گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ضروریات اور تقاضے بھی بدلتے رہتے ہیں انسان کے بڑھتے ہوئے روابط اور وقت کی کمی اس بات کی متقاضی تھی کہ کوئی ایسی چیز بھی موجود ہونی چاہیے کہ انسان کم سے کم وقت میں اپنے روابط قائم رکھ سکے اور جلد از جلد دنیا بھر کی خبریں اس تک پہنچ سکیں۔

ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ چنانچہ انسان نے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہاتھ پیر مارنے شروع کئے اور موبائل فون کی صورت میں ایک سم قاتل مصروفیت اس کے ہاتھ لگ گئی ہر شخص اس دوڑ میں لگ گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مجھ سے رابطہ کرے اور میں نہ ملوں یا میں کسی سے رابطہ کرنا چاہتا ہوں اور میرا مطلوبہ شخص دستیاب نہیں، اس دوڑ میں صرف خواص ہی نہیں بلکہ عوام، مرد، عورت، بوڑھے اور بچے بھی شامل ہیں۔

لیکن جہاں اس ایجاد کا فائدہ ہے کہ آپ وقت ضائع کئے بغیر کسی بھی مطلوبہ فرد تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں اور کسی کا پیغام وصول کر سکتے ہیںوہیں سائنس کی اس ایجاد نے بعض ایسے مسائل کو جنم دیاہے جو معاشرے کے لیے مفید ثابت ہونے کے بجائے نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔

موبائل آج کل زندگی کا حصہ بن گیا ہے کیا امیر کیا غریب مرد کیا عورتیں کیا جوان، کیا بچے سب کے ہاتھ میں موبائل ہے نیز موبائل کمپنیاں نت نئی اسکیموں سے اپنے گاہکوں کو لبھانے میں مصروف ہیں۔نئی نئی اضافی سہولیات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے موبائل سیٹ روزانہ بازار میں پیش کئے جا رہے ہیں، تاآں کہ اب موبائل محض ضروریات تک محدود نہیں  رہا، بلکہ بہت سی لغویات کا مجموعہ بن گیاہے۔ چنانچہ جدید موبائل صرف ٹیلی فون ہی نہیں بلکہ ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ، کیمرہ، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی تمام سہولتوں پر مشتمل ہے اور قیمتی اوقات کو برباد کرنے اور معاصی و منکرات میں مبتلا ہونےکے کشش اسباب اس چھوٹے سے آلے میں ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ مال دار گھرانوں کے بےخبر اور ناواقف نوجواں کوبگاڑنے میں موبائل کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔ فوٹو اور ویڈیو گرافی، فلم بینی، چلتے بھرتے گانوں کی سماعت انٹرنیٹ پر معصیت آمیز تفریحات اور لغو اور بے فائدہ کھیلوں میں مشغولی یہ سب منکرات موبائل پر ہورہے ہیں۔علاوہ ازیں جو لوگ ضرورتاً موبائل استعمال کرتے ہیں وہ بھی بعض چیزوں میں شرعی حدود پر قائم نہیں رہ پاتے اور انہیں احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ ہم سے کیا غلطی ہو رہی ہے؟ مثلاً موبائل کی گھنٹی کے بارے میں بہت سے لوگ غیر محتاط ہیں اور میوزک والی بیل بے تکلف موبائل میں لگا لیتے ہیں۔

ٹیلی فون پر لمبی بات کرنا

اب ایذاء رسانی کا ایک آلہ بھی ایجاد ہو چکاہے وہ ہے ’’ٹیلی فون‘‘ (موبائل)

یہ ایک ایسا آلہ ہے کہ اس کے ذریعے جتنا چاہو دوسرے کو تکلیف پہنچا سکتے ہو۔ چنانچہ آپ نے کسی کو ٹیلی فون کیا اور اس سے لمبی گفتگو شروع کردی اور اس کا خیال نہیں کیا کہ وہ شخص اس وقت کسی کام کے اندر مصروف ہے اس کے پاس وقت ہے یا نہیں۔ ٹیلی فون کرنے کے آداب میں یہ بات داخل ہے کہ اگر کسی سے لمبی بات کرنی ہو تو پہلے اس سے پوچھ لو! مجھے ذرا لمبی بات کرنی ہے چار پانچ منٹ لگیں گے اگر آپ اس وقت فارغ ہوں تو ابھی بات کر لوں؟ اور اگر فارغ نہ ہوں تو کوئی مناسب وقت بتادیں اس وقت بات کرلوں گا۔ اسی طرح آج کل موبائل کمپنیوں نے مختلف پیکج دینے شروع کئے ہیں کہ 2 منٹ بات کرنے کے بعد آپ کا ایک گھنٹہ فری اب اس ایک گھنٹہ میں جتنا دوسروں کو تکلیف دینا چاہتے ہو دے دو اپنا جتنا وقت ضائع کرنا ہے کرو اور دوسروں کا بھی۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موبائل کمپنیاں اپنے کمپنی کی مشہوری اور اپنے فائدے کے لیے سماج کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جارہے ہیں۔ آج کل موبائل کا مرض عام ہو چکا ہے اس کا غلط استعمال لوگوں کے اوقات کے ضیاع کا سبب بن رہا ہے بعض لوگ بلا ضرورت میسج بھیج دیتے ہیں اور مس کالیں کرنا اور رانگ نمبر ملانا تو بعض لوگوں کی عادت بن چکی ہے وہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ جس کو مس کال دی جارہی ہے وہ مصروف ہوگا جس کے موبائل پر بلا ضرورت مس کالیں اور میسج آئیں وہ شخص بھی پریشان ہو جاتا ہے اور یک سوئی سے کوئی کام نہیں کرپاتا۔

موبائل یا ایمان کا خون

اس سیل فون کا استعمال اتنا بُرا کہ مت پوچھو، اس نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو گناہ کے راستے پہ ڈال دیا ہے اور شادی شدہ لوگوں کے گھروں کا سکون برباد کردیا ہے، کہیں خاوند پریشان تو کہیں بیوی پریشان،کہیں خاوند پریشان کہ بیوی فون پر غیر مرد سے باتیں کرتی ہے چوری چھپے باتیں ہو رہی ہیں خاوندکے گھر سے نکلنے کی دیر کہ اب فون بزی (مصروف) مل رہا ہے اور کئی جگہ غیر شادی شدہ لڑکے لڑکیاں آپس میں ٹیلی فون پر اتنی باتیں کرتے ہیں کہ ان کو کسی اور کا ہوش ہی نہیں ہوتا۔ اسی لیے یہ بندہ نا چیز موبائل فون کو ہیل فون(Hell Phone) کہتاہے کہ یہ انسان کے جہنم میں جانے کا سبب بن جاتا ہے۔نوجوان بچے اور بچیوں کو ٹیلی فون پر ایک دوسرے سے باتیں کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے اول تو گھر میں نوجوان بچی کو ٹیلی فون اٹھانے کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ نوجوان لڑکیوں کو موبائل فون بھی نہیں دینا چاہیے جو غیر شادی شدہ ہیں اب رہی دوسری بات کہ فون اٹھانے کی اجازت نہ جو فون پی ٹی سی ایل کے نام سے گھروں میں ہوتے ہیں مرد اٹھائیں اگر مرد موجودنہیں ہیںتوگھر کی بڑی عورت اٹھالے اور پھر جس کا فون ہے اس کو دے دے مگر ہم نے ایسا بھی دیکھا ہے کہ سارے گھر کے لوگ بیٹھے ہیں اور کنواری لڑکی وہی فون اٹینڈ کر تی ہے اب سہیلی کے فون اسے آرہے ہیں اور سہیلیوں کے فون ہی آ رہے ہیں وہ کئی مرتبہ گھر میں فون ایسے کرتی ہے کہ لڑکی سے بات کر رہی ہے حقیقت میں آگے سے لڑکا بول رہا ہوتا ہے اور وہ صیغہ بھی لڑکی کا استعمال کرتی ہے تم کیسی ہو؟ تم کیا کر رہی ہو؟

ماں باپ کو بے وقوف بنا رہی ہوتی ہے اور ماں مطمئن ہوتی ہے اچھا ہے اپنی سہیلی سے باتیں کر رہی ہے تو پہلے زمانہ میں شیطان کے پاس جتنے آلات تھے گمراہی کے، سیل فون نے ان آلات میں اور اضافہ کر دیا اس کی وجہ سے گمراہی پھیل رہی ہے، زندگیاں برباد ہوررہی ہیں نوجوان بچے بچیاں نہ تو تعلیم میں توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی ان کو مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔

عورت فون پر کس طرح بات کرے؟

اگر بات بھی کرنی ہو تو فون پر ایسے بات کریں کہ جیسے کوئی ناراض آدمی بات کر رہا ہوتا ہے یعنی ایسے عورت فون پر بات کر ے کسی مرد کے ساتھ کہ اگر کسی نے دو باتیں کرنی ہیں تو ایک ہی بات کرے اور فون بند کر دے ایسا انداز غیر مرد کے ساتھ اختیار کرنے پر عورت کو اللہ کی طرف سے اجر ملتا ہے تو مصیبت یہی ہے کہ خاوند سے بات کرتی ہیں تو زبان میں ساری دنیا کی تلخی آ جاتی ہے غیر مرد سے بات کرنی ہے تو ساری دنیا کی شیرینی آ جاتی ہے۔

ناجائز پیغام رسانی

نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بہت تیزی سے اس شوق کو اپنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جھوٹ، عریانی، فحاشی و بے راہ روی میں بھی بے انتہا اضافہ ہو رہا ہے موبائل فون کے میسج سسٹم نے محبت ناموں اور عشقیہ خطوط کے نظام کو فرسودہ قرار دے دیا ہے اب ہر لڑکی اور لڑکے کے پاس اپنا موبائل فون ہے جیسے مہینوں میں بھی ان کے باپ یا بھائی چیک نہیں کرتے اور اسکولوں، کوچنگ سینٹروں اور انگلش لینگوئج سنٹرز اور یونیورسٹیز اور کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں اپنے دوست احباب اور عشاق کے ساتھ باآسانی ہر وقت یہاں تک کہ رات گئے بھی دل کی بات کہہ سکتی ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو اس بری عادت سے بچائے۔ علاوہ ازیں موبائل کمپنیوں کی طر ف سے پیش کئے جانے والے پرکشش پیکیزز (منصوبے پروگرام) اور انکی طرف امادہ کرنے والے بے ہودہ سائن بورڈز معاشرے کو کسی صحت مند تفریح کی طرف نہیں بلکہ ایک بند گلی کی طرف لیے جا رہے ہیں۔اسکے علاوہ مختلف موبائل کمپنیوں کی طرف سے مختلف طریقوں سے ایک پرکشش پیش کش بذریعہ میسج ہی موصول ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ وہ بذریعہ میسج آپکو ایک کوڈ نمبر بتاتے ہیں جس کو ڈائل کرنے پر آپ کو اسی کمپنی کی طرف سے جاری کردہ پانچ مختلف نمبرز مہیا کیے جاتے ہیں آپ ان نمبروں پر بات کیجئے اب یہ آپ کی قسمت ہے کہ وہ نمبر کس کے ہوتے ہیں۔بعض اوقات یہ نمبرز خواتین کے بھی ہوتے ہیں ایک مرتبہ بات ہونے کے بعد ان سے دوستی بھی ہوجاتی ہے اور پھر نوبت کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے۔ یہ موبائل کمپنیاں جو نوجوان نسلوں کو ایک نشے کی طرح ختم کر رہی ہیں یہ بندہ ناچیز تو ان کمپنیز کو منشیات فروشوں سےبھی زیادہ گناہ گار اور سماج دشمن سمجھتا ہے کیونکہ منشیات فروش تو انسان کی زندگی کو موت میں تبدیل کرتے ہیں لیکن یہ موبائل کمپنیز اور ان کے مختلف پیکجز دینے والے تو نوجوان نسلوں کو سماج میں ایک مجرم اور سماج میں بدنام کرنے اور ناکام اور گناہ گار اور جہنمی بنارہے ہیں۔ مثلاً آج کل مختلف کمپنیوں نے ایسے پیکجز دینے شروع کئے ہیں کہ رات کے 12 سے لے کر صبح 7 بجے تک دو روپے فی گھنٹہ سے بات کریں آخر یہاں غور کرنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا اس سے کاروباری لوگ فائدہ حاصل کر رہے ہیں یا نوجوان نسل اپنے آپ کو اس خطرناک مرض میں مبتلا کرتے ہوئے اس برائی کو استعمال کرتے ہیں اور ساری ساری رات ایک نوجوان لڑکا کسی نامحرم لڑکی سے پانچ پانچ چار چار گھنٹے بات کرتا ہے جب صبح کی اذان ہوتی ہے تو ان کی رات شروع ہوتی ہے اور صبح کی نماز پڑھے بغیر سو جاتے ہیں نہ اسکول نہ کالج یونیورسٹی اور نہ ہی دوسرے کسی شعبہ زندگی میں کام کاج سب چیزوں سے رہ جاتے ہیں اور اگر کسی کام کاج سے جاتےبھی ہو تو لیٹ ہو کر جاتے ہیں اور نیند پوری نہیں ہوتی تو کچھ ہی عرصے میںمختلف جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں سماجی برائیاں تو تھی ہیں اب جسمانی بھی شروع ہونے لگیں۔ حالانکہ مختلف تحقیق کرنے والوں نے یہ کہا ہے کہ انسان کےلیے چوبیس گھنٹوں میں سے آٹھ گھنٹے سونا ضروری ہے صحت مند ہونے کے لیے اور یہ تو راتوں کو ایک دوسروں سے باتیں کرنے میں اتنے مگن ہیں کہ سونے کا خیال ہی کہاں۔ ہائے افسوس یہ ہماری قوم کے نوجوان کل کے معمار کہاں اپنے آپ کو کس تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھروگے جو نوجوان لڑکے دوسروں کی بچیوں کے ساتھ ساری ساری رات باتیں کرتے ہیں وہ یہ بات بھی نہ بھولیں کہ ان کی بہنوں بچیوں کے ساتھ بھی کوئی نہ کوئی ضروربات کر رہا ہوتا ہے۔ یہ نوجوان اگر ان کو پتہ چلے کہ ایک لڑکا ہر روز رات کو انکی بہن یا بیٹی کے ساتھ موبائل پر باتین کرتا ہے تو اس شخص کو قتل کرنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑے گا کہ اسنے میری بہن یا بیٹی سے بات کر کے میری گھر کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے مگر اے بندے بے خبر کیا تو دوسروں کی بچیوں کے ساتھ ساری ساری رات بات کرتے وقت یہ سوچا تھا کہ یہ بھی کسی کی بہن ہے بیٹی ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

بہت افسوس ہوتا ہے جب ان کمپنیوں کا کوئی پیکج آتا ہے ایک تو یہ پیکج دن کے وقت نہیں ہوتے اور ہوتے بھی ہیں سارے اکثر رات کو اور دن کے وقت اگر کچھ ہیں بھی تو وہ ان رات والے پیکجز کادفاع کرنے کے لیے۔ یہ کمپنیاں عام حالت میں تو نوجوانوں کو تباہ کر ہی رہی ہیں لیکن افسوس کہ رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں وہ راتوں کو ایسے مفت پیکج دیتے ہیں تاکہ بندہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے ایک دوسروں سے باتیں کریں اللہ سے باتیں کرنے کے بجائے نامحرم لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے باتیں کریں اور پھر سحری کھا کر سو جائیں اور افطار کے وقت اٹھ کر کہتے ہیں کہ یار آج کل دن تو بہت جھوٹے ہو گئے ہیں۔

کیمرے والے موبائل سیٹ

اسی طرح آج کل جدید سے جدید موبائل سیٹ مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور انکی تشہیری مہم پر لاکھوں روپیہ صرف کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر شخص چاہتاہے کہ اس کے پاس اعلیٰ سے اعلیٰ موبائل سیٹ ہو جو نہ صرف یہ کہ دکھاوے کے کام آسکے بلکہ اس سے اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے میں بھی بھرپور موقع مل سکے۔ یہ موبائل سیٹ آج کل طبقاتی فرق پیدا ہونے کی بہت بڑی وجہ بن گئے ہیں جو غریب لوگوں کو احساس کمتری میں اور مالدار لوگوں کو احساس برتری میں مبتلا کر رہے ہیں جو خود سو برائیوں کی ایک برائی ہے۔ان ہی میں سے ایک کیمرے والا موبائل فون ہے جو معاشرے میں برائیوں کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہے یہ موبائل فون نہ صرف معاشرتی بلکہ اخلاقی اور مذہبی مسائل پیدا ہونے کی اہم وجہ بھی ہے مثلاً مذہبی نقطہ نگاہ سے تصویر رکھنا، کھینچنا، کھچوانا وغیرہ منع ہے جبکہ کیمرے والے موبائل فون کی بدولت یہ گناہ اس قدر عام ہوگیا ہے کہ بعض اوقات انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں ملوث ہو جاتاہے اس سے پہلے تصویر کھینچنا اور کھچوانا ہر وقت ممکن نہ تھا بلکہ اگر کسی اجنبی کی تصویر کھینچنی ہوتی تھی تو اس سے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی تھی اور اس سے اجازت لئے بغیر اس کی تصویر بنا لینا جرم تصور ہوتا تھا لیکن اب کیمرے والے موبائل فون نے یہ مشکل آسان کر دی ہے آپکو معلوم بھی نہیں ہوگا اور آپ کی تصویر بنائی جا چکی ہوگی۔ اوباش اور آوارہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی اس موبائل فون سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں راہ چلتی لڑکیوں اور لڑکوں کی تصاویر اتارلینا ان تصاویر کو اپنے موبائل فون کی اسکرین پر سجانا موبائل فون سے اپنے کمپیوٹر پر منتقل کرکے ای میل کے ذریعے دوستوں کو بھجوانا کمپیوٹر کے مختلف پروگراموں کے ذریعے ان تصاویر میں ردوبدل کر کے شریف لوگوں کو بلیک میل کرنا انٹرنیٹ سے گندی اور فحش تصاویر لے جاکر دوستوں اور سہیلیوں کو دکھانا اور پھر غیر اخلاقی حرکات میں مبتلا ہونا ایک وباء کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور یہ معاشرے کو ہلاکت اور تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔اس موضوع پر جتنا لکھا جائے کم ہے اسکی برائیاں خود بخود ذہن میں آجاتی ہیں لیکن بندہ ناچیز کا قلم اس سےآگے لکھنے سے قاصر ہے۔

آئیے دعاکریں کہ اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو اس برائی سے بچائے اور ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی عطاء فرمائے اور دیناوی لغویات سے ہماری حفاظت کرئے۔آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے