پہلا خطبہ:

تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو بے نیاز کرم کرنے والا اور زیادہ احسان اور عظیم فضل والا ہے۔وہ جسے چاہے سیدھے راستے کی رہنمائی کرتاہے ہم اُس کی ایک کے بعد ایک نعمتوں اور پے درپے بھلائیوں پر اُس کی حمد بیان کرتے ہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اُس کاکوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اللہ تعالیٰ درود و سلام نازل فرمائے آپ ﷺ پر آپ ﷺ کی آل پر اور آپ ﷺ کے اصحاب اجمعین پر۔بے شمار درود و سلا م نازل فرمائے۔
اما بعد!
مومنو! اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجا آوری کر کے اللہ سے ڈرو ،دنیا و آخرت میں بڑی کامیابی و کامرانی حاصل کرو گے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ

پرہیزگاروں کے لیے نہایت ہی عمده انجام ہے۔(القصص :83)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ

یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے۔(النحل :128)
اور فرمایا:

إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔(یوسف :90)
جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے ان میں سے ایک احسان ہےجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ

اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔(النحل :90)
اس لئے بندے کوچاہیئے کہ عبادت میں احسان کو لازم پکڑے جیسا کہ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اُسے دیکھ رہے ہواور اگر تم اُسے نہیں دیکھ رہے تو یقینا ً وہ تمہیں دیکھ رہاہے ۔(متفق علیہ)
ان میں عظیم ترین توحید یعنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کر کے احسان کو لازم اختیار کرنا ہےجیسا کہ فرمان ِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ

اور جو (شخص) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے اور ہو بھی وه نیکو کار یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا، تمام کاموں کا انجام اللہ کی طرف ہے۔(لقمان:22)
اور فرمایا:

بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

سنو! جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے۔ بےشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔ (البقرۃ – 112)

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ

اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔(الاسراء :23)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا

اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔(الجن :18)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔(الکوثر :2)
یہ توحید کی گواہی “لا الٰہ الا اللہ” اور اس کے ساتھ رسالت کی گواہی “اشہد ان محمد ا رسول اللہ ” کا تقاضہ ہے اس لئے آپ ﷺ کے حکم کی پیروی کی جائے آپ ﷺ کی خبر کی تصدیق کی جائے اور اُسی طریقے پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے جو آپ ﷺ لے کر آئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو مکمل کردیا اس لئے یہ دین اس بات کا محتاج نہیں کہ اس میں کسی بدعت کا اضافہ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نےعرفہ کےدن نازل ہونے والی آیت میں فرمایا:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ (المائدۃ :3)
اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سے احسان اور احسان میں سے روزانہ پانچ نمازوں کو ان کے وقتوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ

نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑے رہا کرو۔(البقرۃ :238)
اسی طرح زکوٰۃ اداکرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ

اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے۔ تو وه رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔( الاعراف :156)
اس احسان میں سے ایک رمضان کا روزہ رکھنا بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ

تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہیے۔(البقرۃ :185)
اور فرمایا:

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا گیا ہے۔(آل عمران :97)
اس احسان میں سے اللہ تعالیٰ پر بطور رب ایمان لانا،اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ،اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا ہے ،آخرت کے دن پر ایمان لانا اور اچھی اور بُری تقدیر پر ایمان لاناہے ۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نازل ہونے والی ہے اور اُس کا فیصلہ لامحالہ نافذ ہونے والا ہے۔ انسان اللہ کی عبادت میں احسان کو لازم کیوں نہ پکڑے جب کے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر احسان کیا ہے اور مختلف الانواع نعمتوں سے انہیں نواز ا ہے، انہیں عدم سے وجود میں لایا ہے اورا نہیں بھرپور بھلائیاں دے رکھی ہیں اور انہیں مسلسل خوشیاں عطا کی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے اور تمہیں اپنی ظاہری وباطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں۔(لقمان :20)
اور فرمایا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔(التین :4)
اور فرمایا:

فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ

برکتوں والا ہے وه اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔(المؤمنون :14)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ‎﴿٧﴾‏ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ‎﴿٨﴾‏ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ

س نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی۔پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی۔جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو۔(السجدۃ: 7-9)
بندوں پر اللہ تعالیٰ کے احسان میں سے یہ ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے ان کی طرف کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے جیسا کہ اُس نے اپنی عظیم کتاب قرآن مجید محمد ﷺ پر نازل کی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ١ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ

بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔(آل عمران :164)
اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ پر فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت جس کے ذریعہ جسے چاہے راه راست پر لگا دیتا ہے۔(الزمر :23)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ

یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟(المائدۃ :50)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے یہ ہے کہ وہ مختلف قسم کے احسان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

اور جیسے کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے۔(القصص :77)
چنانچہ انسان ہر اُس شخص کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کر ےجس سے اُس کا کوئی رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا

اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راه کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں، (غلام کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔(النساء :36)
احسان میں سے اولادوں کی تربیت ہے اور سماجی روابط اور یکجہتی کو قائم کرنے کی کوشش ہے چنانچہ شوہر اپنی بیوی کےساتھ بلکہ اپنی مطلقہ کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے اوربیوی اپنے شوہر کے ساتھ اچھاسلوک کرے ۔اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ

دستور کے مطابق اچھا فائده دے۔ بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے۔(البقرۃ :236)
اور فرمایا:

فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ

پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔(البقرۃ :229)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

(النساء :128)اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیزگاری کرو تو تم جو کر رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ پوری طرح خبردار ہے۔
شریعت نے کمزوروں اور یتیموں کےساتھ برتاؤ کرتے وقت احسان کا حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ

اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ بجز اس طریقہ کے جو بہت ہی بہتر ہو۔(الاسراء :34)
اسی طرح شریعت نے مسلمان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ملازمین اور مزدوروں کے ساتھ نرمی کا سلوک کرے اُن سے نرمی کے ساتھ پیش آئے اور کام کے عہد و پیمان میں طے شدہ شرائط کو پوراکرے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا

اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے۔(الاسراء :34)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ

اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو۔(المائدۃ :1)
اور نبی کریم ﷺ نےفرمایا: وہ تمہارے بھائی ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کردیا ہے انہیں ان کی طاقت سے زیادہ کام کا مکلف نہ کرولیکن اگر تم انہیں مکلف کرتے ہو تو ان کی مدد کرو۔ (متفق علیہ)
احسان میں سے بندوں کی سلامتی ،ملکی استحکام اور لوگوں کو ان کی ذمہ داری اور کام کی ادائیگی پر قادر بنانے کی کوشش کرنا ہے ساتھ ہی ان کے خون اور مال کی حفاظت کرنا قوانین کی پابندی کرنا اور اللہ کی معصیت کے علاوہ تمام معاملات میں اولات الامر یعنی حکمران کی اطاعت کرنا ہے ۔یہ باتیں تقاضہ کرتی ہیں کہ حقوق کی حفاظت کی جائے،فتنوں کے اسباب کو چھوڑا جائے ،دوسروں کو تکلیف دینے کو حرام سمجھا جائے ،دہشت گردی کی امداد سے روکا جائے اور زمین پر فساد پھیلانے سے منع کیا جائے ۔بلکہ ایک مسلمان کا احسان چوپایوں اور جمادات تک بھی پہنچتا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ

اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سب سے اچھا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔اس لئے جب تم(قصاص یاحد میں کسی کو) قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو،اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو،تم میں سے ایک شخص(جو ذبح کرنا چاہتا ہے) وہ  دھار کو تیز کرلے اور ذبح کیے جانے والے جانور کو اذیت سے بچائے۔”(سنن أبي داود، كتاب الضحايا، باب في النهي أن تصبر البهائم والرفق الذبيحة، الحديث: 2815)اپنی(چھری کی )
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:

فِي كُلِّ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ

’’ہر وہ جگر جو زندہ ہے اس کی خدمت میں اجر ہے۔‘‘(البخاري، كتاب المساقاة، باب فضل سقي الماء، الحديث:2363)
مسلمان اس بات کا حریص ہوتا ہے کہ اس کےاحسان سے ماحول بھی محفوظ ہوسو اس کی حفاظت کریں اور اس میں فساد نہ پھیلائیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو زمین پر فساد مچانے کی کوشش کرتاہےاور کھیتی اور نسل کو تباہ کرتاہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔
بلکہ مسلمان کا احسان غیر مسلم تک بھی پہنچتا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا

اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو۔(الانسان :8)
اور اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا:

وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ان کی ایک نہ ایک خیانت پر تجھے اطلاع ملتی ہی رہے گی ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں پس توانہیں معاف کرتا جا اور درگزر کرتا ره، بےشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(المائدۃ :13)
بلکہ بحیثیت مسلمان آپ کا احسان ان لوگوں تک بھی پہنچتا ہے جن سے آپ کی دشمنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ‎﴿٣٤﴾‏ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ

برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔ اور یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پاسکتا۔(فصلت :34۔35)
یہ احسان مالی لین دین کو بھی شامل ہے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

اور جب ناپنے لگو تو بھر پور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔ یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے۔(الاسراء :35)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ

ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے۔(البقرۃ :245)
اسی طرح یہ احسان خوبصورت الفاظ کی شکل میں جب تمام لوگوں کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا

اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا۔(البقرۃ :83)
اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا:

وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَقُوْلُوا الَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ١ؕ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا

اور میرے بندوں سے کہہ دیجیئے کہ وه بہت ہی اچھی بات منھ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ بےشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔(الاسراء :53)
یہ احسان تمام لوگوں کو اس عادلانہ برتاؤ کے توسط سے شامل ہے جس کا ہر بندہ اپنے اعمال کے مطابق مستحق ہوتا ہے ۔اسی طرح احسان میں دعوتِ الی اللہ بھی شامل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ

اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔(النحل :125)
اللہ تعالیٰ نے اور فرمایا:

وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ

اور اہل کتاب کے ساتھ بحث ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمده ہو۔(العنکبوت :46)
اور اس احسان میں سے اچھا استقبال سلام کرنے میں احسان ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا

اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو، بے شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔(النساء :86)
لوگوں کےساتھ احسان میں سے یہ بھی ہے کہ ان طرف سے دی گئی اذیت پر صبر کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ اصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ

آپ صبر کرتے رہئے یقیناً اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔(ھود :115)
اورمومن کی شان یہ ہے کہ وہ سب سے اچھے اعمال کی پیروی کرتاہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ

میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔ جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ  نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں۔(الزمر :17۔18)
اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن کو پتا ہوتا ہے کہ احسان منافست اور مقابلہ آرائی کا میدان ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُۙ

جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے والا ہے۔(الملک :2)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا١ؕ وَ لَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُوْلَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ

اللہ ہی وه ہے جس نے چھ دن میں آسمان وزمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وه تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے، اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے کہ یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے۔( ھود :7)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَيُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا

روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انہیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے۔(الکھف :7)
بندہ اللہ کی عبادت میں احسان اور اس کے بندوں کےساتھ احسان اور اچھا سلوک کر کے اپنے نفس کے ساتھ احسان کرتاہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ

اگر تم نے اچھے کام کئے تو خود اپنے ہی فائده کے لئے۔(الاسراء :7)
یوں وہ اللہ کی محبت اور معیت حاصل کرتا ہے اور اس کی رحمت سے قریب ہوتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ

اور سلوک واحسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔(البقرۃ :195)
اور فرمایا:

وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَؒ

یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے۔(العنکبوت :69)
اور فرمایا:

وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ

اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے!۔(الحج :37)
اور فرمایا:

اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ

بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے۔(الاعراف :56)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَۙ

یقیناً اللہ تعالیٰ مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔( التوبة :120)
اور فرمایا:

وَ يَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى ۚ

اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے۔(النجم :31)
اور فرمایا:

لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِيَادَةٌ١ؕ وَ لَا يَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ

جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت، یہ لوگ جنت میں رہنے والے ہیں وه اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ

ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راه نہیں۔(التوبة :91)
اور فرمایا:

لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ١ؕ وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِيْنَۙ

جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے، اور یقیناً آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے، اور کیا ہی خوب پرہیز گاروں کا گھر ہے۔(النحل :30)
ایک اور جگہ فرمایا:

اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍۙ۰۰۱۵اٰخِذِيْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِيْنَؕ

بیشک تقویٰ والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اسے لے رہے ہوں گے وه تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے۔(الذاریات :15۔16)
اور فرمایا:

لَهُمْ مَّا يَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الْمُحْسِنِيْنَۚۖ

ان کے لیے ان کے رب کے پاس (ہر) وه چیز ہے جو یہ چاہیں، نیک لوگوں کا یہی بدلہ ہے۔(الزمر :34)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ يٰعِبَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ

کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشاده ہے صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بےشمار اجر دیا جاتا ہے۔(الزمر :10)
اور فرمایا:

هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُۚ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے۔(الرحمٰن :60)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً١ۚ وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ

جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔(النحل :97)
سنو اے احسان کرنے والو! آپ کو کئی گنا اجر مبارک ہو ۔ جیسا کہ آپ ﷺ نےفرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے اسلام کو اچھا کرے تو اس کی طرف سے کی گئی ہر نیکی دس نیکیوں سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا

جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے۔(الانعام :160)
بندوں پر اللہ کے احسان میں سے یہ ہے کہ اس نے ان کے لئے توبہ کے دروازے کھول رکھے ہیں تاکہ وہ جب تک مہلت کے زمانے میں ہیں بُرائی کے بعد نیکی کریں اور ان کے گناہ بخش دیئے جائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

لیکن جو لوگ ظلم کریں پھر اس کے عوض نیکی کریں اس برائی کے پیچھے تو میں بھی بخشنے والامہربان ہوں۔
مزید فرمایا:(النمل :11)

اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ

یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔(ھود :114)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَّ يَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ

اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں، ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔
شریعت کی لائی ہوئی تعلیمات میں سے یہ ہے کہ احسان کرنے والے کو بدلہ دعا، تعریف اور احسان کے اعتراف سے دیا جائے ۔اسی لئے اللہ کے نبی ﷺ نے احسان فراموشی کی مذمت کی ہے۔بجائے یہ کہ اس کاانکار کیا جائے اور اس کااعتراف نہ کیا جائے۔جن لوگوں نے تمام مسلمانوں کے ساتھ احسا ن کیاہے ان میں سے خادم ِحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور اُن کے ولی عہد محمد بن سلمان ہیں کہ انہوں نے حاجیوں کے معاملات کی دیکھ بھال کی حرمین شریفین کی ذمہ داری اٹھائی اُن میں امن کو برقرار رکھنے اور ایسے لوگوں کو مہیا کرنے کی کوشش کی جو حج و عمرہ کرنے والوں کےساتھ احسان اور حسن ِ سلوک کریں اور ساتھ ہی وہ اس بات کے حریص بھی ہیں کہ موسمِ حج کو بیماریوں کی پھیلاؤ کی جگہ اور وباؤ ںکی آماجگاہ بننے سے بچائیں اوریہ کہ صحتمند طریقے سے شعائر حج کو قائم کیا جائے اس طرح کہ بچاؤ اور حفاظتی دوری کے تقاضے پورے ہوں تاکہ جان کی حفاظت سے متعلق شریعت کے تقاضے پورے ہوںاور نبی کریم ﷺ کے اس فرمان پر عملدرآمد ہو جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی جگہ طاعون کے بارے میں سنو تو اس جگہ میں داخل نہ ہو،اور جب کسی جگہ طاعون داخل ہوجائے اور تم اس جگہ میں ہو تو وہاں سے نہ نکلو۔اللہ تعالیٰ ان دونوں کو بہترین بدلہ عطا فرمائے ،ان میں برکت دے اورانہیں تمام لوگوں کی بھلائی،سعادت اور ہدایت کا ذریعہ بنائے ۔ آمین
اللہ تعالیٰ کے محترم گھر کےحاجیو! آپ اپنے مناسک رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق انجام دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم مجھ سے اپنے حج کے مسائل سیکھ لو ۔اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ

حج اور عمرے کو اللہ تعالیٰ کے لئے پورا کرو۔(البقرۃ :196)
آپ اس کی بدولت ان لوگوں میں شمار ہوں گے جنہوں نے اچھی طرح حج ادا کیا ۔آپ اس شرعی مقام پر اپنے لئے اپنے قرابتداروں کے لئے ملکوں کےحکمرانوں کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دُعا کریں کیونکہ کوئی بھی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم کی آگ سے نجات عطا فرماتا ہو۔اس دن بندہ (حاجی) اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوتا ہےاور اللہ تعالیٰ ان بندوں کی وجہ سےفرشتوں پر فخر کرتا ہے۔
اے اللہ !تو اپنے مومن بندوں پر احسان کر اور انہیں ایک دوسرے سے احسان کرنے کی توفیق دے ۔
اے اللہ ! ان میں الفت پیدا کردے ،حق پر ان کے کلمے کو متحد کردے اور ان کے دلوں کی اصلاح فرما۔
رسول اللہ ﷺ نے مقام ِ عرفہ میں خطبہ دیا پھر بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور اقامت کہی ۔آپ ﷺ نے ظہر کی نماز قصر دورکعت پڑھی پھر اقامت کہی اور آپ ﷺ نے عصر کی نماز قصر دو رکعت پڑھی پھر آپ ﷺ نے عرفہ میں اپنی اونٹنی پر وقوف فرمایا۔آپ ﷺ اللہ کا ذکر اور دعا کرتے رہےیہاں تک کہ جب سورج کی ٹکیا غائب ہوگئی تو آپ ﷺ مزدلفہ کے لئے روانہ ہوئے اور آپ ﷺ لوگوں سے کہتے رہے کہ سکو ن و وقار کو لازم پکڑو۔پھر جب آپ ﷺ مزدلفہ پہنچے تو وہاں مغرب کی نماز تین رکعت پڑھی اور عشاء کی دورکعت جمع اور قصر کے ساتھ ۔پھر مزدلفہ میں رات گزاری اور فجر کی نماز اُس کے اول وقت میں پڑھی اور اس کےبعد دُعا کرتےرہے یہاں تک کہ اجالہ ہوگیا۔پھر منیٰ کےلئے روانہ ہوگئے اور وہاں سورج طلوع ہونے کے بعد جمرعقبہ کو کنکریاں ماریں پھر قربانی کی اور سر منڈوایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے طوافِ افادہ کیا پھر آپ ﷺ نے ایامِ تشریق منیٰ کے اندر گزارے۔آپﷺ اللہ کا ذکر کرتے اور زوال کے بعد تینوں جمرات کو کنکریاں مارتے۔آپ ﷺ جمرہ صغریٰ اور وسطیٰ کے پاس دُعا کرتے اور عذر والوں کو منیٰ میں رات نہ گزارنے کی رخصت عطا فرماتے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا

پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ داداؤں کا ذکر کیا کرتے تھے۔(البقرۃ :200)
اور آپ کی دُعا یہ ہونی چاہیئے:

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۰۰۲۰۱ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ

اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔یہ وه لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والاہے۔(البقرۃ :201۔202)
رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے کہ تیرہویں ذی الحجہ تک منیٰ میں رکا جائے اور یہ افضل ہے ۔اور بارھویں تاریخ میں جلدی نکلنے کی اجازت دی ہے ۔جب آپ ﷺ حج سے فارغ ہوئے تو اپنے سفر سے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَۚ۰۰۱۸۰ وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَۚ۰۰۱۸۱ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؒ

تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو بے نیاز کرم کرنے والا اور زیادہ احسان اور عظیم فضل والا ہے۔وہ جسے چاہے سیدھے راستے کی رہنمائی کرتاہے ہم اُس کی ایک کے بعد ایک نعمتوں اور پے درپے بھلائیوں پر اُس کی حمد بیان کرتے ہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اُس کاکوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اللہ تعالیٰ درود و سلام نازل فرمائے آپ ﷺ پر آپ ﷺ کی آل پر اور آپ ﷺ کے اصحاب اجمعین پر۔بے شمار درود و سلا م نازل فرمائے۔
اما بعد!
مومنو! اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجا آوری کر کے اللہ سے ڈرو ،دنیا و آخرت میں بڑی کامیابی و کامرانی حاصل کرو گے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ

پرہیزگاروں کے لیے نہایت ہی عمده انجام ہے۔(القصص :83)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ

یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے۔(النحل :128)
اور فرمایا:

إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔(یوسف :90)
جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے ان میں سے ایک احسان ہےجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ

اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔(النحل :90)
اس لئے بندے کوچاہیئے کہ عبادت میں احسان کو لازم پکڑے جیسا کہ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اُسے دیکھ رہے ہواور اگر تم اُسے نہیں دیکھ رہے تو یقینا ً وہ تمہیں دیکھ رہاہے ۔(متفق علیہ)
ان میں عظیم ترین توحید یعنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کر کے احسان کو لازم اختیار کرنا ہےجیسا کہ فرمان ِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ

اور جو (شخص) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے اور ہو بھی وه نیکو کار یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا، تمام کاموں کا انجام اللہ کی طرف ہے۔(لقمان:22)
اور فرمایا:

بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

سنو! جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے۔ بےشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔ (البقرۃ – 112)

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ

اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔(الاسراء :23)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا

اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔(الجن :18)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔(الکوثر :2)
یہ توحید کی گواہی “لا الٰہ الا اللہ” اور اس کے ساتھ رسالت کی گواہی “اشہد ان محمد ا رسول اللہ ” کا تقاضہ ہے اس لئے آپ ﷺ کے حکم کی پیروی کی جائے آپ ﷺ کی خبر کی تصدیق کی جائے اور اُسی طریقے پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے جو آپ ﷺ لے کر آئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو مکمل کردیا اس لئے یہ دین اس بات کا محتاج نہیں کہ اس میں کسی بدعت کا اضافہ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نےعرفہ کےدن نازل ہونے والی آیت میں فرمایا:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ (المائدۃ :3)
اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سے احسان اور احسان میں سے روزانہ پانچ نمازوں کو ان کے وقتوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ

نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑے رہا کرو۔(البقرۃ :238)
اسی طرح زکوٰۃ اداکرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ

اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے۔ تو وه رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔( الاعراف :156)
اس احسان میں سے ایک رمضان کا روزہ رکھنا بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ

تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہیے۔(البقرۃ :185)
اور فرمایا:

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا گیا ہے۔(آل عمران :97)
اس احسان میں سے اللہ تعالیٰ پر بطور رب ایمان لانا،اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ،اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا ہے ،آخرت کے دن پر ایمان لانا اور اچھی اور بُری تقدیر پر ایمان لاناہے ۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نازل ہونے والی ہے اور اُس کا فیصلہ لامحالہ نافذ ہونے والا ہے۔ انسان اللہ کی عبادت میں احسان کو لازم کیوں نہ پکڑے جب کے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر احسان کیا ہے اور مختلف الانواع نعمتوں سے انہیں نواز ا ہے، انہیں عدم سے وجود میں لایا ہے اورا نہیں بھرپور بھلائیاں دے رکھی ہیں اور انہیں مسلسل خوشیاں عطا کی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے اور تمہیں اپنی ظاہری وباطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں۔(لقمان :20)
اور فرمایا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔(التین :4)
اور فرمایا:

فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ

برکتوں والا ہے وه اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔(المؤمنون :14)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ‎﴿٧﴾‏ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ‎﴿٨﴾‏ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ

س نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی۔پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی۔جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو۔(السجدۃ: 7-9)
بندوں پر اللہ تعالیٰ کے احسان میں سے یہ ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے ان کی طرف کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے جیسا کہ اُس نے اپنی عظیم کتاب قرآن مجید محمد ﷺ پر نازل کی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ١ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ

بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔(آل عمران :164)
اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ پر فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت جس کے ذریعہ جسے چاہے راه راست پر لگا دیتا ہے۔(الزمر :23)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ

یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟(المائدۃ :50)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے یہ ہے کہ وہ مختلف قسم کے احسان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

اور جیسے کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے۔(القصص :77)
چنانچہ انسان ہر اُس شخص کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کر ےجس سے اُس کا کوئی رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا

اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راه کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں، (غلام کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔(النساء :36)
احسان میں سے اولادوں کی تربیت ہے اور سماجی روابط اور یکجہتی کو قائم کرنے کی کوشش ہے چنانچہ شوہر اپنی بیوی کےساتھ بلکہ اپنی مطلقہ کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے اوربیوی اپنے شوہر کے ساتھ اچھاسلوک کرے ۔اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ

دستور کے مطابق اچھا فائده دے۔ بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے۔(البقرۃ :236)
اور فرمایا:

فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ

پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔(البقرۃ :229)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

(النساء :128)اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیزگاری کرو تو تم جو کر رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ پوری طرح خبردار ہے۔
شریعت نے کمزوروں اور یتیموں کےساتھ برتاؤ کرتے وقت احسان کا حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ

اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ بجز اس طریقہ کے جو بہت ہی بہتر ہو۔(الاسراء :34)
اسی طرح شریعت نے مسلمان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ملازمین اور مزدوروں کے ساتھ نرمی کا سلوک کرے اُن سے نرمی کے ساتھ پیش آئے اور کام کے عہد و پیمان میں طے شدہ شرائط کو پوراکرے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا

اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے۔(الاسراء :34)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ

اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو۔(المائدۃ :1)
اور نبی کریم ﷺ نےفرمایا: وہ تمہارے بھائی ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کردیا ہے انہیں ان کی طاقت سے زیادہ کام کا مکلف نہ کرولیکن اگر تم انہیں مکلف کرتے ہو تو ان کی مدد کرو۔ (متفق علیہ)
احسان میں سے بندوں کی سلامتی ،ملکی استحکام اور لوگوں کو ان کی ذمہ داری اور کام کی ادائیگی پر قادر بنانے کی کوشش کرنا ہے ساتھ ہی ان کے خون اور مال کی حفاظت کرنا قوانین کی پابندی کرنا اور اللہ کی معصیت کے علاوہ تمام معاملات میں اولات الامر یعنی حکمران کی اطاعت کرنا ہے ۔یہ باتیں تقاضہ کرتی ہیں کہ حقوق کی حفاظت کی جائے،فتنوں کے اسباب کو چھوڑا جائے ،دوسروں کو تکلیف دینے کو حرام سمجھا جائے ،دہشت گردی کی امداد سے روکا جائے اور زمین پر فساد پھیلانے سے منع کیا جائے ۔بلکہ ایک مسلمان کا احسان چوپایوں اور جمادات تک بھی پہنچتا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ

اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سب سے اچھا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔اس لئے جب تم(قصاص یاحد میں کسی کو) قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو،اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو،تم میں سے ایک شخص(جو ذبح کرنا چاہتا ہے) وہ  دھار کو تیز کرلے اور ذبح کیے جانے والے جانور کو اذیت سے بچائے۔”(سنن أبي داود، كتاب الضحايا، باب في النهي أن تصبر البهائم والرفق الذبيحة، الحديث: 2815)اپنی(چھری کی )
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:

فِي كُلِّ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ

’’ہر وہ جگر جو زندہ ہے اس کی خدمت میں اجر ہے۔‘‘(البخاري، كتاب المساقاة، باب فضل سقي الماء، الحديث:2363)
مسلمان اس بات کا حریص ہوتا ہے کہ اس کےاحسان سے ماحول بھی محفوظ ہوسو اس کی حفاظت کریں اور اس میں فساد نہ پھیلائیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو زمین پر فساد مچانے کی کوشش کرتاہےاور کھیتی اور نسل کو تباہ کرتاہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔
بلکہ مسلمان کا احسان غیر مسلم تک بھی پہنچتا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا

اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو۔(الانسان :8)
اور اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا:

وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ان کی ایک نہ ایک خیانت پر تجھے اطلاع ملتی ہی رہے گی ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں پس توانہیں معاف کرتا جا اور درگزر کرتا ره، بےشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(المائدۃ :13)
بلکہ بحیثیت مسلمان آپ کا احسان ان لوگوں تک بھی پہنچتا ہے جن سے آپ کی دشمنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ‎﴿٣٤﴾‏ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ

برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔ اور یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پاسکتا۔(فصلت :34۔35)
یہ احسان مالی لین دین کو بھی شامل ہے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

اور جب ناپنے لگو تو بھر پور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔ یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے۔(الاسراء :35)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ

ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے۔(البقرۃ :245)
اسی طرح یہ احسان خوبصورت الفاظ کی شکل میں جب تمام لوگوں کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا

اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا۔(البقرۃ :83)
اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا:

وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَقُوْلُوا الَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ١ؕ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا

اور میرے بندوں سے کہہ دیجیئے کہ وه بہت ہی اچھی بات منھ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ بےشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔(الاسراء :53)
یہ احسان تمام لوگوں کو اس عادلانہ برتاؤ کے توسط سے شامل ہے جس کا ہر بندہ اپنے اعمال کے مطابق مستحق ہوتا ہے ۔اسی طرح احسان میں دعوتِ الی اللہ بھی شامل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ

اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔(النحل :125)
اللہ تعالیٰ نے اور فرمایا:

وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ

اور اہل کتاب کے ساتھ بحث ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمده ہو۔(العنکبوت :46)
اور اس احسان میں سے اچھا استقبال سلام کرنے میں احسان ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا

اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو، بے شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔(النساء :86)
لوگوں کےساتھ احسان میں سے یہ بھی ہے کہ ان طرف سے دی گئی اذیت پر صبر کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ اصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ

آپ صبر کرتے رہئے یقیناً اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔(ھود :115)
اورمومن کی شان یہ ہے کہ وہ سب سے اچھے اعمال کی پیروی کرتاہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ

میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔ جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ  نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں۔(الزمر :17۔18)
اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن کو پتا ہوتا ہے کہ احسان منافست اور مقابلہ آرائی کا میدان ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُۙ

جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے والا ہے۔(الملک :2)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا١ؕ وَ لَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُوْلَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ

اللہ ہی وه ہے جس نے چھ دن میں آسمان وزمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وه تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے، اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے کہ یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے۔( ھود :7)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَيُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا

روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انہیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے۔(الکھف :7)
بندہ اللہ کی عبادت میں احسان اور اس کے بندوں کےساتھ احسان اور اچھا سلوک کر کے اپنے نفس کے ساتھ احسان کرتاہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ

اگر تم نے اچھے کام کئے تو خود اپنے ہی فائده کے لئے۔(الاسراء :7)
یوں وہ اللہ کی محبت اور معیت حاصل کرتا ہے اور اس کی رحمت سے قریب ہوتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ

اور سلوک واحسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔(البقرۃ :195)
اور فرمایا:

وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَؒ

یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے۔(العنکبوت :69)
اور فرمایا:

وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ

اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے!۔(الحج :37)
اور فرمایا:

اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ

بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے۔(الاعراف :56)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَۙ

یقیناً اللہ تعالیٰ مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔( التوبة :120)
اور فرمایا:

وَ يَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى ۚ

اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے۔(النجم :31)
اور فرمایا:

لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِيَادَةٌ١ؕ وَ لَا يَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ

جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت، یہ لوگ جنت میں رہنے والے ہیں وه اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ

ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راه نہیں۔(التوبة :91)
اور فرمایا:

لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ١ؕ وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِيْنَۙ

جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے، اور یقیناً آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے، اور کیا ہی خوب پرہیز گاروں کا گھر ہے۔(النحل :30)
ایک اور جگہ فرمایا:

اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍۙ۰۰۱۵اٰخِذِيْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِيْنَؕ

بیشک تقویٰ والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اسے لے رہے ہوں گے وه تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے۔(الذاریات :15۔16)
اور فرمایا:

لَهُمْ مَّا يَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الْمُحْسِنِيْنَۚۖ

ان کے لیے ان کے رب کے پاس (ہر) وه چیز ہے جو یہ چاہیں، نیک لوگوں کا یہی بدلہ ہے۔(الزمر :34)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ يٰعِبَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ

کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشاده ہے صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بےشمار اجر دیا جاتا ہے۔(الزمر :10)
اور فرمایا:

هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُۚ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے۔(الرحمٰن :60)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً١ۚ وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ

جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔(النحل :97)
سنو اے احسان کرنے والو! آپ کو کئی گنا اجر مبارک ہو ۔ جیسا کہ آپ ﷺ نےفرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے اسلام کو اچھا کرے تو اس کی طرف سے کی گئی ہر نیکی دس نیکیوں سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا

جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے۔(الانعام :160)
بندوں پر اللہ کے احسان میں سے یہ ہے کہ اس نے ان کے لئے توبہ کے دروازے کھول رکھے ہیں تاکہ وہ جب تک مہلت کے زمانے میں ہیں بُرائی کے بعد نیکی کریں اور ان کے گناہ بخش دیئے جائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

لیکن جو لوگ ظلم کریں پھر اس کے عوض نیکی کریں اس برائی کے پیچھے تو میں بھی بخشنے والامہربان ہوں۔
مزید فرمایا:(النمل :11)

اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ

یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔(ھود :114)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَّ يَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ

اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں، ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔
شریعت کی لائی ہوئی تعلیمات میں سے یہ ہے کہ احسان کرنے والے کو بدلہ دعا، تعریف اور احسان کے اعتراف سے دیا جائے ۔اسی لئے اللہ کے نبی ﷺ نے احسان فراموشی کی مذمت کی ہے۔بجائے یہ کہ اس کاانکار کیا جائے اور اس کااعتراف نہ کیا جائے۔جن لوگوں نے تمام مسلمانوں کے ساتھ احسا ن کیاہے ان میں سے خادم ِحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور اُن کے ولی عہد محمد بن سلمان ہیں کہ انہوں نے حاجیوں کے معاملات کی دیکھ بھال کی حرمین شریفین کی ذمہ داری اٹھائی اُن میں امن کو برقرار رکھنے اور ایسے لوگوں کو مہیا کرنے کی کوشش کی جو حج و عمرہ کرنے والوں کےساتھ احسان اور حسن ِ سلوک کریں اور ساتھ ہی وہ اس بات کے حریص بھی ہیں کہ موسمِ حج کو بیماریوں کی پھیلاؤ کی جگہ اور وباؤ ںکی آماجگاہ بننے سے بچائیں اوریہ کہ صحتمند طریقے سے شعائر حج کو قائم کیا جائے اس طرح کہ بچاؤ اور حفاظتی دوری کے تقاضے پورے ہوں تاکہ جان کی حفاظت سے متعلق شریعت کے تقاضے پورے ہوںاور نبی کریم ﷺ کے اس فرمان پر عملدرآمد ہو جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی جگہ طاعون کے بارے میں سنو تو اس جگہ میں داخل نہ ہو،اور جب کسی جگہ طاعون داخل ہوجائے اور تم اس جگہ میں ہو تو وہاں سے نہ نکلو۔اللہ تعالیٰ ان دونوں کو بہترین بدلہ عطا فرمائے ،ان میں برکت دے اورانہیں تمام لوگوں کی بھلائی،سعادت اور ہدایت کا ذریعہ بنائے ۔ آمین
اللہ تعالیٰ کے محترم گھر کےحاجیو! آپ اپنے مناسک رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق انجام دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم مجھ سے اپنے حج کے مسائل سیکھ لو ۔اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ

حج اور عمرے کو اللہ تعالیٰ کے لئے پورا کرو۔(البقرۃ :196)
آپ اس کی بدولت ان لوگوں میں شمار ہوں گے جنہوں نے اچھی طرح حج ادا کیا ۔آپ اس شرعی مقام پر اپنے لئے اپنے قرابتداروں کے لئے ملکوں کےحکمرانوں کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دُعا کریں کیونکہ کوئی بھی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم کی آگ سے نجات عطا فرماتا ہو۔اس دن بندہ (حاجی) اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوتا ہےاور اللہ تعالیٰ ان بندوں کی وجہ سےفرشتوں پر فخر کرتا ہے۔
اے اللہ !تو اپنے مومن بندوں پر احسان کر اور انہیں ایک دوسرے سے احسان کرنے کی توفیق دے ۔
اے اللہ ! ان میں الفت پیدا کردے ،حق پر ان کے کلمے کو متحد کردے اور ان کے دلوں کی اصلاح فرما۔
رسول اللہ ﷺ نے مقام ِ عرفہ میں خطبہ دیا پھر بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور اقامت کہی ۔آپ ﷺ نے ظہر کی نماز قصر دورکعت پڑھی پھر اقامت کہی اور آپ ﷺ نے عصر کی نماز قصر دو رکعت پڑھی پھر آپ ﷺ نے عرفہ میں اپنی اونٹنی پر وقوف فرمایا۔آپ ﷺ اللہ کا ذکر اور دعا کرتے رہےیہاں تک کہ جب سورج کی ٹکیا غائب ہوگئی تو آپ ﷺ مزدلفہ کے لئے روانہ ہوئے اور آپ ﷺ لوگوں سے کہتے رہے کہ سکو ن و وقار کو لازم پکڑو۔پھر جب آپ ﷺ مزدلفہ پہنچے تو وہاں مغرب کی نماز تین رکعت پڑھی اور عشاء کی دورکعت جمع اور قصر کے ساتھ ۔پھر مزدلفہ میں رات گزاری اور فجر کی نماز اُس کے اول وقت میں پڑھی اور اس کےبعد دُعا کرتےرہے یہاں تک کہ اجالہ ہوگیا۔پھر منیٰ کےلئے روانہ ہوگئے اور وہاں سورج طلوع ہونے کے بعد جمرعقبہ کو کنکریاں ماریں پھر قربانی کی اور سر منڈوایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے طوافِ افادہ کیا پھر آپ ﷺ نے ایامِ تشریق منیٰ کے اندر گزارے۔آپﷺ اللہ کا ذکر کرتے اور زوال کے بعد تینوں جمرات کو کنکریاں مارتے۔آپ ﷺ جمرہ صغریٰ اور وسطیٰ کے پاس دُعا کرتے اور عذر والوں کو منیٰ میں رات نہ گزارنے کی رخصت عطا فرماتے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا

پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ داداؤں کا ذکر کیا کرتے تھے۔(البقرۃ :200)
اور آپ کی دُعا یہ ہونی چاہیئے:

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۰۰۲۰۱ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ

اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔یہ وه لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والاہے۔(البقرۃ :201۔202)
رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے کہ تیرہویں ذی الحجہ تک منیٰ میں رکا جائے اور یہ افضل ہے ۔اور بارھویں تاریخ میں جلدی نکلنے کی اجازت دی ہے ۔جب آپ ﷺ حج سے فارغ ہوئے تو اپنے سفر سے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَۚ۰۰۱۸۰ وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَۚ۰۰۱۸۱ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؒ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے