قال الله تعالي:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًاؒ۰۰۵۹ (النساء:59)

وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  وَمَنْ يُطِعِ الأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ يَعْصِ الأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي(صحيح البخاري ، كتاب الجهاد، رقم الحديث:2957، ومسلم،كتاب الامارة، رقم الحديث : 3417)

’’ جس نے امیر کی خوش دلی سے اطاعت کا شرف حاصل کیا گویا کہ اس (خوش نصیب) نے میری(یعنی سید الاولین والآخرینﷺ) کی اطاعت کا شرف عظیم حاصل کیا اور جس (بدنصیب) نے (مدینۃ الرسول ﷺ) کی نسبت سے متعین امیر کی نافرمانی کے جرم عظیم کا ارتکاب کیا گویا اس نے براہ راست سید الاولین والآخرین ﷺ کی نافرمانی کے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا۔‘‘

اسلامی مقدس مدنی معاشرے کی مقدس ترین اساس کسی رنگ،نسل، زبان، ذات پات ، وطن، صوبہ، ضلع، کسی بھی خون اور مٹی پر ہرگز ہرگز نہیں بلکہ صرف اور صرف فرمانِ باری تعالیٰ :

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ۰۰۱۳ (الحجرات : 13)

’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد( سیدنا آدم علیہ السلام) اور ایک عورت ( سیدہ حوا علیہا السلام) سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہارے بڑے بڑے قبائل اور چھوٹے چھوٹے خاندان بنائے تاکہ ایک دوسرے کی پہچان ہوسکے بیشک تم میں سب سے زیادہ اللہ کے دربار میں عزت وتکریم کا مستحق وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے۔‘‘

فضیلت صرف اور صرف ایمان اور تقویٰ کی بنیاد پر ہے کوئی بھی خوش نصیب صحیح معنوں میں دینی،تحریکی زندگی کے کمال تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وطن دین پر قربان کرکےہجرت اختیار کرنے کی سعادت حاصل نہ کرے۔

علامہ اقبال رحمہ اللہ نے سچ فرمایا :

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذمب کا کفن ہے

قیاس اپنی قوم کو اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

مدینۃ الرسول ﷺ سے وابستہ چھپن(56) سلطنتوں بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے دینی ملی بھائیوں کی مثال سید الاولین والآخرین ﷺ کے فرمان کے مطابق

تَرَى المُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى»(صحیح البخاری، کتاب الادب، الحدیث:5552 ، صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ،الحدیث : 4685)

یعنی آپ اہل ایمان کو آپس میں رحیم کریم رشتہ مؤدت وشفقت میں ایسے پأئیں گے جیسے صرف اور صرف ایک جسم ہو ، جیسے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بخار سے بے چینی بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتاہے۔

پوری دنیا میں امت مسلمہ تمام علاقائی،لسانی، وطنی، صوبائی،ذات پات اور فرقہ واریت سے کٹ کر (كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ) ہے۔ جیسے سیدنا امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مبارک خلافت کے زمانے میں ایک شخص دمشق سے چل کر مدینہ منورہ حاضر ہوتاہے سیدنا امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں : آپ اتنی دور سے مسافت طے کر کے آئے ہیں مختلف رنگ، علیحدہ علیحدہ زبان الگ الگ علاقے کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے سب کو کیسے پایا؟ وہ مسافر اپنے پاکیزہ حقیقی عینی مشاہدہ پر مشتمل تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے عرض کرتاہے ۔

یا امیر المؤمنین! ایسے جیسے ایک ماں کے بیٹے ہوں۔ ( تذکرۃ الحفاظ)

ایسے مقدس ترین اسلامی مدنی امن وخوشحالی کے گہوارے معاشرے کے قیام اور استحکام میں نظم امارت کے فریضے پر عمل پیرا ہونے کو ایسے ہی اہمیت حاصل ہے جیسے دل کو جسد میں اور زندگی کے لیے روح کو حاصل ہے۔ اسی لیے سید الاولین والآخرین امام الانبیاء سیدنا ومرشدنا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ رحمت للعالمین ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَحِلُّ أَنْ يَنْكِحَ الْمَرْأَةَ بِطَلَاقِ أُخْرَى، وَلَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَبِيعَ عَلَى بَيْعِ صَاحِبِهِ حَتَّى يَذَرَهُ، وَلَا يَحِلُّ لِثَلَاثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِأَرْضِ فَلَاةٍ إِلَّا أَمَّرُوا عَلَيْهِمْ أَحَدَهُمْ (مسند احمد :6647 وقال احمد شاكر إسناده صحيح)

كسي جنگل بیابان میں بھی تین ( دینی اسلامی بھائی) آباد ہوں تو آپس میں کتاب اللہ وسنت سید الاولین والآخرین ﷺ کے مطابق (وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ) (الشوری:38)

لَا خِلَافَةَ إِلَّا عَنْ مَشُورَةٍ(کنزل العمال،ج:3، ص:92)

مشورہ کر کے ایک بھائی کو اپنا امیر مقرر کر لیں۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ(صححه الالباني ، سنن ابي داود، كتاب الجهاد، رقم الحديث:2241)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بیشک نبی کریم جناب محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’تین (مسلمان دینی بھائی) سفر اختیار کریں تو ایک بھائی کو اپنا امیر مقرر کر لیں۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ (صححہ الالبانی فی سنن ابی داود)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سید الاولین والآخرین جناب محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تین (اسلامی دینی مدنی ) بھائی سفر میں ہوں تو ایک دینی بھائی کو اپنا امیر بنالیں۔‘‘

عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَقُصُّ إِلَّا أَمِيرٌ، أَوْ مَأْمُورٌ، أَوْ مُخْتَالٌ» ( رواہ أبو داود ، کتاب العلم ، الحدیث : 3180 ، مسند احمد : 22867 قال الالبانی حسن صحیح ، صحیح ابی داود ، الحدیث : 3113 ، المشکاۃ: 2405)

سیدنا عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ وعظ صرف اور صرف امیر کرے گا یا وعظ ونصیحت کے فرائض وہ سر انجام دے گا جس کو امیر حکم دے گا تیسرا شخص جو نہ ( امیر ہو نہ مأمور ہو) تقریر کرے گا تو مختال ہوگا۔

اور مختال سے متعلق سید الاولین والآخرین رحمت للعالمین ﷺ نے یوں وعید فرمائی :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَخْتِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ مِنَ اللِّينِ، أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ السُّكَّرِ، وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الذِّئَابِ، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَبِي يَغْتَرُّونَ، أَمْ عَلَيَّ يَجْتَرِئُونَ؟ فَبِي حَلَفْتُ لَأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ مِنْهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الحَلِيمَ مِنْهُمْ حَيْرَانًا(رواہ الترمذی، باب الریاء والسمعة، کتاب الزھد، الحدیث : 2328،حكم الألباني بضعفه)

سیدنا امیر المؤمنین فی الحدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےوہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : آخری زمانے میں ایسے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو دین کے لبادے میں دنیا کی (حب مال وحب جاہ) زیب وزینت ان کا مقصود ہوگا لوگوں کی آنکھوں میں مٹی ڈالنے کے لیے (نمود ونمائش) بھیڑ کی کھالوں کو زیب تن کریں گے (بظاہر عاجزی وانکساری نرمی ولینت کے اظہار کے لیے) ان کی زبانیں چینی سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل ہوں گے۔ (اعاذنا اللہ منھا)

اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میرے ساتھ ( میرا نام استعمال کرکے) دھوکہ کرتے میرے گھر پر ڈاکہ ڈالنے کی جرأت کرتے ہیں میری ذات کی قسم میں ایسے ایسے فتنوں میں ان کو مبتلا کروں گا کہ بردبار سے بردبار شخص بھی حیرت زدہ ہوجائیں گے کہ یہ (مصیبت) کہاں سے آگئی۔

سید الاولین والآخرین ﷺ کے انہیں فرامین کے پیش نظر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’اہل دنیا کے معاملات کی تولیت اور حفاظت خلیفہ کے اہم فرائض میں داخل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق بظاہر منفرد ہے لیکن احتیاجات ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر وابستہ ہیں کہ زندگی اجتماعی گزارنی پڑتی ہے تاکہ اختلافات ونزاع سے پیدا شدہ مسائل اس کے پاس طے ہوجایا کریں۔ اسی واسطے محمد عربی ﷺ نے فرمایا کہ اگر تین آدمی بھی کسی سفر میں ہمراہ چل رہے ہوں تو ضروری ہے کہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر منتخب کر لیں۔ ( ایام خلافت راشدہ، مصنف عبد الرؤوف جھنڈانگری، ص : 40)

اسی طرح مسند احمد کی روایت میں ہے کہ زمین کے کسی گوشہ میں اگر صرف تین آدمی آباد ہوں تو اس اجتماع قلیل میں بھی لازم ہے کہ اپنے میں سے کسی اہل کو دیکھ کر اپنا سردار متعین کرلیں۔ ( مسند احمد روایت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما)

شیخ الاسلام رحمہ اللہ ان احادیث کو نقل کرکے لکھتے ہیں کہ جب عارضی سفر اور قلیل ترین آبادی میں ایک شخص کا امیر بنانا لازم ہے دوسرے تمام چھوٹے بڑے اجتماعات کیلئے رئیس وامیر کا انتخاب بہر وجہ اولیٰ ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو فرض فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا نفاذ بلا امیر شرعی ممکن نہیں۔ ( السیاسیہ الشرعیہ ، ص : 77)

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے