ہر سال محرم جب بھی آتاہے غالباً خاص سیاسی مقاصد کیلئے واقعاتِ کربلا کی رونے رُلانے والی بہت سی ایسی کہانیوں سے جلسوں تقریروں اور محافل کا رنگ جمایا جاتاہے ۔ اوراقِ تاریخ پر جن کا ثبوت سخت مخدوش اور مشکوک ہے کیونکہ جس راوی کے ذریعے ہماری تاریخ میں یہ رواج پاگئی ہیں۔ وہ ایک داستان گوابو مخنف لوط بن یحییٰ (متوفی ۱۷۵ھ) تھاجو ایک کٹر قسم کا دروغ گوغالی شیعہ بتایا جاتاہے جیسا کہ رجالِ حدیث اور بعض تاریخ کی کتابوں میں تفصیلاً موجود ہے۔

(میزان الاعتدال ص:۱۹، ج:۴طبع جدید ، لسان المیزان ، نیز دیکھئے الاصابہ ص:۱۷، ج:۲، والبدایہ والنہایہ ص:۲۰۲، ج:۸ وغیرہ )

اولاً تو اس موسم میں اس حادثے کا تذکرہ کوئی مفید نہیں۔ ثانیاً اگر ناگزیر ہوتو اتنا ہی کافی ہے جتنا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت ابو جعفر محمد باقر رحمہ اللہ جو حضرت زین العابدین علی بن حسین کے فرزندِ ارجمند اور اثناعشری شیعہ حضرات کے ایک ’’امام معصوم‘‘ ہیں کی زبانی تہذیب التہذیب آٹھویں صدی ہجری کے محدث حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی تالیف میں مذکور ہے۔اگرچہ حضرت باقر رحمہ اللہ خود اس حادثے کے وقت موجود نہ تھے۔ مگر ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنے والد محترم سے سنا ہوگا جو اول سے آخر تک اس میں موجود رہے اور تمام صورتِ حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔

بڑی خصوصیت اس روایت کی یہ ہے کہ بہت حد تک جذباتی رنگ آمیزی سے پاک اور مؤرخا نہ طرزِ بیان کی حامل ہے پھر یہ کہ ایسے شخص(جو خود اس کا راوی بھی ہے) کے اس سوال کے جواب میں ہے جو اہلِ بیت کی پارٹی کا ہے ۔ آپ مجھ سے واقعہ کربلا کو اس انداز سے بیان فرمائیے گویا کہ میں خود وہاں موجود ہوں۔

بنا بریں یہ نہیں ہوسکتا کہ حضرت موصوف نے کوئی ضروری بات چھوڑ دی ہو یا عقیدت کیش راوی نے اس میں کتر بیونت کی ہو غالباً یہی بات ہے کہ ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں اس روایت کا انتخاب کیا گیا اور واقعہ یہ ہے کہ اس سے اس حادثہ کے خدوخال نمایاں طور پر واضح ہوجاتے ہیں۔

روایت حضرت ابو جعفر باقر رحمہ اللہ

روایت کے راوی عمار دہنی نے کہا کہ میں نے محمد بن علی بن الحسین سے عرض کیا کہ آپ مجھ سے واقعہ قتلِ حسین رضی اللہ عنہ ایسے انداز سے بیان فرمائیں کہ گویا میں خود وہاں موجود تھا اور یہ سامنے ہورہا ہے اس پر حضرت محمد باقر رحمہ اللہ نے فرمایا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت ولید بن عتبہ بن ابی سفیان (سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھتیجا اور یزید کا چچیرا بھائی ) مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ ولید نے حسب دستور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجاتاکہ ان سے نئے امیر یزید کیلئے بیعت لیں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ سرِدست آپ سوچنے کی مہلت دیں اور اس بارے میں نرمی اختیار کریں ولید نے ان کو مہلت دے دی ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مہلت پاکر مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔

دریں اثنا جب کوفہ والوں کو اس کا پتہ چلا کہ حضرت تو مکہ مکرمہ پہنچ گئے ہیں تو انہوں نے اپنے قاصد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ کوفہ تشریف لے آئیں ہم اب آپ ہی کے ہوگئے ہیں۔ ہم لوگ یزید کی بیعت سے منحرف ہیں۔ ہم نے گورنر کوفہ کے پیچھے جمعہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت نعمان بن بشیر انصاری صیزید کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے جب اہلِ کوفہ کی طرف سے اس قسم کی درخواستیں آئیں تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل رحمہ اللہ علیہ کو کوفہ بھیجنے کا پروگرام بنایا تاکہ وہ کوفہ جائیں اور وہاں جاکر صورتِ حال کا اچھی طرح جائزہ لیں اگر اہلِ کوفہ کے بیانات صحیح ہوں تو خود بھی کوفہ پہنچ جائیں گے۔

حضرت مسلم رحمہ اللہ کی کوفہ کو روانگی

قرار داد کے مطابق حضرت مسلم رحمہ اللہ مکہ مکرمہ سے پہلے مدینہ منورہ پہنچے وہاں راستہ کی راہنمائی کیلئے دو آدمی ساتھ لیے اور کوفے کی طرف روانہ ہوگئے جس راستے سے وہ لے گئے اس میں ایک ایسا لق ودق میدان آگیا جس میں پانی نہ ملنے کے سبب پیاس سے دو چار ہوگئے چنانچہ اسی جگہ ایک راہنما انتقال کرگیا۔ اس صورتِ حال کے پیش آنے پر حضرت مسلم رحمہ اللہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھ کر کوفہ جانے سے معذرت چاہی لیکن حضرت ممدوح نے معذرت قبول کرنے سے انکار کردیا اور لکھا کہ آپ ضرور کوفہ جائیں ۔ بنابریں حضرت مسلم رحمہ اللہ کوفہ کی طرف چل دیے۔ وہاں پہنچ کر ایک شخص عوسجہ نامی کے گھر قیام فرمایا۔ جب اہل کوفہ میں حضرت مسلم رحمہ اللہ کی تشریف آوری کا چرچا ہوا تو وہ خفیہ طور پر ان کے ہاں پہنچے اور ان کے ہاتھ پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کیلئے بیعت کرنے لگے چنانچہ بارہ ہزار اشخاص نے بیعت کرلی۔دریں اثناء یزید کے ایک کارندے عبد اللہ بن مسلم بن شعبہ حضرمی کو اس کا پتہ چلا تو اس نے ساری کاروائی کی اطلاع جناب نعمان بن بشیرص گورنر کوفہ کودے دی اور ساتھ ہی کہا یا تو آپ واقعۃً کمزور ہیں یا کوفہ والوں نے آپ کو کمزور سمجھ رکھاہے۔دیکھتے نہیں کہ شہر کی صورت حال مخدوش ہورہی ہے ؟ اس پر حضرت نعمان رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ’’میری ایسی کمزوری جو بربنائے اطاعتِ الٰہی ہووہ مجھے اس قوت وطاقت سے زیادہ پسند ہے جو اس کی معصیت میں ہو مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ جس امر پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈالے رکھا ہے۔ خواہ مخواہ اس پردے کو فاش کروں اس پرعبد اللہ مذکور نے یہ سارا ماجرا یزید کو لکھ کر بھیج دیا۔ یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سرحون نامی کے اس بارے میں مشورہ لیا اس نے کہا اگر آپ کے والد زندہ ہوتے اور آپ کو کوئی مشورہ دیتے تو اسے قبول کرتے ، یزید نے کہا ضرور سرحون نے کہا تو پھر مشورہ یہ ہے کہ آپ کوفہ کی گورنری عبید اللہ بن زیاد کے سپرد کردیں۔ ادھر صورتحال ایسی تھی کہ ان دنوں یزید عبید اللہ مذکور پر ناراض تھا اور بصرہ کی گورنری سے بھی اس کو معزول کرنا چاہتا تھا مگر سرحون کے مشورے پر اس نے اظہار پسندیدگی کرتے ہوئے بصرہ کے ساتھ کوفے کی گورنری پر بھی عبید اللہ بن زیاد کو نامزد کردیا اور لکھ دیا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کو تلاش کرو اگر مل جائے تو اس کو قتل کردو۔

ابنِ زیاد کوفے میں اور افشائے راز

اس حکم کی بنا پر عبید اللہ بصرہ کے چند سرکردہ لوگوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ پہنچا کہ اس نے ڈھانٹا باندھ رکھا تھا تاکہ اسے کوئی پہچان نہ سکے وہ اہلِ کوفہ کی جس مجلس سے گزرتا اس پر سلام کہتا اور وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سمجھ کر وعلیک السلام یا ابن رسول اللہ (اے رسول اللہ  ﷺ کے بیٹے آپ پر بھی سلام) سے جواب دیتے اسی طرح سلام کہتا اور جواب لیتا ہوا وہ قصرِ امارت میں پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے ایک غلام کو تین ہزار درہم دئیے اور کہا تم جاکر اس شخص کا پتہ لگاؤ جو کوفے والوں سے بیعت لیتا ہے لیکن دیکھو تم خود کو ’’حمص‘‘ کا باشندہ ظاہر کرنا اور یہ کہنا کہ میں بیعت کرنے کیلئے آیا ہوں اور یہ رقم بھی پیش کرنا چاہتاہوں تاکہ اپنے مشن کی تکمیل میں اس کو صرف کریں چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بہ لطائف الحیل اس شخص تک اس کی رسائی ہوگئی جو بیعت لینے کا اہتمام کرتا تھا اور اس نے اپنے آنے کی اور امدادی رقم پیش کرنے کی سب بات کہہ ڈالی۔ اس نے کہا مجھے یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ تمہیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا لیکن یہ محسوس کرکے دکھ بھی ہورہا ہے کہ ہماری سکیم ابھی پختہ نہیں ہوئی تاہم وہ اس غلام کو حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کے ہاں لے گیا۔ حضرت مسلم رحمہ اللہ نے اس سے بیعت بھی لے لی اور رقم بھی اس سے قبول کرلی۔ اب وہ یہاں سے نکلا اور عبید اللہ بن زیاد کے پاس سیدھا پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلادیا۔ادھر حضرت مسلم رحمہ اللہ عبید اللہ کی کوفہ میں آمد کے بعد عوسجہ کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ مرادی کے مکان پر فروکش ہوئے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھ بھیجا کہ بارہ (۱۲) ہزار کی تعداد میں ہماری لوگوں نے بیعت کرلی ہے آپ کوفہ تشریف لے آئیں۔

اور یہاں یہ ہوا کہ جب عبید اللہ کو پتہ چل گیا کہ مسلم رحمہ اللہ ہانی کے مکان پر ہیں ، تو اس نے کوفے کے سرکردہ لوگوں سے کہا کہ کیا بات ہے ہانی میرے پاس نہیں آئے ؟ اس پر حاضرین سے ایک شخص محمد بن اشعث چند ہمراہیوں کے ساتھ ہانی کے ہاں گئے تو وہ اپنے دروازے پر موجود تھے۔ اشعث نے کہا کہ گورنر صاحب آپ کو یاد فرماتے ہیں اور آپ کے اب تک نہ حاضر ہونے کو بہت محسوس کرتے ہیں لہذا آپ کو چلنا چاہیے چنانچہ ان کے زور دینے پر ہانی ان کے ساتھ ہولیے اور وہ عبید اللہ کے پاس پہنچے اور اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیادہ کے پاس موجود تھے۔ ان سے مخاطب ہوکر اس نے کہا دیکھو ہانی کی چال کھوٹ کی مظہر ہے پھر اتنے میں وہ اس کے پاس آگیا تو کہا ہانی مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کہاں ہیں؟ اس نے کہا مجھے علم نہیں اس پر عبید اللہ نے تین ہزار روپے والے غلام کو اس کے سامنے کردیا۔ ہانی بالکل لاجواب ہوگئے البتہ اتنا کہا میں نے انہیں اپنے گھر بلایا نہیں وہ خودبخود میرے گھر آکر ٹھہر گئے ہیں۔ ابن زیاد نے کہا اچھا ان کو حاضر کرو۔ اس پر پس وپیش کیا تو ابن زیاد نے اپنے قریب بلوا کر اس کے زور سے چھڑی ماری جس سے ان کی بھویں پھٹ گئیں اس پر ہانی نے اس کے ایک محافظ سپاہی سے تلوار چھین کر عبید اللہ پر وار کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اس پر ابن زیاد نے یہ کہہ کر اب تمہارا خون حلال ہے۔ قصرِ امارت کے ایک حصے میں اس کوقید میں ڈال دیا۔

اس واقعے کی اطلاع ہانی کے قبیلے مذحج کو ہوئی تو انہوں نے قصرِ امارت پر یلغار بول دی ۔ عبید اللہ نے شور سنا اور پوچھا تو کہا گیا ہانی کا قبیلہ ان کو چھڑانے کیلئے چڑھ آیا ہے اس نے قاضی شریح کے ذریعے ان کو کہلایا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل کا پتہ کرنے اور بعض باتوں کی تحقیق کے لیے روک لیا گیا ہے۔ خطرے کی کوئی بات نہیں لیکن ساتھ ہی قاضی شریح پر بھی ایک غلام کو لگا دیا یہ معلوم کرنے کیلئے کہ وہ لوگوں سے کیا کہتے ہیں قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ہانی کے پاس سے گزرے تو اس نے قاضی صاحب سے کہا کہ میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا ابن زیاد میرے قتل کے درپے ہے تاہم قاضی شریح نے ہجوم کو ابن زیاد والی بات کہہ کر مطمئن کردیا اور لوگ بھی یہ سمجھ کر مطمئن ہوگئے کہ ہانی کو کوئی خطرہ نہیں۔

حضرت مسلم رحمہ اللہ کو جب ہنگامے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ سے کوفہ میں اعلان کرادیا۔ جس کے نتیجہ میں چالیس ہزار لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے جس کو انہوں نے باقاعدہ ایک فوجی دستہ کی شکل دے دی جس کا مقدمۃ الجیش میمنہ اور میسرہ وغیرہ سبھی کچھ تھا۔ خود حضرت مسلم رحمہ اللہ اس کے قلب میں ہوگئے اس طرح چالیس ہزار کا یہ لشکرِ جرار قصرِ امارت کی طرف روانہ ہوگیا۔ عبید اللہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اعیانِ کوفہ کو اپنے قصر میں بلایا جب یہ لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سردارانِ کوفہ نے اپنے اپنے قبیلے کو دیواروں کے اوپر سے گفتگو کرکے سمجھانا شروع کیا اب تو مسلم رحمہ اللہ کی فوج کے آدمی کھسکنے شروع ہوئے اور ہوتے ہوتے شام تک صرف پانچ سو رہ گئے حتی کہ رات کے اندھیرے تک وہ بھی اوجھل ہوگئے۔ جب مسلم رحمہ اللہ نے دیکھا کہ وہ تنہا رہ گئے ہیں تو وہ بھی وہاں سے چل پڑے راستہ میں ایک مکان کے دروازہ پر پہنچے تو ایک خاتون اندر سے آپ کی طرف نکلی تو آپ نے اس کو پانی پلانے کیلئے کہا تو اس نے پانی تو پلادیا لیکن اندر واپس چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر باہر آئی تو آپ کو دروازے پر دیکھ کر اس نے کہا اے اللہ کے بندے! آپ کا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے یہاں سے چلے جائیں۔ آپ نے کہا : میں مسلم بن عقیل ہوں کیا تم مجھے پناہ دوگی؟ اس نے کہا ہاں آجائیے آپ اندر چلے گئے۔ لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس عورت کا لڑکا محمد بن اشعث کا آزاد کردہ غلام تھا جب اس کو پتہ چلا کہ یہ مسلم بن عقیل ہیں تو اس نے محمد بن اشعث مذکور کو اطلاع دے دی جس نے فوراً عبید اللہ تک خبر پہنچائی جس نے اس کے ہمراہ پولیس روانہ کردی اور ان کو مسلم رحمہ اللہ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پولیس نے جاکر مکان کا محاصرہ کرلیا جبکہ مسلم کو خبر تک نہ ہوسکی تھی۔ اب خود کو انہوں نے محصور پایا تو تلوار سونت کر نکل آئے اور پولیس سے مقابلہ کی ٹھان لی۔ لیکن ابن اشعث نے ان کو روک کرکہا کہ میں ذمہ دارہوں آپ محفوظ رہیں گے۔ پس وہ مسلم کو ابن زیاد کے پاس پکڑ کر لے گئے۔ چنانچہ ابن زیاد کے حکم سے قصرِ امارت کی چھت پر لے جاکر مسلم رحمہ اللہ کو قتل کردیا گیا۔ (إنا للہ وإنا إلیہ راجعون)

اور ان کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی گئی نیز اس کے حکم سے ہانی کو کوڑے کرکٹ کی جگہ تک گھسیٹتے ہوئے لے جاکر سولی دے دی گئی ادھر تو کوفہ میں یہ تک ہوگیا تھا اور

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی روانگی کوفہ

ادھر مسلم رحمہ اللہ چونکہ خط لکھ چکے تھے کہ بارہ ہزار اہل کوفہ نے بیعت کرلی ہے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جلد از جلد تشریف لے آئیں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے تاآنکہ آپ قادسیہ سے صرف تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حُربن یزید تمیمی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے کو ملا اس نے کہا کہاں تشریف لے جارہے ہو آپ نے فرمایا کوفہ اس نے کہا  وہاںتوکسی خیر کی توقع نہیں۔ آپ کو یہاں سے ہی واپس ہوجانا چاہیے پھر کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم کے قتل کی پوری رُو داد آپ کو سنائی۔

سارا قصہ سن کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے تو واپسی کا ارادہ کرلیا لیکن مسلم رحمہ اللہ کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس جانے سے انکار کردیا کہ ہم مسلم رحمہ اللہ کا بدلہ لیں گے یا خود بھی مارے جائیں گے اس پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے بغیر میں جی کرکیا کروںگا۔ اب وہ سب کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے جب آپ کو ابنِ زیاد کی فوج کا ہراول دستہ نظر آیا تو آپ نے ’’کربلا‘‘ کا رخ کرلیا اور وہاں جاکر ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا جہاں ایک ہی طرف سے جنگ کی جا سکتی تھی چنانچہ خیمے نصب کر لیے۔ اس وقت آپ کے ساتھ پنتالیس سوار اور سو کے قریب پیدل تھے۔

دریں اثنا عبید اللہ نے عمر بن سعد کو جو کوفے کا گورنر تھا بلایا اور اس سے کہا اس شخص حسین رضی اللہ عنہ کے معاملے میں میری مدد کریں اس نے کہا مجھے تو معاف ہی رکھیے ۔ ابن زیاد نہ مانا۔ اس پر عمربن سعد نے کہا پھر ایک شب سوچنے کی مہلت تو دے دیجئے۔اس نے کہا ٹھیک ہے ، سوچ لو۔ ابن سعد نے رات بھر سوچنے کے بعد صبح کو آمادگی کی اطلاع دے دی۔

اب عمر بن سعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرا ہوا۔ حضرت نے اس کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ دیکھو تین باتوں میں سے ایک بات منظورکرلو یا تو مجھے کسی اسلامی سرحد پر چلے جانے دو یا مجھے موقع دو کہ میں براہِ راست یزید کے پاس پہنچ جاؤں اور یا پھر یہ کہ جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں۔

ابنِ سعد نے یہ تجویز خود منظور کرکے ابن زیاد کو بھیج دی۔ اس نے لکھا ہمیں یہ منظور نہیں۔ بس ایک ہی بات ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ (یزید کیلئے) میری بیعت کریں۔ ابن سعد نے یہی بات سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دی انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہوسکتا، اس پر آپس میں لڑائی چھڑگئی اور حضرت کے سب ساتھی (مظلومانہ) شہید ہوگئے جن میں دس سے کچھ اوپر نوجوان ان کے گھر کے تھے۔ اسی اثنا میں ایک تیر آیا جو حضرت کے چھوٹے بچے پر لگا جو گود میں تھا آپ رضی اللہ عنہ اس سے خون پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے۔ اے اللہ ہمارے اور ایسے لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے یہ لکھ کر ہمیں بلایا کہ ہم آپ کی مدد کریں گے پھر اب ہمیں قتل کررہے ہیں۔ اس کے بعد خود تلوار ہاتھ میں لی مردانہ وار مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔رضی اللہ عنہ اور یہ شخص جس کے ہاتھ سے حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے قبیلہ مذحج کا آدمی تھا اگرچہ اس بارے میں دوسرے اقوال بھی متعلقہ تاریخوں میں مذکور ہیں۔

مذحج ہانی کا وہی قبیلہ تھا جس نے قصرِ امارت پر چڑھائی کردی یہ شخص حضرت کا سرتن سے جدا کرکے ابنِ زیاد کے پاس لے گیا اس نے اس شخص کو آپ کا سرمبارک دے کر یزید کے پاس بھیج دیا جہاں جاکر یزید کے سامنے رکھ دیا گیا ادھر ابن سعد بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو لیکر ابن زیاد کے پاس پہنچ گیا اور ان کا صرف ایک لڑکا بچارہ گیا تھا اور وہ بچہ علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ تھے اور روایت کے راوی ابو جعفر الباقر کے والد تھے یہ عورتوں کے ساتھ اور بیمارتھے ابن زیاد نے حکم دیا اس بچے کو بھی قتل کردیا جائے اس پر ان کی پھوپھی زینب بنت علی اس کے اوپر گرپڑیں اور فرمایا کہ جب تک میں قتل نہ ہو جاؤں گی اس بچے کو قتل نہ ہونے دوں گی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں ابن زیاد نے اپنا یہ حکم واپس لے لیا اور بعدہ اسیرانِ جنگ کو یزید کے پاس بھیج دیا۔

جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بچے کھچے یہ افرادِ خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو چند درباریوں نے حسبِ دستور یزید کو تہنیتِ فتح پیش کی۔ ان میں سے ایک شخص نے یہاں تک جسارت کر ڈالی کہ ایک لڑکی کی طرف اشارہ کرکے کہا امیر المؤمنین ! یہ مجھے دے دیجئے۔ یہ سن کر حضرت زینب بنت علی نے کہا بخدا ! یہ نہیں ہوسکتا۔ بجز اس صورت کے کہ یزید دینِ الٰہی سے نکل جائے پھر اس شخص نے دوبارہ کہا تو یزید نے اسے ڈانٹ دیا۔ اس کے بعد یزید نے ان سب کو محل سرا میں بھیج دیا پھر ان کو تیار کراکے مدینہ روانہ کروادیا۔ جب یہ لوگ مدینے پہنچے تو خاندان عبد المطلب کی ایک عورت سر پیٹتی اور روتی ان سے ملنے آئی اور اس کی زبان پر یہ اشعار تھے۔

ماذا تقولون ان قال النبی  لکم
ماذا فعلتم وأنتم آخر الأمم
بعترتی وبأہلی بعد مفتقدی
منہم أُساریٰ وقتلی ضرجوا بدم
ماکان ہذا جزائی إذا نصحت لکم
ان تخلفونی بشر فی ذوی رحمی

جناب ابو جعفر باقر رحمہ اللہ کا بیان ختم ہوگیا ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ الاصابہ ص/۱۷،ج/۲۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں اس روایت کے بعد لکھتے ہیں ۔

وقد صنّف جماعۃ من القدماء فی مقتل الحسین تصانیف فیہا الغث والسمین والصحیح والسقیم وفی ہذہ القصۃ التی سقتہا غنی

یعنی چند تاریخ نویسوں نے مقتل حسین رضی اللہ عنہ کے بار ے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں جن میں رطب ویابس، غلط صحیح سب کچھ بھر دیا گیا ہے لیکن جس قدریہ قصہ میں نے ذکر کیا ہے یہی کافی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے