ربِّ جلیل کا قرآنِ کریم میں فرمانِ عظیم ہے :

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَاء ً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِنْہَا – آل عمران :۱۰۳

اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑ و اور پراگندہ نہ ہو اور اپنے اوپر اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑ ھے کے کنارے پر کھڑ ے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔

اعتصام ٌبحبلِ اللہ کے ساتھ ساتھ جمیعاً کی تاکید اور ولا تفرقوا کی نہی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ چیز جماعتی حیثیت میں مطلوب ہے ۔ سب مل کر اِس کو مضبوطی سے تھا میں ۔ اِسی حبلُ اللہ سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی ہوئی ہے ۔ اگر اِس کے ساتھ تعلق میں ضعف پیدا ہو گیا، اِس کی جگہ مسلمانوں نے دوسری رسیوں کا سہارا لے لیا اور حق وباطل کے جانچنے کے اِس سے الگ معیارات بنالیے تو وہ پراگندہ ہوجائیں گے ۔ اِس حبلُ اللہ نے باہم متصادم لوگوں کو ایک رشتہ میں پروکرموتیوں کی لڑی بنادیا ۔وہ جو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے ایک دوسرے کے جگری دوست بن گئے ۔

اِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِہَذَا الکِتَابِ أَقوَاماً وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ –مسلم

اللہ رب العزت بعض قوموں کو اس کتابِ انقلاب پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے عزت وعظمت سے نوازتا اور بعض کو اِسے پسِ پشت ڈالنے کے سبب ذلیل ورسوا کرتا ہے ۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے ، تارکِ قرآں ہوکر

وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآَنَ مَہْجُورًا – فرقان:۳۰

اور رسول (ﷺ) کہیں گے : اے میرے پروردگار! میری امت نے اس قرآن کو پس انداز کردہ چیز بنایا۔

کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار ؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہوگئی کس کی نگہ، طرزِ سلف سے بیزار؟


عرب میں قبائلی نظام رائج تھا۔ قبائلی حمیت ، جسے قرآن نے حمیۃٌ جاہلیۃ کانام دیا ہے ، اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ کوئی فریق یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کرتا تھا کہ قصور کس کا ہے ؟ انتقام میں انصاف کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ مکہ میں بنی بکر اور بنی تغلب کی لڑ ائی نصف صدی جاری رہی ۔ خاندان کے خاندان تباہ ہوئے ، کشتوں کے پشتے لگے ۔ تقریباً ایسی ہی صورتِ حال مدینہ میں اوس اور خزرج کے درمیان جنگِ بعاث کی تھی۔ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور ایک دوسرے کا وجود ہی صفحۂ ہستی سے مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے ۔یہ صورتِ حال مکہ ومدینہ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ پورے عرب میں ایک جیسی آگ لگی ہوئی تھی اور قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست ونابود ہوجائے ۔ اس حال میں اللہ نے اُنہیں دولتِ اسلام سے سرفراز فرمایا۔ پرانی رنجشیں اور کدورتیں دور ہوگئیں ۔ دشمنی وعداوت کی بجائے محبت والفت پیدا ہوگئی۔ اِس طرح اللہ نے اُنہیں لڑ ائی کی آگ کے گڑ ھے میں گرنے سے اور مرنے کے بعد جہنم کی آگ کے گڑ ھے میں گرنے سے بچالیا۔ اِسی نعمتِ الفت ومحبت کا تذکرہ اللہ نے سورئہ انفال میں فرمایا تو نبی رحمت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا :

لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مَا أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَکِنَّ اللَّہَ أَلَّفَ بَیْنَہُمْ – انفال:۶۳

زمین میں جو کچھ ہے اگرآپ سارا کا سارا بھی خرچ کرڈالتے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتے ۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے ۔

ایسی نعمتِ غیر مُتَرَقَّبَہ صرف اسلام کے ذریعے ہی نصیب ہو سکتی ہے کہ باہم متنافر اجزاء کو جوڑ کر بنیانٌ مرصوص بنادے ۔


قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں ، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں
جس کے پھولوں میں اُخوّت کی ہوا آئی نہیں
اُس چمن میں کوئی لطفِ نغمہ پیرائی نہیں

اسلام ، مذہب کی بنیاد پر قومیت کی تعمیر کرتا ہے جبکہ مغرب کا تصورِ قومیت ایک مادی شے ہے یعنی ’ملک‘۔


اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی


یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔ کسی شیطانی مقصد کیلئے کسی بھیڑ کا اکٹھا کر لینا تو مشکل نہیں ہوتا، ہر نعرہ باز یہ کام کرسکتا ہے ۔لیکن خاص اللہ کے کام کیلئے ، جس میں خدا کی خوشنودی اور آخرت کی طلب کے سوا کسی بھی دوسری چیز کا کوئی ادنی شائبہ تک نہ ہو ، کلمۂ حق کے جانثاروں کی ایک جمیعت کا فراہم ہوجانا اللہ کی تائیدوتوفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ باہم متصادم لوگوں کو اُن کے تمام تعصبات ومفادات اور تمام رسوم وعادات سے چھڑ ا کر بالکل ایک نئے سانچہ میں ڈھال دینا اور اُس سانچے کو اُن کی نگا ہوں میں اتنا محبوب بنا دینا کہ اُس کی خاطر وہ قوم، وطن ، خاندان، جائداد اور بیوی بچے سب کو چھوڑ کر اٹھ کھڑ ے ہوں ، یہ خدا ہی کیلئے ممکن ہے ، کوئی انسان یہ کام سرانجام نہیں دے سکتا، اگرچہ وہ دنیا جہان کے سارے وسائل اس پر صَرف کرڈالے ۔


یہی مقصودِ فطرت ہے ، یہی رمزِ مسلمانی
اُخوّت کی جہانگیری ، مُحبت کی فراوانی
بتاںِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی ، نہ افغانی


ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ ﷺ نے تاریخِ انسانی کا ایک نہایت تابناک کارنامہ سرانجام دیا جسے مہاجرین وانصار کے درمیان مؤاخات اور بھائی چارے کے عمل کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس بھائی چارے کا مقصود یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں ۔ حمیّت وغیرت جو کچھ ہو اسلام کیلئے ہو ۔ نسل ، رنگ اور وطن کے امتیازات مٹ جائیں ۔بلندی وپستی کا معیار انسانیت وتقوی کے علاوہ کچھ اور نہ ہو ۔ پیغمبر انقلاب ﷺ نے اس بھائی چارے کو محض کھوکھلے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا تھا بلکہ اسے ایک ایسا نافذ العمل عہد وپیمان قرار دیا تھا جو خون اور مال سے مربوط تھا۔ یہ خالی خولی سلامی اور مبارکبادنہ تھی کہ زبان پر ر وانی کے ساتھ جاری رہے مگر نتیجہ کچھ نہ ہو بلکہ اس بھائی چارے کے ساتھ ایثار وغمگساری اور مُوَانَسَت کے جذبات بھی مخلوط تھے اور اسی لیے اُس نے اِس نئے معاشرے کو بڑ ے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کر دیا تھا۔

﴿وَالَّذِینَ تَبَوَّء ُوا الدَّارَ وَالْإِیمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾(حشر:۹(


جواِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کردارِ ہجرت (مدینہ) میں مقیم ہیں یعنی انصار وہ اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جوکچھ دے دیا جائے اِس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے بلکہ خود اپنے اوپر اُنہیں ترجیح دیتے ہیں گوخود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو۔ اور جو خود غرضی سے محفوظ رکھے گئے تو درحقیقت وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ بھائی چارہ ایک نادر حکمت، حکیمانہ سیاست اورمسلمانوں کو درپیش بہت سارے مسائل کا ایک بہترین حل تھا۔ مذکورہ بھائی چارے کی طرح رسول اللہ ﷺ نے ایک اور عہد وپیمان کرایا جس کے ذریعے ساری جاہلی کشاکش اور قبائلی کشمکش کی بنیاد ڈھادی اور دورِ جاہلیت کے رسم ورواج کیلئے کوئی گنجائش نہ چھوڑ ی ۔ اس پیمان کی ایک دفعہ یہ ہے کہ سب مسلمان اپنے ماسوا انسانوں سے الگ ایک امّت ہیں ۔


ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑ ے ٹکڑ ے نوعِ انساں کو
اُخوّت کا بیاں ہو جا ، مُحبت کی زباں ہوجا
یہ ہندی ، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اے شرمندئہ ساحل اچھل کر بیکراں ہوجا
غبار آلودئہ رنگ ونسب ہیں بال وپَر تیرے
تو اے مرغِ حرم اڑ نے سے پہلے پَر فشاں ہوجا


جن لوگوں کو اللہ زمین میں اپنے دین کا گواہ اور علَم بردار بنا کر کھڑ ا کرتا ہے ان کی صفات کیا ہونی چاہئیں ؟ ایسے مومنین کی صفاتِ محمودہ ، قرآنِ حمید بیان کرتا ہے ۔﴿أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ﴾ (فتح:۲۹)کافروں کیلئے چٹان کی طرح سخت، مومنوں کیلئے موم کی طرح نرم ۔ ﴿ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ ﴾ ۔ ۔ ۔ کَالأَسَدِ عَلَی فَرِیسَتِہِ ۔ ۔ ۔ جیسے شیر اپنے شکار پر جھپٹتا ہے ۔ ﴿ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ﴾۔ ۔ ۔ کَالعَبدِ لِسَیِّدِہِ ۔ ۔ ۔ جیسے غلام اپنے آقا کے سامنے سر تسلیمِ خم کرتا ہے ۔


ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن


﴿أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِینَ﴾ (المائدۃ:۵۴)

مومن کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ۔
مومنوں پر نرم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذہانت ، اس کی ہوشیاری ، اس کی قابلیت ، اس کا اثر ورسوخ ، اس کا مال ، اس کا جسمانی زور کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے کیلئے نہ ہو۔ مومن نرم خو، نرم دل ، ہمددر اور حلیم انسان ہوتا ہے ۔
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
کفار پرسخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ایمان کی پختگی ، دینداری کے خلوص، اصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست کی وجہ سے مخالفینِ اسلام اسے کبھی موم کی ناک اور نرم چارہ نہ پائیں ۔ بندئہ مومن مرسکتا ہے مگر کسی قیمت پر بِک نہیں سکتا اور کسی دباؤ سے دب نہیں سکتا۔
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
لیکن حقیقتِ حال کیا ہے ؟ ذرا آئینۂ کردار میں دیکھو۔ ۔ ۔

تم ہو آپس میں غضبناک ، وہ آپس میں رحیم
تم خطا کاروخطابیں ، وہ خطا پوش وکریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم
تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریرِکَے بھی
یوں ہی باتیں ہیں ، کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟


اَلکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ عَلَی مَنہَجِ سَلَفِ الأُمَّۃِکے دعوے دارو! اپنے کردار پر نظر دوڑ اؤ اور اپنے اسلاف کے طرزِ عمل کو بھی دیکھو۔ ۔ ۔


خود کُشی شیوہ تمہارا، وہ غیور وخوددار
تم اُخوّت سے گریزاں ، وہ اُخوّت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو ، وہ گلستاںِبکنار
اب تلک یادہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

کفر ، ملتِ واحدہ بن گئی ۔اگر اُمّت سراپا اُخوّت نہیں بنتی تو نتیجہ ، فتنہ وفساد اور تباہی وبربادی۔

﴿وَالَّذِینَ کَفَرُوا بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء ُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ ﴾ (انفال:۷۳)

کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہو گا اور زبردست فساد ہوجائے گا۔


شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟
وضع میں تم ہو نصاری، تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود!
یوں تو سیّد بھی ہو ، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلماں بھی ہو


رسمِ اُخوّت رہ گئی ، روحِ اُخوّت ہم نے گنوادی ۔ ہمیں اپنے اندر صحابۂ عظّام جیسا جذبۂ ایمان پیدا کرنا ہے ۔ ان نفوسِ قدسیہ جیسی سپرٹ (spirit) پیدا کرنی ہے ، جو اپنے اسلامی بھائی سے ، اپنے حقیقی بھائی کے بارے میں کہتی ہے کہ اِسے کَس کے باندھ۔

﴿فَإِنْ آَمَنُوا بِمِثْلِ مَا آَمَنْتُمْ بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوْا﴾ (البقرۃ:۱۳۷)


اگر یہ اِس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے تو ہدایت پائیں ۔
اہلِ ایمان کے وہ تابناک نقوش جو لوحِ تاریخ پر کندہ ہیں ذرا اُن پر غور تو کرو!
٭مصعب بن عمیر عَبدَرِی نے اپنے انصاری بھائی سے کیا کہا؟
٭ ابو حذیفہ کے اپ۔نے باپ عتبہ بن ربیعہ کے بارے میں کیا احساسات تھے ؟
٭ صدیق وفاروق کا معاملہ کیا تھا؟
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
قُوّتِ اسلامیہ کی بنیاد اُخوّتِ اسلامیہ ہے ۔ اُخوّتِ اسلامی ہی میں قُوّتِ اسلام ہے ۔


صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑ ایا کس نے ؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!


عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام میں کیا فرق ہے ؟ ایک اسلام پسند دوسرا قوم پرست۔ ایک ابوالحفص سے امیر المؤمنین بنا ، دوسرا ابو الحَکم سے ابو جہل اور فِرعَونُ ہَذِہِ الأُمَّۃ قرار پایا۔


واللہ! تکمیلِ ایمان اور حلاوتِ ایمان ، اُخوّتِ اسلام کے بغیر ممکن نہیں ۔


مَن أَحَبَّ لِلّٰہِ وَأَبغَضَ لِلّٰہِ وَأَعطَیٰ لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ استَکمَلَ الإِیمَانَ ۔ (أبوداؤد)

جس کا لینا اور دینا ، محبت اور عداوت اللہ کیلئے ہو اُس نے تکمیلِ ایمان کی منزل کو پالیا۔


ثَلاَثٌ مَن کُنَّ فِیہِ وَجَدَ حَلاَوَۃَ الإِیمَانِ ، مِنہَا: وَاَن یُّحِبَّ المَرئُ لاَ یُحِبُّہُ إِلاَّ لِلّٰہِ ۔ متفق علیہ

حلاوتِ ایمان اُسے نصیب ہو گی جو اپنے مسلمان بھائی سے خالص رضائے الٰہی کیلئے محبت کرے ۔


جس روز، آج کے جانِ جاں کل کے دشمنِ جاں ہوں گے ۔


الْأَخِلَّاء ُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِینَ- الزخرف :۶۷
اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے ۔
جس روز، دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی، حاملہ کا حمل گِر جائے گا، لوگ مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے ۔


﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْء ٌ عَظِیم ٌ٭ یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکَارَی وَمَا ہُمْ بِسُکَارَی وَلَکِنَّ عَذَابَ اللَّہِ شَدِیدٌحج:۱۔۲

لوگو! اپنے رب کے غضب سے ڈرو! حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑ ی ہی ہولناک چیز ہے ۔ اُس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ اپنا حمل ڈال دے گی اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہے ہی بڑ ی ہولناک چیز!۔
جس روز، سورج سوانیزے پہ ہو گا۔ وہ کون خوش نصیب ہوں گے جنہیں سایۂ عرش نصیب ہو گا ؟


سَبعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِی ظِلِّہِ یَومَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّہُ : مِنہُم : رَجُلاَنِ تَحَآبَا فِی اللّٰہِ ، اِجتَمَعاَ عَلَیہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیہِ ۔ (متفق علیہ)


روزِ قیامت جس دن کوئی سایہ نہ ہو گا عرشِ الٰہی کے سائے کے سات لوگ مستحق قرار پائیں گے اُن میں سے دو وہ ہوں گے جن کی آپس کی محبت ، ملنا اور جدا ہونا محض اللہ کیلئے تھا۔


مَثَلُ المُؤمِنِینَ فِی تَوَآدِّہِم وَتَرَاحُمِہِم کَمَثَلِ الجَسَدِ الوَاحِدِ ، إِذَا اشتَکیٰ مِنہُ عُضوٌ تَدَاعیٰ لَہُ سَآئِرُ الجَسَدِ بِالحُمَّی وَالسَّہَرِ ۔ (متفق علیہ)


آپس میں محبت اور ایک دوسرے پر رحم کرنے میں سب ایمان دار ایک جسم کی مانند ہیں ۔ اگر جسم کے ایک حصہ میں تکلیف ہوتو اس کی وجہ سے سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
کیا ہم مِثلِ جسدِ واحد ہیں ؟ کیا ہمیں ایک دوسرے کے درد کا احساس ہے ؟ کیا ہمیں یہ درد دنوں کو تڑ پاتا اور راتوں کو جگاتا ہے ؟ آتجھ کو بتاؤں کہ دردِ امّت کیا ہے ؟ نبیء امّت ، غمِ امّت میں گُھلا جاتا ہے حتی کہ آسمان سے صدا آتی ہے :

﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ عَلَی آَثَارِہِمْ إِنْ لَمْ یُؤْمِنُوا بِہَذَا الْحَدِیثِ أَسَفًا ﴾(کہف:۶)


اگر یہ لوگ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ اِن کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کرڈالیں گے ؟۔
قلب میں سوز نہیں ، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں


یارو بتلاؤ! میں وہ قوتِ تاثیر کہاں سے لاؤں ، جو دلوں کو گرمادے ، جوروحوں کو تڑ پادے ۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
یارب! مرا نورِ بصیرت عام کر دے ، جوکچھ دیکھا ہے میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے ۔
ترادرد دردِ تنہا، مراغم غمِ زمانہ


قطرہ قطرہ گرے تو پتھر کی سِل میں بھی سوراخ ہوجائے ۔ کیا ہم پتھر دل ہوگئے ؟ ﴿ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَۃً ﴾(البقرۃ:۷۴) پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اتنے سخت جیسے پتھر یا ان سے بھی سخت تر۔
کیا اہلِ ایمان کے دل بھی ذکرِ کتاب وسنت سے پسیجتے نہیں ؟﴿أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آَمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ﴾ (الحدید:۱۶) کیا اب تک ایمان والوں کیلئے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکرِ الٰہی سے پگھلیں اور نازل کردہ حق کے آگے جھکیں ۔


دلوں کا سخت ہوجانا افراد اور امتوں کیلئے سخت تباہ کن اور اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ دلوں سے اثر پذیری کی صلاحیت سلب اور قبولِ حق کی استعداد ختم ہوگئی ہے ، اس کے بعد اصلاح کی توقع کم اور مکمل فنا اور تباہی کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے ۔ اسی لیے اہلِ ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے :

﴿وَلَا یَکُونُوا کَالَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ ﴾ (الحدید:۱۶)

اُن لوگوں کی طرح نہ ہوکر رہ جانا جنہیں اِس سے پہلے کتاب دی گئی پھر جب اُن پر ایک زمانہ دراز بیت گیا تو اُن کے دل سخت ہوگئے ۔


منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑ ی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟


کیا ہم نہیں چاہتے کہ پوری دنیا میں کلمۂ حق گونجے ؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ نظامِ خلافت قائم ہو؟ تو پھر ہمیں ایک ہونا ہو گا۔ ایشیا سے افریقہ تک ، پاکستان وافغانستان سے یوگنڈا وکیمرون تک۔ ۔ ۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے ۔
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلَا یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لَائِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللَّہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَاء ُ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ﴾ (المائدۃ :۵۴)


اے ایمان والو! تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو پھر جائے اللہ کو کوئی پروا نہیں ۔ وہ جلد ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اُس سے محبت کریں گے ۔ جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے ۔ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے ۔ اللہ تعالی وسیع ذرائع کا مالک ہے اور زبردست علم والا ہے ۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے