اس کرۂ ارض پر ہر دور میں ایسی بے پناہ ،عزیمت مآب ہستیاں گزری ہیں جنہوں نے تاریخ عالم پر لازوال ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں اور اپنے اخلاق وعادات،کردار وگفتار، عزم واستقلال ،فکر وبصیرت اور عزیمت واستقامت سے تاریخ رقم کی ہے ان عظیم شخصیات کی حیات مستعار کے لیل ونہار سے انسانیت کو اسرار حیات معلوم ہوتے ہیں تاریخ انسانی کی ان عہد ساز شخصیات سے اسلامی تاریخ بھی بھری پڑی ہے بلکہ یہ کہنا بھی نہ تو بلامبالغہ ہوگا اور نہ ہی دعویٰ بلا دلیل ہوگا کہ ان عہد ساز شخصیات میں انبیاء علیہم السلام کے بعد پوری انساینت میں سب سے اعلیٰ واشرف، مجسمۂ اخلاق وکردار،عزم واستقلال کے علمبردار ،جذبۂ ایثار سے سرشار،حق کے محامی رحمۃ للعالمین ﷺ کے ساتھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی تھے۔ یہ وہ ملکوتی صفات کے حامل عظیم المرتبت انسان ہیں جن کی سیرت وکارنامے ، اقوال وافعال، وضع وقطع،رفتار وگفتار،طرز زندگی،طریق معاشرت،سیاست ومعاشیت،صبروثبات،عدالت وصداقت میں نبوی تعلیمات کی عملی نظیر نظر آتی ہے۔ تاریخ انسانی کے روشن اور سنہرے ابواب ان پر لکھے جاچکے ہیں۔ ان کی پیروی میں پروردگار کی پریت اور ان کے تذکروں سے دلوں کو تازگی ملتی ہے۔ اس سلسلہ مبارکہ کے روشن ستارےبعد الانبیاء افضل البشر خلیفہ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وارضاہ ہیں۔

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ تمام محاسن کا مرقع تھے، زمانہ جاہلیت میں بھی تمام منکرات سے محفوظ رہے، آغوش اسلام میں آنے کے بعد تو آپ کی حیات مستعار کا ہر پہلو آفتاب وماہتاب کی مانند تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ غریب پرور،مہمان نواز، حق پرست ، سچائی کا ساتھ دینے والے، نبی علیہ السلام کے بعد اسلام کے پہلے داعی، محب نبی ، فدائےذات نبی، خلیفہ اول، انبیاء ورسل کے بعد صدیقین کے سرخیل،صالحین میں سب سے افضل اور علی الاطلاق تمام صحابہ رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ فضل والے اور علم والے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ صداقت، عدالت،سخاوت وشجاعت،وفاشعاری اور فداکاری میں سب سے اعلی وافضل تھے۔

موضوع کی مناسبت سے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی حیات مستعار کے گوہر نایاب پہلوؤں میں سب سے چند جواہر محترم قارئین کرام کی خدمت میں گوش گزار کرتے ہیں ۔

آپ رضی اللہ عنہ کا نام ونسب اور القابات :

آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبد اللہ اور کنیت ابو بکر ہے۔ خاندانی اعتبار سے آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ تیم سے ہے آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ  نسب ساتویں پشت میں مرہ بن کعب پر رسول اللہ ﷺ سے جاملتاہے۔

آپ رضی اللہ عنہ اپنے بلند مرتبہ، عالی مقام اور خاندانی شرف کے اعتبار سے متعدد القابات سے ملقب تھے ان میں سے کچھ کا تذکرہ کرتے ہیں۔

1۔ عتیق :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ علیہ السلام نے اسے دیکھ کر فرمایا :

أَنْتَ عَتِيقُ اللهِ مِنَ النَّارِ

’’ تم جہنم سے اللہ کے عتیق( آزاد کردہ) ہو۔‘‘ ( جامع الترمذی : 3639 سلسلہ صحیحہ للالبانی :1574)

2۔ صدیق  :

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنے رفیقوں ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ہمراہ احد پہاڑ پر تشریف فرما ہوئےتو وہ ہلنے لگا ، آپ علیہ السلام نے فرمایا : اے احد ٹھہر جا ،

إِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ، وَصِدِّيقٌ، وَشَهِيدَانِ

بے شک تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دوشہید  ہیں۔‘‘ (بخاری : 3686)

لقب صدیقیت سے سرفرازی کچھ اس انداز سے بھی ہوئی کہ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی ہر بات کی بلا تأمل تصدیق فرماتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے اسراء ومعراج کے سفر سعید کی روداد مشرکین مکہ کے سامنے رکھی تو وہ اسے ماورائے عقل سمجھ کر ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے ، ہر طرف سے تالیاں، سیٹیاں بچنے لگیں ، ٹھٹھہ،تمسخر وتضحیک کا سماں سا نظر آنے لگا ایسے عالَم میں اس امت کا فرعون ابو جہل اپنے زملاء کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے وفا شعار ساتھی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھاگم بھاگ آپہنچا تاکہ آج اسے بھی شرمندہ کیاجاسکے ، بھلا کوئی مہینوں کی مسافت ایک رات میں بھی طے کر سکتاہے۔

یہ سوچتے ہوئے اپنی زہر آلود زبان سے شرارتی انگڑائیاں لیتے ہوئے اپنے من کے میل کو بیان کرنے لگے۔ سیدناصدیق اکبر نے ان کے بیان کو سنتے ہی فرمایا اگر یہ بات آپ ﷺ نے خود فرمائی ہے تو وہ سچ ہے کیونکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور ان کا معاملہ اور ہے ۔ ( ابن ہشام، مستدرک للحاکم 3/62)

حبیب مصطفیٰ ﷺ وافضل الصحابہ :

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی ان کے قریبی دوست تھے مگر نبوت کے بعد تو آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے معاونِ خصوصی، راہ حق کے مجاہد اول اور ہمہ وقت آپ ﷺ کے ساتھ رہنے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص انسیت تھی اور آپ ہی سارے صحابہ میں افضل قرار پائے۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ سب سے زیادہ انسیت آپ کو کس سے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ سے ، میں نے پوچھا مردوں میں، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے والد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے۔ (بخاری :3662)

محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ۔ (بخاری : 3671)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں، اور ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ محبوب تھے۔ (جامع الترمذی:3656)

صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبت صحابہ کے لیے سعادت :

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی قوم میں محبت والفت کامرکز تھے آپ کے فضل وکرم کے سب معترف تھے یہاں تک کہ مشرکین مکہ بھی اپنی دینی عداوت کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ کی حسن مجالست اور مشفقانہ طبیعت سے اپنے آپ کو مستغنی نہیں سمجھتے تھے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب اسلام کی پاداش میں مشرکین مکہ مسلمانوں کو سخت اذیتیں دینے لگے تو اس ابتلاء میں ابو بکر بھی آزمائے گئے دیگر صحابہ کی طرح ، آپ نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کا قصد فرمایا تاکہ دین الٰہی پر آزادانہ عمل کر سکوں ، جب آپ برک الغماد مقام پر پہنچے تو وہاں قبیلہ قارۃ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی ، ابن الدغنہ کے استفسار پر اسے پتا چلا کہ ابو بکر تو دین محمدی کی خاطر مکہ سے رخصت ہورہے ہیں ، ابو بکر کی جدائی سے ابن الدغنہ کو اپنی بستی ویران اور اُجڑی ہوئی نظر آنے لگی ، فوراً کہنے لگے

إِنَّ مِثْلَكَ لاَ يَخْرُجُ وَلاَ يُخْرَجُ

اے ابو بکر ! آپ جیسا خلق عظیم والا انسان اپنا علاقہ چھوڑ جائے یہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسی شخصیت کو نکالا جاسکتاہے۔

ابن الدغنہ اپنی امان میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مکہ واپس لے آیا اور آتے ہی کفار قریش کے اشراف کے سامنے کہنے لگا ، اے سردارو! کیا تم ایسے انسان کو نکال دوگے جو کمزوروں اورمجبوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتاہے، مہمان نواز اور حادثات میں حق بات کی حمایت کرنے والا ہے ، کفار قریش بھی ابن الدغنہ کی امان کو اپنی امان مان لیا ۔ (صحیح بخاری : 2297)

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی انمول اداؤں میں اس قدر ممتاز تھے کہ کفار قریش بھی آپ پر فدا تھے ، محمد کریم ﷺ کے محبین پر یار غار کی عظمت اس قدر آشکار تھی کہ وہ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبت اور محبت کو اپنے لیے سعادت اور انعام الٰہی سمجھتے تھے۔

سیدنا مسور رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ جب امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ ابو لؤلؤ مجوسی ملعون کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو آپ پر ایک بے چینی سی کیفیت طاری تھی، اس کرب کی کیفیت میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آپ رضی اللہ عنہ کے تسلی دیتے ہوئے فرمانے لگے ، امیر المؤمنین آپ بے قرار نہ ہوں آپ تو رسول اللہ ﷺ کے رفیق رہے اور اس صحبت کا پورا حق ادا کیا جب رسول اللہ رخصت ہوئے تو وہ آپ سے راضی تھے پھر آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ مصاحبت کا موقعہ ملا اس انداز میں کہ وہ بھی آپ سے راضی تھے یہ سننے کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :

وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ أَبِي بَكْرٍ وَرِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَاكَ مَنٌّ مِنَ اللهِ جَلَّ ذِكْرُهُ مَنَّ بِهِ عَلَيَّ

’’ اور تو نے جو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صحبت اور اس کی رضا کا ذکر کیا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کا مجھ پر فضل واحسان ہے ۔ ( بخاری : 3692)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نے رسول اللہ ﷺ سے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ کب قائم ہوگی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اس کے لیے تیاری کیا کی ہے ؟ وہ کہنے لگا ، حضور کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا : آپ جس سے محبت کرتے ہو ان کے ساتھ ہو گے ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں اتنی خوشی کبھی کسی بات سے نہیں ہوئی جتنی یہ حدیث سن کر ہوئی ۔

سیدنا انس فرماتے ہیں کہ میں بھی رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس محبت کی وجہ سے ان کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میں عمل ان جیسے نہ کرسکا۔ ( بخاری : 3688)

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اعلم الناس :

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ رفاقت وہمراہی کا شرف حاصل ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خلوت اور جلوت کے ساتھی تھے۔ اس طویل صحبت نے آپ کے فہم وفراست میں بڑا نکھار پیدا کیا آپ سارے صحابہ کرام میں اعلم الناس اور رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ آپ علیہ السلام کی موجودگی میں آپ رضی اللہ عنہ فیصلہ اور فتویٰ کا کام سرانجام دیتے تھے اور نبی کریم علیہ السلام اس کی تصدیق فرماتے تھے یہ اعزاز بھی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ہی حاصل ہوا ہے۔

امام مسلم رحمہ اللہ ابو قتادہ سے نقل کرتے ہیں کہ غزوۂ حنین کی کامرانی کے بعد ایک شخص نے ابو قتادہ کے مالِ غنیمت کو حاصل کرنا چاہا اور اس پر رسول اللہ ﷺ کو کہا کہ آپ ابو قتادہ کو اپنے حق سے دستبردار ہونے پر مطمئن کریں اس پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے ، اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ یہ نہیں چاہیں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کا سلب کیا ہوا سامان تمہارے حوالے کیا جائے اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا۔ ( صحیح مسلم : 4568)

سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا

سیدنا ابو رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ علم والے تھے۔ ( بخاری : 3651)

اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے دلائل قرآن وحدیث اور کتب سیر میں موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سارے صحابہ میں سب سے زیادہ علم والے تھے ہم نے بطور تمثیل صرف ان مثالوں کو ذکر کیا ہے ۔

ابو بکر رضی اللہ عنہ اسبق فی الخیرات :

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نیکیوں کے انتہائی حریص اور دوسروں سے سبقت لے جانے والے تھے ، اس مبارک میدان میں بھی آپ فقید المثال ہیں ۔

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے پوچھا آج تم میں سے کون روزہ سے ہے ؟ کس نے جنازہ میں شرکت کی ، مسکین کو کھانا کھلایا،مریض کی عیادت کی توہر بات ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے کہ میں نے تو آپ ﷺ نے فرمایا جس کے اندر یہ باتیں جمع ہوجائیں وہ جنت میں داخل ہوا۔ (مسلم : 1028)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

كَانَ أَبُو بَكْرٍ مُقَدَّمًا فِي كُلِّ خَيْرٍ

ابو بکر ہر نیک کام میں آگے بڑھنے والے تھے۔ (صدیق اکبر ، ص:400)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اس وقت میرے پاس مال بھی زیادہ تھا ، میں نے سیدنا ابو بکر سے نیک کاموں میں سبقت حاصل کرنے کا ارادہ کیا اور اپنا آدھا مال راہِ الٰہی میں پیش کیا ، اتنے میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی اپنا نذرانہ بارگاہ نبوت میں لے کر پہنچے آپ ﷺ نے پوچھا : اپنے  اہل وعیال کے لیے کیا بچایا ، ابو بکر گویا ہوئے :

أبقيت لَهُم الله وَرَسُوله

اللہ اور اس کے رسول کی محبتیں چھوڑ آیا ہوں ، باقی جو کچھ تھا وہ لے آیا ہوں ، یہ دیکھتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے ابو بکر سے نیکیوں میں سبقت لے جانا میرے بس کی بات نہیں ہے ۔ ( سنن ابی داود : 1678، جامع الترمذی : 3675)

سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ محسنِ دین متین :

نصرتِ دین ، فدائے ذاتِ نبی اور اسلامی ایثار سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا شعار رہا ، آپ ہی سب سے بڑے اور سب سے اول محسن دین متین ہیں ۔

سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا تو تم نےمیری تکذیب کی مگر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے میری تصدیق کی اور اپنی جان اور مال سے میری مدد کی ۔ ( صحیح بخاری : 3661)

ایک اور روایت میں صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی بے لوث خدمات کا کچھ اس طرح تذکرہ بیان ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مجھ پر جس کسی کا بھی احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا مگر ابو بکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ انہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی روزِ جزا عطا فرمائے گا۔ ( جامع الترمذی: 3661)

صبر واستقامت کے عظیم پیکر :

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی فہیم،حلیم اور اولو العزم انسان تھے ، کمال درجے کا صبر وضبط آپ کے اندر تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے ہر مشکل سے مشکل مرحلے میں امت کو سہارا دیا ، کچھ امتحان تو ایسے بھی آئے کہ اگر رب کی رحمت سے ابو بکر نہ ہوتے تو امت بکھر جاتی ۔ ان الم انگیز لمحات میں سب سے زیادہ دل خراش واقعہ آپ علیہ السلام کے وصال کا ہے جب رسول اللہ ﷺ اپنےمنصب رسالت کی تبلیغ کی تکمیل کر چکے تو اس دارِ فانی سے رخصت ہوکر ابدی آرام گاہ کی طرف کوچ کر گئے۔ آپ ﷺ کے اس فراق وجدائی کے وقت صحابہ پر رنج والم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے آنکھوں کے سامنے اندھیراسا چھا گیا، ہوش وحواس بجا نہ رہے اور ایسے عالَم میں تو اکثر بے ربط باتیں زبان سے نکل آتی ہیں اور ادھر بھی شدت غم میں ایسا ہی ہوا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے شیر دل انسان نے تو نڈھال ہوکر تلوار بے نیام کر لی اور کہنے لگا اگر کسی نے کہا میرے محمد ﷺ فوت ہوگئے ہمیں داغ مفارقت دے گئے تو میں اس کا سرتن سے جدا کر دوں گا۔ سیدۃ النساء فی الجنۃ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کی زبان اطہر پر یہ شعر تھا

صُبَّتْ عَلَيَّ مَصَائِبٌ لَو أَنَّهَا صُبَّتْ عَلَى الأَيَّامِ صِرْنَ لَيَالِيَا

مجھ پر رنج والم کے پہاڑ ٹوٹ پڑےہیں اگر یہ دنوں پر ٹوٹ پڑتےتو سارے دن شدت الم کی بنا پر راتیں بن جائے اور دن کا نور ختم ہوجاتا۔(در منثور)

ایسے رقت انگیز عالَم میں رقیق القلب ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی غم میں انتہائی محزون ومغموم تھے مگر اس کرب کی کیفیت میں اللہ تعالیٰ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بڑی عزیمت عطا فرمائی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نبی کریم ﷺ کا ماتھا چوما اور فرمایا :

بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، وَاللهِ لاَ يَجْمَعُ اللهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ

اے اللہ کے نبی میرے ماں باپ آپ پر قربان اللہ تعالیٰ آپ کو دو موتیں نہیں چکھائے گا ۔

آپ رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا :

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ، فَإِنَّ اللهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ

تم میں سے جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا ہے یا کرنے کا ارادہ رکھتاہے وہ دیکھ لے اللہ کے پیغمبر فوت ہوچکے ہیں اور معبود فوت نہیں ہوتا جس کا معبود اللہ ہے وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی۔ ‘‘

شدت غم کی کیفیت میں اچھی سے اچھی تقریر کا بھی اثر نہیں ہوتا لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے بیانِ بے نظیر سے سارے خلجان اور شبہات دور ہوگئے۔ انہی لمحات میں امت سقیفہ بنی ساعدہ میں دگرگوں ٹوٹ پھوٹ کے قریب تھی کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سیاسی بصیرت کے مالک بن کر سامنے آئے آپ نے بڑے ہی خوبصورت الفاظ اور نہایت ہی عمدہ اسلوب سے مسئلہ خلافت کی صراحت کر دی۔ آپ بڑے ہی فصیح وبلیغ خطیب بھی تھے۔ آپ کے اندازِ بیان اور طرزِ خطابت میں ہرگز کوئی پیچیدگی یا الجھاؤ نہ تھا ہربات صحیح اور ہر جملہ بر محل تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کے مناقب،اسلام میں پہل کے اعزازات کو بیان کیا اس کے ساتھ انصار کی نصرت، کثرت،محبت ومؤدت، اللہ اور اس کے رسول اور مومنین میں ان کی قدرومنزلت کو بیان کیا آپ کی تقریر کی تأثیر سے خطرات کے بادل چھٹ گئے اورمطلع صاف ہوگیا۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے متفقہ طور پر مسلم ریاست کے امیر اول ، خلیفہ بلا فصل سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ یہ انتخاب بھی محض بخت یا اتفاق نہیں تھا بلکہ عین نبوی تعلیمات کے پیش نظر تھا۔ آپ ﷺ نے اپنی حیات مستعار میں ہی یار غار کو امامت کا منصب دے چکے تھے اس پر بہت سارے دلائل موجود ہیں مزید لکھنے کی ضرورت نہیں تمام صحابہ رضی اللہ عنہ پر ابو بکر رضی اللہ عنہ کی جاہ ومنزلت آشکار تھی۔

ریاست کو درپیش مسائل اور آپ رضی اللہ عنہ کا عزم واستقلال

آپ ﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ جو مدینہ منورہ سے شروع ہوئی اور دس سال کی قلیل مدت میں پورے عرب یہاں تک کہ اس کی سرحدیں روم،فارس تک پھیل گئیں، اسلام کی دھاک سے روم اور فارس بھی کانپنے لگا، ان کی طرف پیش قدمی بھی ہوچکی تھی کہ رسول اللہ ﷺ رفیق اعلیٰ کی جانب روانا ہوگئے۔ زمام خلافت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں آئی نبوی تعلیمات کی تکمیل تو ہوچکی تھی مگر ریاستی امور ابھی باقی تھے ، بہت سارے مسائل درپیش تھے تازہ ہی لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ اسلامی تعلیمات ابھی ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوئی تھی جس طرح مکہ ،مدینہ اور اس کے قرب وجوار کے لوگوں کے دلوں میں اسلام راسخ ہوچکا تھا انہوں نے اسلام کے لیے نہ محنتیں کی ، نہ مصائب دیکھے ، نہ قربانیاں دیں اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کی زیادہ رفاقت رہی تھی بلکہ بعض نو مسلم قبائل جو روم اور فارس کے زیر اثر تھے ان پر عیسائیت اور مجوسیت کا مذہبی اور علاقائی ثقافتی اثر تھا۔

کچھ قبائل پر اپنے آبائی مذہب بت پرستی کی کشش باقی تھی اس کے ساتھ عرب کی شخصی آزادی، خود مختاری کے جذبات بھی موجودتھے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد یہ عوامل اپنا اثر دکھانے لگے اور ارتداد کا فتنہ شروع ہوگیا ان کے علاوہ منافقین کی جماعت اور وہ قبائل بھی جن کو ریاست مدینہ کی قیادت کسی طرح گوارانہ تھی وہ بھی اپنے پرزے درست کرنے لگ گئے کچھ قبائل اسلام کے کچھ ارکان اسلام کے منکر بن کر اُبھرے جیسے منکرین زکاۃ، اس کے علاوہ مدعیان نبوت کا فتنہ جس نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہی سر اٹھانا شروع کر دیا تھا یہ ایک خالص سیاسی تحریک تھی جسے کامیابی کے لیے مذہبی رنگ دیا گیا تھا مگر شمع نبوت کی موجودگی میں ان کی نبوت کا چراغ جل نہ سکا جیسے ہی آپ ﷺ کی رحلت ہوئی تو یہ فتنہ اس شدت کے ساتھ اٹھا کہ مرد تو مرد عورتیں بھی اس میدان میں نکل آئیں جیسے سجاح نامی عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ غرضیکہ اندرونی وبیرونی خطرات عمارت اسلامی پر منڈلا رہے تھے ایک طرف سرحدی علاقے غیر محفوظ تھے تو دوسری جانب اندرونی بغاوت بھی بھڑک اٹھی تھی گویا کہ دقتوں اور دشواریوں کا ایک پہاڑ تھا جو خلیفۂ رسول کے سامنے کھڑا تھا۔ س نے عمارتِ اسلامی کے درودیوار تک ہلا دیئے تھے۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد ہم جس مقام پرکھڑے تھے وہ نہایت خطرناک مقام تھا، اللہ تعالیٰ اگر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ذریعے ہماری مدد نہ فرماتا تو ہم ہلاکت کے گڑھے میں گر جاتے۔

اس مشکل مرحلے میں سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی خداداد صلاحیتوں سے اسلامی ریاست غیر متزلزل چٹان پر استوار ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ بڑے ہی زیرک،دوراندیش اور مزاج شناش انسان تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ اہل عرب کے مزاج داں بھی تھے وہ باطل نبیوں کے مضمرات سے بھی خوب واقف تھے اور جانتے تھے کہ اس سے اسلام کو کس قدر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اگر باطل نبوت کی رمق بھی باقی رہ جاتی تو پھر نعوذ باللہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذات ہی مشکوک ہوجاتی۔ اہل عرب کا اتحاد بھی پارہ پارہ ہوجاتااور توحید کے عقیدے میں آنے والا معاشرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا۔ مرتدین کے چھپے ہتھکنڈوں سے بھی واقف تھے۔ منکرین زکاۃ کے عزائم سے بھی آگاہ تھے اگر ان کی بات مانی جاتی اور اس امر میں انہیں رعائت دی جاتی تو عمارت اسلامی منہدم ہوجاتی۔ ایک رکن کا انکار کل دوسرے رکن کا انکار ہوجاتا اگر دین کو اپنی منشا کے مطابق خودساختہ طریقوں پر چھوڑا جاتا تو اسلام اپنی اصل پر نہ رہتا۔ ویسے تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنی طبیعت میں بڑے ہی منکسر المزاج، رحیم، رقیق ،شفیق تھے مگر بات جب حدود اللہ اورشریعت محمدی کی آئی تو یہ نبی علیہ السلام کا یار غار سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مرتدین،منکرین ،معاندین کے سامنے آیا۔ آپ نے ہر محاذ پر سرکشوں کی سرکوبی کے لیے اعلان جہاد کر دیا اس کے ساتھ ہی لشکر اسامہ کی روانگی کا حکم صادر کردیا۔ یہ وہ لشکر تھا جسے آپ ﷺ نے سرحدوں کی حفاظت کے لیے روم مخالف مہم کے لیے روانہ کیا مگر آپ کی علالت اور اس کے بعد وفات کی وجہ سے رُک گیا تھا آپ رضی اللہ عنہ کے اعلان جنگ سے صحابہ پریشان ہوگئے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ دیا کہ حالات کی دھار ایک دم بدل چکی ہے مدینہ مشرکین ومرتدین سے محفوظ نہیں لہذا فی الحال لشکر اسامہ کی روانگی ملتوی کی جائے اور اندرونی خطرات سے نپٹنے کے لیے مدینہ کا انتظام وانصرام مضبوط کیا جائے ،عمائدین صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس سلسلہ میں خلیفہ پر زور دیا اور ان خطرات سے بھی روشناس کرایا جو لشکر اسامہ کی روانگی کے بعد پیدا ہوں گے آپ رضی اللہ عنہ نے حکمرانی کا حق بھی ادا کر دیا سب کو بات کہنے کا موقعہ دیا ہر ایک سے مشورہ لیا آخر میں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ جس مہم کا آغاز محمد کریم ﷺ نے کیا اسے ابو بکر کیسے روک سکتاہے ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے یقین ہوجائے کہ درندے مجھے نوچ کر کھا جائیں گے تب بھی میں لشکر اسامہ کو بھیج کر ہی رہوں گا سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ حکم نامہ جذبہ اتباع رسول کی درخشاں مثال اور یہ لاثانی مہم آپ کے فہم وفراست،تدبر اور دوراندیشی کا بھی عظیم مظہر ہے۔

آپ کو منکرین زکاۃ کے بارے میں بھی کچھ نرمی کا کہا گیا اس مطالبے پر آپ غصہ ہوئے اور فرمایا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا میں اس سے قتال کروں گا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ ٔ رسول کے سینے کو حق کے لیے کھول دیا ہے۔

لشکر اسامہ کی روانگی انتہائی مبارک رہی رومیوں کو مقابلے کے لیے آنے کی جرأت نہ ہوئی اس سے ایک تو رومی دب گئے دوسری طرف وہ عرب قبائل جو مدینہ پر حملے کا سوچ رہے تھے سہم گئے کہنے لگے اگر مسلمان کمزور ہوتے تو روم جیسی سپرپاور طاقت کے ساتھ سینہ سپر نہ کرتے۔

اس طرح سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حسن تدبیر سے بہترین نتائج آنا شروع ہوگئے کچھ دشمنانِ دین دب گئے کچھ سہم گئے کچھ اسلام کی طرف لوٹ آئے تو کچھ نے جزیہ سے تعلقات استوار کر لیئے۔ اس کے بعد آپ نے منکرین زکاۃ کی بھی خوب چھترول کی ۔ مرتدین اور مدعیان نبوت کا قلع قمع کرنے کے لیے آپ رضی اللہ عنہ نے مسلم فوج کو گیارہ دستوں میں تقسیم کیا اور اس تقسیم اورمواقع کی تحدید سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ جغرافیہ کا بھی دقیق علم رکھتے تھے۔ اس طرح آپ کی دانشمندی مضبوط اور منظم منصوبہ بندی سے رب العالمین کی رحمت کاملہ وعاجلہ کے تحت اسلامی اسٹیٹ مضبوط اورمستحکم بنیادوں پر اُبھر کر سامنے آگئی۔ اگرچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت چند گنے چنےمہینوں پر محیط ہے مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس قلیل عرصے میں اپنے دین کو بے پناہ عزت اور غلبے سے نوازا عہد صدیقی میں ارتداد اوربغاوت کا خاتمہ ہوگیا۔ اب عرب میں کسی کو مسلمانوں سے پنجہ آزمائی کی جرأت نہ تھی، کوئی فتنہ پرور،کوئی منکر اسلام،کوئی مدعی نبوت اور اسلامی احکامات سے روگردانی کرنے والا باقی نہ رہا تھا۔ مشرق سے لے کر مغرب تک ، جنوب سے لے کر شمال تک سب کا خاتمہ ہوگیا۔ پھر آس پاس کی دیگر ریاستوں میں اسلامی تعلیمات پھیلنا شروع ہوگئی۔(سیدنا ابو بکر شخصیت کارنامے ، کتب الستہ، واحمد ، سلسلہ الصحیحہ ، صدیق اکبر ، الرحیق المختوم)

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےانبیاء کے بعد افضل البشر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حیات مستعار کے لیل ونہار کو پڑھنے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس ان مٹ نقوش چھوڑنے والی شخصیت سے محبت اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللھم وفقنا لما تحب وترضی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے