ماہ محرم اور مروجہ بدعات و رسومات 

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 إِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثنَا عَشَرَ شَہراً فِی کِتَابِ اللّہِ یَومَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالارضَ مِنہَا اَربَعَةٌ حُرُم ذَلِکَ الدِّینُ القَیِّمُ فَلاَ تَظلِمُوا فِیہِنَّ اَنفُسَکُم﴿ (سورة التوبة آیت36 )

 مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہے۔ اسی دن سے جب سے اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ ان میں چار مہینے ادب و احترام والے ہیں ۔ یہی سیدھا و درست دین ہے ۔ تم ان مہینوں میں اپنی جانوںپر ظلم نہ کرو “۔

 مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ جن میں سے چار حرمت والے ہیں اس بات کی وضاحت نبی کریم نے یوں فرمائی :

 ”زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے زمانہ گردش میں ہے ۔ سال بارہ مہینوں کا ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔ تین مسلسل ہیں ۔ ذوالقعدة،ذوالحجة اور محرم جبکہ ایک مہینہ رجب ہے“۔ ( صحیح البخاری (3197) صحیح مسلم ( 4383)

 ان مہینوں کو حرمت والا اس ليے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام سے جو فتنہ و فساد اور امن عامہ کی خرابی کا باعث ہو ، بالخصوص منع فرمادیاہے۔ مثلا آپس میں لڑائی جھگڑا اور ظلم و زیادتی وغیرہ نافرمانی کے کام کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع کیا گیاہے ۔ ان حرمت والے مہینوں میں قتال کرکے ان کی حرمت پامال کرکے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب نہ کرو۔ ہاں اگر کفار ان مہینوں میں بھی تمہیں لڑنے پر مجبور کردیں تو لڑائی کرنا درست ہی نہیں بلکہ فرض بھی ہے ۔

 محرم الحرام کی فضیلت

 ماہ محرم الحرام اسلامی سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد نبی کریم کے واقعہ ہجرت پر ہے ۔ اس اسلامی سن کا تقرر اور آغاز استعمال 18ہجری میں عمر فاروق  رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا ۔ اس لحاظ سے یہ مہینہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شھادت حسین رضی اللہ عنہ کا اس مہینے کی حرمت سے کوئی تعلق ہے ؟ خیال رہے کہ اس مہینے کی حرمت کا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ  کے واقعہ شہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ اس لئے قابل احترام ہے کہ اس میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ دلگداز پیش آیا۔ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ یہ واقعہ شہادت تو نبی کریم کی وفات سے پچاس سال بعد پیش آیا جبکہ اس بات سے ہر مسلمان بخوبی واقف ہے کہ دین اسلام نبی کریم کی زندگی ہی میں مکمل ہوگیا تھا۔ فرمان الہی ہے :

  الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم ا لاسلام دینا ( المائدہ : 3 )

آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیااور تم پر اپنا انعام کامل کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا ہوں “۔

تکمیل دین کے بعد کوئی ایسا کام کرنا جس کا نہ تو شریعت اسلامیہ سے کوئی تعلق ہو اور نہ نبی کریم سے کوئی نسبت ہو ، سراسر غلط اور ناجائز ہے۔ اس لئے یہ تصور اس آیتِ قرآنی کے سراسر خلاف ہے ۔ پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اور واقعہ شہادت پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کی شہادت کا واقعہ، اگر بعد میں ہونے والی شہادتوں کی شرعاً کوئی حیثیت ہوتی تو شہادتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس لائق تھی کہ اہل اسلام ا س کا اعتبارکرتے۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یاد منائی جاتی جبکہ یہ تمام واقعات تکمیلِ دین کے بعد پیش آئے ہیں ۔ نہ تو نبی ا کا یومِ وفات صحابہ نے کبھی منایا اور نہ باقی خلفاءو صحابہ کا یومِ شہادت منایاگیا۔ اس لئے ان شخصیات کی یاد میں مجالس عزا مخصوص کرنادین میں اضافہ کرنا ہے جس کی قطعاً اجازت نہیں۔

 محرم الحرام میں مسنون عمل

 ماہ محرم میں مسنون عمل بالخصوص روزے ہیں۔ نبی کریم کا معمول تھا کہ آپ ماہِ محرم میں بکثرت روزے رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس مہینے میں روزے رکھنے کی ترغیب دلاتے جیسا کہ حدیث نبوی میںرمضان کے علاوہ نفلی روزوں میں محرم کے روزوں کو افضل قرار دیا گیاہے فرمان نبوی ہے

افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم 

ماہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔ ( صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل صوم المحرم ( حدیث : 1163 ۔ (3755)

 عاشوراءمحرم کے روزے کی فضیلت

 ان رسول اللہ ا قدم المدینة فوجد الیھود صیاما یوم عاشوراءفقال لھم رسول اللہ ا ما ھذا الیوم الذی تصومونہ؟ فقالوا ھذا یوم عظیم انجی اللہ فیہ موسی و قومہ و غرق فرعون و قومہ فصامہ موسی شکرا فنحن نصومہ فقال رسول اللہ ا فنحن احق و اولی بموسی منکم، فصامہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم وأمر بصیامہ۔

عبد اللہ بن عباس ص روایت کرتے ہیں کہ  ”نبی کریم مدینہ تشریف لائے تو یہود کو عاشورا ء (دس محرم ) کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ نے ان سے کہا :یہ کونسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو۔ انہوں نے کہا: یہ بڑا عظیم دن ہے۔ اللہ نے اس دن موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی۔ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیاتو موسی علیہ السلام  نے شکرانے کے طورپر روزہ رکھا ۔ اس لئے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں ۔ تو نبی کریم نے فرمایا ہم تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور موسی عليه السلام کے زیادہ قریب ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ نے اس دن روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم فرمایا“۔( صحیح مسلم) بالخصوص یوم عاشوراءکی فضیلت بتلاتے ہوئے فرمایا : یکفر السنة الماضیة پچھلے ایک سال صغیرہ کے گناہوں کو مٹادیتاہے۔ (مسلم)

 لیکن بعد میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کوخبر ملی کہ یہود اب بھی اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : لئن بقیت الی قابل لأصومن التاسع ”اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو میں ضرور 9 تاریخ کاروزہ رکھوںگا“(صحیح مسلم 1134) لیکن آئندہ محرم سے پہلے ہی آپ صلى الله عليه وسلم اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

 حدیث لئن بقیت الی قابل کے راوی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول مصنف عبد الرزاق اور بیہقی میں موجود ہے جس سے یہی مفہوم بنتا ہے کہ 9اور 10 محرم دون  روزہ رکھناچاہئے۔

(1)  10 محرم کا روزہ آپ صلى الله عليه وسلم نے سیدنا موسی علیہ السلام کے نجات پانے کی خوشی میں رکھاتھا اور صحیح حدیث میں واضح طورپر اعلان کیا فنحن أحق و أولی بموسی منکم اور اس امر سے آپ کی دستبرداری مروی نہیںلہذا اس اعتبار سے10محرم کا روزہ بہر حال مسنون ہے۔

(2) کسی دن کی تاریخی حیثیت کو بدلا نہیں جاسکتا بصورت دیگر اس کی مقررہ فضیلت و ثواب سے محروم ہونا لازم آتاہے ۔

 قابل عمل صورت :

 عاشوراءمحرم کے روزے سے فیضیاب ہونے والے کے ليے درج ذیل صورت قابل عمل ہے ۔ عاشوراء( دس محرم کے روزے سے پہلے 9 محرم کا روزہ ۔ یہ افضل صورت ہے یا 10 محرم کے ساتھ 11 محرم کا روزہ یا 9۔ 10 اور 11 محرم پے در پے تین روزے رکھ ليے جائیں۔

ماہ محرم میں مروجہ بدعات و رسومات

 واقعہ کربلا نبی کریم کی وفات اور دین محمدی کی تکمیل کے تقریباً 50 سال بعد پیش آیا۔ یہ ایک تاریخی سانحہ ہے لیکن واقعہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے شیطان کو بدعتوں اور ضلالتوں کے پھیلانے کا موقع مل گیا، چنانچہ کچھ لوگ ماہ محرم کا چاند نظر آتے ہی اور بالخصوص دس محرم میں نام نہاد محبت کی بنیاد پر سیاہ کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ سیاہ جھنڈے بلند کرتے ہیں۔ نوحہ و ماتم کرتے ہیں ۔ تعزیے اور تابوت بناتے ہیں۔ منہ پیٹتے اور روتے چلاتے ہیں۔ بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔ ننگے پاؤں پھرتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی، جوتا نہیں پہنتے۔ نوحے اور مرثیے پڑھتے ہیں۔ عورتیں بدن سے زیورات اتاردیتی ہیں۔ ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں ۔ زنجیروں اور چھریوں سے خود کو زخمی کیا جاتاہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شہداءکی نیاز کا شربت بنایا جاتاہے۔ پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔ ( حالانکہ اس دن روزہ رکھنانبی کا مسنون اور افضل عمل ہے ) عاشوراءمحرم کے دوران شادی و خوشی کی تقاریب نہ کرنا(جبکہ شریعت محمدی میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ورنہ باقی سارا سال بھی دیگر جید صحابہ کی شہادت کے سوگ مناتے گزرجائے گا)، شہادت کا سوگ ہر سال منانا، یہی نہیں بلکہ عظیم صحابہ و اسلاف کو گالیاں دینا، طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا اور دیگر مختلف قسم کی خود ساختہ خرافات،  ان صحابہ واسلاف کی طرف منسوب کرنا اور ان بے گناہ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لینا جو دین اسلام کے اولین راوی ہیں، جن کے بغیر دین اسلام کا کوئی شعبہ مکمل نہیں ہوتا، جنہیں واقعات کربلاسے دور و نزدیک کا بھی کوئی تعلق نہیںتھا۔پھر واقعہ کربلا کی جو کتابیں پڑھی جاتیں ہیں ، وہ زیادہ تر اکاذیب و اباطیل کامجموعہ ہیں جن کا مقصد فتنہ و فساد کے نئے دروازے کھولنا اور امت میں پھوٹ ڈالناہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام بدعات و خرافات ایک خاص مذہب کی ترویج و تبلیغ اور اس کو سہارا دینے کے لئے ایک سوچی سمجھی پلاننگ کا نتیجہ ہیں جن کی ادائیگی میںامن عامہ قائم نہیں رہ سکتا جیسا کہ سب جانتے ہیں ، اسلام امن و آشتی کا دین ہے ۔ دیکھا دیکھی، ہمارے اہل سنت بھائیوںنے بھی اس نسبت سے ایسے کام شروع کردئیے جن کا شریعت اسلامیہ میں کوئی وجود نہیں ، جو سراسر بدعات و ضلالت پر مبنی امور ہیں، جن کی دین اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ یہ حضرات اپنے زعم میں اس مہینے کا احترام کرتے ہوئے اس کے تقدس و احترام کو پامال کر دیتے ہیں اور ثواب حاصل کرنے کے بجائے گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں اور گنہگار بن کر اللہ اور اس کے رسول کے نافرمانوں کی لسٹ میںاپنا نام درج کروالیتے ہیں ۔

 ماہ محرم الحرام میں عام دستور و رواج کے مطابق شہادت حسین رضی اللہ عنہ اور واقعات کربلا کے حوالہ سے ، بازاروں دوکانوں ، ریڈیو، ٹی وی اور دیگر مجالس میں لوگوں کے سامنے مکذوبہ، موضوعہ اور ضعیف من گھڑت خود ساختہ داستانیں اور قصے بڑی رنگ آمیزی سے بیان کئے جاتے ہیں جس میں وہ خود بھی روتے ہیں اور سننے والوں کو بھی رلاتے ہیں۔سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کربلا کا فسانہ اور شہید مظلوم کی خود ساختہ داستانیں اور ان پر پانی بند ہونے کے جھوٹے قصے لوگوںکو سنتے سناتے ہیں، وہی محرم کے مہینے شربت کے مٹکے اور قسم قسم کے گانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ شہادت تو ایک انمول اعزاز کو کہتے ہیں جس پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ فائز ہوئے۔ شہید زندہ ہوتا ہے نہ کہ مردہ ۔

 ہمارے بہت سے سنی بھائی ،بہن رافضی حضرات کی دیکھا دیکھی بھی اور کچھ ان کے وسیع پروپیگنڈے کے شکار ہوکر بھی درج ذیل بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں ۔

1۔ مجالس شہادت:جن میں سنی عوام گریہ وزاری کا وہی منظر پیش کرتے ہیں جو مجالس روافض سے زیادہ مختلف نہیں ہوتا ۔

 2۔ ویڈیو،ٹی وی اور دیگر مجالس میں سنے گئے نوحے اور مرثیے پڑھتے ہیں ۔

 3۔ محرم کی دس تاریخ کو چولہے اوندھے کردئیے جاتے ہیں ۔

4۔ نو بیاہی عورتیں یوم عاشوراءاپنے اپنے میکے میں گزارتی ہیں۔

5 ۔ زیورات کا پہننا شہادت حسین رضی اللہ عنہ  کے غم میں ترک کردیتی ہیں ۔

 اس کے علاوہ توہم پرست لوگوں نے اور بھی بہت سے باطل خیال قائم کر لئے ہیں ۔ مثلا مہینہ کے پہلے دس دنوں میں اگر کوئی اپنی بیوی سے ہم بستری کرے گا تو اولاد منحوس ہوگی یا ناقص العقل ہوگی ۔ شادی ہوتو مبارک نہ ہوگی ۔ کچھ اس قسم کا خیا ل عرب کے جاہل لوگوں کا تھا۔ ماہ شوال کو منحوس سمجھتے اور اس میں شادی نہیں کرتے تھے۔ نبی کریم نے ان کے اس خیال باطل کو توڑنے کے لئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی ماہ شوال میں کی اور رخصتی بھی اسی مہینے میں ہوئی ۔ اسلام میں اس قسم کی مشقتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ دوسری طرف ایسے حضرات کو عاشوراءمحرم کے دوران شادیاں بھی کرنی چاہئیں اسلام میں کسی بھی شخص کی موت یا شہادت پر تین دن سے زیادہ کا سوگ نہیں ‘ما سوائے بیوہ عورتوں کے ‘ وہ اپنے خاوندوںکی اموات و شہادت پر چار ماہ دس دن سوگ کے لئے زیب  و زینت کو ترک کرتی ہیں لیکن اس سوگ کا ہر سال اعادہ نہیں کرتیں ۔

 ماہ محرم کے حوالہ سے ایک اور کام جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ہے ، کجیاں ، ٹھوٹھیاں بھرناہے، معلوم نہیں اس چیز کا شہادت حسین رضی اللہ عنہ  سے کیا تعلق و رشتہ ہے ۔ دس محرم کا سورج طلوع ہوتے ہی عورتیں اور مرد ان کجیوں میں لسی یا دودھ ڈالتے ہیں۔ ٹھوٹھیوں میں حلوہ یا کھیر بھرتے ہیں اور بچوں میں بانٹنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ حضرات مٹی کے کچے پیالے لے کر ان میں کھیر ڈال کر بانٹتے ہیں۔ کچھ حلیم کی دیگیں پکا کر تقسیم کرتے ہیں۔

ماہ محرم میں ایک اور خلاف شرع کام یہ کیا جاتا ہے کہ محرم کے آغاز سے ہی قبروں کی لیپا پوتی کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ جوں جوں10 محرم قریب آتا جاتا ہے قبرستانوں کی رونق میں اضافہ ہوجاتاہے۔ 10محرم کا سورج طلوع ہوتے ہی لوگ جوان بہو، بیٹیوں کو لے کر قبرستانوں کی جانب نکل پڑتے ہیں۔ پھولوں اور اگربتیوںکے سٹال لگائے جاتے ہیں۔ قبروں کی لیپا پوتی کی جاتی ہے۔ ان پر مرد و زن اکٹھے مٹی ڈالتے ہیں جس سے کئی ایک غیر شرعی قباحتیں لازم آتی ہیں مثلاً بے پردگی،محرم کے بغیر گھر سے نکلنا وغیرہ۔ پھر مٹی ڈالنے کے بعد قبر پر کھڑے ہوکر شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے اگر کوئی مٹی ڈالنے کے بعد شیرینی تقسیم نہ کرے تو قبر والے پر بوجھ رہتاہے ۔

 یہ سب من گھڑت اور بدعات و خرافات پر مبنی افعال ہیں ۔ قبروں کی زیارت کا حکم تو نبی صلى الله عليه وسلم نے اس ليے دیا ہے کہ اس سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی رہے،اگر وہاںپر اس قدر پر رونق سما ںپیدا کیا جائے تو بلا شبہ یہ شرعی مقصد فوت ہوجاتاہے ۔اور شریعت اسلامیہ نے قبروں کی زیارت کے ليے کوئی خاص دن بھی مقرر نہیں کیا لہذا کسی خاص دن زیارت کو مقید کردینا بھی شریعت اسلامیہ کے منافی عمل ہے ۔ خستہ قبر کو درست تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے کوئی دن مقرر کرنا یا انہیں پختہ کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں ۔ دنیا میں جنت البقیع بہترین قبرستان ہے ۔ دور نبوی یا دور صحابہ رضی اللہ عنہم میں کبھی وہاں دس محرم کو اس طرح میلہ نہیں لگایا گیا اور نہ مٹی اور پھول ڈالنے کا اہتمام کیا گیا۔

 رسومات محرم پر علمائے سلف کا تبصرہ :

1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  فرماتے ہیں :

” اے بنی آدم تم نے اسلام کو بدل ڈالنے والی بہت سی رسمیں اپنا رکھی ہیں مثلا تم دسویں محرم کو باطل قسم کے اجتماع کرتے ہو ۔ کئی لوگوں نے اس دن کو نوحہ و ماتم کا دن بنالیا ہے حالانکہ اللہ تعالی کی مشیت سے حادثے ہمیشہ رونما ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اس دن ( مظلوم شہید کے طورپر ) قتل کئے گئے تو وہ کونسا دن ہے جس میں کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک بندہ فوت نہیں ہوا ( لیکن تعجب کی بات ہے کہ ) انہوں نے اس سانحہ شہادت مظلومانہ کو کھیل کود کی چیز بنالیا ۔ تم نے ماتم کو عید کے تہوار کی طرح بنالیا ۔ گویا اس دن زیادہ کھانا پینا فرض ہے اور نمازوں کا تمہیں کوئی خیال نہیں جو فرض عین ہے ۔ ان کو تم نے ضائع کردیا ۔ یہ لوگ انہی من گھڑت کاموں میں مشغول رہتے ہیں ۔ نمازوں کی توفیق ان کو ملتی ہی نہیں“ ۔

( بحوالہ تفہیمات الالہیہ ۱تفہیم ۹۶ ۸۸۲ طبع حیدر آباد سندھ 1970ء)

2 ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ۴۵۳ھ کے واقعات میں ماتمی جلوسوں کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:

                                                                                    ”یہ ( ماتمی مجالس وغیرہ) کی رسمیں اسلام میں ان کی کوئی ضرورت نہیں واقعة اگریہ اچھی چیز ہوتی تو خیر القرون اور اس امت کے ابتدائی اور بہتر لوگ اس کو ضرور کرتے ۔ وہ اس کے سب سے زیادہ اہل تھے ۔ ( بات یہ ہے ) کہ اہل سنت ( سنت نبوی کی ) اقتداءکرتے ہیں ۔ اپنی طرف سے بدعتیں نہیں گھڑتے ۔ “( البدایہ والنہایہ ۱۱ ۱۷۲ )

 شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صراط مستقیم صفحہ ۹۵ پر تحریر فرمایا ہے:

 ”( فارسی عبارت کا خلاصہ یہ ہے ) پاک و ہند میں تعزیہ سازی کی جو بدعت رائج ہے یہ شرک تک پہنچادیتی ہے کیونکہ تعزیہ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی قبر کی شبیہ بنائی جاتی ہے اور پھر اس کو سجدہ کیا جاتا ہے اور وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جو بت پرست اپنے بتوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اور ان معانی میں یہ پورے طورپر بت پرستی ہے ۔ ( اعاذنا اللہ منہ ) “

3۔ امام احمد رضا خان صاحب بریلوی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ۔

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و خلفائے مرسلین مسئلہ ذیل کے بارے میں 1۔ بعض اہل سنت و جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں اور کہتے ہیں بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ 2۔ ان دس دنوں میں کپڑے نہیں بدلتے ۔ 3۔ ماہ محرم میں کوئی شادی بیاہ نہیں کرتے 4۔ ان ایام میں سوائے امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے کسی کی نیاز فاتحہ نہیں دلاتے ۔ یہ جائز ہے یا ناجائز۔ ( بینوا توجروا )

 جواب : پہلی تینوں باتیں سوگ ہیں سوگ حرام ہے اور چوتھی بات جہالت ہے ۔ واللہ تعالی اعلم  ( حوالہ احکام شریعت مسئلہ نمبر150۔ محرم الحرام ( 1328ھ)

 دعوتِ فکر:

 مکرم و محترم قارئین ! یہ قانون فطرت ہے کہ ہر ایک چیز کو فنا ہونا ہے اور ہر ایک متنفس کو موت کا منظر دیکھنا ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں خواہ کوئی نبی ہو یا ولی ۔

لیکن بعض اموات ایسی ہولناک اور پریشان کن ہوتی ہیں کہ جن کے حزن و ملال کی داستان الفاظ سے نہیں بیان کی جاسکتی اور ایسے اندوہناک حادثات کے احساس و شعور کو تعبیر کرنے سے زبان و قلم عاجز ہوتے ہیں ۔ صرف ایک ہی حکم ہے جس سے ان احساسات کی تعبیر ممکن ہے اور وہ یہ کلمہ ہے جسے مسلمان اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں ایسے موقعوں پر بار بار دہراتے ہیں ۔ اور وہ یہ ہے۔اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یعنی اس صدمہ کے احساسات کو تعبیر کرنے اور اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے جل شانہ نے ایک نسخہ کیمیا بتایا ہے جس میں انسانی زندگی کی حقیقت مضمر ہے کہ انسان کی آمد و رفت تمام کچھ اللہ ہی کے لئے ہے ۔ لیکن افسوس! بعض نفس پرست لوگوں نے اللہ کے اس بتائے ہوے نسخے کو چھوڑکر اپنے زخموں کی مرہم کرنے کے لئے نئے نئے طریقے ایجاد کرلئے ہیں ۔ ان متفرق طریقوں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ محبت اور غلو عقیدت یا مکر و فریب اور دھوکہ دہی کی وجہ سے سینہ کوبی اور ماتم وغیرہ شروع کردیتے ہیں او راپنے جسم اور جسم کے بالو ں کو نوچنا اور اپنے گریبانوں کو چاک کرنا اپنا علاج سمجھتے ہیں اور بآواز بلند نوحہ کرنے اور آوازکسنے واویلا کرنے میں اپنی شفا تصور کرتے ہیں حالانکہ یہ تمام چیزیں اسلام میں ممنوع اور حرام ہیں لیکن اس کے باوجود بھی بعض لوگ انہی میں اپنی شفا سمجھتے ہیں ۔ اور اس کو اپنے ليے باعث افتخار اور خاص شعار سمجھتے ہیں ۔در حقیقت یہ سب کچھ اسلام سے دوری اور پہلوتہی کا نتیجہ ہے اور پھر اس انسان پر جس کی موت بھی شہادت کی موت ہو اور اس پر متزاد یہ کہ اس کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت مل چکی ہو اور بشارت بھی اس درجہ کی کہ کسی اور کے نصیب بھی نہ ہو اور پھر اس انسان پر جس نے اپنی تمام زندگی خرافات کے قلع قمع کرنے میں گزاری ہو اور مرتے دم بھی زبان پر ان کے خلاف ہی الفاظ ہوں اس کی موت پر ایسا کرنا کسی منصف مزاج انسان کے نزدیک اس کے ساتھ محبت والفت کا طریقہ نہیں ہوسکتا بلکہ عدل و انصاف کے منافی اور اس پر زیادتی ہے ۔ جبکہ ان سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے ہم وہ کام کریں جو وہ کرتے تھے ۔ بقول شاعر

 لو کنت صادقا فی حبہ لاطعتہ  ان المحب لمن یحب مطیع

 اگر تجھے اپنے محبوب سے سچی محبت ہوتی تو اس کی باتیں مانتا کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا اطاعت گزار ہوتاہے ۔

 محترم قارئین ! اگر ہماری محبت واقعی سچی اور مبنی بر خلوص ہے تو چاہئیے کہ ان کی باتیں مانی جائیں ۔ وہ کام کئیے جائیں جو وہ پسند کرتے تھے۔ نماز سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی محبوب ترین چیز تھی ۔ انہوںنے ساری زندگی باقاعدگی سے نماز ادا کی ۔ نماز ترک کرنا تو در کنار کبھی نماز کی ادائیگی میں ذرا سی سستی و کاہلی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا نہ کسی سے دھوکہ کیا ،انہوں نے داڑھی بھی سنت کے مطابق رکھی ہوئی تھی۔سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تقوی کے اعلی معیار پر فائز تھے ۔ خشیت الہی ان میں کوٹ کوٹ کر بھر ی ہوئی تھی غرض یہ کہ انہوں نے زندگی بھر اللہ اور اس کے رسول ا کی اطاعت کی کبھی خلاف ورزی اور نافرمانی کا سوچا بھی نہیں لیکن ہم تمام کاموں سے عاری ہیں ہماری زندگیاں روز مرہ کے معمولات بالکل ان کی زندگی کے بر عکس ہیں اور یہاں ہم ایک دوسرے پر فتوے لگاتے ہیں اور ان کی محبت کے کھوکھلے دعوے کرتے ہیں ۔ ان کی محبت میں بڑے بڑے عظیم و بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے حالانکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بذات خود اپنی پوری زندگی صحابہ رضی اللہ عنہم تو درکنار ،کسی عام آدمی سے بھی ہتک آمیز سلوک نہیں کیا ۔ ایک طرف تو اتنے بڑے بڑے دعوے اور دوسری طرف زندگیوں میں اتنا تفاوت ‘یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ ہم ہیں کہ اس قسم کی رسومات ، بدعات خرافات و اختراعات میں اپنا وقت مال اور وسائل برباد کر رہے ہیں جبکہ دین اسلام کے دشمن تو ہر وقت اسلام اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے لئے طرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں ۔ ہوناتو یہ چاہئیے کہ ہم سب اتحاد و یگانگت کی ایسی مثال پیش کریں کہ دشمن پر ہماری دھاک بیٹھ جائے لیکن ہم میں ان جذبات کا تا حال فقدان ہے ۔

 آج ہم سب کو مل کر یہ ثابت کر دینے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اللہ ا ور اسکے رسول ، تمام صحابہ ، تمام خلفائے راشدین اور اہل بیت سے سچی محبت ہے ۔

آخر میں اللہ عز وجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مہینے کا حقیقی احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور فضول رسومات اور بدعات و خرافات سے ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے