اسلام نے جہاں ہدایت ورشد کے قوانین وضع کیے ہیں وہاں لوگوں کی جسمانی حفاظت کے لیے بھی خاص قوانین وضع کیے جو ان کو تمام امراض سے محفوظ رکھتے ہیں ، اسلام کے ان قوانین کی امتیازی کیفیت یہ ہے کہ اس میں روح اور جسم دونوں کے فطری تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا ہے اور ان کے مابین ایک مضبو ربط قائم کیا جو مسلمانوں کو اپنے رب سے اور نزدیک کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے ۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو مثبت زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے اور جسمانی طور پر بیمار فرد کو اپنی ذات سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ زندگی کے مقاصد پر غوروفکر کرے اور اس انسانی فرض کی ادائیگی کر سکے جو رب العزت کی طرف سے اس پر عائد کیا گیا ہے اور وہ فرائض جو مسلم معاشرہ کے ایک فرد پر عائد ہوتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا ایک مفید شہری بن سکے ۔

مریض انسان کمزور ارادہ ، ضعف اعضاء ، مضطرب فکر اور انتشار اعضاء کا شکار ہوتا ہے جس سے اس کے معاشرہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا جبکہ مضبوط اور صحت مند افراد معاشرے کو اپنی ذات سے بھر پور فائدہ پہنچا سکتے ہیں اسی لیے دین اسلام نے جو لوگ جسمانی طاقت کے ساتھ سلیم النفس اور عمدہ اخلاق کے مالک ہوں ان کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :

سیدنا شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی زبان سے سیدنا موسی علیہ السلام کے متعلق توصیف بیان کی گئی ہے :

{یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِینُ}(القصص: ۲۶)

’’اے ابا جان آپ ان کو اجرت پر رکھ لیں کیونکہ اچھا ملازم وہ ہے جو مضبوط ہو اور امانت دار بھی ہو ‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد ہے جو اس امر پر دلالت کر تاہے کہ جسمانی طاقت قابل تعریف ہے ، سیدنا طالوت علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے :

{إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّہُ یُؤْتِی مُلْکَہُ مَنْ یَشَاء ُ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ}(البقرۃ: ۲۴۷)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقابلے میں ان کو منتخب فرمایاہے اور ان کو علم (سیاست )اور جسمانی طاقت زیادہ عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ وہ اپنا ملک جس کو چاہیں دیں اور اللہ تعالیٰ وسعت والے اور جاننے والے ہیں ‘

اس آیت میں بنی اسرائیل سے خطاب کیا گیا ہے اور طالوت کے انتخاب کی دو بڑی وجوہات بیان کی گئی ہیں ، ایک وسعت علم جس کے باعث  مثبت فکر اور تدبیر امور اور تیراندازی ہو سکتی ہے ، دوم : جسمانی اعتبار سے صحت مند ہونا صحت اور سوچ کے لیے لازم ملزوم ہے ۔

ایک حدیث میں بھی مضبوط اور جسمانی صحت کی تعریف کی گئی ہے :رسول اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا:

الْمُؤمِنُ القَوِیُّ خَیْرٌ وَأحَبُّ اِلَی اللہِ مِنَ الْمُؤمِنِ الضَّعِیْف وَفِی کُلِّ خَیْرٍ…(مسلم)

’’قوی مومن اللہ پاک کے نزدیک ضعیف کی نسبت محبوب اور بہترہے اوربھلائی ہر ایک میں ہے  ‘

اور اسلام کی جامعیت واکملیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں پر صحت کے و ہ اصول وقوانین فرض قرار دیئے جو عصر حاضر میں طب جدید نے امراض کے واقع ہونے سے قبل ان کی مدافعت کیلئے اساس وبنیاد تصور کرتی ہے اور اگر ایسے امراض پیدا ہو بھی جائیں تو ان سے بچت اور نجات حاصل کرنے کے لیے بھی قوانین وضع کیے گئے اور ان کے علاج کے ضمن میں مکمل ہدایات بیان کیں۔

امراض سے بچائو کے لیے قوانین مدافعت:

کسی بھی مرض کا بہترین علاج پرہیز میں مضمر ہے حفاظتی تدابیر پر مشتمل طب کا یہ پہلو ترقی یافتہ ممالک میں ایک باقاعدہ علم کی حیثیت سے نشوونما پارہا ہے اسلام نے ان حفاظتی تدابیر یا قوانین مدافعت کو درج ذیل تقسیم کے ساتھ بیان کیا ہے :

۱۔ عمومی صفائی

۲۔ کھانے پینے کی اشیاء میں صفائی۔

۳۔ صحت عامہ

۴۔ جسمانی ریاضت

ان قوانین سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے صحت کے حوالے سے تمام ممکنہ جوانب کا احاطہ کیا ہے جن کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی ۔

۱۔ عمومی صفائی :

اسلام نے صفائی کو بہت اہمیت دی ہے جیسا کہ ارشادات نبوی سے یہ امرظاہر ہوتا ہے ، فرمایا؛

الطہور شطر الایمان ۔

’’نظافت (صفائی ) ایمان کا جزو ہے ‘

غالبا نہیں بلکہ یقینا اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے اپنے متبعین کو صفائی کی اتنی شدت سے تاکید کی جس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ۔

اس کی وضاحت درج ذیل امور سے ہوتی ہے

وضو کا فائدہ:

اسلام نے نماز ادا کرنے سے پہلے وضولازمی قرار دیا ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُء ُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ}(المائدہ: ۶)

’’اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو دھوئو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوئو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو

رسول اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرائض وضو پر کلی کرنا ، ناک کی صفائی اور کانوں کا مسح ، ہاتھ اور پیر وں کی انگلیوں کے خلال کااضافہ کیا ہے ۔جب طہارت کا یہ عمل دن میں کم از کم پانچ بار دہرایا جائے تو اس کے مختصر فوائد یہ ہیں:

۱۔ آنکھیں مرض امد سے محفوظ رہیں گی جس میں آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں ، کیونکہ دن میں وہ کئی مرتبہ دھوئی جائیں گی ۔

۲۔ ناک کے نتھنوں کا دھلنا زکام سے بچائو میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔

۳۔ اسی طرح چہرے ، ہاتھوں اور دونوں کانوں کا دھلنا ان کو جلدی امراض اور سوزش پیدا کرنے والے امراض پیدا ہونے سے بچاتاہے ۔

غسل کا فائدہ:

اسلام نے طہارت کے حصول کیلئے غسل کو سب سے بڑا وسیلہ قرار دیا ہے جو ہر مردوعورت پر ازدواجی تعلقات کے بعد یا احتلام کے بعد فرض ہے ، قرآن مجید میں ارشاد رب العالمین ہے :

{وَاِنْ کُنْتُم جُنُباً فاَطَّہَّرُوا} (المائدہ:۶)

’’اگر تم جنبی ہو تو طہارت حاصل کرو

ازدواجی تعلقات کے بعد غسل سے مردو عورت دونوں اپنی جسمانی طاقت بحال کر لیتے ہیں اور اس غسل کا روحانی فائدہ یہ ہے کہ مسلمان روحانی طور پر بھی صفائی کی اس کیفیت سے گزرتاہے جو شہوانی غلبہ سے باز رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہوتاہے ۔

دانتوں کی صفائی :

بہت سے امراض اس بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں کہ دانتوں کی مناسب صفائی نہیں کی جاتی اور وہ جراثیم منہ کے ذریعے معدے میں چلے جاتے ہیں اور معدے اور جگر کے امراض کا سبب بنتے ہیں اس کا اسلام نے ایک مناسب حل تجویز کیا ہے کہ مسواک کی جائے اور اس پر اتنی تاکید فرمائی :

لَو لَا أنْ أشُقَّ عَلَی اُمَّتِی لأمَرْتُھُم بِسِواکٍ مَعَ کُلِّ صَلَاۃٍ۔ (متفق علیہ)

’’اگر میری امت پریہ عمل دشوارنہ گزرے تو میں ان کو حکم دیتا کہ ہر نماز سے قبل مسواک کریں

مسواک دراصل باریک ریشوں پر مشتمل لکڑی ہوتی ہے جسے دانتوں کی صفائی کیلئے استعمال کیا جاتاہے اور جس کا کوئی نعم البدل جدید سائنس آج تک نہیں دے سکی کیونکہ مختلف مسواک میں بعض سریع الزوال تیل اور مفید اجزاء کا خلاصہ اور معدنی نمکیات پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے مسواک کے مسلسل استعمال کے بعد بے شمار امراض سے بچائو ممکن ہو جاتاہے ، کیونکہ دانتوں کی صفائی نہ کرنے سے چند جراثیم پیدا ہوتے ہیں جن میں زہریلے مادے پیدا ہوجاتے ہیں ان کو جب جسم چوستاہے تو بہت سارے امراض پیدا ہوتے ہیں۔اسی طرح برش کا استعمال بھی اسی غرض سے کیا جاتاہے ۔

ناخنوں اور بالوں کا کاٹنا:

اسلام نے جسمانی صحت کے حوالے سے کوئی پہلو نظر انداز نہیں کیالہذا جسمانی صفائی کو مدنظر رکھتے ہوئے جسم سے زائد بالوں کا مونڈنا اور ناخن کٹوانے کا حکم دیا ہے ، رسول اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم  کا ارشاد ہے :

پانچ اشیاء فطری واجبا ت میں سے ہیں ، زیر ناف بال صاف کرنا ، ختنہ کرانا ، مونچھوں کا کاٹنا ، بغل کے بال صاف کرنا اور ناخن کٹوانا۔

فطرت سے مراد سنت ہے جس پر عمل کرنا گویا اپنی طبعی حالت میں واپس آنا ہے بعض نے فطرت سے مراد دین لیا ہے لیکن اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زیر ناف بال کی مستقل صفائی سے بعض جنسی امراض سے یقینی بچائو ممکن ہوتاہے اور جنسی افعال میں اضافہ بھی ہوتا ہے، ختنہ کرانے سے بعض جنسی امراض سے بچائو ممکن ہو تا ہے کہ ختنہ نہ کرانے سے صفائی کا عمل ناممکن ہو جاتاہے ، مونچھوں کو کٹوانے سے ان امراض سے بچائو حاصل ہو تا ہے جو کھانے پینے کی اشیاء کا مونچھوں سے لگنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اسی طرح بغل کے بال جو ایک بند جگہ پرہوتے ہیں صفائی کے نہ ہونے کی وجہ سے امراض کا سبب بنتے ہیں اسی طرح ناخن کٹوانا ،نہ کٹوانے کی صورت میں ناخنوں میں مضر جراثیم جنم لیتے ہیں جو کھانے پینے کی غذائوں کے ساتھ جسم میں داخل ہوتے ہیں اور مہلک امراض کا سبب بنتے ہیں

نجاست سے طہارت حاصل کرنا:

اسلام نے ہر مضر جراثیم شدہ چیز کو نجس قرار دیاہے جس سے کوئی بیماری جنم لے سکتی ہو ، اس سے طہارت وصفائی حاصل کرنے کا حکم ایک سے زائد مقامات پر آیاہے ۔ اس میں کپڑوں کی پاکیزگی جو عبادات میں فرض ہے ۔

وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ۔ (المدثر:۴)

ــ’’اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو

یہ امر قابل غور ہے کہ اسلام نے اسے پانی سے طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا جو نہ صرف طاہر ہو یعنی پاک ہو بلکہ مطہر بھی ہو یعنی پاک کرنے والا کیونکہ بعض مائعات طاہر تو ہوتے ہیں لیکن مطہر نہیں ہوتے مثلاً: کولڈ ڈرنک یا دیگر مشروب وغیرہ۔

مطہر پانی کی کچھ صفات بھی مقرر کی گئی ہیں۔ جن میں تبدیلی کی صورت میں پاک کرنے والا وصف ختم ہو جاتاہے مثلا کسی پانی میں رنگ ، بواور ذائقہ میں سے کسی ایک امر کی تبدیلی اسے اس وصف سے خارج کر دیتی ہے ۔بلکہ اسلام میں طہارت حاصل کرنے کی اس قدر تاکید فرمائی گئی ہے کہ اگر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لے اور اس کے ساتھ اس قدر احتیاط کا قائل ہے کہ طہارت حاصل کرتے وقت بایاں ہاتھ استعمال ہو کیونکہ دایاں ہاتھ کھانا کھانے اور مصافحہ کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔

ا رشاد رسول معظم  صلی اللہ علیہ و سلم  ہے :

’’جب تم میں سے کوئی پانی پیے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلاء جائے تو اپنے عضو کو نہ دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے اور اپنے دائیں ہاتھ سے صفائی نہ کرے۔ (بخاری)

بلکہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اس کو تین بار نہ دھو لے کیونکہ تم میں سے کسی کو پتہ نہیں کہ اس کے ہاتھ کس جگہ پر لگتا رہتا ہے ۔

کھانے اور پینے کی اشیاء میں صفائی:

انسانی صحت کا دارومدار اس امر پر ہے کہ وہ جو اشیاء بطور غذا استعمال کر رہا ہے وہ پاک ہوں ، ناپاک نہ ہوں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوا لِلَّہِ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ (172) إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیرِ وَمَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللَّہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ} (البقرہ:۱۷۲۔ ۱۷۳)

اے ایمان والو ! جو پاک چیزیں ہم نے تم کو عطا کی ہیں ان میں سے جو چاہو کھائو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو تو ، اللہ تعالیٰ نے تم پر صرف ان چیزوں کو حرام قرار دیاہے جو مردار ہیں ، بہتا ہوا خون اورخنزیر کا گوشت اور ایسے جانور جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیے گئے ہوں ۔

۱۔ مردا ر جانور : ایسا جانور جو طبعی موت یا کسی حاد ثہ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر گیا ہو کیونکہ طبعی موت اسباب کے ساتھ واقع ہوتی ہے جس کی وجہ مضر جراثیم کا اس کے گوشت میں باقی رہنا ہے کیونکہ یہ بات تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ مردار جانور کا گوشت آگ کے ذریعے بھی ذبح کیے گئے جانور کی خاصیت حاصل نہیں کر سکتا اور اگر جانور بوڑھا تھا تو ایسے گوشت کا ہضم ہونا اورغذائی افادیت کا کم ہو نا صاف ظاہر ہے جو بعض اوقات معدے پر بوجھ بنتاہے ۔  (جاری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے