چلچلاتی دھوپ میں خاکسارایم اے جناح روڈ پرباغِ جناح کے سامنے بنے کچرے خانے نما بس اسٹاپ کے پاس کھڑ ا ہوا گلبرگ جانے والی بس کا شدت سے منتظر تھاتاکہ اپنی “عارضی منزل “پہنچ کرسکھ کا سانس لے سکے ۔شدید گرمی کے باوجود اردگرد خلقِ خدا کا رش تھا کیوں کہ اسکول اور کالج کی چھٹی ابھی ہی ہوئی تھی۔تربوز کے شربت والے کے پاس پاس سرمئی رنگ کی پینٹ اور سفید شرٹ میں ملبوس منچلے نوجوانوں کا رش تھا، جن کے کاندھوں پر امتِ مسلمہ کا بوجھ ہونا تھا وہ کاندھے بوجھل انداز میں بستے لٹکائے ہوئے تھے ۔ان میں سے بعض”شرفاء ” اپنے منہ سے دھویں کے مرغولے نکال کر کراچی کی ماحولیاتی آلودگی میں اخلاقی آلودگی کا اضافہ کر رہے تھے ۔کچھ ترقی پسند نوجوان اپنی ہم مکتب طالبات کے ساتھ ہنسی مزاق میں مصروف تھے کہ یہی روشن خیالی ہے ، اور خاکسار جیسے رجعت پسند کو یہ حرکات نظریں جھکانے پر مجبور کر رہی تھیں ۔اسی اثناء میں گلبرگ کی تیز رفتار بس ٹریفک قوانین کو توڑ تے ہوئے اپنے اسٹاپ سے پہلے ہی جارکی اور خاکسار بڑ ی تک و دو کے بعدبس میں سوار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

بس میں سوار ہوتے ہی خاکسار نے اپنے اردگرد کے ماحول کا معائنہ کیا کیوں کہ کراچی کی بسوں میں ایسا کرنا بہت ضروری ہے مبادا کوئی “ضرورت مند” آپ کی جیب کا بوجھ ہلکا کرجائے ۔اپنے اردگرد اپنے ہی قبیلے کے کچھ نوجوانوں کو بیٹھے دیکھ کر خاکسار خاصا مطمئن ہو گیا۔سر پر سفید جالی دار ٹوپی ، سرخ رومال اور ٹخنے سے اونچی شلوار میں ملبوس تینوں نوجوان یقیناوراثتِ انبیاء کے طالب ہوں گے ۔
“اپنا اپنا کرایہ ہاتھ میں رکھنا بھائی”، کنڈیکٹر نے صدا بلند کی اور سب لوگوں سے کرایہ اکھٹا کرنے لگا۔ان تینوں نوجوانوں میں سے نسبتاً بڑ ی عمر کا دکھائی دینے والانوجوان نے اپنی جیب سے پندرہ روپے نکال کر کنڈیکٹر کو تھمائے اور بولا:” تین کارڈ، 10 نمبر تک”، کنڈیکٹر نے کہا کارڈ دکھاؤ تو تینوں نوجونوں نے اپنے اپنے کارڈ سامنے کر دئے ۔کنڈیکٹر جھنجلا کربولا:” مولی ساب!یہ مدرسے کا کارڈنہیں چلتا ، پورا کرایہ نکال شابا”۔خاکسار نے ا چک کر دیکھا تو تینوں نوجوانوں کے پاس اردو میں لکھے ہوئے کسی مدرسے کے کارڈ تھے ۔نوجوان نے کنڈیکٹر سے کہا:”کیوں بھائی کیا مدرسے والے طالب علم نہیں ہیں ؟”، اور پورا کرایہ تھما دیا۔اس امت کے وارثین انبیاء سے معاشرے کے ادنیٰ سے آدمی کا یہ رویہ ہے کہ بغیر لحاظ کئے وہ لوگوں سے بھری بس میں ایک دین دار انسان کی بے دھڑ ک بے عزتی کرسکتا ہے ۔معاشی اور اقتصادی مشکلات کو جھیلنے والے مدرسے کے طالب علم کو ہم نے معاشرے میں یہ مقام دیا ہے کہ طالب علم ہونے کے باوجود اس کو وہ حقوق نہیں حاصل جوکہ یونیورسٹی یا کالج کے نوجوانوں کو حاصل ہیں ۔جس نے چاہا ، جب چاہا اور جیسے چاہا اس کو مولی ساب، ملا ، مولانا، صوفی یا اور کوئی اعزازی لقب دے کر نواز دیا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا ، کوئی ان کو بھی عصری علوم سے آراستہ کرنے کا بیڑ ہ اٹھاتا۔بھلا اگر یہ حافظ قرآن ۰ پارے حفظ کرنے اور عربی کی سمجھ بوجھ اور بول چال کی صلاحیت رکھتا ہے توکیا انگریزی زبان اس قدر مشکل ہے کہ اس کو سیکھا ، سمجھا اور پڑ ھا نہ جا سکے ؟علم میراث کو سمجھنے اور پڑ ھنے والا طالب علم کیا ریاضی کے کلیات و مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہو گا؟ کیا مدرسے کا طالب علم حیاتیات ، طبیعیات، کیمیا اور کمپیوٹر جیسے علوم کو سیکھنے اور سمجھنے کا اہل نہیں ہے ؟
بات قابلِ غور ہے کہ امتِ مسلمہ کے یہ نوجون بڑ ی صلاحیتوں اور خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہیں لیکن شاید ہم نے اپنا فریضہ ادا نہ کیا۔اس حقیقت سے بھی پہلوتہی ممکن نہیں کہ مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعداد تو بہت زیادہ ہے مگر ان میں سے ہر کوئی رطب اللسان خطیب، مفتی ، امام ، مدرس یا لکھاری نہیں بن سکتا اور اپنی گذر بسر کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کرتا ہے ۔کیوں نہ معاشرے کے دیگر افراد کی طرح انہیں بھی یہ موقع مل سکے کہ یہ عصری علوم سے بھی حسبِ ضرورت فائدہ اٹھا سکیں تاکہ ایک صحت مند اور دین دار معاشرے کی تکمیل ہو سکے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے