الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔ أما بعد:
سورت یٰس مکی سورت ہے اس کی ۸۳ آیات ہیں اور پانچ رکوع ہیں ۔ ترتیب نزولی کے اعتبار سے اس کا نمبر ۴۱ ہے اور قرآنی ترتیب میں ۳۶ نمبر پر ہے ۔

سورت کا بنیادی موضوع

یہ چونکہ مکی سورت ہے لہذا اس کے موضوعات وہی ہیں جو مکی سورتوں کے ہوا کرتے ہیں اور اس کا اولین مقصد عقیدے کی بنیاد کو استوار کرنا ہے ، بالکل شروع سے ہی یہ سورت وحی کی طبعیت اور صدق رسالت جیسے موضوع شروع کردیتی ہے۔

بِسمِ اللّہِ الرَّحمنِ الرَّحِیمِ
یس- وَالقُرآنِ الحَکِیمِ- إِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینَ- عَلَی صِرَاطٍ مُّستَقِیمٍ- تَنزِیلَ العَزِیزِ الرَّحِیمِ- یٰس:۱۔۵

اور پھر یہ سورت ایک بستی والوں کا قصہ بیان کرتی ہے جیسا کہ ان کے پاس رسول آتے تھے مقصد یہ ہے کہ وحی ورسالت کی تکذیب سے ڈرائے اور اس کے انجام کو قرآن کے عام طریقے کے مطابق قصے کے ضمن میں اور اس کے واقعات کے ماتحت بیان کرے او رسورت کے اختتام کے قریب سورت اسی مضمون کی طرف لوٹتی ہے۔
’’اور ہم نے پیغمبر کو شعر نہیں سکھایا، اور نہ وہ اس کیلئے مناسب ہے ، وہ تو ایک نصیحت ہے اور روشن قرآن ہے تاکہ اس کو خبردار کرے جو زندہ ہو اور کافروں پر عذاب کی بات ثابت ہوجائے۔‘‘
اسی طرح یہ سورت الوہیت اور وحدانیت کے موضوع کو بھی بیان کرتی ہے شرک کا ردّ اُس مرد مومن کے بیان میں آیا ہے ، جو شہر کے دوسرے کونے سے دوڑ کر آیا تھا تاکہ رسولوں کی شان میں اپنی قوم کے ساتھ مدلل گفتگو کرے اور وہ کہتاہے : ’’ میں کیوں نہ اس اللہ کی عبادت کروں جس نے مجھے پیدا کیا ، اور تم سب اسی کی طرف لوٹ کر جاؤگے، کیا میں اس کے سوا ایسے معبود اختیار کروں کہ اگر رحمان مجھے کوئی نقصان دینا چاہے تو ان کی سفارش میرے کچھ کام نہ آئے گی۔
اس سورت میں بعث ونشوز کا قضیہ باربار بیان کیا گیاہے۔ سورت کے اول حصہ میں ’’ بلاشبہ ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھ رہے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا ہے اور ان کے آثار کو بھی ، اور ہم نے ہر چیز کو روشن کتاب میں محفوظ کیاہے۔‘‘
اور پھر سورت کے وسط میں آتا ہے ’’اوروہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ، اگر تم صادق القول ہو؟ نہیں انتظار کرتے وہ مگر ایک ہی چیخ جو انہیں پکڑے گی اور وہ جھگڑتے ہوں گے، پھر نہ وہ وصیت کرنے کی طاقت رکھیں گے ، اور نہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹیں گے۔‘‘
اور پھر سورت کے آخری حصہ میں قیامت کا پورا ایک منظر پیش کیا گیا ہے ’’اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا ، اس نے کہا کون ہے ، جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا؟ تو کہہ دیجئے کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انہیں پیدا کیا تھا اور وہ ہر پیدائش کوخوب جانتاہے۔‘‘
پھر سورت کے اختتام پر اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی قدرت اور اپنے خالق ہونے کا احساس دلایاہے ۔ فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا ارادہ کرتاہے، تو وہ اسے’’ کُن‘‘ کہہ دے تو وہ ہوجاتی ہے ، اور پاک ہے وہ ہستی جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے۔ اور تمہیں اسی کے پاس لوٹ کرجاناہے۔‘‘

قرآن کو ’’حکیم‘‘ کیوں کہا گیا؟

حکمت تو عاقل کی صفت ہے لہذا سوال یہ ہے کہ ’’قرآن‘‘ کو ’’حکیم‘‘ کیوں کہا گیاہے؟ اسی طرح کی تعبیر قرآن کو حیات اور مقصد ارادہ کی خلعت پہناتی ہے ، کیونکہ حکیم ہونے کے یہ تقاضے ہیں اور باوجود یہ کہ یہ تعبیر ایک مجاز ہے ، مگر وہ حقیقت کی تصویر کھینچتاہے۔
قرآن کا حکیم ہونا اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ ہر ایک کے ساتھ خطاب میں اس کی عقل وفہم اور قوت کو مدّ نظر رکھتاہے ایسے احکام دیتاہے جولوگوں کی طاقت ووسعت کے اندر ہیں ان کے قلوب پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی صلاحیت واہلیت کو پیش نظر رکھتاہے۔

سورت یس کے فضائل میں احادیث نبویہ ﷺ

۱۔ معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اللہ کی رضا مندی کیلئے سورت یٰس پڑھے گا اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
۲۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ’’جس نے سورت یٰس صبح کے وقت پڑھی تو اس کو دن بھر آسانی دی جائے گی یہاں تک کے شام ہوجائے ، اور جس نے رات کے وقت پڑھی اس کو رات بھر آسانی دی جائے گی یہاں تک کہ صبح ہوجائے۔ (مسند الدارمی)
قارئین کرام! یہ قرآن اس رب ذوالجلال کا کلام ہے ، جو زمین وآسمان کا خالق ومالک اور ہمارا رب ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ کے ہم پر اس قدر احسانات ہیں کہ ہم زندگی بھر اس کا شکر ادا نہیں کرسکتے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے ؟ کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان کون سا ہے ؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس کائنات میں انسانوں پر اللہ کا سب سے بڑا اور سب سے عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے انسان کو اپنا کلام یعنی قرآن مجید عطا فرمایا ہے اس لئے کہ قرآن مجید وہ نعمت ہے کہ اگر ہم اس سے وابستہ رہتے ہیں تو ہماری دنیا وآخرت دونوں سنور جاتی ہے۔
قارئین کرام! غور کیجئے کہ اگر کسی شخص کے ہاتھ کوئی ایسا نسخہ آجائے جس سے اس کو دنیا میں بھی عزت وکامرانی حاصل ہو، اور آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت مل جائے۔ تو کیا ایسے شخص کیلئے وہ نسخہ عظیم ترین دولت نہ ہوگا؟ لیکن ہم مسلمانوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ ہمارے پاس وہ نسخہ ہدایت موجودہے ، جو ہمیں دنیا وآخرت کی کامیابی کی بھر پور ضمانت دیتاہے لیکن ہم اس کی عظمت سے ناواقف ہیں۔ ہماری مثال اس فقیر جیسی ہے جس کی کشکول میں ہیرا(Diamond) موجودہے۔ لیکن وہ اپنی نادانی اور بیوقوفی میں اسے کانچ کا ٹکڑا سمجھ کر دوسروں سے بھیک مانگتا پھرتا ہو۔لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے قرآن کی قدروقیمت کا شعور حاصل کریں، قرآن کی عظمت کی شان تویہ ہے کہ اس قرآن سے جو شخص بھی وابستہ ہوگا وہ رسول اکرم ﷺ کے قول کے مطابق دنیا میں سب سے بہترین قرار پائے گا۔ گویا قرآن کریم تو وہ نسخہ کیمیا ہے جو قوموں کی تقدیر بدل دینے کی قوت رکھتاہے بقول مولانا الطاف حسین حالی :

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

قارئین کرام! اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتنا بڑا احسان کیاہے، کہ قرآن جیسی دولت ہمیں عطا فرمائی ہے تو ہمارا بھی یہ فرض بنتاہے کہ ہم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کا بھر پور انداز میں شکر اداکریں یعنی ہمارا فرض ہے کہ ہم
۱۔قرآن مجید پر ایمان لائیں۔
۲۔اس کی تلاوت کریں
۳۔ اس کو سمجھیں اور اس پر غوروفکر کریں۔
۴۔ اس پر عمل کریں۔
۵۔ اور اسے دوسروں تک پہنچائیں۔
اگر ہم قرآن مجید کے ان حقوق کو ادا کریں گے تو دنیا وآخرت میں ہمارے لئے کامیابی ہیں لیکن اگر ہم قرآن سے منہ موڑیں گے اور اس پر تدبر نہیں کریں گے تو یہی قرآن اللہ رب العزت کی عدالت میں ہمارے خلاف بطور دلیل پیش ہوگا لہذا قرآن کریم کے حقوق وفرائض کو پورا کیجئے۔
قارئین کرام!اللہ کی کتاب سے رشتہ جو ڑئیی ، اسے پڑھیں اور سمجھئے ۔ قرآن کریم سے وابستہ لوگوں کی فضیلتوں کو مندرجہ ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔

قرآن پڑھنے والے کی فضیلت

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ا نے فرمایا : ’’ جوشخص قرآن پڑھے اور پڑھنے میں ماہر بھی ہووہ مقربین میں سے ہوگا، اور جو اس حال میں پڑھے کہ اس کیلئے پڑھنا دشوار ہواس کیلئے دوگنا ثواب ہے۔ (رواہ ترمذی فی کتاب فضائل القرآن)

قرآن پڑھنے اور عمل کرنے والے کااعزاز

سیدنامعاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’جس شخص نے قرآن پڑھا اور پھر اس پر عمل کیا قیامت کے دن اس کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی ایسی ہوگی کہ اگر سورج بھی تمہارے گھر میں آجائے تو اس کی روشنی بھی اس تاج سے زیادہ نہیں ہوگی۔ (مسند احمد ، وسنن ابوداؤد)
غور فرمائیی کہ قاری قرآن اور عامل قرآن کے والدین کا یہ اعزاز ہے تو خود قرآن کے قاری اور عامل قرآن کا کیا مقام ہوگا۔

حافظ قرآن کامقام

سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کہ قرآن پڑھنے والے (حافظ ، قاری) سے کہا جائے گا ’’تم قرآن پڑھتے جاؤ اور اونچے اونچے درجات پر چڑھتے جاؤ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ دنیا میں پڑھتے تھے تمہارا جنت میں درجہ وہ ہوگا جہاں تم آخری آیت پڑھتے پڑھتے ٹھہر جاؤگے۔‘‘ (ترمذی ، نسائی ، ابوداؤدو مسند احمد)
قارئین کرام! لہذا اس قرآن کو پڑھےئے اور اس پر غور وفکر تدبرکرتے ہوئے اس پر عمل کیجئے اور اسے دوسروں تک پہنچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور صحیح معنوں میں ہمیں اسلام پر گامزن کردے۔آمین

وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمدٍ وعلی آلہ وصحبہ أجمعین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے