کے کچھ عناصر کی جانب سے جب مصنف عبدالرزاق کا خود ساختہ جزء المفقود منصۂ شہود پر لایا گیا تو آپ نے اس کا مسکت و مدلل جواب لکھا اسی طرح کسی بھی سمت سے کسی بھی فتنے نے اسلام کی اجلی اور شفاف تعلیمات سے کے خلاف سر اٹھایا تو تحریری میدان میں اس کی سرکوبی کے لیے آپ موجود ہوتے آپ کی تحقیقی اور تصنیفی خدمات کے اعتراف میں شہر سیالکوٹ کے احباب جماعت کی طرف سے آپ کی کتاب خصائل محمدی شرح شمائل ترمذی کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میر تشریف لائے اور امیر محترم نے اک معقول رقم آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو پیش فرمائی جسے آپ نے قبول فرمایا

صحافت

جن دنوں آپ فاروق آباد مقیم تھے انہی دنوں آپ نے حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمہ اللہ کی زیر سرپرستی ترجمان السنۃ کے نام ایک جریدے کا اجراء کیا جو کامیابی سے جاری رہا اس کے علاوہ آپ ہفت روزہ اہل حدیث کے لیے بطور معاون مدیر خدمات انجام دیتے رہے اس کے ساتھ ساتھ آپ کے علمی اور تحقیقی مضامین جماعتی جرائد میں اتنی کثیر تعداد میں شائع ہوئے کہ انہی کو جمع کرلیا جائے تو ایک ضخیم مجموعہ ہائے مضامین شائع ہوجائے

ذوق تحقیق اور فن مناظرہ

تعلیمات اسلامیہ میں تحقیق کا ذوق ایسا تھا کہ ہر مسئلے کی تہہ تک پہنچتے اور جب حقائق واضح ہوجاتے تو اس پر عمل پیرا ہوجاتے تو پھر اپنے نظرئیے اور موقف کا ہر فورم پر دفاع کرتے اسی ضمن میں گوجرانوالہ کے مولانا عبدالرشید انصاری جو حقائق کو عدالتوں کے ذریعے پرکھنے کے حوالے سے الگ شناخت رکھتے تھے «عقیقہ ساتویں دن « کے حوالے سے انہوں نے ڈسکہ کی عدالت میں دعوی دائر کیا جہاں مولانا محمد حیات محمدی اور استاذ گرامی مولانا محمد یحیی گوندلوی کو فریق بنایا گیا مقدمہ عدالت کے روبرو لگا تو آپ بطور فریق پیش ہوئے اور بھرپور دلائل سے اپنے موقف کا دفاع کیا جس کا فریق مخالف سے جواب نہ بن پایا کرسی انصاف پر متمکن جج صاحب بھی آپ کی قابلیت اور مسائل پر گرفت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ آپ کے حق میں دینے پر مجبور تھے اس فیصلے میں آپ نے اور مولانا محمد حیات محمدی رحمہ اللہ نے مولانا عبدالرشید انصاری کی طرف سے مبلغ 10000 روپے وصول کیے

آپ کی انہی خداد صلاحیتوں کے اعتراف میں رئیس المناظرین حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ نے اپنی زندگی ہی میں جامع القدس چوک دالگراں میں پندرہ روز تربیتی مناظرہ کلاس کا انچارج مقرر فرمایا جہاں مولانا حافظ محمد عمر صدیق ، حافظ محمد یحیی عارفی ، مولانا خاور رشید بٹ ، مولانا عطاء الرحمان علوی اور مولانا محمد طیب محمدی جیسے عصر حاضر کے بڑے مناظرین نے آپ سے تربیت پائی۔

افتاء اور فتوی نویسی

آپ محقق تھے مصنف تھے اس کے ساتھ ہی کتاب و سنت کی روشنی میں فتوی نویسی پر بھی کمال مہارت رکھتے تھے جس کا جواب آپ کی سوچ کے مخالفین سے بھی نہ پن پاتا بلکہ وہ بھی آپ کے نظرئیے کے حامی بن جاتے ۔

اہل حدیث کے نظریات کے تحفظ کی خاطر راہوالی ضلع گوجرانوالہ سے مولانا محمد رفیق سلفی کی زیر قیادت ادارہ افکار المحدثین کا آغاز کیا گیا تو آپ اس کے ناظم بنائے گئے ادارہ افکار المحدثین کے تحت کچھ تحقیقی کام ہوا لیکن مولانا محمد رفیق سلفی اور استاذ گرامی ہر دو شخصیات کی رحلت کے ساتھ ہی وہ ادارہ بھی کہیں گردش ایام میں گم ہو کے رہ گیا

استاذ محترم بطور خطیب اسلام

مصنف اور محقق تو تھے ہی مگر آپ خطیب بھی لاجواب تھے دوران خطاب الجھی گتھیوں کو سلجھانہ تو ہم نے آپ سے سیکھا ہے شستہ مگر رواں دلائل و براہین سے مزین بغیر ترنم اور لگی لپٹی کے گفتگوتو جیسے  آپ کی ذات گرامی کا خاصا قرار پائی تھی آپ کے خطاب میں روایتی پنجابی خطابت کا رنگ کم جبکہ عالمی اور ملکی حالات پر گہری نظر دکھائی دیتی مختصر وقت میں جامع گفتگو فرماتے کہ لوگ آپ کے گفتگو سے مشعل راہ پاتے جس اسٹیج پر آپ موجود ہوتے وہاں کسی بھی خطیب کو موضوع ، من گھڑت روایات اور لایعنی گفتگو کی جرأت نہ ہوتی۔

سیرت وکردار

تمسک بالکتاب والسنۃ میں استاذ گرامی کسی بھی قسم کی مداہنت یا مصلحت کے قائل نہ تھے حق بات نتائج چاہے کچھ بھی ہوں  بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ جاتے مسائل میں اگرچہ اختلاف رکھتے لیکن ان اختلافات کو مخالف کی ذات تک نہ لے جاتے احترام کے رشتے باقی رکھتے یہی وجہ ہے کہ آپ کے جاننے اور چاہنے والوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے. آپ نے ساری زندگی سادگی سے بسر کی آپ نے جو راہ اپنائی تھی وہ مستقل مزاجی ، صبر اور تحمل ہی کا تقاضا کرتی ہے اسی لیے آپ جہاں گئے وہیں کے ہو رہے ساہووالہ میں آپ کو ایک مرتبہ گوجرانوالہ کے ایک بڑے دارالعلوم کی جانب سے اس دور میں آپ کو ملنے والی تنخواہ سے ڈبل تنخواہ اور دیگر سہولیات کی آفر ہوئی آپ نے ان سے خود معاملات طے کرنے کی بجائے انہیں اہل ساہووالہ کے روپرو کر دیا اور ساہووالہ کی جماعت کبھی بھی اس حق میں نہیں ہوسکتی تھی کہ آپ کی شخصیت ان سے الگ ہو جائے لہذا آپ ساہووالہ ہی میں مقیم رہے ۔

جماعتی وابستگی اور قائدانہ صلاحیتیں

مرکزی جمعیت اہل حدیث تحصیل سمبڑیال کا نظم پہلی مرتبہ ترتیب پایا تو اراکین جماعت نے بطور امیر آپ کا انتخاب کیا مرکزی جمعیت اہل حدیث سے آپ کی وابستگی اتنی ہی قدیم تھی جتنا  کہ آپ کا جماعتی تعارف زندگی کے آخری ایام میں آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث ضلع سیالکوٹ کے سرپرست تھے اس کے علاوہ سیالکوٹ میں جب مولانا صدیق اختر رحمہ اللہ کی سرپرستی میں تحریک تحفظ ختم نبوت اہل حدیث کا ڈول ڈالا گیا تو آپ کو اس کا امیر نامزد کیا گیا جبکہ مولانا عبد الحفیظ مظہر اس تحریک کے ناظم اعلی قرار پائے تحریک ختم نبوت اہل حدیث کے پروگراموں میں آپ بطور صدر مجلس شریک ہوتے اور سامعین کو اپنی قیمتی نصیحتوں سے بھی نوازتے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ساتھ بے لوث تعلق کے باوجود معاصر اہل حدیث تحریکوں اور تنظیموں کے مقامی اور ملکی سطح کے ذمہ داران آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے

استاذ گرامی مولانا محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ کی داستان حیات سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ کسی مقام یا جگہ کے طلبگار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جس مقام پر بیٹھ جائیں وہ مقام اور جگہیں ان لوگوں کی وجہ سے مرجع خلاق بن جاتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے