رب العالمین نے رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین، محسنِ انسانیت، معلم انسانیت، رہبر اعظم، مرشد اعظم، سالار اعظم، ساقی کوثر، سافی محشر، صاحب قرآن اور رسول معظم کی عزت وعظمت، شان وشوکت، قدرومنزلت، مقام ومرتبہ، اجلال وتکریم، جمال خَلق اور کمال خُلق کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:{ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ} ’’اور ہم نے آپ کا نام بلند کردیا۔‘‘(الانشراح:۴)

یعنی مشرق سے لیکر مغرب تک اور شمال سے جنوب تک، بحر الکاہل کے مغربی کنارہ سے لیکر دریائے ہوانگ ہوکے مشرقی کنارے تک، طلوع آفتاب سے لیکر غروب آفتاب تک اور لیل ونہار کی تمام ساعتوں میں روئے زمین سے لیکر آسمان کی وسعتوں تک اے حبیب آپ کا ذکر خیر بلند کردیا ہے اور اسی رب رحیم وکریم نے رحمتِ دوعالم کے دشمنوں کے لیے بھی ایک اعلان فرمایا ہے کہ

{إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ } (الکوثر:۳)’’

کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بے نام ونشان رہے گا۔‘‘

خیر وشر کی جنگ جوازل سے شروع ہے ابد تک رہے گی جیسا کہ تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور کے فرعون نے رب العالمین کو للکارا، جماعت حقہ کو چیلنج کیا، ہردور کے طاغوت ظالم وجابر نے جب بھی دلیل کے میدان میں شکست وریخت دیکھی تو توہین پر اُتر آیا اور اس میدان میں بھی الحمد للہ ہمیشہ منہ کی کھاتا رہا۔

یہ بدبخت، پست ذہنیت کے مالک، متعصب اور بدکردار اپنے خبث باطن کا اظہار رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی شان میں گستاخی کرکے کررہے ہیں، شاید ان کو مجسم رحمت صلی اللہ علیہ و سلم  کی شانِ کریمی اور رحیمی کا اندازہ نہیں ہے۔اگر اندازہ کرنا چاہتے ہو تو قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ کی کتاب رحمۃ للعالمین کو ملاحظہ کیجئے۔ فرماتے ہیں رحمۃ للعالمین وہ ہے کہ جس نے اہل عالم، بلکہ عالم در عالم کی بہبود وسود، رفاہ و فلاح،خیر وصلاح عروج وارتقائ،صفاء وبہاکیلئے بلا شائبہ غرض اور بلاآمیزش طمع اپنی مقدس زندگی کو صرف کیا ہو۔ جس نے بندوں کو اللہ سے ملایا ہو، جس نے دل کو پاک، روح کو روشن، دماغ کو درست اور طبع کو ہموار بنایا ہو،جس کی تعلیم نے امن عام کو مستحکم اور مصلحت عامہ کو استوار کیا ہو۔ جو غریبی و امیری، جوانی وپیری، امن اور جنگ، امید اور ترنگ، گدائی وبادشاہی، مستی وپارسائی، رنج وراحت، حزن ومسرت ہر درجہ اور ہر مقام پر انسان کی رہبری کرتا ہو۔ جس نے فلک کی بلندی زمین کی پستی، رات کی تاریکی، دن کی روشنی،سورج کی چمک، جگنو کی دمک، ذرہ کی پرواز، قطرہ کی طراوت میں عرفان ربانی کی سیر کرائی ہو۔ جس کی تعلیم نے درندوں کو چوپانی،بھیڑیوں کو گلہ بانی، رہزنوںکو جہاں بانی، غلاموں کو سلطانی،شاہوں کو اخوانی سکھائی ہو۔جس نے خشک میدانوں میں علم ومعرفت کے دریا بہائے ہوں، جس نے سنگلاخ زمینوں سے کتاب وحکمت کے چشمے چلائے ہوں، جس نے خود غرضوں کو محبت قومی کا دردمند بنایا ہو، جس نے دشمنوں کو اپنا جگر بند ٹھہرایا ہو، وہ غریب کا محب، مسکین کا ساتھی، غلاموں کا محسن، یتیموں کا سہارا، بے آسروں کا آسرا، بے خانمائوں کا ماویٰ، دردمندوں کی دوا، چارہ گروں کا دردمند، مساوات کا حامی، اخوت کابانی، محبت کا جوہری، اخلاص کا مشتری، صدق کا منبع، صبر کا معدن، خاکساری کا نمونہ، رحمت ربانی کا پتلا، اولین انسان اور آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم  ہیں۔

اگر رحمۃ للعالمین کے لقب سے ملقب نہ ہو گا تو پھر ان جملہ صفات کے جامع کا اور کیا نام ہوگا، ؟ ہاں رحمۃ للعالمین وہی ہے جس نے ملکوں کی دوری، اقوام کی بیگانگی، رنگتوں کا اختلاف، زبانوں کا تباین دور کر کے سب کے دلوں میں ایک ہی ولولہ، سب کے دماغوں میں ایک ہی تصور، سب کی زبانوں پر ایک ہی کلمہ جاری کر دیا ہو۔ ہاں رحمۃ للعالمین وہی ہے جو یہودیوں کی طرح نذرومنت کی قبولیت سے واسطے نبی لاوی کا واسطہ ضرورت نہیں ٹھہراتاجو کاتھلوں کی طرح آسمان کی کنجیاں شخص واحد کے ہاتھ میں سپرد نہیں کر دیتا۔

ہاں رحمۃ للعالمین وہی ہے جو ایک انسان کی جان کی قدروقیمت ان الفاظ میں ظاہر فرماتا ہے :

{مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ أٔو فَسَادٍ فِی الأرْضِ فَکَأنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَن احْیَاھَا فَکَأنَّمَا أحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً} (المائدۃ :۳۲)

’’اگر شخص نے ایک انسان کو بھی قتل (واجب القصاص اور مجرم اس سے الگ ہیں )گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔‘‘

رحمۃ للعالمین وہ ہے جو خونخوار لڑائیوں کو بند کردیا کرتا، حکمرانی کی آرزو یا توسیع ملک کی تمنا یا غلبہ قوت کے اظہار یا جوش انتقام کے وفور کے اصول پر لڑائی کرنے کو قطعاً ممنوع ٹھہراتا ہے۔ وہ جنگ کو صرف مظلوم کی امداد کا آخری ذریعہ، عاجزوں، درماندوں، عورتوں، بچوں کو ظالموں کے ہاتھوں سے چھڑانے کا وسیلہ مذاہب مختلفہ اور ادیان متعددہ میں عدل وتوازن قائم کرنے کا آخری حیلہ بتاتا ہے، دنیا کا رحمدل سے رحمدل شخص بھی ان اصولوں کے لیے لڑائی کی ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا اور معمولی سمجھ کا انسان بھی ایسی لڑائی کو سراپا رحمت کہنے میں ذرا تامل نہیں کر سکتا۔رحمۃ للعالمین وہ ہے جس نے شراب اور جوئے کی حرمت کا حکم تمام عالم کو سنایا۔ شراب کور جس اور عمل شیطان اور بنائے عداوت وسبب بغض وسرمایہ غفلت اور ذرریعہ دوری از اللہ بتایا۔

البتہ اہل اسلام کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کو التفات خاص ہے اور یہ لوگ اس آفتاب حقیقت سے زیادہ تر منور ہونے کی سعی کیا کرتے ہیں اس لیے رب العالمین نے سیدالاولین والآخرین کی صفت میں فرمایا ہے {بالمومنین رؤف رحیم} دیکھو رحمت کے ساتھ یہاں رافت کا اضافہ ہو گیاہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  کی رحمت ورافت سے استفادہ کرتے ہیں۔

۲۰مئی ۲۰۱۰ کے دن ہر کلمۂ گو پریشان تھا،کیونکہ یہود ونصاریٰ نے جوکہ مادر پدرآزاد جن کو اپنے باپ تک کا پتہ نہیں ہے،رسول معظم ومکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں اجتماعی طور پرگستاخی کا پروگرام بنایا تھاجس میں امریکہ کی بدکردار صحافی ملعون مولی نورس (Moly Noris) پیش پیش تھی۔ ان کا یہ اجتماعی گستاخی کا اعلان ایک پل کے لیے چین نہیں لینے دے رہا تھا کہ یہ غلاظت میں لتھڑے ہوئے کتے کی حیثیت رکھنے والی قوم رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم  کی شان مقدس میں اجتماعی گستاخی کرے گی۔ اور دل میں سوچے جارہا تھا کہ یا اللہ مسلمان اس قدر کمزور اور بزدل ہوگئے ہیں۔ مسلمان حکمران تو ان کے ہم نوالہ وہم پیالہ تھے ہی کیا عوام میں کوئی بھی غازی علم الدین شہید اور غازی عبد القیوم باقی نہیں رہا کہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارکہ میں نازیبہ حرکت کرنے والے کو دندان شکن جواب دے۔ جبکہ مسلمان تو اس ذات بابرکات کو ایک لمحہ کے لیے بھی بھول نہیں سکتا یہی تو ایک ذات ہے جو ہمارے دنیا وآخرت میں سرمایۂ افتخار ہے بلکہ ہماری زندگی فانی وجاودانی ان کی جوتی سے لگی خاک سے وابستہ ہے لہٰذا ہم تو ہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیسے برداشت کرسکتے ؟؟

مگر دیکھتے ہی دیکھتے غیور مسلمان نوجوان، بچوں، بوڑھوں اور پردہ دار خواتین اور اسلام کی بیٹیوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر حرمتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و سلم  کی خاطر احتجاج میں حصہ لینا شروع کر دیا۔امت مسلمہ کا خمیر ہی محبت مصطفی میں گوندھا گیا ہے اس لیے اس کی نسل نو کو یہود ونصاریٰ نے سیکولر اور لبرل بنانے اور ان کی اسلامی شناخت کے جذبے کو ماند کرنے کی انتہاء درجہ کوشش کی لکین پھر بھی ناموس رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کے لیے انتہائی پرامن اور بااثر احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ مسلمانوں اس عالمی احتجاج نے تمام کفار کو لرزہ براندام کیا دیا۔اسی جذبہ صادقہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر مشرق نے کہا تھا:

مسلمان کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے

تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

کفار کو تمام تر وسائل اور ایڈوانس ٹیکنالوجی کے باوجود مسلمانانِ عالم کی اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت لگن اور جذبۂ عقیدت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑگئے اور اُسے وہ شرانگیز، متعصبانہ اور توہین آمیز مقابلہ مجبوراً منسوخ کرنا پڑا۔

والسلام

آپ کا بھائی

شیخ مقبول احمد مکی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے