قرآن احکامات وواقعات ، حق وصداقت پر مبني ہيں اور اسي طرح مذکورہ پيشين گوئياں ہميشہ صحيح ثابت ہوئيں۔

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ١ٞ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۰۰۵۴

اے ايمان والو! تم ميں سے جو شخص اپنے دين سے پھر جائے تو اللہ تعاليٰ بہت جلد ايسي قوم کو لائے گا جو اللہ کي محبوب ہوگي اور وہ بھي اللہ سے محبت رکھتي ہوگي وہ نرم دل ہونگے مسلمانوں پر سخت اور تيز ہونگے کفار پر، اللہ کي راہ ميں جہاد کريں گے اور کسي ملامت کرنے والے کي ملامت کي پرواہ بھي نہ کريں گے يہ ہے اللہ تعاليٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعاليٰ بڑي وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔(المائدة:54)

اس آيت ميں اللہ تعاليٰ اس وقت کے مسلمانوں سے تہديد کے طور پر فرماتا ہے کہ اللہ کے دين کي سربلندي کا انحصار تم پر ہي نہيں ۔ اگر تم ميں سے کوئي مرتد ہو جائے گا تو اللہ تعاليٰ ايسے لوگوں کو آگے لے آئے گا جن ميں يہ اوصاف ہوں گے۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ آپ کي زندگي کے آخري ايام ميں اور آپ کي وفات کے بعد جو بےشمار قبائل مرتد ہو گئے تھے ان کے مقابلہ ميں اللہ تعاليٰ کون سے لوگ لايا تھا اور ان کا سردار کون تھا جس کے ہاتھ پر يہ وعدہ پورا ہوا ؟ اور جو لوگ تاريخ اسلام سے تھوڑے بہت بھي واقف ہيں وہ بےساختہ کہہ ديں گے کہ ان مرتدوں کے مقابلہ ميں صحابہ کرام رضي اللہ عنہم انصار و مہاجرين اور اہل يمن کے لوگ اٹھے تھے۔ جنہوں نے ان سب مرتد لوگوں کي سرکوبي کي تھي اور ان کے سردار اور خليفہ سيدنا ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ تھے۔ اب اس آيت سے جس طرح رسول اللہ کي نبوت کي اس پيشين گوئي کے پورا ہونے کي تصديق ہوتي ہے اسي طرح سيدنا ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ کي خلافت بھي برحق ثابت ہوتي ہے۔(تيسير القرآن)

دين سے مرتد ہونے والے عرب بدو تھے جن کي کوئي ديني خدمت نہ تھي۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان کے بارے ميں فرماتے ہيں :

’’صحابہ کرام رضي اللہ عنہم (مہاجرين، انصار اور مؤلفة القلوب قريش مکہ) ميں سے کوئي بھي مرتد نہيں ہوا البتہ اُجڑ قسم کے بدؤوں کي ايک جماعت ضرور مرتد ہوئي جن کي دين ميں کوئي خدمت نہيں تھي يہ باب مشہور صحابہ ميں موجب قدح نہيں۔(فتح الباري ۱۱/385)

مخالفين اہل سنت آيت مذکورہ سے متعلق متضاد نظريات کے حامل ہيں :

فريق ثان کا دعويٰ ہے کہ نبي کريم ﷺ کے بعد ماسوائے ابو ذر، مقداد،سليمان،عمار کے باقي صحابہ کرام نے سيدنا ابو بکر رضي اللہ عنہ کي بيعت کرکے حق سے انحراف کيا۔

ازالہ: ان کے دعويٰ کو مدنظر رکھ کر قابل غور پہلو يہ ہے کہ آيت قتال مرتدين کے تحت وہ کونسي قوم تھي جن کے ذريعے اللہ تعاليٰ نے ان مرتدوں کي سرکوبي کرکے وعدہ پورا کيا۔ ليکن تاريخ خاموش ہے اگر آپ کہيں کہ سيدنا علي المرتضيٰ رضي اللہ عنہ نےمصلحت کے تحت خاموشي اختيار کر لي تو (وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ) کے خلاف ہے چنانچہ قرآني آيت کے منافي اُن کا دعويٰ دجل وفريب ہے۔

شبہ : يہ آيت سيدنا علي المرتضيٰ رضي اللہ عنہ کے حق ميں ہے جنہوں نے اپنے دور خلافت ميں مرتدوں سے جنگ کي۔

ازالہ : سيدنا علي المرتضيٰ رضي اللہ عنہ نے اپنے دور ميں جن سے جنگ کي وہ مرتد نہ تھے خود سيدنا علي المرتضيٰ رضي اللہ عنہ نے اُن کے ايماندار ہونے کا اعتراف کيا۔

شيخ سيد شريف رضي (م 404ھ) نے سيدنا علي المرتضيٰ رضي اللہ عنہ کا فرمان نقل کيا :

(ومن كتاب له عليه السلام كتبه إلى أهل الأمصار يقص فيه ما جرى بينه و بين أهل صفين) وَكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا وَالْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَالظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ وَنَبِيَّنَا وَاحِدٌ وَدَعْوَتَنَا فِي الْإِسْلَامِ وَاحِدَةٌ وَلَا نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الْإِيمَانِ بِاللهِ وَالتَّصْدِيقِ بِرَسُولِهِ وَلَا يَسْتَزِيدُونَنَا الْأَمْرُ وَاحِدٌ إِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ وَنَحْنُ مِنْهُ بَرَاءٌ (نهج البلاغة 3/325)

’’سيدنا علي رضي اللہ عنہ نے) جو مختلف علاقوں کے باشندوں کو صفين کي روئداد مطلع کرنے کے ليے تحرير فرمايا : ابتدائي صورت حال يہ تھي کہ ہم اور شام والے آمنے سامنے آئے۔ اس حالت ميں کہ ہمارا اللہ ايک،نبي ايک، اور دعوت اسلام ايک تھي ،  نہ ہم ايمان باللہ اور اس کے رسول کي تصديق ميں ان سے کچھ زيادتي چاہتے تھے اور نہ وہ ہم سے اضافہ کے طالب تھے بالکل اتحاد تھا سوا اس اختلاف کے جو ہم ميں خون عثمان رضي اللہ عنہ کے بارے ميں ہوگيا تھا اور حقيقت يہ ہے کہ ہم اس سے بالکل بري الذمہ تھے۔

اس وضاحت کے باوجود اُن کا اصرار ہو کہ سيدنا علي المرتضيٰ رضي اللہ عنہ کي لڑائي مرتدوں سے ہوئي چونکہ آيت تقاضا کرتي ہے کہ کلمہ گو مرتد ہوجائيں تو ان کے خلاف محبوب جماعت کا قتال ضرور ہوگا۔ تاريخي حقيقت ہے کہ سيدنا علي المرتضيٰ نے خلفاء ثلاثہ کے خلاف قتال نہيں کيا ثابت ہوا کہ وہ مومن تھے ان کي خلافت جائز تھي ورنہ اُن کے خلاف سيدنا علي رضي اللہ عنہ ضرور قتال کرتے ۔

آيت قتال مرتدين ميں محبوب الٰہي جماعت کے اوصاف بيان ہوئے ہيں کہ کافروں کے مقابلہ ميں سخت اور مومنوں کے ليے نرم دل ہوں گے۔

شيخ سيد شريف رضي نے نام نہاد محبان کي جنگ سے روگرداني سے متعلق سيدنا علي رضي اللہ عنہ کا فرمان نقل کيا ہے کہ

ومن خطبة له عليه السلام: مُنِيتُ بِمَنْ لَا يُطِيعُ إِذَا أَمَرْتُ وَلَا يُجِيبُ إِذَا دَعَوْتُ لَا أَبَا لَكُمْ مَا تَنْتَظِرُونَ بِنَصْرِكُمْ رَبَّكُمْ أَ مَا دِينٌ يَجْمَعُكُمْ وَلَا حَمِيَّةَ تُحْمِشُكُمْ أَقُومُ فِيكُمْ مُسْتَصْرِخاً وَأُنَادِيكُمْ مُتَغَوِّثاً فَلَا تَسْمَعُونَ لِي قَوْلًا وَلَا تُطِيعُونَ لِي أَمْراً حَتَّى تَكَشَّفَ الْأُمُورُ عَنْ عَوَاقِبِ الْمَسَاءَةِ فَمَا يُدْرَكُ بِكُمْ ثَارٌ وَلَا يُبْلَغُ بِكُمْ مَرَامٌ دَعَوْتُكُمْ إِلَى نَصْرِ إِخْوَانِكُمْ فَجَرْجَرْتُمْ جَرْجَرَةَ الْجَمَلِ الْأَسَرِّ وَتَثَاقَلْتُمْ تَثَاقُلَ النِّضْوِ الْأَدْبَرِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ مِنْكُمْ جُنَيْدٌ مُتَذَائِبٌ ضَعِيفٌ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُونَ . (نہج البلاغۃ ، رقم الخطبۃ : 39)

امير المؤمنين سيدنا علي المرتضيٰ رضي اللہ عنہ نے اپنے خطبہ ميں ارشاد فرمايا : ميرا ايسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے جنہيں حکم ديتاہوں تو مانتے نہيں، بلاتا ہوں تو آواز پر لبيک نہيں کہتے۔ تمہارا برا ہے ، اب اپنے اللہ کي نصرت کرنے ميں تمہيں کس چيز کا انتظار ہے، کيا دين تمہيں ايک جگہ اکٹھا نہيں کرتا اور غيرت وحميت تمہيں جوش ميں نہيں لاتي؟ ميں تم ميں کھڑا ہوکر چلاتا ہوں اور مدد کيلئے پکارتا ہوں ليکن تم نہ ميري کوئي بات سنتے ہو ، نہ ميرا کوئي حکم مانتے ہو ، يہاں تک کہ ان نافرمانيوں کے بُرے نتائج کھل کر سامنے آجائيں۔ نہ تمہارے ذريعے خون کا بدلہ ليا جاسکتاہے ،نہ کسي مقصد تک پہنچا جاسکتاہے ، ميں نے تم کو تمہارے ہي بھائيوں کي مدد کيلئے پکارا تھا مگر تم اس اونٹ کي طرح بلبلانے لگے جس کي ناف ميں درد ہورہا ہو، اور اس لاغر وکمزور شتر کي طرح ڈھيلے پڑ گئے جس کي پيٹھ زخمي ہو پھر ميرے پاس تم لوگوں کي ايک چھوٹي سي متزلزل وکمزور فوج آئي، اس عالم ميں کہ گويا اسے اس کي نظروں کے سامنے موت کي طرف دھکيلا جارہا ہے۔

اس آيت ميں مرتدين سے قتال کرنے والي محبوب جماعت کا وصف بيان ہوا ہے کہ وہ اللہ تعاليٰ کي راہ ميں جہاد کرنے سے روگرداني نہ کريں گے جبکہ نہج البلاغہ کے بقول سيدنا علي رضي اللہ عنہ کے فرمان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ميدان جنگ ميں حيلے بہانے تراشتے رہے چنانچہ مذکورہ حقائق کي روشني ميں آيت ميں مذکورہ محبوب جماعت کے اوصاف سيدنا علي رضي اللہ عنہ کي جماعت ميں نہيں ہيں۔

مرتدوں کے قتال کي پيشين گوئي امام مہدي عليہ السلام کے دور ميں پوري ہوگي۔

ازالہ: اہل سنت کے نزديک قيامت کے قريب سيدہ فاطمہ زوجہ علي المرتضي کي نسل سے محمد بن عبد اللہ پيدا ہوں گے جو امام مہدي عليہ السلام کے لقب سے معروف ہوں گے وہ بلا شبہ کفار کے مقابلہ ميں کامياب وکامران ہوں گے تاہم آيت قتال مرتدين ميں ’’منکم‘‘ سے صاف ظاہر ہے کہ يہ پيشين گوئي زمانۂ نزول کے لوگوں کے ليے ہے يعني اس دور کے لوگوں ميں سے کوئي مرتد ہوجائے اُن کے ليے وعيد ہے اگر اس آيت کو عام کر ديا جائے تو زمانہ مستقبل  کے ساتھ ساتھ زمانہ نزول ضرور مراد ہوگا۔

يہ مسلمہ حقيقت ہے کہ دور نبوي کے آخري ايام رياست مدينہ کے مختلف علاقوں ميں نبوت کے چند دعويدار اٹھ کھڑے ہوئے جنہوں نے آپ ﷺ کے بعد ديگر بدو قبائل کو مرتد کرکے اپني صفوں ميں شامل کرليا جبکہ بعض قبائل نے اعلان کيا کہ وہ اسلام پر تو قائم ہيں مگر زکوة نہيں ديں گے يہ فتنے اس قسم کے خطر ناک تھے کہ ذرا سي غفلت کرنے سے رياستي نظام درہم برہم ہوسکتا تھا چنانچہ سيدنا ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ اور ساتھيوں نے اتفاق رائے سے عزم واستقامت کا پہاڑ بن کر مرتدين سے قتال کيا اور داخلي فتنوں کي بيخ کني کرکے امن وامان بحال کيا اور روم وايران کي سرحدوں پر حملہ کرکے فتوحات کے زريں دور کا آغاز کيا۔

سيدنا ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ نے مانعين زکوة سے قتال کا ارادہ فرمايا تو سيدنا عمر فاروق رضي اللہ عنہ سميت اکثر صحابہ کرام نے آپ کي رائے سے اختلاف کيا تو اس موقع پر سيدنا ابو بکر رضي اللہ عنہ نے فرمايا: اللہ کي قسم! ميں ہر اس شخص سے ضرور جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکاة ميں فرق کيا کيونکہ زکاة دينا مال کا حق ہے۔ اللہ کي قسم ! اگرانہوں نے مجھ سے ايک رسي بھي روکي جو وہ رسول اللہ ﷺ کو ديا کرتے تھے تو ميں ان سے اس کے انکار پر جنگ کروں گا۔ سيدنا عمر رضي اللہ عنہ نے کہا: ميں نے غور کيا تو مجھے يقين ہوگيا کہ واقعي اللہ تعاليٰ نے جنگ کے ليے سيدنا ابو بکر رضي اللہ عنہ کا سينہ کھول ديا ہے اور وہ جنگ کرنے کے سلسلے ميں حق پر ہيں۔( صحيح البخاري، کتاب الاعتصام ، باب الاقتداء، الحديث:7284)

دوسري روايت ميں ہے کہ سيدنا عمر رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ ميں نے عرض کيا اے خليفۂ رسول! لوگوں کے ساتھ تأليف قلب اور نرمي کا برتاؤ کيجيے۔ فرمايا: عمر! جاہليت ميں بڑے بہادر اور اسلام ميں اتنے بزدل؟ وحي کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اور دين پورا ہوگيا ہے ميرے جيتے جي اس ميں کمي نہيں ہوسکتي۔( مشکوة المصابيح، المناقب: 4034)

سيدنا ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ نے عقائد اسلام ميں نظريہ ضرورت کے تحت لچکدار رويہ کو ہميشہ کے ليے دفن کر ديا۔ قربان جائيں زبان نبوت سے صديق کا اعزاز حاصل کرنے والے کي استقامت پر جب سب نے اختلاف کيا تو انہوں نے ’’ميرے جيتے جي دين ميں کمي ہوجائے‘‘ کہہ کر خليفة الرسول کا صحيح معنوں ميں وارث ہونے کا حق ادا کيا۔ تاريخ شايد ہے کہ صحابہ کرام نے سيدنا ابو بکر رضي اللہ عنہ کو ہي خليفة الرسول کہا اور ان کے بعد خلفاء کو امير المؤمنين کہہ کر پکارا ۔

آيت قتال مرتدين کي پيشين گوئي حق ثابت ہوئي کہ اللہ ايسي قوم کو لائے گا جو مسلمانوں کے ساتھ نرمي اور کفار کے ساتھ جہاد کرے گي اوروہ اس معاملہ ميں کسي ملامت کرنے والي کي ملامت کا خوف نہ کرے گي۔ تاريخي حقائق کي روشني ميں فتنۂ ارتداد دور نبوي کےآخري ايام اور خلافت صديقي کے ابتدائي دور ميں ظہور پذير ہوا۔ سيدنا ابو بکر رضي اللہ عنہ نے مدعيان نبوت اور منکرين زکاة کے خلاف قتال کيا۔ مطلع اسلام پر گردوغبار کو صاف کيا اس دوران کسي ملامت کرنے والے کي پرواہ نہ کي۔

پير محمد کرم شاہ الازہري رحمہ اللہ نے اس آيت کي تفسير کرتے ہوئے تحرير کيا ہے :

سيدنا صديق اکبر (رضي اللہ عنہ) اور ان کے جانباز مجاہدوں کو قرآن کريم کن الفاظ سے خراج تحسين پيش کر رہا ہے۔ جس کے سپاہيوں کي يہ شان ہو، جس کے لشکري ان اوصاف حميدہ سے متصف ہوں، جنہيں زبان قدرت ان پاکيزہ جملوں سے سرفراز فرما رہي ہو اس خليفہ برحق کي شان کتني رفيع اور اس کا مقام کتنا بلند ہوگا۔ ايسے خليفہ کي خلافت کي حقانيت کے بارے ميں کسي ايسے شخص کو تو کوئي شبہ نہيں ہوسکتا جو قرآن کو اللہ کا کلام اور اپنے رب کو عليم بذات الصدور يقين کرتا ہو۔(ضياء القرآن 1/483تا484)

اللہ تعاليٰ نے آيت قتال مرتدين ميں سيدنا ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ کانام لے کر خليفہ بنانے کا حکم نہيں ديا البتہ عالم غيب سے فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ ميں جس پيشين گوئي کے ظہور پذير ہونے کا وعدہ فرمايا ۔

اگرچہ سيدنا ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ کا تقرر اہل حل وعقد کے فيصلہ سے ہوا تاہم پيشين گوئي کے ضمن ميں جو رب کي رضا تھي ارکانِ شوري کے فيصلہ سے وہي ظہور پذير ہوا۔ خليفة الرسول سيدنا ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ اور ان کے ساتھيوں نے مرتدين کے مقابلہ ميں بے جگري سے جہاد کيا اور گلشن اسلام کو جان فشاني سے سيراب کيا جس کے پھولوں کي مہک سے عرب وعجم معطر ہوا ۔

مأخذ ومراجع

تيسير القرآن ، حافظ عبد الرحمن کيلاني

احسن البيان ، حافظ صلاح الدين يوسف

ضياء القرآن ، پير محمد کرم شاہ الازہري

خلفاء راشدين ، مرتبہ پروفيسر علامہ خالد محمود

سيدنا ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ ، ڈاکٹر علي محمد محمد الصلابي

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے