انٹرویو : ڈاکٹر محمدراشد رندھاوا رحمہ اللہ            ڈاکٹر مقبول احمد مکی

جناب محترم ڈاکٹر راشد رندھاوا صاحب جو کہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔موصوف اپنی تعلیم کے دوران کچھ عرصہ مغربی معاشرے میں رہنے کے باوجود بھی پوری طرح دین حنیف پر عمل پیرا رہے جو کہ دین اسلام کی حقانیت اور ہر زمانے میں قابل عمل ہونے کی واضح دلیل ہے۔ ڈاکٹر صاحب ملک بھر میں پھیلے ہوئے بیسیوں دینی مدارس کی سرپرستی فرمارہے تھے جن میں جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن، جامعہ دعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ اور عالم اسلام کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ قابل ذکر ہیں۔ دینی مدارس کے علاوہ موصوف کے تعارف میں ایک خاص بات ان کی کتاب اللہ کے ساتھ خصوصی محبت اور شغف ہے جس کا واضح ثبوت ان کی زیرنگرانی چلنے والے ادارے ،مثلاً :قرآن انسٹیٹیوٹ،قرآن آسان تحریک جیسے ادار ے تھے۔ دین اسلام کی محبت کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کادل عوام کی فلاح وبہبود کے جذبہ سے لبریز تھا،اور ان کی سرپرستی میں قائم ہونے والا ’’رضیہ شریف ٹرسٹ‘‘ دن رات دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کا مقدس فریضہ سرانجام دیتا رہا ۔ ڈاکٹر صاحب کی خداداد صلاحیتوں اور کامیاب منصوبوں کی بدولت آپ کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے دن دگنی اور رات چوگنی محاورۃً ہی نہیں بلکہ حقیقتاً ترقی کر تے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ آپ وفاقی بیت المال کے چیئرمین بھی رہے اور اپنے فرائض منصبی انتہائی امانت ودیانت سے ادا کیئے۔ ذیلی صفحات میں ڈاکٹر صاحب سے ان کی حیات میں لیا گیا انٹریوقارئین کے استفادہ کے لئے پیشِ  خدمت ہے۔

س: ڈاکٹر صاحب آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

ج: 16 مئی 1935ء کو فیصل آباد سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چک نمبر4 المعروف رحمان والی گاؤں میں پیدا ہوا۔

س: والد محترم اور دادا محترم کا مختصر تعارف ۔

ج : والد محترم کا اسم گرامی محمدشریف رندھاوا ہے، آپ معروف وکیل تھے اور فیصل آباد میں وکالت کرتے رہے پھر ان کی سلیکشن لاہور میں بطور مجسٹریٹ ہوئی اور اس کے بعد لاہور،میلسی،میاں والی اورکالا باغ میں بھی بطور مجسٹریٹ کام کرتے رہے۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد فیصل آباد میں وکالت شروع کردی۔ داد محترم پٹواری تھے اور ان کا نام چوہدری حسین محمد تھا۔

س: ابتدائی تعلیم وتربیت کہاں اور کن اساتذہ سے حاصل کی؟

ج: ہماری ابتدائی رہائش امین پور بازار گلی نمبر6 منشی محلہ فیصل آباد میں تھی۔ اسی محلے کی مسجد میں محترم حکیم عبد الرحیم اشرف رحمہ اللہ جمعہ پڑھاتے تھے۔بچپن سے ابتدائی تعلیم (ناظرہ قرآن وغیرہ) اسی مسجد میں محترم قاری عبد الغفار صاحب سے حاصل کی،پھر پرائمری تک تعلیم اسی محلے میں واقع پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد جب والد محترم بطور مجسٹریٹ لاہور ٹرانسفر ہوگئے تو وہاں سنٹرل ماڈل اسکول میں داخلہ لے لیا۔ اور آٹھویں جماعت اسی اسکول میں کی پھر والد محترم کا تبادلہ میلسی میں ہوگیا تو نویں جماعت میلسی میں کی ، پھر والد محترم فیصل آباد آگئے تومیٹرک کا امتحان مسلم ہائی اسکول میں دیا۔ پھر میٹرک کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے میڈیکل گروپ میں داخلہ لے لیا۔ 1953ء کو ایف ایس سی کا امتحان پاس کرکے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لےلیا۔ 1958ء میں میڈیکل کی تعلیم ختم کرکے میوہسپتال میں ہاؤس جاب شروع کردی پھر 1959ء میں اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ چلا گیا ۔ ستمبر 1959ء سے لے کر جولائی 1962ء تک امریکہ میں رہا۔ وہاں ہارورڈ یونیورسٹی سے ہارٹ اور شوگر میں اسپیشلائزیشن کیا،پھر جولائی 1962ء میں انگلینڈ چلا گیا اور وہاں 1962ء کے آخر میں ایم،آر،سی،پی گلاسکو 1963ء میں ایم ، آر،سی،پی ایڈن اور 1964ء میں ایم، آر،سی،پی لندن کا امتحان پاس کیا۔

س: ڈاکٹر صاحب کیا آپ ابتدائی زندگی سے ہی مذہب کی طرف رجحان رکھتے تھے؟

ج: ہاں ، الحمد للہ ابتدائی زندگی ہی سے میرا دین کی طرف رجحان تھا۔ دین کا لازمی حصہ (نماز،روزہ وغیرہ) شروع ہی سے میں ادا کرتا رہا ہوں اس کے علاوہ میرا رجحان پڑھائی کی طرف تھا یعنی مجھے دو ہی کام ہوتے تھے پانچ وقت کی نماز اور پڑھائی۔

س: شعبہ میڈیکل کی طرف کس نے راہنمائی کی اور کس مقصد کے تحت یہ شعبہ اختیار کیا؟

ج: میڈیکل کی طرف راہنمائی والد محترم نے کی تھی اور ان کی دلیل یہ تھی کہ یہ ایسا شعبہ ہے کہ نوکری ملے یا نہ ملے انسان کو کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔ اور اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ انسانیت کی خدمت ہو اور کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔

س: ڈاکٹر صاحب آپ نے ایک طویل عرصہ امریکہ میں گزارا تو آپ نے امریکی معاشرے کے اثرات کیوں قبول نہیں کیے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ مغربی معاشرے اورمشرقی معاشرے میں کیا فرق ہے؟

ج: نماز ایک ایسا عمل ہے جس کی پابندی میں نے ابتدائی ایام ہی سے شروع کر دی تھی اورمجھے نہیں معلوم کہ میں نے کبھی اس کو ترک کیا ہو۔ یہی وہ عمل ہے جو امریکی اثرات قبول کرنے میں مانع رہا کیونکہ امریکی معاشرے میں نماز کہیں بھی فٹ نہیں ہوتی۔مغربی معاشرے میں ہر انسان مصروف رہتاہے اورہرشخص کو اپنا مفاد عزیز ہوتاہے اس کی سوچ کا مرکز ومحور اپنی ہی ذات ہوتاہے۔خاندان،والدین اورعزیز ورشتہ دار سے کٹ کر انسان اپنے ہی نفس میں گم رہتاہے۔ مغربی معاشرہ ایک مادہ پرست اورجانوروں جیسی زندگی گزارتاہےجیسے جانور اپنی ہر خواہش کو ہر قیمت پر پورا کرنا چاہتے ہیں ایسے ہی مغربی معاشرے کے افراد کی زندگی کا مقصد بھی یہی ہے وہ اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل کےلیے اور دنیا کے حصول کے لیے مصروف رہتے ہیں۔ کہ جو وہ کرنا چاہیں کرگزریں اسی کو وہ آزادی اظہار رائے کا نام دیتے ہیں۔

مشرقی معاشرہ میں خاندان، والدین،رشتہ دار ،دوست واحباب کا ایسا زبردست اخوت ومحبت کا تعلق وروابطہ ہوتاہے کہ آپ حیران ہوں گے میں نے پانچ سال کا عرصہ باہر گزارا ہے مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کسی اتوار کو خط نہ لکھا ہو اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرا کہ اس کا جواب نہ آیا ہو۔پانچ سال کا عرصہ یوں گزرا گویا کہ میں اپنے رشتہ داروں کے درمیان بسر کر رہا ہوں جب میں واپس آیا تو یہ خطوط ایک بوری پرمشتمل  تھے۔

س : آپ کی شادی کب کہاں اور کتنے بچے ہیں؟

ج: میری پہلی شادی میرے چچا کی بیٹی کے ساتھ ہوئی جس سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی اور دوسری شادی میری خالہ کی بیٹی کے ساتھ ہوئی جس سے ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہوئیں۔

س: آپ کو بیت المال کا چیئرمین کس نے مقرر کیا؟

ج : اسلام کے نفاذ کی راہ کو ہموار کرنے کے لیے نواز شریف نے مجھے بیت المال کا چیئرمین مقرر کیا۔اس ذمہ داری کو میں نے بغیر تنخواہ کے سرانجام دیا۔ باقاعدہ بیت المال کا ایک نظام مقررکیا۔ ہر آدمی کا اکاونٹ کھولتے تھے اور براہ راست اس کے اکاونٹ میں چیک بھیج دیتے، کسی آدمی کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ مستحقین سے پیسے لے۔

س : ڈاکٹر صاحب سنا ہے کہ نواز شریف نے آپ سے پیسے مانگے تھے تو آپ نے انکار کر دیا، کیا یہ حقیقت ہے؟

ج: ہاں ! نواز شریف نے مجھ سے پیسے مانگے تھے تاکہ میں خود لوگوں کو تقسیم کروں تو میں نے انکار کر دیا تھا کیونکہ ہم نے بیت امال کا نظام مقرر کیا تھا جس کے ذریعے ہم لوگوں میں تقسیم کرتے تھے اس لیے میں نے اس کو دینے سے انکار کردیابلکہ میں نے اس کو کہا کہ اگر آپ ضرور لینا چاہتے ہیں تو آپ بھی ایک ارب دینے کی بجائے 80 کروڑ دےدیںپھر اس نے اپنے وزراء کے کہنے پر پہلے 20کروڑ کاٹ لیے۔ پھر میں نے باقاعدہ چیک کیا جہاں اس نے تقسیم کیے تھے تو میں نے اس کو صحیح پایا۔

س : بیت المال سے علیحدگی کا سبب کیا تھا؟

ج: جب بے نظیر اقتدار پر آئی تو میں چونکہ اس کو لیڈر تسلیم نہیں کرتا تھا اس لیے میں نے اس ذمہ داری سے استعفیٰ دے دیا۔ بے نظیر نے اقتدار میںایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جو بیت المال کے نظام کو چیک کرے لیکن الحمد للہ بیت المال کے نظام سے ایک روپے کا فراڈ بھی ثابت نہ کیاجاسکا۔

س: آپ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ آپ شریف فیملی کے ڈاکٹر رہےہیں، آپ نے حکمران خاندان کو کیسا پایا؟

ج: ستمبر 1964 کو جب میں پاکستان آیا تو میں نے تین چار ماہ کے بعد پریکٹس کا بورڈ لگادیا۔ تومیرے ابتدائی مریضوں میں سے میاں شریف شامل ہیں۔میاں صاحب اس وقت میرے پاس آئے اور چیک اپ کروایا پھرساری زندگی مجھ ہی سے چیک اپ کرواتے رہے اور اسی مناسبت سے میرا شریف فیملی میں آنا جانا شروع ہوگیا اور پھرساری فیملی میری معتقد بن گئی۔

س: ڈاکٹر صاحب سنا ہے کہ آپ ضیاء الحق کے بھی ذاتی معالج رہے ہیں کیا یہ بات صحیح ہے؟

ج: ضیاء الحق صاحب کا میں معالج نہیں رہا بلکہ جب میں امریکہ سے پاکستان آیا تو ضیاء صاحب نے پاکستان کے چند ہارورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹروں کو آرمی آفس میں مدعو کیاتواس وقت میری ضیاء صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اس وقت میں نے اُن سے سوال کیا کہ اسلام کے نفاذ کیلئے کتنا وقت چاہیے؟ تو وہ کہنے لگا بس نفاذ کیلئے ایک حکم کی ضرورت ہےنافذ ہوجائے گا۔ اس وقت وہ تین مہینوں کا وعدہ کر کے آئے تھے تو میں نے اُن سے کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین مہینے دیئے ہیں اگر آپ ان تین مہینوں میں نافذ نہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ کوکیا جواب دیںگے؟ تو صدر صاحب سوچ میں پڑ گئے مگر میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔

س:ڈاکٹر صاحب آپ بتائیں کہ اسلام کے نفاذ کیلئے کس حکمران نے کوشش کی اور کہاں تک ؟

ج: نفاذ اسلام کیلئے اگر تاریخ پاکستان میں کسی نے کوشش کی ہے تو وہ ضیاء الحق ہے جس نے سنجیدہ ہوکر کوشش کی۔نواز حکومت نے بھی کوشش کی ہے مگر ضیاء جتنی نہیں۔

جب نواز فیملی کے ساتھ میرا تعلق قائم ہوا تو میں نواز کو نفاذ اسلام کے لیے کہتا تھاتو ایک دن وہ کہنے لگا ڈاکٹر صاحب پھر آپ بتائیںکہ یہ نفاذ کیسے ہوگا؟ اس وقت ایک عظیم مجاہد قاری نعیم الحق نعیم(ایڈیٹر ہفتہ روزہ الاعتصام، فاضل مدینہ یونیورسٹی) دینی امورمیں میری بہت مدد کیاکرتے تھے تو میں نے ان سے کہا کہ نواز شریف نے کہا کہ مجھے لکھ کردو نفاذاسلام کیسے نافذ ہوگا؟ پھر اس عظیم مجاہد نے ایک مکمل طریقۂ کار لکھ کر دیا تو میں اس کو لے کر گیا۔ اس وقت شریف فیملی شہباز،نواز،میاںشریف اوردیگر فیملی کے افراد اور اہم وزراء کی میٹنگ ہو رہی تھی تو میں نے اُن کو یہ طریقۂ کار دیا۔ دو یا تین دن کے بعد روز نامہ نوائے وقت نے مکمل تفصیل کے ساتھ اس کو پہلے صفحہ کی مین ہیڈنگ کے ساتھ شائع کیا۔

س: ڈاکٹر صاحب آپ نے شریف فیملی کو قریب سے دیکھا شریف فیملی کی ترقی کا اصل راز کیا ہے؟

ج: شریف فیملی کی ترقی کا سارا دارومدار میاں محمدشریف کی محنتوں پر ہے۔شریف فیملی کی مثال ریل گاڑی کی طرح ہے۔ جس سپیڈ کے ساتھ اس خاندان کا انجن(میاںشریف) چلتا رہا اسی رفتار سے اس کے ڈبے چلتے رہے۔ جس طرح ریل کے ڈبے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہوتےہیں، اسی طرح شریف فیملی کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس اتحاد واتفاق کی وجہ سے کامیابی نے اُن کے قدموں کو چوما۔ ایک دن بطور معالج میں نے میاں شریف سے ان کے چوبیس گھنٹوں کے معمولات کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے اس کا پوری تفصیل کے ساتھ جواب دیا کہ میں رات کو ٹھیک نو بجے سوجاتاہوں جس کی وجہ سے صبح ٹھیک تین بجے بغیر الارم کے میری آنکھ کھل جاتی ہے، سب سے پہلے میں ورزش کرتاہوں یہاں تک کہ سارا جسم پسینے سے شرابور ہوجاتاہے۔پھر غسل کرنے کے بعد نماز تہجد کی ادائیگی ،قرآن مجید کی تلاوت کا سلسلہ نماز فجر تک جاری رہتاہے۔ 7 سے 8 بجے تک نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر اپنے بزنس کے متعلق ڈسکس کرتاہوں۔ 8بجے تک سارا عملہ حاضر ہوجاتاہے۔ ان کے مسائل سننے کے بعد حل کرکے 12 بجے تک گھر واپس پہنچ جاتاہوں۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد نماز ظہر ادا کرتاہوں نماز سے فارغ ہوکر اتفاق فاؤنڈری فیکٹری کا وزٹ کرتاہوں۔واپس پر اتفاق ہسپتال میں رک جاتاہوں تاکہ لوگوں کے مسائل حل کروں اور ان کی ضروریات کو پورا کروں، عصر کی نماز ہسپتال کی مسجد یا اپنی مسجد میں ادا کرتاہوں، عصر سے لے کر مغرب کا وقت خاندان کے لیے مختص ہوتاہے جو کوئی مشورہ لینا چاہیے یا اپنا مسئلہ حل کرنا چاہیے یا کسی موضوع پر بات کرنا چاہے تو وہ مجھے مل لیتا ہے۔نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد کھانا کھا کر نماز عشاء تک چہل قدمی کرتاہوں ، نماز عشاء کے بعد اگر نو بجنے میں چند منٹ باقی رہتے تو خبریں وغیرہ سنتا ہوں اور پورے 9 بجے سو جاتاہوں۔

میں نے ان سےپوچھا کہ اس پروگرام پر عمل کتنا ہوتاہے؟ کہنے لگے سارے سال میں صرف ایک دن اس پر عمل نہ کر سکا۔ وہ بھی 27رمضان المبارک کی رات تھی جو ہم نے مسجد میں گزاری جس کی وجہ سے اس دن عمل نہ کر سکا۔ یہ تھا شریف فیملی کا انجن جس کی مسلسل جدوجہد کی وجہ سے شریف فیملی نے ترقی کی ۔

س: آپ کے روز مرہ کے معمولات کیا ہیں ؟

ج : روزمرہ کے معمولات میں میں عشاء کی نماز کے بعد مسنون اذکار پڑھتا ہوں پھر لائٹ کو مکمل طور پر بند کرکے سو جاتاہوں۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے کہ لائٹ بند کرکے سونا چاہیے صبح اٹھ کر نماز تہجد ادا کرنے کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرتاہوں یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوجاتی ہے پھر نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد میں چلا جاتاہوں ، نماز کے بعد مسنون اذکار پڑھتا ہوں یہاں تک کہ اشراق کی نماز کا وقت ہوجاتاہے پھر نماز اشراق پڑھ کر ہی گھر لوٹتا ہوں اس کے بعد ناشتہ کرکے ایک یا ڈیڑھ گھنٹے کے لیے آرام کرتاہوں۔ساڑھے نو بجے سے لے کر ظہر کی نماز تک کلینک میں رہتاہوں پھر نماز ظہر پڑھ کر اور کھانا کھا کر تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتاہوں پھر عصر کی نماز پڑھ کر اپنے کلینک چلا جاتاہوں، عصر سے لے کر مغرب تک اور مغرب سے عشاء تک کلینک میں رہتاہوں۔ عشاء کی نماز پڑھ کر گھر واپس آتاہوں۔

س: ڈاکٹر صاحب ماشاء اللہ آپ کی اچھی اور دمکتی صحت کا راز کیا ہے ؟

ج: صبح کے ناشتے میں گندم کے دلیہ کو شہد ملے دودھ میں مکس کرکے اور ساتھ ہی ایک کپ دودھ میں شہد ملا کر پیتا ہوں یا شامی کباب اور انڈا ابلا ہوا کھاتاہوں۔دوپہر اور رات کے کھانے میں چپاتی،سالن،سلاد اور پھل موسم کے مطابق اور رات کو سونے سے پہلے دودھ میں شہد ملا کر پیتاہوں۔اس کے علاوہ میں بادام اور چاروں مغز بھی استعمال کرتاہوں جس سے دماغ ایسا تیز ہوتاہے کہ انسان دنگ رہ جاتاہے۔

س: ڈاکٹر صاحب آپ اپنی مصروف ترین زندگی میں قرآن کریم کو کتنا وقت دیتے ہیں؟

ج: الحمد للہ میںنے آج کل ستر سال کی عمر میں حفظ کرنا شروع کیا اوردوسپارے حفظ کرلیے ہیں۔ نماز فجر کی امامت خود کرواتاہوں جس سے منزل بھی پختہ ہوتی اور قرآن کی مٹھاس بھی حاصل ہوتی ہے۔ نماز میں پچاس آیات تلاوت کرتاہوں۔ آج کل اہلحدیث بھی نماز فجر میں زیادہ قرآن نہیں پڑھتے جس کی وجہ سے ہماری زندگیاں تنگ ہورہی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى ۰۰۱۲۴

’’اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے معیشت تنگ ہوگی اور قیامت کےروز ہم اسے انڈھا کرکے اٹھائیں گے۔‘‘(طہ:124)

س : عوام الناس میں جلد از جلد علاج کے لیے کثرت سے دوائیوں کے استعمال کے رجحان کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟

ج: انسان کا کوئی بھی مرض ایسا نہیں جس کو اللہ تعالیٰ خودبخود ٹھیک نہ کردے جیسے ہی کوئی مرض اس کو لگتاہے تو اسی وقت اس کو صحیح کرنے میں سارے باڈی کے نظام میں ہلچل مچ جاتی ہے کہ فلاں جگہ پر تکلیف ہورہی ہے وہاں جاکر اسے ٹھیک کرو۔ جسم کا ہر ایک حصہ اس کو ٹھیک کرنے میں لگ جاتاہے۔ آج کل عوام الناس میں جو یہ تأثر ہے کہ مجھے زکام لگ گیا دوائی لے آؤں، پیٹ خراب ہوگیا دوائی لے آؤں یہ بڑا غلط تأثر ہے کیونکہ ہر چیز خود ٹھیک ہوتی ہے اس لیے دوائیوں کا استعمال کم سے کم کریں۔ ہر بیماری کو ٹھیک ہونے کاایک دودن تک قدرتی طور پر ٹھیک ہونے کا انتظار کریں۔ اگر دن بدن تکلیف بڑھ رہی ہو تو پھر اپنے معالج سے رابطہ کریں اور اگر کم ہورہی ہو تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے جسم کا نظام اسے خود ہی ٹھیک کر دے گا۔ بہت سی بیماریاں جیسے پیچس لگ جانا ، ان کو چوبیس گھنٹوں میں روکنا نہایت مضر ہے کیونکہ پیچسوں سے جسم کے اندر موجود زہریلے مادے خارج ہوتے ہیں اور اگر دوائی لے لیں تو یہ مادے جسم کے اندر رہ جاتے ہیں اور جسم کو مزید خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ جب انسان اپنی زندگی سنت رسول ﷺ کے مطابق گزارنا شروع کر دے توطبی سہولیات کی ضرورت بہت کم رہ جاتی ہے۔ یہ ہے اصل راز زندگی گزارنے کا ، جیسا کہ کھانا کھانے کے بعد کلی کر لیں دانتوں کو تو نوے (90) فیصد بیماریاں ٹھیک ہوجاتی ہیں ، اگر مسواک یا برش بھی کرلیں تو پچانوے (95) فیصد بیماریاں خودبخود ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ طبی سہولیات بہت ہیں مگر اصل بیماری کی جڑ یہ ہے کہ ہمارا لائف اسٹائل اسلامی کی بجائے مغربی ہوتا جارہاہے جس کی وجہ سے انسان کی صحت میں فتور پیدا ہورہاہے۔ صحت کا راز یہ ہے کہ اگر انسان رسول اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے نظام حیات پر چلے جو کہ انسان کی تمام روحانی اور جسمانی بیماریوں کا ضامن ہے اور جس کی وجہ سے تمام بیماریاں ( إن شاء اللہ) آٹو میٹک ختم ہوجائیں گی۔

س : آپ کے کلینک میں غریبوں کے لیے بھی کوئی کوٹہ مخصوص ہے؟

ج: ہاں ، جمعرات کو ہم نے غرباء کے لیے مخصوص کیا ہوا ہے جس میں میں اور میرا بیٹا مل کر مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں۔ تقریباً ہم سو سےزیادہ مریض چیک کرتے ہیں، جو شخص بھی فری چیک اپ کروانا چاہے تو وہ جمعرات کو دکھا سکتاہے اور کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر عام دنوں میں بھی کوئی شخص اپنی صورتحال بتاکر فیس کم کروانا چاہے تو اس کو یہ سہولت فراہم کر دی جاتی ہے۔

س : ڈاکٹری نقطہ نظر سے جلدی سونے کے کیا فوائد ہیں؟

ج: رات ساڑے نو سے لے کر صبح ساڑھے تین بجے تک جوآدمی سوجائے لیکن شرط یہ ہے کہ لائٹ بند کرکے سوئے(ہلکاگرین یا سرخ رنگ کا زیروبلب روشن رہے تو کوئی حرج نہیں) تو جسم کے اندر ایک ایسا ہارمون پیدا ہوتاہے جو جسم کے باقی تمام ہارمنز کابیلنس قائم کرتاہےاور تمام جسم اور دماغ میں سارے دن کی محنت ومشقت جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کی اصلاح کرتاہے اس طرح جب آدمی صبح اٹھتاہے تو اس کے دل ودماغ کی مکمل اصلاح ہوچکی ہوتی ہے۔ رات کے آرام کا وقت جتنا کم ہوتا چلا جائے گا اتنا ہی اس کے دل ودماغ کی اصلاح کی صلاحیت کم ہوتی چلی جائے گی۔ جو لوگ رات کو دیر تک ٹیلی ویژن، وی سی آر، کیبل ،کمپیوٹر اور موبائل کے آگے بیٹھے رہتے ہیں رات کو لیٹ سوتے ہیں ان کے جسم اور دماغ کی مکمل طور پر اصلاح ہونا ممکن نہیں۔ اس کے بعد اگر وہ سارا دن بھی سوجائیں تو ان کے مطلوبہ ہارمونز کی تعداد پوری نہیں ہوسکتی۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے رات کوانسان کے آرام کے لیے بنایا جیسا کہ فرمان ربانی ہے :

وَّ جَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًاۙ۰۰۹وَّ جَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًاۙ۰۰۱۰ (النبأ: 9۔10)

’’اور تمہاری نیند کو باعث سکون بنایا اور رات کو لباس( پردہ پوش) بنایا۔‘‘

س : آپ کا شعبہ انسانی جسم کے متعلق ہے تو جب آپ اپنی پروفیشنل نگاہ سے انسانی جسم کو دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیا تأثرات پیدا ہوتے ہیں ؟

ج : ان چیزوں کو جاننے کے بعد آدمی کا یقین محکم ہوجاتاہے کہ اللہ تعالیٰ مقدس کتاب قرآن مجید کے بغیر انسان کبھی بھی حقیقت حال تک نہیں پہنچ سکتا اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین میں بھی یہی حقیقتیں پنہاں ہیں۔ آج سے چھ سات سال پہلے اسی قسم کا انکشاف ہوا بلکہ قیامت تک اسی قسم کے انکشافات ہوتے رہیں گے۔ اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے فرامین اور رسول اللہ ﷺ کے احکامت کو مِن وعَن تسلیم کرکے اس پر عمل پیرا ہو۔ اسی سے ہی انسان کی دنیا سنور سکتی اور آخرت کی نجات ممکن ہے۔

س : رسول اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ دل درست ہوگا تو پورا جسم درست ہوگا ، کیا جدید میڈیکل تعلیم سے اس حدیث کی تائید ہوتی ہے ؟

ج : حقیقت یہی ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ (صحیح بخاری ، کتاب الایمان ، الحدیث : 50)

جو چیزیں انسان کے جسم کو درست کرنے کے لیے لازم ہیں ان میں صف اول دل ہے۔ اگر دل کو صحیح کر لیا جائے تو باقی سارا جسم بھی درست ہوجاتاہے اگر دل درست نہ ہو تو باقی جسم میں بھی بگاڑ پیدا ہوتاہے۔ اس کو صحیح کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے فرامین کے مطابق زندگی گزاریں۔ نماز کو قائم کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ

’’اور نماز کو قائم کرو یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔‘‘(العنکبوت : 45)

قرآن پاک کو سوچ سمجھ کر پڑھنا رسول اللہ ﷺ کے بتلائے ہوئے کلمات سے اپنے رب کو یاد کرنا رسول اللہ ﷺ کی بتلائی ہوئی دعاؤں کو ان کے موقع پر پڑھنا اور زندگی کا ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق کرنا یہ ساری چیزیں انسان کے دل کی اصلاح کرتی ہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف رکھنے کے لیے ان احکامات وفرامین پر عمل کرے تاکہ انسان کا دل صحیح ہو اور باقی دل بھی محفوظ ومأمون رہے۔

س : ڈاکٹر صاحب نوجوان نسل آج بے راہ روی کا شکار ہے ان کو کوئی نصیحت آموز راز بتائیں جس سے نوجوان نسل اپنی شاہراہ زندگی کو ایک نئے ٹریک پر لاسکیں۔

1۔ نوجوان نسل کو میں وہی نصیحت کرتاہوں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے بتلائی کہ نماز کو قائم کرو کیونکہ نماز ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو اس کی منزل کی طرف پہچانے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ جس نے پانچ وقت کے نظم کو توڑ دیا تو اس کی زندگی انتشار کا شکار ہوجائے گی۔ اس لیے زندگی کے دھارے کو صحیح ٹریک پر چلانے کے لیے نماز ہی معاون ثابت ہوگی جس طرح انسانی جسم کے لیے ہڈیوں کا درست ہونا ضروری ہے اسی طرح انسان کے سارے نظام زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے نماز ضروری ہے۔ اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ پانچ وقت کی نماز ادا کریں۔

2۔ اپنی منزل کو تلاش کرنے کے لیے ہر وقت اللہ تعالیٰ سے مدد اور مطلوبہ منزل کے لیے بھرپور محنت کریں۔

3۔ قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں کیونکہ قرآن بہت سی پریشانیوں اور مصیبتوں کا علاج ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے