جب سے کائنا ت وجود میں آئی ہے اللہ تعالی کے کئی برگزیدہ بندے آئے جن میں سے کتنے ہی بندوں کو خالق کائنات نے لوگوں کی رشد وہدایت کے لیے چنا نبوت کا تاج ان کے سر پر سجایا تاکہ پیغام الٰہی کو ہر ایک تک پہنچادیں ان کے احوال اور قصے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں بیان کرنے کے بعد فرمایا:

لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ  ۭ مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ     ١١١۝ۧ

ان کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے، یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ یہ تصدیق ہے، ان کتابوں کی جو اس سے پہلے کی ہیں، کھول کھول کر بیان کرنے والا ہے ہرچیز کو اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان دار لوگوں کے لئے ۔(یوسف:111)
ان عظیم ہستیوں میں سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالی نے بڑے ہی نرالے انداز میں فرمایا یہ وہ نبی ہیں جن سے تین گروہ اپنا تعلق استوار کرتے ہیں یعنی مسلمان، یہودی اور عیسائی بلکہ مشرکین مکہ بھی ان کی طرف نسبت کیا کرتے تھے اللہ تعالی نے ان لوگوں کی وضاحت کردی جو نسبت کا استحقاق رکھتے ، فرمایا :
’’کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟ کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو ۔ یا اللہ تعالیٰ؟ (البقرہ:140)
ابراہیم تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو ایک طرفہ (خالص) مسلمان تھے مشرک بھی نہ تھے(اٰل عمران:67)
ابراہیم سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں.. (اٰل عمران:68)
ان آیات قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ سیدناا براہیم علیہ السلام ایک سچے پکے موحد یکطرفہ شرک اور مشرکوں سے بری تھے اسی لیے جب آپ ﷺ فتح مکہ کے دن بیت اللہ میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں سیدناابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی مورتیاں بنائی ہوئی تھیں جیساکہ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےکہ جب رسول اللہ ﷺ (فتح مکہ کے دن) آئے تو بیت اللہ میں اس حال میں داخل ہونے کو پسند نہ فرمایا کہ اس میں بت رکھے ہوئے ہوں آپ ﷺ نےان بتوں کوباہر نکالنے کا حکم فرمایا چنانچہ جب انہیں نکالا تو اس میں سے سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام کی مورتیاں بھی نکلیں جن کے ہاتھوں میں قسمت کا حال معلوم کرنے کے تیر تھمائے ہوئےتھے (بخاری باب من کبر فی نواحی الکعبہ رقم الحدیث:1601)
آغاز دعوت:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر بابل میں پیدا ہوئے جہاں نمرودجیسا ظالم، جابر اور لوگوں کے سامنے خدائی کا دعویٰ کرنے والاحاکم تھا وہاں کے لوگوں کی زندگی جہالت ، ضلالت اور بت پرستی کی بھینٹ چڑھی ہوئی تھی یہاں تک کہ خود سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا والد بت تراش کر بیچاکرتا ساتھ ساتھ ان ہی بتوں کا پجاری بھی تھا چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا جس کا نقشہ قرآن

مجید نے اس طرح کھینچا ہے :

اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھےجب کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیںمیرے مہربان باپ! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں، تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا میرے ابا جان آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں شیطان تو رحم و کرم والے اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی نافرمان ہے ابا جان! مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آپڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن جائیںاس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے۔ سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا، جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رہ کہا اچھا تم پر سلام ہو میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گاوہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے(مریم:41-47)
سبحان اللہ دعوت کا کیا ہی انداز تھا کہ دعوت کے ہر جملے سے پہلے بڑے ہی پیارے لہجے میں فرماتے : ’’اے ابّا جان‘‘ اور بدلے میں یہ جواب نہیں ملا اے بیٹے بلکہ کہا : ’’اے ابراہیم اگر اس دعوت سے باز نہ آئے تو پتھر وں کی بارش برساؤں گااور عرصہ دراز کے لیے مجھ سے دور چلا جا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا بلکہ فرمایا ابا جان آپ سلامت رہیں میں تو آپ کے لیے اپنے رب سے معافی کی دعا طلب کرتارہوں گا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ دعوت سے یہ معلوم ہوا کہ ایک داعی کو حلیم و بردبار ، بلند حوصلے کا مالک ، وسیع الصدر ، سچا اور مخلص ہونا چاہیے ۔ دعوت کے میدان میں لوگ پھولوں کی مالائیں گلے میں نہیں ڈالتے بلکہ کڑوی و تیز باتوں اور بدتمیزی کا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں ایسے میں ہمت وحکمت سے کام لینا ہے ایسا نہیں کہ لوگوں کو اسلام میں داخل کرنا تو کم اور اس سے برگشتہ کرنا زیادہ ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر کفر کے فتوے ہاتھ میں تھما دینا یہ کہیں کا بھی اسلوب دعوت نہیں۔
یہاں جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو یہ بخوبی معلوم ہوگیا تھا کہ ان کے والد اللہ تعالی کے دشمن ہیں تو ان سے اعلان براءت کردیا۔
ارشاد باری ہے:

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ  ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ     ١١٤؁ (التوبہ :114)

اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کرنا وہ صرف وعدہ کے سبب تھا جو انہوں نے ان سے وعدہ کرلیا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بےتعلق ہوگئے واقعی ابراہیم (علیہ السلام) بڑے نرم دل اور بردبار تھے ۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر کو قیامت کے دن دیکھیں گے کہ اس کے منہ پر سیاہی اور گردوغبارہوگی،ان سے کہیں گے کہ میں نے (دنیا میں) تم سے نہیں کہا تھا میری نافرمانی نہ کرنا آزرکہے گا آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کرونگا اس وقت ابراہیم علیہ السلام (اللہ تعالیٰ سے) عرض کریں گے پروردگار تونے (میری دعا قبول کی تھی ،جو سورہ شعراء 87/26میں ہے) مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن تجھ کو رسو ا نہیں کرونگا اس سے زیادہ کونسی رسوائی ہوگی ۔میرا باپ ذلیل ہوا جو تیری رحمت سے محروم ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے بہشت تو کافروں پر حرام کردی ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کوکہا جائے گا ذرا اپنے پاؤں کے تلے تو دیکھو وہ دیکھیں گے تو ایک بجّو نجاست سے لتھڑا ہواہے اور (فرشتے) اس کے پاؤں پکڑ کردوزخ میں ڈال دیں گے‘‘ (صحیح بخاری۔کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراھیم خلیلارقم الحدیث3350)

 بت شکنی اور اظہار حجت:

جہاںسیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے والدکو دعوت دی وہیں اپنی قوم کے لوگو ں کوبھی سمجھاتے اور بت پرستی کے اس کا م پر نکیر فرماتے ان لوگوں سے مناظرہ ومناقشہ اور اپنی حجت قائم کرتے اور سب کے سب لوگ ان کی باتوں اور دلیلوں کے سامنے لاجواب ہوجاتے شرم کے مارے گردنیں جھک جاتی تھیں لیکن علم وفہم اور دانش مندی کی زینت سے عاری جہالت وضلالت کے بھنور میں پھنسے بت پرستی کا جام بھر بھر کر پینے والے حجر وشجر کے بنے معبودانِ باطلہ کے سامنے اپنی جبینیں جھکانے والےانہی کے راگ الاپنے والے یہ لوگ بجائے سمجھنے کے الٹا دشمنی وعداوت پر اتر آئےاور اپنے معبودانِ باطلہ کی نصرت کا جھانسہ دے کرسیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کی ٹھان لی جس کا منظر اللہ تعالی نے یوں بیان کیا ۔

وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ 51؀ۚ

یقیناً ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اسکی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اسکے احوال سے بخوبی واقف تھے ۔(الانبیاء:51)
مزید فرمایا:’’انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی سنا دوجبکہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی، ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں آپ نے فرمایا کہ جب تم انھیں پکارتے ہو تو کیا وہ سنتے بھی ہیں یا تمہیں نفع نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں  انہوں نے کہا یہ (ہم کچھ نہیں جانتے) ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا آپ نے فرمایا کچھ خبر بھی ہے جنہیں تم پوج رہے ہوتم اور تمہارے اگلے باپ دادا،وہ سب میرے دشمن ہیں بجز سچے اللہ تعالیٰ کے جو تمام جہان کا پالنہار ہےجس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہےوہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے‘‘ (الشعراء69-79)
ایک اور مقام پر فرمایا:
اور اس (نوح علیہ السلام) کی تابعداری کرنے والوں میں سے (ہی) ابراہیم (علیہ السلام) (بھی) تھے جبکہ اپنے رب کے پاس بےعیب دل لائے انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کیا پوج رہے ہو؟کیا تم اللہ کے سوا گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو؟ تو یہ (بتلاؤ کہ) تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟اب ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک نگاہ ستاروں کی طرف اٹھائی اور کہا میں بیمار ہوں  اس پر سب اس سے منہ موڑے ہوئے واپس چلے گئے۔ آپ (چپ چپاتے) ان کے معبودوں کے پاس گئے اور فرمانے لگے تم کھاتے کیوں نہیں؟ تمہیں کیا ہوگیا بات نہیں کرتے ہو پھر تو (پوری قوت کے ساتھ) دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے پر پل پڑے وہ (بت پرست) دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہو حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہےوہ کہنے لگے اس کے لئے ایک مکان بناؤ اور اس (دھکتی ہوئی) آگ میں ڈال دوانہوں نے تو اس (ابراہیم علیہ السلام) کے ساتھ مکر کرنا چاہا لیکن ہم نے انہیں کو نیچا کردیا ‘‘(الصافات؛83-98)
محترم قارئیں یہاں تو جہالت وسفاہت کی انتہاء ہے بجائے اس کے کہ ان کے معبودان باطلہ ان کی مدد کرتے مگر حماقت کی انتہا کہ اب یہ چلے ہیں اپنے خداؤں کی مدد کرنے لیکن جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا حامی وناصر اللہ ہوتو ان کا کوئی بال بھی بھیکا کیسے کرسکتاتھا، سب تدابیر دھری کی دھری رہ گئیں، سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی ہی رہ گئیں کہ اللہ اپنے پیاروں کی کس طرح مدد کرتا ہے۔

نمرود کے ساتھ مناظرہ:

خالق کائنات نے اپنی عظیم الشان کتاب قرآن کریم میں سیدناابراہیم علیہ السلام کا وہ مناظرہ بیان فرمایا جو انہوں نے وقت کے سب سے بڑے طاغوت بلاد بابل کے حاکم نمرود سے کیا جو اللہ وحدہ لاشریک لہ کا منکر اور خود خدائی کا دعویدار تھا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بڑے ہی حکیمانہ، مدبرانہ ، تہذیب واخلاق کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس ظالم وجابر سے مناظرہ کیا جس سے ہر داعی ، مناظر ومناقش کے لیے تربیت کا پہلو نکلتاہے جہاں تک آج کل مناظرہ کی صورتحال ہے وہ سب پر عیاں ہے ذاتیات، سب و شتم، زبان درازیاں ، گالی گلوچ کا طوفان برپا ہوتا ہے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور اخلاقیات کی حدود کو تو بالائے طاق رکھ دیا جاتاہے۔
لہٰذا مناظرے کے اس اسلوب کو ہم پڑھیں ، سمجھیں اور عمل پیرا ہوں ارشاد باری تعالی ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ  ۘاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ  ۭ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِيْ كَفَرَ  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ   ٢٥٨؁ۚ

کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے اور تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔(البقرہ:258)

ولادت اسماعیل علیہ السلام

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے کئی برس بعد کبر سنی وبڑہاپے میں اولاد نرینہ عطافرمائی جس کے لیے وہ کئی برسوں سے دعاکرتے رہے تھے :
رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ (الصافات:100)
اے اﷲ! مجھے اولاد عطا فرما جو سعادت مندوں میں سے ہو۔
ہر باپ کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ بیٹا بڑھاپے میں باپ کا سہارا ودست بازو بنے اولاد کتنی پیاری ہوتی ہے اس کا اندازہ صرف والدین ہیلگا سکتے ہیں ، کلیجے کا ٹکڑا ہوتی   ہے اگر ایک کانٹابھی چبھ جائے تو والدین چیخ اٹھتے ہیںاور پھر وہ اولاد جس کے لیے اللہ کا وعد ہ ہو کہ نبی ہوگا اور اس کا کئی سالوں سے انتظار تھا جس کو دیکھنے سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون ملتا تھالیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نزدیک حکم الٰہی سے بڑھ کر کوئی شے محبوب نہ تھی، حکم ہوا کہ بیوی اور اکلوتے بیٹے کو بے آب وگیا ہ مکہ کی سنگلاخ وادی میں چھوڑ آؤ سیدناابراہیم علیہ السلام بیت المقدس سے نکل کر مکۃالمکرمہ آتے ہیں وہیں بچہ اور بیوی ساتھ میں پانی کا ایک مشکیزہ اور کچھ کھجوریں زاد سفر ہےاور ان کو اس وادی میں اللہ کے حوالے کر کے چل دئیے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا کہ کہیں ان کی محبت اللہ کے فرمان پر غالب نہ آجائے، بیوی پیچھے سے آواز لگاتی ہے اے ابراہیم کہاں جارہے ہیں کس کے سہارے چھوڑکر جارہےہو؟ جواب میں کچھ بھی نہ کہا آخرسیدہ ھاجرہ علیہا السلام فرماتی ہیں کیا اللہ کا حکم یہی ہے جواب دیا ہاں ! تو سیدہ ھاجرہ علیہا السلام نے کہا تو پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرےگا۔
سبحان اللہ کیا صبر تھاآج کل کی عورتوں کو سیدہ ھاجرہ علیہا السلام سے درس لینا چاہیے کہ صبر نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ایسا نہیں کہ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر ہلکی سی کمی پر پورے گھر بلکہ محلے کو سر پر اٹھا لیتی ہیں۔
تو دنیا والوں نے دیکھا اسی جگہ کو ان ہستیوں کے قیام سے دنیا جہاں کے لیے مرکز ومحور بنا دیاکہ ادنیٰ سا مسلماں بھی اس گھر کی زیارت کی تمنّا رکھتا ہے جب اس کو یاد کرتا ہے تو شوق محبت میں دل سرشار ہوجاتاہے۔

سب سے بڑی آزمائش:

واہ خلیل اللہ علیہ السلام کے کیا کہنےبڑھاپے میں ملنے والی اولاد جیسی عظیم نعمت کو حکم خدا وندی سے سنسان جگہ چھوڑآئے بات یہیں ختم نہ ہوئی بلکہ یہی بچہ جب بڑا ہوا دوڑ دھوپ کے قابل ہو ا تو خلیل اللہ کو خواب میں یہ حکم ہوا کہ اپنے اس بیٹے کو ذبح کردو،(انبیاء کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں)  خلیل اللہ نے اس کا م سے بھی دریغ نہ کیا بلکہ بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیارہوگئے ۔
سبحان اللہ اِدھر بیٹا حکم ربانی کے آگے اپنی گردن پر چھری پھروانے کے لیے تیار اُدھر باپ اپنے بیٹے کی قربانی کے لیے کمر بستہ ، اس وقعے کی منظر کشی قرآن نے اس انداز میں کی ہے:

 رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصَّالِحِيْنَ o فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيْمٍ o فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصَّابِرِينَ o(الصافات:100-102)

اے اﷲ! مجھے اولاد عطا فرما جو سعادت مندوں میں سے ہو۔تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو گویا ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ ’’ ابا جان ! جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجئے ، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے
قارئین کرام آپ نے دیکھ لیا جو اللہ تعالی کےلیے اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا دے اللہ تعالی اس کی جھولی بھر دیتاہے سیدنااسماعیل علیہ السلام کو تو اللہ تعالی نے بچالیا ساتھ میں سیدنااسحاق علیہ السلام کی خوشخبری بھی سنائی بلکہ اولاد ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام میں انبیاء علیہم السلام کی تو ایک لڑی جاری کردی ، جبکہ کائنات کے آخری نبی جناب محمدرسول اللہ ﷺ بھی سیدنا اسماعلیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیںاور ان کا ذکر خیر رہتی دنیا تک باقی رکھ دیا۔
ٌٌٌ………

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے