صدقة الفطر ہر مسلمان پر فرض ہے اور فرض کے متعلق اللہ تعالي نے حديث قدسي ميں فرمايا:

وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْه(بخاري:6137)

محبوب ترين اعمال جن کے ذريعے ميرا بندہ ميرا قرب حاصل کرتا ہے فرائض ہيں۔

نيز سيدناابن عباس رضي الله عنهما نےفرمايا:

فَرَضَ رَسُولُ اللهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنْ اللغْوِ وَالرَّفَثِ  وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ

رسول اللہ ﷺ نے صدقة الفطر کو فرض قرار ديا روزے دار کوپاک کرنے اور مسکين کي خوراک کے لئے۔(صحيح ابي داؤد:1427)

نيز وکيع بن جراح رحمہ اللہ نے کہا :

زَكَاةُ الْفِطْرِ لِشَهْرِ رَمَضَانَ كَسَجْدَتِي السَّهْوِ لِلصَّلاةِ، تَجْبُرُ نُقْصَانَ الصَّوْمِ كَمَا يَجْبُرُ السُّجُودُ نُقْصَانَ الصَّلاةِ.(المجموع للنووي،6/140)

صدقة الفطر سجدة السھو کي طرح ہے ،جس طرح سجدة السھو نماز کي کمي کوتاہي کو دور کرديتا ے اسي طرح صدقة الفطر روزے کو کمي کوتاہي سے پاک کرديتا ہے۔

وجہ تسميہ:

زکوةالفطر کامعني ہے :روزہ چھوڑنے کا صدقہ،يعني وہ صدقہ جو روزوں کے اختتام پر ديا جائے،”الفطر“فطرت سے ماخوذ ہے ،جو اصل خلقت (جسم)پر بولا جاتا ہے، اسي بنا پرصدقة الفطرمالي حيثيت کا اعتبار کئے بغير جميع ابدان پر فرض کيا گيا۔

حکمت و شرعي حيثيت :

يہ ہر مسلمان مرد و عورت،چھوٹے بڑے،آزاد و غلام پر فرض ہے،چنانچہ اللہ تعاليٰ نے فرمايا:

وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ  ’’زکواةادا کرو‘‘(البقرة:43)

اس ميں زکوةماليہ،اور زکوةزرعيہ عشرونصف عشر،اورزکوةبدنيہ صدقة الفطر شامل ہيں۔

نيز رسول اللہ ﷺ نے صدقة الفطر کو فرض قرار ديا روزے دار کوپاک کرنے اور مسکين کي خوراک کے لئے،نيز اس ميں مواسات و مواخات اسلاميہ اور باہمي اتفاق و اتحاد، ايک دوسرے کے احساس اور ايک دوسرے کي کفالت کے مظاہر بھي پائے جاتے ہيںنيز اس ميں اللہ تعالي کے شکر کا پہلو بھي پايا جاتا ہے۔

صدقة الفطر کن پر فرض ہے:

يہ ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ مالدار ہو يا مسکين (بشرطيکہ وہ ايک صاع غلے کا مالک ہو)،حتي کے ايک دن کے بچے پر بھي فرض ہے،البتہ اسکي ادائيگي ذمہ داران کريں گے، مثلا،غلام کي طرف سے اسکا آقا ،بچے کي طرف سے اسکا والد اور عورت کي طرف سے اسکا والد يا خاوند،  چنانچہ ابن عمر رضي الله عنهمانے کہا کہ:

أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ عَنِ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ وَالْحُرِّ وَالْعَبْدِ مِمَّنْ تَمُونُونَ

رسول اللہ ﷺ نےصدقة الفطرہر چھوٹے ،بڑے ، آزداورغلام کي جانب سے نکالنے کا حکم دياجن کے تم کفيل ہو۔(بيہقي کبري:7685،سنن دارقطني:12،الارواء:835)

نافع رحمہ اللہ نے سيدنا ابن عمر رضي اللہ عنہما کے حوالہ سے کہاکہ:

أَنَّهُ كَانَ يُعْطِي صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ صَغِيرِهِمْ وَكَبِيرِهِمْ عَمَّنْ يَعُولُ وَعَنْ رَقِيقِهِ , وَعَنْ رَقِيقِ نِسَائِهِ

سيدنا ابن عمررضي اللہ عنہما اپنے زير کفالت ہر چھوٹے ،بڑے،اپنے غلاموں،اپني بيوي کے غلاموںکي طرف سے صدقة الفطرادا کرتے۔ (سنن دارقطني:13،الارواء:835)

(تنبيہ)حمل کي طرف سے صدقة الفطر کي ادائيگي فرض نہيں نہ ہي ثابت ہے اس سلسلے ميں ”إِنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ“ والي روايت سے استدلال درست نہيں کيونکہ اس ميں’’جنين‘‘ کا ذکر ہے جبکہ صدقة الفطر’’ صغير ‘‘پر فرض ہے ،اور’’جنين‘‘ پر لفظ ’’صغير‘‘ کا اطلاق نہيں ہوتا ، نيز سيدناعثمان رضي اللہ عنہ کا اثر منقطع ہے اور ابو قلابہ رحمہ اللہ کا قول وجوب پر دلالت نہيں کرتا ،جيسا کہ حافظ عراقي نے،شرح المجتبي،22/266 ميں ذکر کيا ہے۔

وقت اداء:

صدقة الفطر نماز عيد کي ادائيگي کے لئے اپنے گھر سے نکلنے سے دو دن پہلے تک صدقة الفطرجمع کرنے والوں کو کسي بھي وقت ديا جاسکتا ہے،جيسا کہ عبد اللہ بن ثعلبہ بن صعير العذري نے کہا:

خَطَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمَيْنِ فَقَالَ أَدُّوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ وَصَغِيرٍ وَكَبِيرٍ

رسول اللہ ﷺ نے لوگو ں سے عيد الفطر سے دو روز قبل خطاب کيا اورصدقة الفطر جمع کرانے کا حکم ديا، ہر فرد آزاد،غلام، چھوٹے اور بڑےکي طرف سے ايک صاع گندم يا ايک صاع کھجورياجو ديا جائے۔(مسند احمد:22663،ابوداؤد:1623،صحيح ابي داؤد:1434)

چنانچہ ابن عمر رضي اللہ عنہما نے کہا کہ:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِزَكَاةِ الفِطْرِ قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاَةِ

رسول اللہ وﷺ نے حکم ديا کہ صدقة الفطر لوگوں کے نماز عيد کي جانب نکلنے سے پہلے نکال ديا جائے۔(بخاري:1509)

نيز نافع رحمہ اللہ نے کہا:

كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا «يُعْطِيهَا الَّذِينَ يَقْبَلُونَهَا، وَكَانُوا يُعْطُونَ قَبْلَ الفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ»

ابن عمر رضي الله عنهما ان لوگوں کو صدقة الفطر ديتے جو اسے قبول کرتے ہيں(يعني جمع کرنے والوں کو)اور لوگ(يعني صحابہ) ايک يا دو دن پہلے ديا کرتے تھے۔ (بخاري:1511)

نيز نبي مکرم ﷺ نے فرمايا:

مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ

جس نے اسے نماز عيد سے قبل ادا کيا تو يہ صدقہ قبول ہے اور جس نے اسے نماز کے بعد ديا تو يہ عام (نفلي)صدقہ شمار ہوگا۔(صحيح ابي داؤد:1609)

جنس يا نقد:

صدقة الفطر کا بنيادي مقصد مساکين کو عيد کے دن سوال کرنے سے بچانا اور انہيں عام مسلمانوں کے ساتھ عيد کي خوشيوں ميں شريک کرنا ہے،عہد رسالت ميں درہم و دينار عام نہ تھے ،نيز بہت کم تھے ،لوگ عام طور پر اشياء کے تبادلے کے ذريعے خريد و فروخت کيا کرے تھے ، اسي لئے احاديث ميں اجناس کا ذکر آيا ہے،ليکن دور حاضر ميں مساکين کي حاجت پوري کرنے کا بہترين ذريعہ نقد ہے نہ کہ جنس،لہذاعصرحاضر ميں صدقة الفطر نقد کي صورت ميں نکالنا ہي بہتر معلوم ہوتا ہے،جيسا کہ عہد صحابہ ميں اجناس کي مقدار ميں اختلاف ہوگيا تھا ،اور اس اختلاف کي وجہ احاديث ميں مذکور اجناس کي قيمتوں ميںتفاضل و تباين تھا،يعني شام کي نصف صاع گندم کہ قيمت وہي تھي جو مدينہ کي ايک صاع کھجور کي،ايسے ہي عمررضي الله عنهمانے گندم کا نصف صاع باقي اشياء کے ايک صاع کے برابر قرار ديا تھا،اس زمانے ميں صحابہ کي کثرت کے باوجود اس اختلاف کي وجہ ايک صاع مقدار ميں مختلف اشياء کي قيمتوں ميں کمي بيشي تھي،نيز يہ اختلاف بھي ان اشياء ميں ہوا جو احاديث ميں بصراحت مذکور ہيں، سيدناعمررضي الله عنه  اورسيدنامعاويہ رضي الله عنه قيمتوں کے اختلاف کے اس نکتے کو سمجھ چکے تھے اسي لئے انہوں نے مقدار ميں تبديلي کي اور چند ايک کو چھوڑ کر لوگ اس پر عمل کرنے لگے،علاوہ ازيں سلف صالحين سے قيمت لينا منقول ہے ، جيسا کہ حسن بصري رحمہ اللہ اورعمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ سے،لہذا نقد دينا ہي بہتر معلوم ہوتا ہے ،يہ مسکين کي حاجت پوري کرنے کا مؤثر ذريعہ ہے، البتہ معيار گندم يا چاول کو بنايا جاسکتا ہے جو کہ ہمارے ہاں عام ہيں۔(مصنف ابن ابي شيبہ،رقم:10471- 10472-الجامع لأحكام الصيام لأبي إياس محمود بن عبد اللطيف )

مقدار:

احاديث ميں ايک’’صاع‘‘ کا لفظ آيا ہے جو چار’’مد‘‘ کا ہوتا ہے،اور، مد، ’’مجمع الکفين‘‘يعني دونوں ہاتھوں کي ايک لپ کو کہتے ہيں

(لسان العرب:13/53- النھاية :4/308-بحار الانوار: 4/568-القاموس المحيط:407-المجموع:6/129- من المحتاج :1/382-المصباح المنير:1/415-الايضاح و التبيان في معرفة المکيال والميزان:56،57-احکام زکواةو عشر: 53-فتاوي ہيئة کبار العلماء)

اگر ان ميں گندم ڈالي جائے پھر اسے نکال کر تولا جائے ،پھر اس ميں کھجور ڈال کر تولي جائے ،اسي طرح اس ميں مختلف اجناس ڈال کر تولي جائيں تو سب کا وزن مختلف ہوگا ،نيز انکي قيمتيں بھي مختلف ہيں ،لہذا وزن کا اعتبار نہيں کرنا چاہيئے،نہ ہي رقم مخصوص کرني چاہيئے ، بہتر طريقہ يہ ہے کہ : درميانے قد کا انسان چار مرتبہ دونوں ہاتھوں سے لپيں بھرے ،اور اسکا صدقہ کردے ، عہد رسالت ميں يہ طرز عمل ايک صاع شمار ہوتا تھا،يا اگر انکي قيمت صدقہ کرنا چاہتا ہے تو انکا وزن نکال کر انکي قيمت معلوم کرے اور قيمت بطور صدقة الفطر نکال دے۔

مستحقين:

صدقة الفطر کے مستحق صرف فقراء ومساکين ہيں،جيسا کہ نبي کريم ﷺ نے فرمايا:

أَمَّا غَنِيُّكُمْ فَيُزَكِّيهِ اللهُ، وَأَمَّا فَقِيرُكُمْ، فَيَرُدُّ اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَى

تمہارے مالدار کو اللہ پاک کرديتا ہے اور تمہارے فقير کو اس سے زيادہ لوٹاديتا ہے جو اس نے ديا ہو۔(سنن ابو داود:1619)

نيز فرمايا:

طعمة للمساكين(ترجمہ)مسکين کے لئے خوراک ہے۔

مسکين وفقيرکي تعريف:

مسکين: وہ شخص ہے جسکي بنيادي ضروريات تک پوري نہ ہوں جيسا کہ نبي ﷺ نے فرمايا:

وَلَكِنِ المِسْكِينُ الَّذِي لاَ يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ

مسکين وہ شخص ہے جسکے پاس اسقدر رزق بھي نہ ہو جو اسے کفايت کر جائے۔(صحيح بخاري:1479)

فقير:

اس شخص کو کہتے ہيں جس کے پاس کچھ بھي نہ ہو(مختار الصحاح،ص:213-القاموس المحيط،ص:588-لسان العرب،10/299)

فقير اور مسکين کے مقابلے ميں غني (مالدار)آتا ہے اور نبي ﷺ نے غني اس شخص کو قرار ديا جس کے پاس 50درہم يا اس کے مساوي سونا ہو۔(سنن ابي داؤد:1628-الصحيحة:499)

(وضاحت)جديد حساب کے مطابق 50 درہم تقريبا  ’’سوا  بارہ‘‘ تولے چاندي کے مساوي ہوتے ہيں۔

عيد الفطر فضائل و احکام

وجہ تسميہ:

يہ دو لفظوں سے ملکر بنا ہے ،’’عيد‘‘جسکا معني ہے لوٹنا،اور ’’الفطر‘‘جسکا معني ہے روزہ چھوڑنا،مراد خوشي کا وہ دن ہے جو ہر سال رمضان المبارک کے اختتام پر آتا ہے،جس ميں مسلمان اپنے رب کے احسانات اور اسکي نعمتوں کا اجتماعي طور پر شکر بجا لاتے ہيںاور ان پر فرحت و مسرت کا اظہار کرتے ہيں۔

شرعي حيثيت و حکمت:

نبي اکرمﷺ جب ہجرت کرکے مدينہ تشريف لائے تو ديکھا کہ اہل مدينہ سال ميں دو دن عيد مناتے ہيں،ايک نوروز دوسرا مہرجان،تو نبي ﷺ نے فرمايا:

إِنَّ اللهَ  عزَّ وجل  قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا , يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى(ابوداؤد:1136)

اللہ عز وجل نے تمہيں ان دو دنوں کے بجائے يوم الفطر اور يوم الاضحي عطا فرمائے ہيں۔

اس حديث سے ثابت ہوا کہ:

اسلام ميں سالانہ عيديں صرف دوہيں،عيد الفطر اور عيد الاضحي،تيسري سالانہ عيد کا نظريہ باطل اور بدعت ہے۔

نبي مکرم ﷺ نے ان دو دنوں کو زمانہ جاہليت کے دو دنوں،نوروز اور مہرجان کے مقابلے ميں پيش کيا ،چنانچہ اسلام آجانے کے بعد ان دود دنوں کا منانا اہل جاہليت کے ساتھ مشابہت اور خلاف شريعت ہے۔

يہ دو دن مسلمانوں کي خوشي منانے کے دن ہيں،عيد الفطر کي خوشي کي وجہ ماہ رمضان کے روزوں کي تکميل ہے، جيسا کہ نبي ﷺ نے فرمايا:

لِلصَّائمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِه

روزے دار کے لئے خوشي کے دو موقعے ہيں ايک جب وہ روزے رکھنا چھوڑتا ہے( تو وہ روزوں کي تکميل پر خوش ہوتاہے)،دوسرا جب وہ اپنے رب سے ملے گا (اور وہ اسے جزا دے گا) تو وہ اپنے روزے پر خو ش ہوگا۔(بخاري:1904)

ايک روايت ميں ہے’’فرح بفطرہ‘‘(مسلم:2762) روزوں کے چھوٹنے يعني انکي تکميل پر خوش ہوتا ہے(نہ کہ افطار کے وقت کھانے پينے پر)کہ اللہ تعالي کي توفيق سے ماہ رمضان کے روزے رکھے ،گناہ بخشوائے، درجات بلند کروائے،اعمال نامے ميں حسنات کا اضافہ کيا وغيرہ ،چنانچہ عيد کے روز اللہ تعالي کے ان انعامات پر خوش ہوتا ہے اور اللہ تعالي کا شکر بجالاتا ہے۔

آداب و مستحبات عيد:

عيد کا دن چونکہ مسلمانوں کي اجتماعي خوشي اور اللہ تعالي کا شکر ادا کرنےکادن ہے لہذاس دن کے احکامات کو بھي تفصيل سے بيان کيا گيا ہے تاکہ يہ دن صحيح معنوں ميں اللہ تعالي کا شکر ادا کرنے کا دن ثابت ہواور مسلمان اس دن خوشي ميں بے قابو ہوکر شرعي حدود و قيود کو پامال نہ کريں۔

1۔نبي کريمﷺ نے عيد کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمايا ہے۔(بخاري)

2۔يکم شوال ،غروب آفتاب سے نماز عيد تک با آواز بلند تکبيرات پڑھنا،جيسا کہ اللہ تعالي نےماہ رمضان کے تذکرے ميں فرمايا:

وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۰۰۱۸۵

تاکہ تم روزوں کي تعداد پوري کرلو اور اللہ نے تمہيں جو توفيق دي اس پر اسکي بڑائي بيان کرو اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔(البقرة:185)

امام حاکم رحمہ اللہ نے فرمايا:

وَهَذِهِ سُنَّةٌ تَدَاوَلَهَا أَئِمَّةُ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَصَحَّتْ بِهِ الرِّوَايَةُ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، وَغَيْرِهِ مِنَ الصَّحَابَةِ

تکبيرات پڑھنا سنت ہے جسے محدثين نے ايک دوسرے سے نقل کيا ہے اور عبد اللہ بن عمر وغيرہ صحابہ سے اسکي روايت صحيح ثابت ہے۔ (المستدرک،کتاب صلاة العيدين،رقم:1105)

نيز نبي ﷺ بھي اس موقع پر تکبيرات پڑھا کرتے تھے،جيسا کہ ابن عمررضي الله عنهما نے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ  ﷺ  يُكَبِّرُ يَوْمَ الْفِطْرِ مِنْ حِينِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ حَتَّى يَأتِىَ الْمُصَلَّى

نبي ﷺ عيد الفطر کے روزاپنے گھر سے نکلتے وقت تکبيرات پڑھتے حتي کہ عيد گاہ پہنچ جاتے۔(مستدرك حاکم: 1105 , دارقطني: ج 2/ص44 ح6 ,بيهقي: 5926 ,  الإرواء تحت حديث: 650 , وصَحِيح الْجَامِع: 5004،الصحيحة،رقم:171)

تکبيرات کے الفاظ:

ا)اللهُ أَكْبَرُ , اللهُ أَكْبَرُ , اللهُ أَكْبَرُ، لَا إلَهَ إِلَّا اللهُ، اللهُ أَكْبَرُ , اللهُ أَكْبَرُ , وَللهِ الْحَمْدُ(ارواء الغليل،تحت رقم:654)
ب) الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله اكبر ولله الحمد(ارواء الغليل،تحت رقم:654)
ج)الله أكبر الله أكبر الله أكبر ولله الحمد الله أكبر وأجل الله أكبر على ما هدانا(ايضا)
د)الله أكبر كبيرا الله أكبر كبيرا الله أكبر وأجل الله أكبر ولله الحمد(ايضا)
هـ)اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا اللهُمَّ أَنْتَ أَعْلَى وَأَجَلُّ مِنْ أَنْ تَكُونَ لَكَ صَاحِبَةٌ أَوْ يَكُونَ لَكَ وَلَدٌ أَوْ يَكُونَ لَكَ شَرِيكٌ فِى الْمُلْكِ أَوْ يَكُونَ لَكَ وَلِىٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ، اللهُمَّ اغْفِرْ لَنَا  اللهُمَّ ارْحَمْنَا(بيھقي کبري،باب کيف التکبير:6282)

نماز عيد کے لئے غسل کرنا:

امام نافع رحمہ اللہ نے کہا:

أنَّ ابنَ عُمَرَ كانَ يَغتَسِلُ يَومَ الفِطرِ، قَبلَ أنْ يَغدوَ إلى المُصَلَّى

ابن عمررضي الله عنهما عيد الفطر کے دن عيد گاہ جانے سے قبل غسل کرتے۔(سنن ابن ماجہ:1315)

نيز زاذان رحمہ اللہ نے کہا کہ:

سَأَلَ رَجُلٌ عَلِيًّا رضي الله عنه  عَنِ الْغُسْلِ , قَالَ: اغْتَسِلْ كُلَّ يَوْمٍ إِنْ شِئْتَ , فَقَالَ: لَا , الْغُسْلُ الَّذِي هُوَ الْغُسْلُ  قَالَ: يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيَوْمَ عَرَفَةَ، وَيَوْمَ النَّحْرِ، وَيَوْمَ الْفِطْرِ.

ايک شخص نے سيدنا علي رضي الله عنه سے غسل کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ: ہر روز غسل کر اگر تو چاہے ،اس نے کہا :نہيں،ميں غسل خاص کے متعلق پوچھ رہا ہوں ،تو انہوں نے کہا:جمعہ کے دن،عرفہ کے دن،عيد الاضحي کے دن اور عيد الفطر کے دن۔(بيهقي:5919 ،ارواء الغليل،تحت حديث رقم:146)

4)خوبصورت لباس پہننا ،خوشبو لگانااور زينت اختيار کرنا،جيسا کہ نبي ﷺ نے فرمايا:

إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللهُ لِلْمُسْلِمِينَ , فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ , وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ , وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ

يہ عيد کا دن ہے اللہ نے اسے مسلمانوں کے لئے مقرر کيا ہے ،لہذا جو جمعہ کے لئےآئے وہ غسل کرلے اور اگر ہو تو خوشبو لگا لے،اور مسواک ضرور کيا کرو۔(ابن ماجة: 1098 , طبراني اوسط: 7355،  صَحِيح الْجَامِع: 2258 , صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب:707)

نيزسيدنا ابن عباس رضي الله عنهماے کہاکہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَلْبَسُ يَوْمَ الْعِيدِ بُرْدَةً حَمْرَاءَ

نبي کريم ﷺ عيد کے روز سرخ چوغہ پہنتے تھے۔ (طبراني اوسط:7609،الصحيحة:1279)

امام نافع رحمہ اللہ نے کہا:

أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَلْبَسُ فِي الْعِيدَيْنِ أَحْسَنَ ثِيَابِهِ

سيدنا ابن عمر رضي الله عنهما عيدين ميں اپنا سب سے عمدہ لباس زيب تن کرتے۔(بيہقي،اسکي سند حسن ہے،فتح الباري لابن رجب:6/68)

5)عيد گاہ جاتے ہوئے گھر سے کچھ کھا کر نکلنا، جيسا کہ سيدنا انس رضي الله عنه نے کہا کہ:

«كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَغْدُو يَوْمَ الفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ» «وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا»

رسول الله ﷺعيد کے روز گھر سے کھجور کھا کر نکلتے اور طاق تعداد ميں کھاتے۔(بخاري:953، ابن ماجہ:1756)

6)گھر کي خواتين اور بچوں کو بھي لے کر نکلنا:جيسا کہ ام عطيہ رضي اللہ عنها نے کہا:

أَمَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ نُخْرِجَ العَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الخُدُورِ

ہميں ہمارے نبي کريم ﷺ نے حکم ديا کہ ہم قريب البلوغ لڑکيوں اور پردےدار خواتين کو بھي نکاليں ۔(بخاري:974)

نيز کہا:

أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الحُيَّضَ يَوْمَ العِيدَيْنِ، وَذَوَاتِ الخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ، وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ عَنْ مُصَلَّاهُنَّ، قَالَتِ امْرَأَةٌ: يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ: «لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا»

ہميں حکم ديا گيا کہ ہم عيدين کےروز حيض والي خواتين اورپردہ نشينوں کو بھي نکاليں پس وہ مسلمانوں کي جماعت اور انکي دعا ميں شريک ہوں البتہ حيض والي خواتين انکي عيد گاہ سے الگ رہيں ، ايک عورت نے کہا:ہم ميں سے کسي کے پاس چادر نہ ہو تو؟ آپ نے فرمايا:اسے اسکي بہن اپني چادر کا کچھ حصہ اسے اوڑھادے۔  (بخاري:351)

نيزسيدناابن عباس رضي اللہ عنہمانے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بَنَاتَهُ وَنِسَاءَهُ أَنْ يَخْرُجْنَ فِي الْعِيدَيْنِ

رسول اللہ ﷺ اپني بيٹيوں اور گھر واليوں کو حکم ديتے کہ وہ عيدين کي نماز ميں حاضر ہوں۔(مسند احمد:2054،الصحيحة،رقم:2115)

نيز: سيدناعبد الله بن عمررضي الله عنهما ے کہا کہ:

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْرُجُ فِي الْعِيدَيْنِ مَعَ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللهِ، وَالْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، وَجَعْفَرٍ، وَالْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَزَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَأَيْمَنَ بْنِ أُمِّ أَيْمَنَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ رَافِعًا صَوْتَهُ بِالتَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ، فَيَأْخُذُ طَرِيقَ الْحَدَّادِينِ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى، وَإِذَا فَرَغَ رَجَعَ عَلَى الْحَذَّائِينَ حَتَّى يَأْتِيَ مَنْزِلَهُ

رسول اللہ ﷺ عيدين ميں فضل بن عباس، عبد اللہ ،عباس، علي، جعفر، حسن،حسين،اسامة بن زيد، زيد بن حارثہ، ايمن،رضي اللہ عنھم کے ساتھ با آواز بلند تکبير و تہليل پڑھتے ہوئے حدادين کے راستے سے ، عيد گاہ پہنچتے ،اور جب فارغ ہوتے توحذائين کے راستے سے واپس آتے حتي کہ گھر پہنچ جاتے۔(بيہقي کبري:6130،الصحيحة،رقم:171)

7)پيدل چل کر جانا،واپس بھي پيدل آنا:

سيدنا ابن عمررضي الله عنهما نے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا، وَيَرْجِعُ مَاشِيًا

رسول اللہ ﷺ عيد کے لئے پيدل جاتے اور پيدل ہي واپس آتے۔(ابن ماجہ:1295 ،صحيح الجامع:636)

البتہ واپسي ميں راستہ بدلنا،جيسا کہ جابر بن عبد اللہ رضي الله عنهما نے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ(بخاري:943)

رسول اللہ ﷺ عيد کے دن راستہ بدلتے۔

8)تکبيرات پڑھتے ہوئے جانا،جيسا کہ سيدنا ابن عمر رضي اللہ عنہما نے کہا:

كَانَ رَسُولُ اللهِ  صلى اللهُ عليه وسلَّم يُكَبِّرُ يَوْمَ الْفِطْرِ مِنْ حِينِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ حَتَّى يَأتِىَ الْمُصَلَّى

نبي اکرمﷺ عيد الفطر کے دن اپنے گھر سے نکلتے وقت تکبيرات پڑھتے حتي کہ عيد گاہ پہنچ جاتے۔(المستدرک:1105,دارالقطني: ج2،ص44 ،ح6 , بيہقي کبري:4974 , إرواءالغليل، تحت حديث: 650 , صَحِيح الْجَامِع: 5004)

خواتين بھي تکبيرات پڑھتے ہوئے جائيں،جيسا کہ ام عطيہ انصاريہ رضي اللہ عنہا نے کہا کہ:

الْحُيَّضُ يَخْرُجْنَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ يُكَبِّرْنَ مَعَ النَّاسِ

ہميں حکم ديا جا تا کہ حائضہ عورتيں بھي نکليں اور وہ لوگوں سے پيچھے رہ کر تکبيرات پڑھيں۔ (مسلم:2092) البتہ آواز پست رکھيں۔

9)نکلنے سے قبل صدقة الفطر ادا کردينا۔

10)کسي بھي دوسرے کام سے پہلے نماز عيد ادا کرنا،جيسا کہ ابو سعيد خدري  رضي اللہ عنہ نے کہا:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى المُصَلَّى، فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلاَةُ

نبي مکرمﷺ عيدين کے روز عيد گاہ جاتے اور سب سے پہلے نمازعيدپڑھاتے۔(بخاري:913)

11)چھوٹے بچوں اوربچيوں کو اشعار گانے کي چھوٹ دينا۔

12)مردوں کا بھي کھيل کود کرنااور خواتين کا اسے ملاحظہ کرنا،جيسا کہ سيدہ عائشہ رضي اللہ عنہا نے کہا:

دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثٍ  فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ , وَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ: مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: « دَعْهُمَا « , فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا , وَقَالَتْ: كَانَ يَوْمُ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ , فَإِمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِمَّا قَالَ: « تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ؟ « , فَقُلْتُ: نَعَمْ , فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ , خَدِّي عَلَى خَدِّهِ , وَهُوَ يَقُولُ:»دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ «حَتَّى إِذَا مَلَلْتُ قَالَ:» حَسْبُكِ؟ « , قُلْتُ , نَعَمْ , قَالَ « اذْهَبِي «

رسول اللہ ﷺ ميرے پاس(عيد کے روز) تشريف لائےتو دوبچياں جنگ بعاث کے اشعار ترنم کے ساتھ پڑھنے لگيں،آپ بستر پر ليٹ گئے اور چہرہ پھير ليا،پھر سيدنا ابوبکر رضي اللہ عنہ داخل ہوئے تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ: رسول اللہ ﷺ کي موجودگي ميں شيطان کا گانا ؟چنانچہ نبي کريم ﷺ انکي طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے:انہيں رہنے دو،پھر جب آپ کسي دوسري جانب متوجہ ہوئے تو ميں نے انہيں ٹہوکا لگاياتو وہ دونوں چلي گئيں،نيز کہاکہ:عيد کے روز حبشي چمڑے کي ڈھالوں اور چھوٹے نيزوں کے ساتھ کھيل رہے تھے،تو يا ميں نے آپﷺ سے پوچھا يا آپ نے مجھ سے کہ:کيا تو ديکھنا چاہتي ہے؟ميں نے کہا :جي ہاں،پھر آپ نے مجھے اپنے پيچھے کھڑا کرليا ،ميرا گال آپکے گال سے مس کررہا تھا اور آپ فرمارہے تھے:آگے بڑھو اے بني ارفدة،حتي کہ ميں تھک گئي تو آپ نے پوچھا:کافي ہے؟ميں نے کہا:جي ہاں،آپ نے فرمايا:چلي جا۔(بخاري:907)

13)مرد و زن کا اختلاط نہ کرنا، جيسا کہ اسيد رضي اللہ عنہ نے کہا کہ:

قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم وَهُوَ خَارِجٌ مِنْ المَسْجِدِ، وَقَدْ اخْتَلَطَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاءِ فِي الطَّرِيقِ. فَقَالَ: «اسْتَأْخِرْنَ فَلَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِيقَ، عَلَيْكُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِيقِ» فَكَانَتْ المَرْأَةُ تُلْصِقُ بِالجِدَارِ حَتَّى إِنَّ ثَوْبَهَا لَيَتَعَلَّقُ بِالجِدَارِ مِنْ لُصُوقِهَا بِهِ.

رسول اللہ ﷺ مسجد سے باہر نکلے تو راستے ميں مرد و زن کا اختلاط ہورہا تھا ،تو آپ نے فرمايا: عورتوں پيچھے رہو ،تمہيں راستے کے بيچ ميں چلنے کا حق نہيں،تم راستے کے کناروں پر ہي رہا کروچنانچہ عورت ديوار کے ساتھ لگ کر چلتي حتي کہ اسکا کپڑا ديوار کے ساتھ اٹکتا۔(ابوداؤد:5274،الصحيحة:856)

14)فحاشي و عريانيت سے بچنا،اللہ تعالي نے فرمايا:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ۰۰۳۰ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ يَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ١۪ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ۠ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ١۪ وَ لَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ١ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۰۰۳۱

اے نبيﷺمومنوں سے کہيں کہ: وہ اپني نگاہيں جھکا کر رکھا کريں اور اپني شرمگاہوں کي حفاظت کيا کريں،يہ انکے لئے زيادہ پاکيزگي کا باعث ہے مومن خواتين سے کہيں کہ:وہ اپني نگاہيں جھکا کر رکھا کريں اور اپني شرمگاہوں کي حفاظت کيا کريں،اور اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کيا کريں،سوائے اپنے خاوندوں ،يا اپنے باپوں يا اپنے سسروں يااپنےبيٹوں يا اپنے خاوندوں کے بيٹوں يااپنے بھائيوں يا اپنے بھتيجوں يا اپنے بھانجوں يا اپني عورتوں کے،يا اپني لونڈيوں کے يا ايسے نوکروں کے جو شہوت والے نہ ہوں،يا ايسے بچوں کے جو عورتوں کي پردے کي باتوں سے واقف نہ ہوں اور (يہ بھي کہہ ديں کہ)چلتے وقت اپنے پيروں کو زمين پر مارکر نہ چليں تاکہ انکي پوشيدہ زينت معلوم کرلي جائے اور اے ايمان والو تم سب اللہ کے ہاں توبہ کرتے رہو تاکہ فلاح پاجاؤ۔ (النور30۔31)

15)اسراف اور فخر و رياء سے بچنا:

يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَؒ۰۰۳۱ (الاعراف:31)

اے اولاد آدم ہر عبادت کےوقت اپني زينت اختيار کرو ،اور کھاؤ،پيو ، اور فضول خرچي نہ کرو ،کيونکہ وہ فضول خرچي کرنے والوں کو پسند نہيں کرتا۔

وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ۰۰۱۸ وَ اقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ١ؕ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِؒ۰۰۱۹

اور لوگوں کے سامنے اپنے گال مت پھلا،نہ ہي زمين ميں اکڑ کر چل،کيونکہ اللہ کسي بھي گھمنڈي ،اور شيخي خورے کو پسند نہيں کرتا،اور اپني چال ميں ميانہ روي اختيار کر اور اپني آواز کو پست رکھ ،بے شک سب سے بري آواز گدھے کي آوازہے۔ (لقمان:18۔19)

16)غرباء و مساکين کا خاص خيال رکھنا،جيسا کہ ابو سعيد خدري رضي اللہ عنہ  نے کہا کہ:رسول اللہ ﷺ عيد کے خطبے ميں ارشاد فرماتے:

تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا

صدقہ کرو،صدقہ کرو،صدقہ کرو۔(مسلم 2090)

تاکہ مسلمان فقراء و مساکين بھي عيدکي خوشيوں ميں برابر شريک ہوسکيں۔

نماز عيد کے مسائل:

1)کھلے ميدان ميں پڑھنا،جيسا کہ ابو سعد خدري رضي اللہ عنہ نے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى المُصَلَّى

نبي مکرم ﷺ عيد الفطر اور عيد الاضحي کے دن عيد گاہ جايا کرتے۔(بخاري:956)

2)طلوع آفتاب کے بعد پڑھنا،جيسا کہ يزيد بن حمير الرحبي رحمہ اللہ نے کہا کہ:

خَرَجَ عَبْدُ اللهِ بْنُ بُسْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم  مَعَ النَّاسِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ فَقَالَ: إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ

سيدناعبد اللہ بن بسر صحابي رسول عيد کے روز لوگوں کے ساتھ نکلے اور امام کي تاخير کو ناپسند کيا اور کہا کہ:اس وقت تک تو ہم فارغ ہوجايا کرتے تھے،اور يہ نماز چاشت کا وقت تھا۔ (ابوداؤد:1135,ابن ماجہ:1317،إرواءالغليل 632)

3)نماز سے پہلے يا بعد نفل نہ پڑھنا، جيسا کہ سيدنا ابن عباس رضي اللہ عنہ نے کہا کہ:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الفِطْرِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا

رسول اللہ ﷺ عيد کے روز نکلے،دو رکعت نماز پڑھائي اور نہ اس سے پہلے نماز پڑھي نہ اسکے بعد۔ (بخاري:989)

4)پہلے نماز پڑھنا پھر خطبہ پڑھنا،جيسا کہ سيدنا جابر بن عبد اللہ رضي الله عنهمانے کہا:

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الفِطْرِ، فَبَدَأَ بِالصَّلاَةِ قَبْلَ الخُطْبَةِ

نبي اکرم ﷺ عيد کے دن نکلے اور خطبے سے قبل نماز پڑھائي۔(بخاري:958)

پہلے خطبہ اور پھر نماز کي بدعت مروان نے جاري کي،جيسا کہ طارق بن شھاب رحمہ اللہ نے کہا کہ:

أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ قَبْلَ الصَّلاَةِ مَرْوَانُ

عيد کے دن نماز سےقبل خطبہ سب سے پہلے مروان نے ديا۔(مسلم:18)

5)سترہ لگانا،جيسا کہ سيدنا ابن عمر رضي الله عنهما نے کہا کہ:

قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلَى سُتْرَةٍ

رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:سترے کے بغير نماز نہ پڑھ(ابن خزيمہ:800 , ابن حبان:2362 ،حسن، صفة الصلاة، ص82)

6)دو رکعات نماز (عيد)پڑھنا۔

7)نماز سے قبل آذان يا اقامت نہ کہنا، جيسا کہ سيدنا جابر بن عبد اللہ رضي اللہ عنہمانے کہا:’’نبي کريمﷺ عيد کے دن نکلے اور خطبے سے قبل نماز پڑھائي آذان و اقامت کے بغير۔(بخاري:958)

8)پہلي رکعت ميں سات زائد تکبيرات اور دوسري ميں پانچ زائد تکبيرات پڑھنا،جيسا کہ عمرو بن عوف رضي اللہ عنہ نے کہا کہ:

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ سَبْعًا فِي الْأُولَى، وَخَمْسًا فِي الْآخِرَةِ

رسول اللہ ﷺ نےعيدين ميں پہلي رکعت ميں سات اور دوسري رکعت ميں پانچ تکبيرات کہيں۔(صحيح ابن ماجہ:1057)

9)زائد تکبيرات ميں رفع اليدين کرنا،جيسا کہ سيدنا ابن عمررضي اللہ عنہما نے کہا کہ:

ويرفعُهما في كل تكبيرة يكبرُها قبلَ الرُّكوع حتى تنقضيَ صلاتُه

رسول اللہ ﷺ رکوع سے قبل ہر تکبير ميں رفع اليدين کيا کرتے تھے۔(اسے علامہ الباني(ارواء الغليل،تحت حديث: 640 )شيخ الارناؤط (ابو داؤد:722) او زبير علي زئي نے صحيح کہا ہے،امام بيھقي(سنن کبري:6188) اور ابن المنذر النيسابوري (ارواء الغليل،تحت حديث:640) نے اس حديث سے زوائد تکبيرات عيدين ميں رفع اليدين کرنے پر استدلال کيا ہے، نيزامام اوزاعي (احکام العيدين للفريابي،رقم:124)، امام مالک (ايضا،رقم:125)،امام شافعي (کتاب الام،1/237)،امام احمد (مسائل الامام احمد برواية ابي داؤد،ص:60)، امام يحيي بن معين (تاريخ ابن معين برواية الدوري، 2284)بھي ان تکبيرات ميں رفع اليدين کے قائل تھے۔)

10)پہلي رکعت ميں سورة’’الاعلي‘‘ اور دوسري ميں سورة ’’الغاشية‘‘ياپہلي ميں’’ق‘‘اور دوسري ميں’’ القمر‘‘ پڑھنا۔(ابوداؤد:1124،مسلم:2096،الارواء:643)

11)اگر کسي کي نماز عيد رہ جائے تو وہ دو رکعت ادا کرے نيز گاؤں ميں بھي نماز عيد ادا کرنا،جيسا کہ امام بخاري رحمہ اللہ نے فرمايا:

أَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ مَوْلاَهُمْ ابْنَ أَبِي عُتْبَةَ بِالزَّاوِيَةِ فَجَمَعَ أَهْلَهُ وَبَنِيهِ، وَصَلَّى كَصَلاَةِ أَهْلِ المِصْرِ وَتَكْبِيرِهِمْ

سيدناانس بن مالک رضي الله عنه نے اپنے غلام کو مضافات ميں جانے کا حکم ديا ،پھر انہوں نے اپنے گھر والوں اور بيٹوں کو جمع کيا اور انہيں شہر والوں کي طرح نماز پرھائي اور تکبيرات پڑھيں۔(صحيح بخاري تعليقا قبل الحديث:944،و رواہ ابن ابي شيبة موصولا،کتاب الصلاة،باب الرَّجُلُ تَفُوتہُ الصَّلاَةفِي الْعِيدَيْنِ،کَمْ يُصَلِّي؟،الارواءتحت حديث:648)

12)نماز کے بعد توجہ سے خطبہ سننامستحب و افضل ہے،جيسا کہ سيدنا عبد اللہ بن سائب رضي الله عنه نے کہا کہ:

شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلَّم  الْعِيدَ , فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَالَ: إِنَّا نَخْطُبُ , فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ لِلْخُطْبَةِ فَلْيَجْلِسْ , وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَذْهَبَ فَلْيَذْهَبْ

ميں نبي کريم ﷺ کے ساتھ عيد کے اجتماع ميں حاضر ہوا ،جب آپ نے نماز پڑھالي تو فرمايا:ہم خطبہ ديں گے جو سننا چاہے وہ بيٹھا رہے اور جو جانا چاہے وہ چلا جائے۔(ابوداؤد:1157،ارواءالغليل:629)

13)اگر عذر ہو تو مسجد ميں نماز عيد ادا کرنا،بلا عذر مسجد ميں نماز عيد ادا کرنا بدعت ہے،علامہ الباني رحمہ اللہ نے کہا:احاديث صحيحہ ميں وارد شدہ سنت نبويہ ہے کہ نماز عيد شہر سے باہر کھلے ميدان ميں پڑھي جائے،صدر اول ميں اسي پر عمل رہا،وہ مساجد ميں عيد نہيں پڑھتے تھے،الا يہ کہ بارش وغيرہ کا عذر ہو، ائمہ اربعہ اور ديگر ائمہ اہل علم کا بھي يہي مذہب ہے،اور ميں اس سلسلے ميں کسي کي مخالفت نہيں جانتا سوائے امام شافعي کے،وہ مسجد ميں نماز عيد کي افضليت کے قائل ہيں جبکہ وہ جميع اہل بلد کو محيط ہو،اور اسکے باوجود وہ کھلے ميدان ميں نماز عيد ميں حرج نہيں سمجھتے تھے،اور اگر مسجد جميع اہل بلد کو محيط نہ ہو تو انہوں نے صراحت کي ہے کہ اس ميں عيدين کي نماز مکروہ ہے،چنانچہ يہ احاديث صحيحہ،صدر اول کا عمل، اور اقوال علماء-حتي کہ امام شافعي کے قول کے مطابق بھي -يہ سب دلالت کرتے ہيں کہ في زمانہ عيدين کي نماز مساجد ميں پڑھنا بدعت ہے، کيونکہ ہمارے شہروں ميں ايسي کوئي مسجد نہيں جو سب شہر والوں کو محيط ہو۔(صلاة العيدين في المصلي ھي السنة،للالباني،ص:35)

14)اگر جمعہ کے دن عيد آجائے تو جمعہ نہ پڑھنے کي رخصت ہے،جيسا کہ سيدنا زيد بن ارقم رضي الله عنه نے کہا: کہ ايک دن جمعہ اور عيد دونوں ايک دن ميں جمع ہوگئے تو نبي ﷺ نےجمعہ نہ پڑھنے کي اجازت دي اور فرمايا:

مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّىَ فَلْيُصَلِّ

جو پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے۔ (ابوداؤد:1072،صحيح ابي داؤد:981)

خطبہ عيد کے مسائل:

1)صرف ايک خطبہ دينا:کيونکہ جن روايات ميں دو خطبوں کا ذکر ہے وہ ضعيف ہيں،(الضعيفة:5789) اور خطبہ عيد کو خطبہ جمعہ پر قياس کرنا درست نہيں کيونکہ عبادات ميں قياس کادخل نہيں،نيز يہاں قياس ممکن بھي نہيں کيونکہ جمعہ ميں خطبہ پہلے ہے جبکہ عيد ميں نماز پہلے ہے،خطبہ جمعہ سننا فرض ہے جبکہ خطبہ عيد سننا مستحب ہے ۔

2)نيزخطبہ عيد کے لئے منبر کا استعمال نہ کرنا:کيونکہ نبي كريمﷺ سے نماز عيد ميں منبر کا استعمال ثابت نہيں ،سب سے پہلے اسکا استعمال مروان نے کيا۔(ملاحظہ ہو ،بخاري:913،الضعيفة:963)

3)خطيب کاعصا پکڑنا، خطبہ حاجت پڑھنا اور وعظ و نصيحت کرنا،جيسا سيدنا براء بن عازب رضي اللہ عنہ نے کہا کہ:

أن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُووِلَ يَوْمَ الْعِيدِ قَوْسًا، فَخَطَبَ عَلَيْهِ

نبي کريمﷺ کو عيد کے دن کمان پکڑائي گئي تو آپ نے اس پر ٹيک لگاکر خطبہ ديا۔(صحيح ابي داؤد:1145)

نيز سيدنا جابر بن عبد اللہ رضي اللہ عنہ نے کہا کہ:

فَلَمَّا قَضَى الصَلَاةَ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ فَحَمِدَ اللهَ  وَأَثْنَى عَلَيْهِ , وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ

جب آپ ﷺ نے عيد کي نماز ادا کرلي توسيدنا بلال رضي اللہ عنہ پر ٹيک لگا کر کھڑے ہوگئے،اللہ کي حمد و ثنا بيان کي،اور لوگوں کو وعظ و نصيحت کي۔(نسائي:1575،اسکي اصل صحيح مسلم :2085ميں ہے،الارواء:646)

4)اگر ضرورت ہو تو خواتين کو الگ سے وعظ و نصيحت کرنا،جيسا کہ سيدنا ابن عباس رضي اللہ عنہما نے کہا کہ:

أشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم لَصَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ قَالَ  ثُمَّ خَطَبَ فَرَأَى أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ فَأَتَاهُنَّ فَذَكَّرَهُنَّ وَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ وَبِلاَلٌ قَائِلٌ بِثَوْبِهِ فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِى الْخَاتَمَ وَالْخُرْصَ وَالشَّىْءَ.

ميں گواہي ديتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبے سے قبل نماز پڑھائي،پھر خطبہ ديا،پھر آپ نے خيال کيا کہ خواتين تک آپکي آواز نہيں پہنچي، چنانچہ آپ انکے پاس گئے،اورانہيں وعظ و نصيحت کي اور صدقہ کرنے کا حکم ديا،چنانچہ بلال نے کپڑا پھيلايا،تو خواتين اپنے زيور سے صدقہ کرنے لگيں۔(بخاري ،مسلم)

متفرقات:

1)اجتماعي دعا کرنا جيسا کہ نبي کريم ﷺ نے خواتين کوعيد گاہ ميں لانے کے متعلق فرمايا کہ:

فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ، وَدَعْوَتَهُمْ

وہ مسلمانوں کے اجتماع اور انکي دعا ميں شريک ہوں۔(بخاري:351)

2)عيد کي مبارکباد دينا،جيسا کہ سيدنا جبير بن نفيررضي الله عنه نے کہا کہ:

كان أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض : تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنكَ

نبي مکرم ﷺ کے صحابہ عيد کے روز جب ايک دوسرے سے ملتے تو کہتے:تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنكَ

يعني اللہ تعالي ہمارے اور آپکے نيک اعمال قبول کرے ۔(تمام المنة للالباني،1/354،الضعيفة،تحت حديث:5666)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے