اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّالنَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَهُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا١ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ۠۰۰۸۲

یقینا تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، سب لوگوں سے زیادہ سخت عداوت رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پائے گا جنھوں نے شریک بنائے ہیں اور یقینا تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، ان میں سے دوستی میں سب سے قریب ان کو پائے گا جنھوں نے کہا بیشک ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لیے کہ بیشک ان میں علماء اور راہب ہیں اور اس لیے کہ بیشک وہ تکبر نہیں کرتے۔(المائدة :82 )

 ایک قوم جو ڈاکو، غاصب اور ظالم قوم ہے ،جن کی تاریخ وحشت و بربریت سے بھری پڑی ہے ،جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر بھی کیچڑ اچھالا، اللہ کو کبھی بخیل کہا تو کبھی فقیر

وَ قَالَتِ الْيَهُوْدُ يَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ١ؕ (المائدۃ:64)

اور

قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِيَآءُ١ۘ (آل عمران 81)

جس نے حضراتِ انبیاء علیہم السلام تک کو معاف نہیں کیا،کتنے ہی انبیاء کو قتل اور کتنوں کو تکلیفیں پہنچانے والی قوم ،ایک ایسی قوم کہ جن کے ہاتھ ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے خون سے رنگین ہیں جنہوں نے ہزاروں اولیاء، علماء ائمہ ومحدثین کو قتل کیا ، جو پہلے دن سے آج تک مسلمانوں کے خلاف مشرکین اور نصارٰی کو جنگوں پر ابھارتی چلی آ رہی ہے ۔ایک ایسی قوم کہ جنہوں نے اپنی کتاب تک کو معاف نہ کیا اور اس میں من مانی تبدیلیاں کر ڈالیں ۔

آئیے اہل یہود کے اہل حق کے خلاف بھیانک تاریخی چہرے سے پردہ اٹھاتے ہیں۔

سیدنا یوسف علیہ السلام اور یہود

 قرآن نے یوسف علیہ السلام کے خلاف ان کے بھائیوں کی پلاننگ کا ذکر کیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا یقینا یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کے ہاں ہم سے زیادہ پیارے ہیں، حالانکہ ہم ایک قوی جماعت ہیں۔

لہذا یا تو یوسف علیہ السلام کو قتل کردو، یا اسے کسی زمین میں پھینک دو، تاکہ تمہارے باپ کا چہرہ تمہارے لیے اکیلا رہ جائے گا اور اس کے بعد تم نیک لوگ بن جانا۔

انہوں نے یوسف علیہ السلام کے قتل کی پلاننگ بنائی اور اپنے باپ سے کہنے لگے کہ

اے ابا جان !اسے کل ہمارے ساتھ بھیج کر بھاگنے دوڑنے اور کھیلے کودنے کا موقع دے اور بیشک ہم ضرور اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

 باپ نے ان کی حرکات کو بھانپتے ہوئے کہا کہ  یقینا مجھے یہ بات غمگین کرتی ہے کہ تم اسے لے جاؤ۔بہرحال انہوں نے ضد کی اور بالآخر  جب وہ اسے لے گئے تو انھوں نے طے کرلیا کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال دیں اور یوں وہ اپنی طرف سے سیدنا یوسف علیہ السلام کا کام تمام کرنے اور انہیں کنویں میں ڈالنے کے بعد  اپنے باپ کے پاس اندھیرے میں روتے ہوئے آئے۔

یہود کی اپنے محسن اور نبی، موسی علیہ السلام کو اذیتیں

یہ بات زہن نشین کر لیں کہ موسیٰ علیہ السلام یہود کے لیے عظیم محسن کی حیثیت رکھتے ہیں انہوں نے یہود کی خاطر لمبی مدت تک فرعون سے تکلیفیں جھیلیں، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے انھیں فرعون کی غلامی سے نجات اور آزادی کی نعمت عطا فرمائی۔ جن کی دعا سے انھیں من و سلویٰ ملتا تھا، بادلوں کا سایہ میسر تھا اور ان کے لیے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوئے اور پانی ہی میں راستے بنے مگر یہود، کہ جن کی فطرت میں شرارت، عناد اور مخالفت رچی بسی ہے، نے ہرموقع پر جناب موسی علیہ السلام کی مخالفت اور تکلیف کا خوب ساماں کیا ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِيْهًاؕ۰۰۶۹

اے لوگو جوایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنھوں نے موسیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ نے اسے اس سے پاک ثابت کر دیا جو انھوں نے کہا تھا اور وہ اللہ کے ہاں بہت مرتبے والا تھا۔(الأحزاب : 69)

موسی علیہ السلام کے خلاف یہود کی خباثتوں کے چند نمونے

یہود لوگوں کا شریر رویہ موسیٰ علیہ السلام کے لیے سخت تکلیف دہ تھا

 عموماً وہ موسی علیہ السلام کا حکم ماننے سے صاف انکار کر دیتے تھے

 مثلاً :

1۔سیدناموسی علیہ السلام نے انہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا تو کہنے لگے

لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً   (البقرۃ : ۵۵)

2۔ اور جہاد کرتے ہوئے بیت المقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا تو کہنے لگے

لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْهَا  ( المائدۃ : ۲۴ )

3۔جب ان سے کہا گیا:

وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّةٌ

 ’’اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور کہو بخش دے۔‘‘

 تو انھوں نے اسے بدل دیا اور اپنے سرینوں پر گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور کہنے لگے :

 حَبَّةٌ فِيْ شَعْرَةٍ

 ’’دانہ بالی میں۔‘‘ ( بخاری، أحادیث الأنبیاء، بابٌ : ۳۴۰۳۔ مسلم : ۳۰۱۵ )

4۔ گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو کہنے لگے:

اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا

 پھر گائے کی کیفیت کے متعلق سوال پر سوال داغتے رہے۔

5۔سیدنا موسی علیہ السلام کے بھائی ھارون علیہ السلام نے بچھڑے کی عبادت سے منع کیا تو کہنے لگے :

قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى۰۰۹۱ [طٰه: ۹۱]

 ’’ہم اسی پر مجاور بن کر بیٹھے رہیں گے، یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف واپس آئے۔‘‘

 6۔ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا تو باز رہنے کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ مچھلیاں پکڑتے رہے ، تو اللہ تعالیٰ نے بندر بنا دیا ۔

فرمایا:

فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىِٕيْنَ۰۰۱۶۶

پھر جب وہ اس بات میں حد سے بڑھ گئے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہہ دیا کہ ذلیل بندر بن جاؤ۔(الأعراف : 166)

7۔چربی کھانے سے منع کیا تو پگھلا کر بیچنے لگے ۔

نبی کریم ﷺنے فرمایا :

 قَاتَلَ اللهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا فَبَاعُوهَا(بخاری 2110)

8۔ اپنی آنکھوں سے دریا میں راستے بنتے دیکھے پھر ان راستوں پر چلے پھر انہیں راستوں پر فرعونی لشکر ڈوبتے ہوئے دیکھا

مگر اتنے بڑے معجزے کے باوجود دریا کی دوسری جانب پہنچے تو  ایسے لوگوں پر آئے جو اپنے کچھ بتوں پر جمے بیٹھے تھے تو انہیں دیکھتے ہی کہنے لگے:

يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ۰۰۱۳۸(الاعراف:138)

اے موسیٰ! ہمارے لیے کوئی معبود بنا دے، جیسے ان کے کچھ معبود ہیں؟ اس نے کہا بے شک تم ایسے لوگ ہو جو نادانی کرتے ہو۔

9۔ فرعون سے نجات پانے کے بعد جب صحرائے سینا میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو چالیس دن رات کے لیے طور پر بلایا تو انہوں نے موسی علیہ السلام کے جانے کے بعد ایک بچھڑا بنا کر اس کی پوجا شروع کر دی۔

وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ۰۰۵۱

اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کی میعاد مقرر کی، پھر اس کے بعد تم نے بچھڑا بنا لیا اور تم ظالم تھے۔(البقرة : 51)

10۔کتاب اللہ میں تحریف کرتے ہوئے اپنی من مانی سے جو چاہتے جمع تفریق کردیتے ۔

مِنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ (نساء :46)

11۔بہت زیادہ جھوٹی اور حرام خور قوم

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ (المائدۃ : 42)

بہت سننے والے ہیں جھوٹ کو، بہت کھانے والے ہیں حرام کو

12۔ لوگوں کے مال ناجائز کھانے والی قوم

وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُهُوْا عَنْهُ وَاَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ١ؕوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا۰۰۱۶۱

اور ان کے سود لینے کی وجہ سے، حالانکہ یقینا انھیں اس سے منع کیا گیا تھا اور ان کے لوگوں کے اموال باطل طریقے کے ساتھ کھانے کی وجہ سے اور ہم نے ان میں سے کفر کرنے والوں کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔(النساء : 161)

13۔ایسی ضدی اور عناد پرست قوم کہ ان کے سر پر کوہ طور کھڑا کر کے وعدہ لیا گیا مگر اس کے باوجود انہوں نے بعد میں اسے توڑ دیا ۔

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۰۰۶۳

اور جب ہم نے تمھارا پختہ عہد لیا اور تمھارے اوپر پہاڑ کو بلند کیا۔ پکڑو قوت کے ساتھ جو ہم نے تمھیں دیا ہے اور جو اس میں ہے اسے یاد کرو، تاکہ تم بچ جاؤ۔(البقرة : 63)

ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ۚ فَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ۰۰۶۴

پھر تم اس کے بعد پھر گئے تو اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقینا تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوتے۔(البقرة : 64 )

14۔ دعوت حق اور نبی آخر الزماں کو اپنے بیٹوں کی طرح بغیر شک و شبہ، پہچاننے کے باوجود محض ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ماننے سے انکار کر دیا ۔

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ١ۘ اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَؒ۰۰۲۰

وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی وہ اسے پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، سو وہ ایمان نہیں لاتے۔(الأنعام : 20)

موسی علیہ السلام نے تنگ آکر یہود سے علیحدگی اختیار کرنے کی دعا کی

قَالَ رَبِّ اِنِّيْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِيْ وَ اَخِيْ فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ۰۰۲۵

اس نے کہا اے میرے رب ! بیشک میں اپنی جان اور اپنے بھائی کے سوا کسی چیز کا مالک نہیں، سو تو ہمارے درمیان اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان علیحدگی کر دے۔(المائدة : 25)

انبیاء کرام کو قتل کرنا اور تنگ کرنا یہود کی پرانی عادت ہے

 جیسا کہ قرآن میں موجود ہے

 قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِيَآءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۹۱

 اے نبی !آپ ان یہودیوں سے کہہ دیجئے کہ اس سے پہلے تم اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کیا کرتے تھے، اگر تم مومن تھے ؟(البقرة :91)

اور فرمایا :

وَيَقْتُلُوْنَ النَّبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ

 اور وه نبیوں کو حق کے بغیر قتل کرتے تھے۔(البقرة :61)

سیدنا عیسی علیہ السلام اور یہود

سیدنا عیسی علیہ السلام کے متعلق تو یہودی لوگ برملا علی الإعلان کہتے ہیں کہ ہم نے ہی عیسی کو قتل کیا ہے جیسا کہ ان کی یہ بات اللہ تعالٰی نے قرآن میں نقل کی ہے۔

وَّقَوْلِهِمْ اِنَّاقَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ١ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ(النساء:157)

اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ بلاشبہ ہم نے ہی مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا، جو اللہ کا رسول تھا، حالانکہ نہ انھوں نے اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایا اور لیکن ان کے لیے اس (مسیح) کا شبیہ بنادیا گیا ۔

محمد رسول اللہ ﷺکے خلاف یہود کی سازشیں

زہریلے گوشت کے ذریعے آپ کو شہید کرنے کی کوشش

ہمارے نبی اکرم ﷺ کو یہود کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی

سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔

أَنَّ امْرَأَةً يَهُودِيَّةً أَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ فَأَكَلَ مِنْهَا فَجِيءَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ فَقَالَتْ أَرَدْتُ لِأَقْتُلَكَ قَالَ مَا كَانَ اللهُ لِيُسَلِّطَكِ عَلَى ذَاكِ قَالَ أَوْ قَالَ عَلَيَّ قَالَ قَالُوا أَلَا نَقْتُلُهَا قَالَ لَا قَالَ فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

کہ ایک یہودی عورت رسول اللہ ﷺ  کے پاس ایک زہر آلود (پکی ہوئی )  بکری لے کر آئی ، نبی کریم ﷺ  نے اس میں سے کچھ (گوشت کھایا )  ( آپ کو اس کے زہر آلود ہونے کاپتہ چل گیا ) تو اس عورت کو رسول اللہ ﷺ  کے پاس لایاگیا ، آپ نے اس عورت سے اس ( زہر )  کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا :  ( نعوذ باللہ! )  میں آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی ۔ آپ ﷺ  نے  فرمایا :  « اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تمھیں  اس بات پر تسلط ( اختیار )  دے دے ۔ « انھوں ( انس رضی اللہ عنہ  ) نےکہا : یا آپ ﷺ  نے فرمایا : «  ( تمھیں  ) مجھ پر  ( تسلط دے دے ۔  )  « انھوں ( انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  )  نے کہا : صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے عرض کی : کیا ہم اسے قتل نہ کردیں؟آپ ﷺ  نےفرمایا :  « نہیں۔ « انھوں ( انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ )  نے کہا : تو میں اب بھی رسول اللہ  ﷺ کےدہن مبارک کے اندرونی حصے میں اسکے اثرات کو پہچانتاہوں ۔ (مسلم 5705)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس بیماری میں جس میں فوت ہوئے فرماتے تھے :

يَا عَائِشَةُ ! مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِيْ أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ فَهٰذَا أَوَانُ وَجَدْتُّ انْقِطَاعَ أَبْهَرِيْ مِنْ ذٰلِكَ السُّمِّ

 ’’میں ہمیشہ اس کھانے کی تکلیف محسوس کرتا رہا جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اور یہ وقت ہے کہ میں نے اس زہر سے اپنی دل کی رگ کا کٹ جانا محسوس کیا ہے۔ ‘‘ ( البخاری، المغازی، باب مرض النبی ﷺ ووفاتہ : ۴۴۲۸ )

یہود نے نبی کریم ﷺپر پتھر گرا کر آپ کو شہید کرنے کی کوشش کی

یہود کے بڑے قبیلے  بنو نضیر کے قلعے مدینہ کے مشرق کی جانب کئی میل کے فاصلے پر تھے۔  آپ (ﷺ) ایک دیت کے سلسلے میں تعاون حاصل کرنے کے لیے وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا : ہاں، اے ابو القاسم! جیسے آپ پسند فرمائیں گے ، ہم ہر طرح سے آپ کی مدد کریں گے ۔  ادھر آپ سے ہٹ کر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سے بہتر موقع کب ہاتھ لگے گا ، اس وقت آپ (ﷺ) ہمارے قبضے میں ہیں، آؤ کام تمام کر ڈالو ، چنانچہ یہ مشورہ ہوا کہ جس دیوار سے آپ لگے بیٹھے ہیں اس گھر کی چھت پر کوئی چڑھ جائے اور وہاں سے بڑا سا پتھر آپ پر پھینک دے اور ہماری جان ان سے چھڑا دے۔

عمرو بن جحاش بن کعب نے اس کام کرنے کی حامی بھری اور چھت پر چڑھ گیا۔ چاہتا تھا کہ پتھر لڑھکا دے ، اتنے میں اللہ تعالیٰ نے جبریل (علیہ السلام) کو نبی (ﷺ) کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ آپ (ﷺ) یہاں سے اٹھ کھڑے ہوں ۔ چنانچہ آپ (ﷺ) فوراً اٹھ گئے ، آپ کے ساتھ اس وقت آپ کے صحابہ کی ایک جماعت بھی تھی ، جن میں ابوبکر و عمر اور علی (رض) بھی تھے۔ آپ (ﷺ) وہاں سے فوراً مدینہ کی طرف چل پڑے۔ ادھر جو صحابہ آپ کے ساتھ نہیں تھے اور مدینہ میں آپ کے منتظر تھے ، وہ آپ کے دیر کردینے کی وجہ سے آپ (ﷺ) کو ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اس دوران انہیں مدینہ سے آنے والے ایک آدمی نے بتایا کہ آپ (ﷺ) مدینہ پہنچ گئے ہیں ، چنانچہ وہ صحابہ واپس پلٹ آئے اور رسول اللہ (ﷺ) کے پاس پہنچ گئے۔ آپ (ﷺ) نے انہیں اپنے ساتھ یہود کے غدر کی بات بتائی اور ان کے ساتھ جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور صحابہ کو لے کر ان کی طرف چل پڑے۔ یہود لشکروں کو دیکھ کر اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپ (ﷺ) نے ان کا محاصرہ کرلیا ، اور انہیں مدینہ منورہ سے جلا وطن کر دیا “۔ ( ابن کثیر)

یہود کی طرف سے نبی کریم ﷺ پر جادو

بنی زریق کے ایک شخص یہودی لبید بن اعصم نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔ ایک دن یا ( راوی نے بیان کیا کہ ) ایک رات نبی کریم ﷺ میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اور مسلسل دعا کر رہے تھے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ سے جو بات میں پوچھ رہا تھا، اس نے اس کا جواب مجھے دے دیا۔ میرے پاس دو ( فرشتے جبرائیل و میکائیل علیہما السلام ) آئے۔ ایک میرے سر کی طرف کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کی طرف۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ اس نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کس چیز میں؟ جواب دیا کہ کنگھے اور سر کے بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھے ہوئے ہیں۔ سوال کیا اور یہ جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ زروان کے کنویں میں۔ پھر نبی کریم ﷺ اس کنویں پر اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو فرمایا عائشہ! اس کا پانی ایسا ( سرخ ) تھا جیسے مہندی کا نچوڑ ہوتا ہے اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر ( اوپر کا حصہ ) شیطان کے سروں کی طرح تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے اس جادو کو باہر کیوں نہیں کر دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے عافیت دے دی اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں اس برائی کو پھیلاؤں پھر نبی کریم ﷺ نے اس جادو کا سامان کنگھی بال خرما کا غلاف ہوتے ہیں اسی میں دفن کرادیا۔(بخاری 5763)

یہود کا نبی کریم ﷺ کو مذاق کرنا

مسلمان رسول اللہ (ﷺ) کو متوجہ کرنے کے لیے لفظ( رَاعِنَا)استعمال کرتے تھے جب یہودیوں نے دیکھا تو  وہ بھی اس لفظ کے ساتھ آپ کو مخاطب کرنے لگے ، مگر زبان کو پیچ دے کر لفظ بدل دیتے، جس سے وہ لفظ گالی بن جاتا۔  یعنی وہ ” رَاعِنَا “ کی بجائے ” رَاعِيْنَا“ کہتے، جس کا معنی ” ہمارا چرواہا “ ہے۔

 یا وہ اسے رعونت سے اسم فاعل قرار دے کر ” رَاعِنًا “ کہتے جس کا معنی احمق ہے ، پھر آپس میں جا کر خوش ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپ کے لیے یہ لفظ استعمال کرنے ہی سے منع فرما دیا اور ” انْظُرْنَا “ کہنے کا حکم دیا۔

فرمایا:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا١ؕ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۱۰۴

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم  رَاعِنَا  (ہماری رعایت کر) مت کہو اور  اُنْظُرْنَا  (ہماری طرف دیکھ) کہو اور سنو۔ اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔(البقرۃ:104)

یہود کا حمایت یافتہ ایجنٹ عبداللہ بن ابی اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں

عبداللہ بن ابی رئیس المنافقين اور یہود کے باہمی روابط بہت زیادہ تھے اور دونوں اسلام اور اہلیان اسلام کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مشاورت کیا کرتے تھے اہل یہود نے بہت سے مواقع پر عبداللہ بن ابی کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا ہے

حتی کہ قرآن میں اللہ تعالٰی نے دونوں کو بھائی قرار دیا ہے یعنی یہود اور منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف بھائیوں کی طرح تعاون کرتے ہیں۔

فرمایا :

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نَافَقُوْا يَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے منافقت کی، وہ اپنے ان بھائیوں سے کہتے ہیں جنھوں نے اہل کتاب میں سے کفر کیا ۔

الحشر 11

اس آئت میں بالاتفاق اہل کتاب سے مراد یہود اور( الذین نافقوا )سے مراد عبداللہ بن ابی اور اس کی جماعت کے لوگ ہیں

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت

غزوہ احد کے موقعہ پر عین میدان جنگ سے اپنے لوگوں کو واپس لے جانا

لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ جیسے جملے بولنا

خیبر کے یہودیوں کو مسلمانوں کے حملہ آور ہونے کی ایڈوانس خبر دینا

یہ سب کام یہود کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے والے اسی عبداللہ بن ابی کے ہی تھے

منافقین اور یہود، دونوں کی مسلمانوں سے نفرت حسد کی وجہ سے تھی

یہود کا حسد اس وجہ سے تھا کہ وہ اس انتظار میں تھے کہ آخری آنے والے رسول انہیں کے خاندان یعنی بنی اسرائیل سے ہونگے لیکن جب آخری نبی محمد رسول اللہﷺ بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل سے آگئے تو وہ خاندانی رقابت اور حسد کا شکار ہو کر حق کا انکار کر بیٹھے

 جیسا کہ قرآن میں موجود ہے

حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ

 اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے، اس کے بعد کہ ان کے لیے حق خوب واضح ہوچکا۔ (البقرة:109)

اور عبداللہ بن ابی کا حسد اس وجہ سے تھا کہ نبی کریم ﷺ کے مدینہ منورہ میں تشریف لانے سے پہلے اوس اور خزرج کے لوگ مشترکہ طور پر عبداللہ بن ابی کو اپنا لیڈر منتخب کر چکے تھے بس اعلان باقی تھا جس کے لیے تاج پوشی کی تاریخ مقرر کرنے والے ہی تھے نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور عبداللہ بن ابی کی سرداری کا خواب ادھورے کا ادھورا ہی رہ گیا اور یوں وہ مسلمانوں کے خلاف حسد کا شکار ہو گیا اب اس مشترکہ وصف کی بنیاد پر یہود اور منافقین مل کر مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہونے لگے

یہود کی طرف سے ایک مسلمان عورت کو بے پردہ کرنے کی کوشش

ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنوقینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے)ایک سنار کے پاس ، جو یہودی تھا، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا پچھلی  طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی تو اس سے بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگایا۔ اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مارڈالا۔ جوابا یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھروالوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہوگیا۔(ابن ہشام 2/ 47 ، 48بحوالہ الرحیق المختوم ص327)

مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے کے  یہودی ہتھکنڈے

کمزور ایمان والے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے یہود مختلف سازشیں کرتے رہتے تھے،  اس سلسلہ کی ان کی ایک سازش یہ بھی تھی کہ وہ اپنے خاص پڑھے لکھے نوجوانوں کو سپیشل اس کام کے لیے تیار کرتے تھے کہ صبح کے وقت قرآن اور پیغمبر پر ایمان کا اظہار کرو اور شام کو کفر و انحراف کا اعلان کر دو ، ممکن ہے یہ طریقہ اختیار کرنے سے بعض مسلمان بھی سوچنے لگیں کہ یہ پڑھے لکھے لوگ مسلمان ہونے کے بعد اس تحریک سے الگ ہوگئے ہیں تو آخر انھوں نے کوئی خرابی یا کمزور پہلو ضرور دیکھا ہوگا۔

(ابن کثیر، شوکانی تفسیر القرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالٰی )

جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا:

وَقَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِيْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَۚۖ۰۰۷۲

اور اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کہا تم دن کے شروع میں اس چیز پر ایمان لاؤ جو ان لوگوں پر نازل کی گئی ہے جو ایمان لائے ہیں اور اس کے آخر میں انکار کردو، تاکہ وہ واپس لوٹ آئیں۔(آل عمران:72)

یہود تمام اہل اسلام کی ہلاکت کے خواہاں ہیں

 یہودیوں کی اسی طرح کی ایک اور کمینگی کا ذکر حدیث میں آیا ہے

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْيَهُودَ إِذَا سَلَّمُوا عَلَيْكُمْ يَقُولُ أَحَدُهُمْ السَّامُ عَلَيْكُمْ فَقُلْ عَلَيْكَ

 کہ وہ ” السلام علیکم “ کے بجائے ” اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ “ کہتے، جس کا معنی ہے تم پر موت ہو۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ان کے جواب میں صرف ” عَلَیْكَ “ کہنے کا حکم دیا کہ وہ تمہیں پر ہو۔ ( مسلم، السلام، باب النہی عن ابتداء ۔۔ : ٢١٦٤)

یہود کے نزدیک اہل اسلام دنیا کے بدترین لوگ ہیں

سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ پہلے یہودی تھے بعد میں مسلمان ہو گئے انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے۔ اگر آپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہو گیا تو آپ ﷺ کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کر دیں گے۔ چنانچہ کچھ یہودی آئے اور عبداللہ رضی اللہ عنہ گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں؟ سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا، اگر عبداللہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہو گا؟ انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے۔ اتنے میں عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے۔(بخاری 3329)

مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش

ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی شاش بن قیس، ایک بار صحابۂ کرام کی ایک مجلس کے پاس سے گذرا ، جس میں اوس و خزرج دونوں ہی قبیلے کے لوگ بیٹھے باہم گفتگو کررہے تھے۔ اسے یہ دیکھ کر  سخت رنج ہوا۔ کہنے لگا : ‘›اوہ ! ا س دیار میں بنو قَیلہ کے اشراف متحد ہوگئے ہیں۔ واللہ ! ان اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گذر نہیں۔›› چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی کو جو اس کے ساتھ تھا حکم دیا کہ ان کی مجلس میں جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث اور اس کے پہلے کے حالات کا ذکر کرے۔ اور اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں کچھ ان میں سنائے۔ اس یہودی نے ایساہی کیا۔ اس کے نتیجے میں اوس وخزرج میں تو تو میں میں شروع ہوگئی۔ لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے لگے حتی ٰ کہ دونوں قبیلوں کے ایک ایک آدمی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ردّ وقدح شروع کردی ، پھر ایک نے اپنے مدّ ِ مقابل سے کہا : اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں – مقصد یہ تھا کہ ہم اس باہمی جنگ کے لیے پھر تیار ہیں جو اس سے پہلے لڑی جاچکی ہے- اس پر دونوں فریقوں کو تاؤ آگیا اور بولے : چلو تیار ہیں، حَرہ میں مقابلہ ہوگا — ہتھیا ر … ! ہتھیار …!

اب لوگ ہتھیار لے کر حرہ کی طرف نکل پڑے، قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی لیکن رسول اللہﷺ کو اس کی خبر ہوگئی۔ آپﷺ اپنے مہاجرین صحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا :››اے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ۔ اللہ۔ کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت کی پکار ! اور وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز فرماچکا ہے اور اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا معاملہ کا ٹ کر اور تمہیں کفر سے نجات دے کر تمہارے دلو ں کو آپس میں جوڑ چکا ہے۔›› آپﷺ کی نصیحت سن کر صحابہ کو احساس ہوا کہ ان کی حرکت شیطا ن کا ایک جھٹکا اور دشمن کی ایک چال تھی ، چنانچہ وہ رونے لگے اور اوس وخزرج کے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے۔ پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ اطاعت شعار وفرمانبردار بن کر اس حالت میں واپس آئے کہ اللہ نے ان کے دشمن شاش بن قیس کی عیاری کی آگ بجھادی تھی۔(الرحیق المختوم ص324)

کعب بن اشرف یہودی اور مسلمانوں کی تکالیف

یہودیوں میں یہ وہ شخص تھا جسے اسلام اور اہل ِ اسلام سے نہایت سخت عداوت اور جلن تھی۔ یہ نبیﷺ کو اذیتیں پہنچایا کرتا تھا اور آپﷺ کے خلاف جنگ کی کھلم کھلا دعوت دیتا پھرتا تھا۔اللہ کا یہ دشمن ، رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کی ہجو اور دشمنانِ اسلام کی مدح سرائی بھی کیا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ مسلمانوں کے خلاف جنگ بھڑکانے کے لیے قریش کے پاس پہنچا اور مطلب بن ابی وداعہ سہمی کا مہمان ہوا۔ پھر مشرکین کی غیرت بھڑکانے ، ان کی آتشِ انتقام تیز کرنے اور انہیں نبی کریمﷺ کے خلاف آمادہ ٔ جنگ کرنے کے لیے اشعار کہہ کہہ کر ان سردارانِ قریش کا نوحہ وماتم شروع کردیا جنہیں میدان ِ بدر میں قتل کیے جانے کے بعد کنویں میں پھینک دیا گیا تھا۔اسی طرح وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عورتوں کے بارے میں واہیات اشعار بھی کہا کرتا تھا اور اپنی زبان درازی وبدگوئی کے ذریعے سخت اذیت پہنچاتا تھا یہی حالات تھے جن سے تنگ آکر رسول اللہﷺ نے فرمایا :کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمٹے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت دی ہے۔

یہود نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں توڑ دیئے

‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ «»لَمَّا فَدَعَ أَهْلُ خَيْبَرَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ قَامَ عُمَرُ خَطِيبًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ نُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَى مَالِهِ هُنَاكَ، ‏‏‏‏‏‏فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنَ الليْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَفُدِعَتْ يَدَاهُ وَرِجْلَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرَهُمْ هُمْ عَدُوُّنَا وَتُهْمَتُنَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَأَيْتُ إِجْلَاءَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَجْمَعَ عُمَرُ عَلَى ذَلِكَ أَتَاهُ أَحَدُ بَنِي أَبِي الْحُقَيْقِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَتُخْرِجُنَا وَقَدْ أَقَرَّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَامَلَنَا عَلَى الْأَمْوَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَشَرَطَ ذَلِكَ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ أَظَنَنْتَ أَنِّي نَسِيتُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ بِكَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَيْبَرَ تَعْدُو بِكَ قَلُوصُكَ لَيْلَةً بَعْدَ لَيْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَانَتْ هَذِهِ هُزَيْلَةً مِنْ أَبِي الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَجْلَاهُمْ عُمَرُ وَأَعْطَاهُمْ قِيمَةَ مَا كَانَ لَهُمْ مِنَ الثَّمَرِ مَالًا وَإِبِلًا وَعُرُوضًا مِنْ أَقْتَابٍ وَحِبَالٍ وَغَيْرِ ذَلِكَ»». رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللهِ أَحْسِبُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَصَرَهُ. (بخاری)

جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والوں نے توڑ ڈالے تو عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر کے یہودیوں سے ان کی جائیداد کا معاملہ کیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں گے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹوٹ گئے۔ خیبر میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ‘ وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں پر ہمیں شبہ ہے اس لیے میں انہیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب جانتا ہوں۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو بنو ابی حقیق  ( ایک یہودی خاندان )  کا ایک شخص تھا ’ آیا اور کہا یا امیرالمؤمنین کیا آپ ہمیں جلا وطن کر دیں گے حالانکہ محمد ﷺ نے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا اور ہم سے جائیداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھول گیا ہوں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا کہ تمہارا کیا حال ہو گا جب تم خیبر سے نکالے جاؤ گے اور تمہارے اونٹ تمہیں راتوں رات لیے پھریں گے۔ اس نے کہا یہ ابوالقاسم  ( آپ ﷺ  )  کا ایک مذاق تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے دشمن! تم نے جھوٹی بات کہی۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں شہر بدر کر دیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت کچھ مال اور اونٹ اور دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کر دی۔

 وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے