26-190- حدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ يُونُسَ قَالَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْجَعْدِ قَالَ سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ .

عبدالرحمن بن یونس، حاتم بن اسماعیل، جعد، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میری خالہ مجھے نبی کریم ﷺ کے پاس لے کرگئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! میرا بھانجا بیمار ہے۔ تو آپ ﷺنے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا۔ پھر میں آپ کے پس پشت کھڑا ہوا اور مہر نبوت کو دیکھا جو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان چھپر کھٹ کی گھنڈی (یا کبوتری کے انڈے) جیسی تھی۔

Narrated As-Saib bin Yazid: My aunt took me to the Prophet and said, «O Allahs Apostle! This son of my sister has got a disease in his legsSo he passed his hands on my head and prayed for Allahs blessings for me; then he performed ablution and I drank from the remaining water. I stood behind him and saw the seal of Prophet hood between his shoulders, and it was like the «Zir-al-Hijla» (means the button of a small tent, but some said ‘egg of a partridge.› etc.

وروى بسند آخرحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنِ الْجُعَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ رَأَيْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ ابْنَ أَرْبَعٍ وَتِسْعِينَ جَلْدًا مُعْتَدِلًا فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ مَا مُتِّعْتُ بِهِ سَمْعِي وَبَصَرِي إِلَّا بِدُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ خَالَتِي ذَهَبَتْ بِي إِلَيْهِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ ابْنَ أُخْتِي شَاكٍ فَادْعُ اللهَ لَهُ قَالَ فَدَعَا لِي ( رقمه : 3540 )
وروى بسند آخرحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ هُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْجُعَيْدِ قَالَ سَمِعْتُ السَّائِبَ يَقُولُ ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ وَقُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ(رقمه :5670)
وروى بسند آخرحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ عَنِ الْجَعْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ قَالَ سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ به ( رقمه 6352 )
وروى بسند آخر حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِاللهِ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ عَنِ الْجُعَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ قَالَ سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ قَالَ ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَقَعَ فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ وَتَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتِمٍ بَيْنَ كَتِفَيْهِ قَالَ ابْنُ عُبَيْدِاللهِ الْحُجْلَةُ مِنْ حُجَلِ الْفَرَسِ الَّذِي بَيْنَ عَيْنَيْهِ قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ ( رقمه : 3541 )

شرح الکلمات :

وَجِعٌ

مَرِض وَتَأَلَّمَ بیمارہونا، درد ہونا

وَضُوئِهِ

وضوء کے پانی سے

خَاتَمِ النُّبُوَّةِ

مہر نبوت مبارکہ

زِرِّ

بٹن یا گھنڈی

تراجم الرواۃ :

1 نام ونسب : عبد الرحمن بن يونس بن هاشم الرومى المستملى البغدادى

کنیت : ابومسلم                ولادت : 164 ہجری

وفات : 224 ہجری

محدثین کے ہاں رتبہ :

امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں صدوق تھے، اور امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حاتم کے ہاں صدوق تھے۔

2 نام ونسب : حاتم بن إسماعيل المدنى

کنیت : أبو إسماعيل الحارثى

محدثین کے ہاں رتبہ :

امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں صدوق تھے ، اور امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے ۔

وفات : 9 جمادی الالى 187 ہجری میں خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں وفات پائی۔

3نام ونسب :  الجعد بن عبد الرحمن بن أوس الكندي

محدثين كے ہاں رتبہ :

امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاں بھی ثقہ تھے۔

وفات : 144 ہجری

4 نام ونسب : السائب بن يزيد بن سعيد بن ثمامة بن الاسود الكندى،صحابی

كنيت: ابو عبد الله اور ابو يزيد الكندي المدني

سيدنا السائب رضي الله عنه کے سر کے بال سیاہ تھے اور داڑھی کے سفید پوچھا گیا کہ یہ ایسا کیوں ہے تو فرمایا ایک دفعہ میں کھیل رہا تھا اور رسول اللہ ﷺ کا گزر ہوا تو سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی کہ ’’ بَارَكَ اللهُ فِيْكَ، فَهُوَ لاَ يَشِيْبُ أَبَداً‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے اور یہ کبھی سفید نہیں ہوگا۔ان کی 22 مرویات ہیں۔

وفات : 91 ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی۔

تشریح:

اس حدیث میں باب کا عنوان مذکور نہیں ہے اس کی بہت سی توجیہات ہوسکتی ہیں :

1۔ فضل ماءِ کے دو معنی ہیں: ایک وہ پانی جو وضو کے بعد برتن میں بچ رہے اور دوسری وہ پانی جو اعضائے وضو دھونے کے بعد نیچے گرے، اسے فقہاء کی اصلاح میں ماءِ مستعمل کہتے ہیں۔ کیونکہ پہلے باب میں ماءِ مستعمل کا بیان تھا اور اس باب میں اس پانی کا ذکر ہے جو وضو کے بعد برتن میں باقی بچ رہتا ہے۔

2۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ اگر ماسبق باب کے مضمون میں کوئی کمی رہ جائے تو بلا عنوان باب سے اس کی تلافی کرتے ہیں۔ یہاں بھی سابقہ روایات میں ماءِ مستعمل کو پینے کی اجازت کا ذکر تھا لیکن کمی یہ تھی کہ وہاں وضو ئے تام نہیں بلکہ صرف ہاتھ منہ دھونے اور کلی کا ذکر تھا جو وضوئے ناقص ہے۔ اس سے اشکال ہو سکتا تھا وضوئے تام کا شاید کوئی اور حکم ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بلا عنوان میں اس کی تلافی کر دی اور ایسی حدیث پیش کی جس میں وضوئے تام کی تصریح ہے۔

3۔ سیدناسائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ اس میں دونوں احتمال ہیں کہ وضو کے بعد برتن میں بچا ہوا پانی مراد ہو یا اعضائے شریفہ سے ٹپکنے والا پانی نوش کیا ہو۔ لیکن آپ ﷺ کے استعمال کردہ پانی کو برکت اور بیماری کے علاج کے لیے استعمال کرنا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔

4۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان احادیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو ماءِ مستعمل کونجس کہتے ہیں، حالانکہ ماءِ مستعمل پلید نہیں، کیونکہ ناپاک چیز برکت کے قابل نہیں ہوتی۔ پھر انھوں نے امام ابن منذررحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وضو کرنے کے بعد جو تری اعضاء پر باقی رہتی ہے یا وہ قطرے جو دوران وضو میں کپڑوں پر گرتے ہیں۔ ان کے پاک ہونے پر اجماع ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماءِ مستعمل بھی پاک ہے، اسے نجس قراردینا صحیح نہیں۔ ( فتح الباري:1/388)

5۔ واضح رہے کہ ’’ماءِ مستعمل‘‘ کے متعلق فقہاء کا اختلاف اس وضو یا غسل سے متعلق ہے جو بطور تقرب کیا گیا ہو۔ اگر وضو پر وضو کیا گیا ہے یا محض ٹھنڈک یا نظافت کے لیے پانی استعمال ہوا ہے تو اس قسم کے پانی کے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔ ایسا پانی طاہر و مطہر ہے۔

6۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیماربچے کو کسی بزرگ کے پاس بغرض دعا لے جانا تقوی کے خلاف نہیں ہے نیز بچوں سے پیار اور ان کے لیے خیرو برکت کی دعا کرنا سنت نبوی ہے۔ سیدناسائب بن یزید رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول الله ﷺ کی دعا کا یہ اثر تھا کہ آپ چور انوے (94) سال کی عمر میں تندرست و توانا تھے اور آپ کی سماعت و بصارت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ (صحیح البخاري:3540)

7۔ امین احسن اصلاحی صاحب نے اس حدیث کا بھی انکار کیا ہے اور مہر نبوت کے متعلق سیدناسائب بن یزید رضی اللہ عنہ کے بیان پر ان الفاظ میں تبصرہ کیاہیں: ’’کہ ایک کم عمر بچے کی زبان سے بیان محل نظر ہے کیا رسول اکرم ﷺ نےنماز میں جسم کا اوپر کا حصہ کھلا رکھا ہوا تھا؟ اگر ایسا ہوا ہو توسائب کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ جوکچھ دیکھ رہے ہیں۔ وہ مہر نبوت ہے؟ ایک بچے کا خیال اس طرف نہیں جا سکتا، ہاں اس کے منہ میں یہ بات ڈالی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک مہر نبوت کا تصور اصول نبوت اور دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا، کسی طرح یہ بات رائج کر دی گئی اور یہ بعض لوگوں میں پھیل گئی۔ ‘‘ (تدبر حدیث:1/290)

اصلاحی صاحب کا اعتراض ہی حقیقی طور پر غلط ہے کیونکہ جب سیدناسائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے مہر نبوت کو دیکھا تو نبی اکرم ﷺ نمازمیں نہیں تھے۔ یہ ان کا اپنا قائم کردہ مفروضہ ہے جس کی احادیث سے تائید نہیں ہوتی اور اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ سیدناسائب کوکیسے معلوم ہوا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں وہ مہر نبوت ہے؟ سیدناسائب رضی اللہ عنہ نے اپنا مشاہدہ جب بیان فرمایا تواس وقت ان کا بچپن ختم ہو چکا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے چورانوے سال کی عمر میں بھی آپ تندرست و توانا تھے۔ (صحیح البخاري:3540)

 اصلاحی صاحب نے الزام لگایا ہے کہ ان (سائب بن یزید) کےمنہ میں یہ بات ڈالی جا سکتی ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین و ملحدین نے مہر نبوت کا انکار اصلاحی صاحب کے منہ میں ڈالا ہے جسے انھوں نے وقت ملتے ہی اگل دیا ہے۔

یہ اظہر من الشمس ہے کہ مہر نبوت کا مشاہدہ کرنے والے تقریباً دس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں جن کی تفصیل یہ ہے سیدناسائب بن یزید رضی اللہ عنہ (صحیح البخاري، الوضو، حدیث:190) اُم خالد بنت خالد رضی اللہ عنہا ،جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ (صحیح البخاري، الجہاد والسیر، حدیث: 3071) عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6088(2346)) قرہ بن ایاس مزنی رضی اللہ عنہ (سنن ابی داود، اللباس، حدیث:4082) رمیثہ بنت عمرو رضی اللہ عنہا (مسند أحمد: 6/329) ابو زید عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ (مسند أحمد: 5/340) سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ (مسند أحمد :5/438) قبیلہ بنی عامر کا طبیب (مسند أحمد:1/223) نیز امام ترمذی رحمہ اللہ نے سیدنابریدہ اسلمی اور سیدناابو سعید کا بھی حوالہ دیا ہے۔ مہر نبوت کے اثبات کے متعلق محدثین عظام نے اپنی تصانیف میں مستقل عنوان قائم کیے ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ ، امام مسلم رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس پر عنوان بندی کر کے پھر مختلف احادیث سے اسے ثابت کیا ہے۔ علمائے اہل کتاب کے ہاں رسول ﷺ کی یہ امتیازی علامت معروف تھی اس سلسلے میں صرف دو شہادتیں ہی کافی ہیں:

1۔ رسول الله ﷺ جب اپنے سردار چچا ابو طالب کے ہمراہ  بغرض تجارت شام کے علاقے میں گئے تو آپ کے ہمرا قریش کے بڑے بڑے تجاربھی تھے، انھیں راستے میں ایک راہب ملا تو اس نے آپ ﷺ کو اس مہر نبوت سے پہچانا۔ ( جامع الترمذي: 3620)

2۔ سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو ایک راہب نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے، ہدیہ قبول کریں گے اور ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان تینوں علامتوں کا مشاہدہ کیا اور مسلمان ہوئے۔ ( مسند أحمد :5/443) اتنے حقائق کے باوجود اگر کہا جائے کہ مہر نبوت کا تصور اصول نبوت اور دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تو اس کے جواب میں یہی عرض کیاجاسکتاہے کہ یہ لوگ حقیقت دین اور استدلال احادیث سے بھی نابلد ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے