23مارچ 1987کو قلعہ لچھمن سنگھ لا ہور میں جمعیت اہلحدیث پاکستان کے جلسے میں جو پاکستان کی تاریخ میں اس نوعیت کا پہلا بم دھماکہ تھا جس میں جمعیت اہلحدیث کے قائد اور ملک کے ممتاز مذہبی اور سیاسی رہنما علامہ احسان الہی ظہیرؒ کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں علامہ صاحب اہلحدیث کی مرکزی قیادت سمیت داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔اسی واقعہ سے ملک عزیز میں مذہبی اجتماعات میں بم دھماکوں کی رسم بد کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں مختلف مکاتب فکر کے کئی علماء کرام ایسے ہی ظلم وتشدد کا نشانہ بنے ۔ سانحہ جامعہ نعیمیہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جب 12جون2009بروز جمعہ کو نماز جمعہ کے فورا بعد جامعہ نعیمیہ میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑ ا دیاجس کے نتیجے میں جامعہ نعیمیہ کے سربراہ اور ملک عزیز کی معروف مذہبی، دینی اور سیاسی شخصیت ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی سمیت پانچ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں ۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب انتہائی صلح جو، معتدل المزاج اورمتوازن شخصیت کے مالک تھے ، آپ اختلافی مسائل میں شدت پسندی کی بجائے رواداری اور اعتدال پسندی کے قائل وفاعل تھے ، انہوں نے مملکت خدادا د پاکستان میں جاری دہشت گردی کی مخالفت میں 21جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد تشکیل دیا تھا.
جس پر ان کو قتل کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں ان کا قتل ملک دشمن عناصر کی ساز ش کا نتیجہ ہے ۔ اس سے پہلے اسطرح کے کئی واقعات ہو چکے ہیں مگرآج تک ہماری حکومتیں مجرموں کو پکڑ نے میں ناکام رہی ہیں ، ان بم دھماکوں کامقصد فرقہ واریت کو ہوا دے کر مسلمانوں کو آپس میں لڑ انا ہے ۔ سانحہ جامعہ نعیمیہ ایک ایسا انسانی المیہ ہے کہ جس کی مذمت کرنا انسانیت کا تقاضا ہے ، یہ سانحہ اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ حکومتیں امن وامان کے قیام اور لوگوں کے جان ومال کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب حکومت ہوش کے ناخن لے اور ملک اوربیرون ملک انسانیت کے ان دشمنوں کا تعاقب کرے جو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں ۔ جامعہ نعیمیہ کے اس انسانی المیے نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ مذہب اور مذہب سے وابستہ لوگوں کو وطن عزیز میں کون تحفظ فراہم کرے گا؟؟ اور یہ بھی کہ ملک کو ملک دشمن عناصر کی نذر کرنے والی وہ قوتیں تو اس کی ذمہ دار نہیں ؟ جو مذہبی قوتوں کو کمزور کرنے کیلئے ہر مکتبہ فکرکواس کی صف اول کی قیادت سے محروم کر کے امت مسلمہ کو انتشار کا شکار کرنا چاہتی ہے ؟؟
سانحہ جامعہ نعیمیہ ملک کی مذہبی قوتوں کو بھی لمحہ فکریہ فراہم کر رہا ہے کہ اتحاد بین المسلمین کی اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے ، ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہمارے اختلافات اور باہمی کشیدگی سے فائدہ اٹھا کر انسانیت کے دشمن کامیاب وارداتیں کر رہے ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ مذہبی گروہ کو اس دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا جائے تاکہ یہ لوگ باہم دست وگریباں رہیں اور عوام الناس اس باہمی لڑ ائی سے متنفر اور بد ظن ہو کر دین سے دور او ر مغربی تہذیب وتمدن سے قریب ہو جائیں ۔ چنانچہ وطن عزیز کی دینی قوتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فروعی اختلافات کے باوجود فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیں ۔ مذا کرات اور افہام وتفہیم کے ذریعے ایک دوسرے کے مؤقف کو سنیں اور اس پر غور کریں ۔ قرآن کریم وسنت مبارکہ کو پیمانہ بنا کر اختلاف کی شدت میں کمی لائیں ۔حکومتی حلقے بھی فرقہ واریت کے سلسلے میں فکر مند رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی سے لیکر اب تک کوئی بھی حکومت فرقہ واریت کے تدارک کیلئے کوئی بھی موثر حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہے ۔بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ حکومتیں فرقہ واریت کے فروغ کا سبب بنتی رہی ہیں فرقہ واریت کے تدارک کیلئے حکمت عملی یہ ہونا چاہئے تھی کہ حکومت اسلا م ایسی کی تعلیمات کو فروغ دیتی جو تمام مکاتب فکر کے نزدیک متفق علیہ ہوں برعکس اس کے کہ ہر حکومت فرقہ وارانہ تعلیمات کو فروغ دینے کی مرتکب ہورہی ہے ۔جس کیوجہ سے ملک کمزو راور فرقے مضبوط ہو تے جا رہے ہیں ۔
یہاں پر غور طلب امر یہ ہے کہ اگر 23مارچ 1987کو جمعیت اہلحدیث کے جلسہ میں ہونے والے ہم دھماکے اور اس کے بعد ہونے والے دھماکوں کا حکومت وقت سختی سے نوٹس لیتی اور مجرموں کو عبرتناک سزا دیکر کیفر کردار تک پہنچاتی تو اس طرح کے واقعات کاسدباب ممکن تھا لیکن یہ اس وقت کی حکومت کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومت ان دہشت گردوں کو اپنی گرفت میں نہ لے سکی جس کے نتیجہ میں آج بھی یہی ظلم وستم جاری ہے جس کا سب سے بڑ ا نقصان علمائے دین کی شہادت ہے ۔
آخر میں ہم اپنے اس مجلہ کے ذریعے ارباب اختیار واقتدار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سانحہ جامعہ نعیمیہ کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے عناصر کو بے نقاب کر کے ان کو عوام کیلئے عبرت کا نشان بناد یا جائے ۔ تاکہ آئندہ ایسے واقعا ت رونما نہ ہوں اور لوگ امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے