جن حالات سے آج دنيا گزر رہي ہے يہ تاريخ رقم ہوتي جارہي ہے، آنے والي نسليں ہماري تاريخ پڑھيں گي اور جانيں گي کہ اس ميں ان کے لئے بہت کچھ اسباق پائے جاتے ہيں،ممکن ہے مستقبل بہتربنانے کے لئے اپني اصلاح بھي کريں۔ان نسلوں کو آنے ميں ابھي وقت ہے ،پہلے ہميں يہاں سے گزرنا ہوگا ليکن سوال ہمارے لئے بھي بہت اہم ہے کہ ہم نے رقم ہوتي ہوئي آج کي تاريخ سے کيا گ سيکھااور سبق ليا؟

رمضان آيا اور جيسے لگا لمحوں ميں ہم سے رخصت ہونے کو ہےمگر اس کي برکتيں سال بھر ختم نہيں ہوتيں بشرطيکہ حاصل کرنے والوں نے واقعي سعادت وبرکت حاصل کي ہو۔

اللہ تعاليٰ کا فرمان ہے :

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى ۙ۰۰۱۴وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ۰۰۱۵ (الأعلي:14-15)

’’بے شک اس نے فلاح پائي جو پاک ہوگيا اور جس نے اپنے رب کا نام ياد رکھا اور نماز پڑھتا رہا۔‘‘

اس آيت کي تفسير ميں علامہ ابن کثير رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جس نے اپنے نفس کو برے اخلاق سے پاک کيا۔ جوکچھ اللہ نے رسول اللہ ﷺپر نازل کيا اس کي تابعداري کي۔ اللہ کي رضا اوراس کے احکام وشريعت کي پاسداري کرتے ہوئے نماز کو اپنے وقتوں پر قائم کيا وہ کامياب ہوگيا۔

اس آيت کو آيت صيام کے لفظ’’لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ” (تاکہ تم پرہيزگار بن سکو)سے جوڑ کر ديکھتے ہيں تو ہميں معلوم ہوتا ہے کہ ماہ صيام اور اس کي عبادتيں مومنوں(اس ميں نام کے مسلمان داخل نہيں ہيں) کو گناہوں سے پاک اور نفس کو پرہيزگاربناديتي ہيں ۔ ہميں اللہ کي بے پاياں رحمتوں سے اميدہے کہ اس ماہ مبارک ميں مومنوں کي مغفرت ہوگئي ہوگي اور ہم کامياب ہونے والوں ميں سے ہوجائيں گے ۔ ان شاء اللہ

ابھي ہماري مغفرت ہوگئي اور ہم گناہوں سے پاک ہوگئے ليکن ياد رکھيئے معصيت کا ارتکاب کرنے سے پھر ہم گنہگار اور اللہ کے مجرم ہوجائيں گے اس لئے اپنے نفس کو پاک رکھنااور اسي طہارت وپاگيزگي پر خود کوباقي رکھنا بہت ہي اہم مسئلہ ہے جو اکثر کي نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ۔

ذرا غورفرمائيں کہ اللہ نے کاميابي کے لئے کيا کہاہے ؟ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے کہ ’’بے شک اس نے فلاح پائي جو پاک ہوگيا اور جس نے اپنے رب کا نام ياد رکھا اور نماز پڑھتا رہا”۔يہاں نمازسے مراد سے پنج وقتہ نمازوں کو اپنے وقتوں پر قائم کرنا اور اس کي حفاظت کرتے رہناہے جيساکہ مختلف مفسرين نے اس آيت کي تفسير ميں ذکر کياہے ۔ مطلب يہ ہوا کہ اصل کاميابي اس کي ہے جو اللہ کے احکام وشريعت کي پاسداري کرتاہے اوراس کي رضا کے واسطے ہميشہ نمازوں کي پابندي کرتا رہتا ہے ۔ کسي خاص موقع پرعبادت کرلينا کمال نہيں ہے بلکہ سداعبادت پر قائم رہنا کمال ہے اور يہي مطلوب مومن بھي ہے جيساکہ اللہ تعاليٰ کا فرمان ہے :

فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ  (ہود: 112)

’’ پس اے محمد!تم اور تمہارے وہ ساتھي جو (کفر و بغاوت سے ايمان و طاعت کي طرف) پلٹ آئے ہيں، ٹھيک ٹھيک راہ راست پر ثابت قدم رہو۔‘‘

فضيلة الشيخ عبد السلام بھٹوي حفظہ اللہ استقامت کي تفسير ان الفاظ ميں رقم کرتے ہيں کہ :استقامت ايک نہايت جامع لفظ ہے، جس ميں پوري شريعت آ جاتي ہے۔ عقائد ميں اللہ کي صفات پر اس طرح ايمان جس طرح اس نے حکم ديا ہے کہ اللہ تعاليٰ کي نہ کسي صفت کا انکار کرنا (تعطيل)، نہ اسے مخلوق کي صفات جيسا سمجھنا (تشبيہ) بلکہ جيسا اللہ کي شان کے لائق ہے۔ اعمال ميں نہ کسي حکم پر عمل چھوڑنا (نافرماني) اور نہ آپ (ﷺ) سے آگے بڑھنا يا آپ سے الگ راستہ نکالنا (رہبانيت اور بدعت)۔ اخلاق ميں، مثلاً نہ بخل کرنا نہ بےجا خرچ کرنا۔ غرض ہر چيز ميں عين نبي کريم (ﷺ) کا صحيح راستہ معلوم کرکے اس پر قدم بہ قدم چلنا استقامت ہے۔(تفسير القرآن الکريم)

يہي بات نبي کريم ﷺنے ايک موقع پہ سوال کرنے والے صحابي سيدنا سفيان بن عبداللہ الثقفي رضي اللہ عنہ کو بتائي جب انہوں نے آپ سے سوال کيا کہ مجھے اسلام کي ايک ايسي بات بتلائيں کہ پھرآپ کے بعد کسي سے اس کے متعلق سوال نہ کروں۔تو آپ ﷺنے فرمايا:

قُلْ: آمَنْتُ بِاللهِ، فَاسْتَقِمْ(صحيح مسلم :38)

کہو ميں اللہ پر ايمان لايا اور اسي پر ڈٹ جاؤ۔

اس لئے رمضان سے ايک اہم سبق يہ ملتا ہے کہ بلاشبہ رمضان گزر رہاہے مگر اللہ کا ذکر باقي ، اس کا دين اور اس کي عبادت باقي ہے ، ہم اس کي حمدوثنا کر تے رہيں گے ، اس کے دين پر چلتے رہيں گے اور اس کي عبادت مرتے دم تک کرتے رہيں گے جيساکہ فرمان الہي ہے :

وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُؒ۰۰۹۹(الحجر:99)

اور اپنے رب کي عبادت کرتے رہيں يہاں تک کہ آپ کو موت آجائے ۔

حافظ ابن کثير لکھتےہيں کہ يہ آيت کريمہ اس بات پر واضح دليل ہے کہ نماز اور دوسري عبادتيں انسان پر اسي وقت تک واجب ہيں جب تک اس کي عقل کام کرتي رہے، اور اس سے ملحدين کي اس رائے کي بھي ترديد ہوتي ہے کہ يقين سے مراد معرفت ہے اور جب کوئي آدمي مقام معرفت تک پہنچ جائے گا تو تمام عبادات و اعمال اس سے ساقط ہوجائيں گے۔ يہ کفر و ضلالت اور جہالت ہے ، اس ليے کہ انبيائے کرام اور ان کے صحابہ اللہ کا مقام تمام انسانوں سے زيادہ پہچانتے تھے، اور اس کے حقوق و صفات کي معرفت تمام لوگوں کي بہ نسبت انہيں زيادہ حاصل تھي اس کے باوجود وہ تمام لوگوں سے زيادہ اللہ کي عبادت کرتے اور اپني زندگي کے آخري لمحہ تک نيک کاموں کي پابندي کرتے رہے۔

کورونا حالات کي وجہ سے ہم سب کبيدہ خاطر ہيںمگر اللہ کے دين ميں بڑي کشادگي اور تسلي کا سامان ہے ، يہي گزشتہ آيت ديکھيں جو نبي کريم ﷺکي تسلي کے ليےاس وقت نازل ہوئي جب مشرکين مکہ آپ کو طرح طرح سے ستاتے، آپ کا استہزا ءکرتے اور ديوانہ پاگل کہہ کر تکليف پہنچاتے تھے ، اس سے آپ رنجيدہ اور کبيدہ خاطرہوجاتے ۔ اللہ نے آپ کو تسلي ديتے ہوئے تسبيح بيان کرنے اور سجدہ کرنے کا حکم ديا ۔ آپ کو کہا اپنے رب کے لئے نماز پڑھتے رہيں اور اس کے لئے سجدہ وتسبيح ميں لگے رہيں اسي ميں آپ کو قلبي سکون ملے گا اوريوں آپ کو اللہ کي مددبھي ملتي رہے گي ۔

جس طرح اللہ تعالي نے حزن وملال کے موقع پراپنے نبي کريم ﷺکوعبادت وذکر کے ذريعہ ڈھارس بندھائي ہے اسي طرح اس ميں ہمار ي تسلي کا بھي سامان ہے ۔ ہم سے رب کي عبادت مطلوب ہے لہذا ہم جہاں بھي رہيں اور جس حال ميں رہيں اپنے پروردگار کي حمدوثنا بيان کرتے رہيں اور پنج وقتہ نمازوں کي حفاظت کرتے رہيں اس سے دل کو سکون ملے گا اور اللہ کي مدد حاصل رہے گي ۔

حاليہ حالات اور رمضان المبارک سے مسلمانوں کو يہ سبق ملا کہ ہم نے دين کے وہ ضروري احکام بھي نہيں سيکھے تھے جن سے واسطہ روزمرہ کاہے ، يہي وجہ ہے کہ رمضان جيسے عبادت کے موسم ميں کتنے گھر نماز،تلاوت اور قيام الليل سے سونے ہوں گے کيونکہ ان کے گھر کوئي نماز پڑھانے والا نہيں اورکوئي قرآن جاننے والے نہيں تھا ۔کيا يہ کورونا ہميں سبق نہيں ديتا ہے کہ دين کو اتنا ہم ميں سے ہرکوئي سيکھے جو کم ازکم عبادت کے لئے کافي ہو؟

گزشتہ سال مساجد بند ہوجانے ميں ان لوگوں کے لئے لمحہ فکريہ ہے جو صرف جمعہ کي عبادت کرتے ہيں، ان سے مسلسل جمعہ چھوٹ رہا ہے حتي کہ رمضان المبارک کے جمعے بھي چھوٹ گئے ۔ ايسے لوگوں کے لئے نصيحت ہے کہ نماز صرف ہفتےميں فرض نہيں ہے بلکہ دن ورات ميں پانچ دفعہ فرض ہے ، يہ بات دين ميں لکھي ہوئي پہلے سے موجود ہے اور کورونا کي وجہ سے جمعہ وجماعت پر پابندي نے احساس بھي دلاديا۔اے کاش کہ ہم نصيحت حاصل کريں۔

اللہ تعاليٰ نے بار بار ہميں صبر کرنے کي تلقين کي ہے،کيونکہ انسان جب کچھ چاہنے کے باوجود اللہ کي رضا ميں راضي رہ کر صبر کرتا ہے تو وہ رحيم اللہ اس کے بدلے انسان کو کئي گنا عطا کر ديتا ہے۔ماہ مبارک کے دوران اپنے رب کي رضا کي خاطر کئي گھنٹے بھوکے رہنا۔رب کے بتائے ہوئے وقت پر کھانا ،پينا چھوڑ دينا اور ايک مخصوص وقت پر رب کے حکم کے مطابق کھا لينا،انسان کے اندروہ صبر،برداشت اور حوصلہ پيد ا کرتا ہے جس کا عادي انسان چاہ کر بھي خود کو نہيں بنا سکتا۔اس سے ہميں مشکلات کا سامنا کرنے کي ہمت ملتي ہے اور انساني ذات ميں سکون پيدا ہونے لگتا ہے۔

آخري اہم سبق يہ کہ ہميں رمضان المبارک برائي سے دور رہنے کا پيغام بھي ديتاہے۔عام دنوں ميں تو ضرورت پڑنے پر ہم جھوٹ بھي بول ليتے ہيں ،کسي کي بُرائي بھي کرتے ہيں او ر ايک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے بھي ہيں،ليکن رمضا ن کے مہينے کي يہ برکت ہے کہ روزے کے دوران کسي قسم کي بُرائي کرنے کو دل ہي نہيں مانتا۔روزہ دار اپني عبادت ميں مگن رہتا ہے اور کبھي کوئي بُرا خيال اس کے ذہن ميں آئے بھي تو روزے کے احترام ميں وہ بُرائي کرنے سے باز رہتا ہے ۔

اس طرح کے بے شمار اسباق مل جائيں گے ليکن ميري نظر ميں چند اہم تھے جن کا ميں نے ذکر کيا ہے ۔ اس کا خلاصہ يہ ہے کہ کورونا کے اس دور ميں رمضان سے ايک سبق تو يہ ملاجوکہ ہررمضان کا سبق ہے کہ ہماري کاميابي دراصل اس ميں ہے کہ پنج وقتہ نمازوں کي حفاظت کرتے رہيں گے خواہ قيد رہيں يا آزاد رہيں ۔دوسرا يہ ہے کہ دنياوي علوم کے ساتھ ساتھ دين کي بنيادي تعليم بھي حاصل کريں تاکہ خود سے بھي رب کي بندگي ، اس کي حمد وثنا اور قرآن کي تلاوت کرسکيں ۔ کتني عجيب بات ہے کہ دنيا کي بڑي سے بڑي ڈگري حاصل کرلينے کے باوجود ہميں نماز پڑھنا اور قرآن کي تلاوت کرنا نہ آئے ۔ تيسرايہ ہے کہ جو لوگ دين پر اپني مرضي سے عمل کرتے تھے وہ سنبھل جائيں ،اور اس کي نافرماني اور معصيت کا ارتکاب مت کريں مزيديہ کہ رب کي اس طرح بندگي کريں جس طرح کرنے کا حکم ہوا ہے ۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ رمضان ميں انجام دئے گئے ہمارے اعمال کو قبول فرماکراسے ہماري نجات کا ذريعہ بنائے ، ہم سے کورونا کي وبا دورکردے اور ہميں مرتے دم تک اپني بندگي کي توفيق سے نوازے۔ آمين

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے