آج کل ذرائع ابلاغ کے ذریعے شہرو ں اور دیہاتوں میں بھرپور پروپیگنڈہ کر کے عوام اور مسلمان قوم کو یہ تاکید کی جا رہی ہے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کر کے کم بچے پیدا کریں اور اپنے گھر اور ملک کو خوشحال بنائیں۔جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو انسان بھی دنیا میں آتا ہے اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے نہ کہ انسان کے ہاتھ میں ۔ بلکہ انسان تو اس قدر گناہ گار اور سیاہ کار ہوتا ہے کہ وہ تو اس قابل ہی نہیں ہوتا کہ اسے رزق دیا جائے۔ اسے جو رزق ملتا ہے وہ بھی اس معصوم بچوں کی وجہ سے ملتا ہے ، تو کیا بچوں کی پیدائش روکنے اور خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے ؟

اسلام میں ضبط تولید کے لیے بأمر مجبوری احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔ مگر مغرب کی بے لگام تہذیب کے پیش نظر ایسا کرنا جائزنہیں۔ وہ اس کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ مثلا معاشی مسائل۔ معاشرتی ذمہ داریوں سے بچنا اور فحاشی پھیلانا۔ ظاہر ہے کہ یہ سوچ اسلامی شریعت اور مزاج کی مخالف ہے۔ وہ کہتے ہیں آبادی بڑھنے سے لوگ بھوکے مریں گے۔ معاشرتی واقتصادی مسائل پیدا ہوں گے جن پر قابو پانا ناممکن ہو گا۔ جس کی کچھ جھلک آج دیکھی جا سکتی ہے۔ ہم یہ عرض کریں گے کہ معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل یہ نہیں کہ آپ آبادی پر کنٹرول کریں گے۔ آخر کچھ نہ کچھ لوگ تو بچیں گے اور جب تک یہ ظالمانہ جاگیرداری وسرمایہ داری نظام کا منحوس سایہ یہاں رہے گا فتنہ وفساد کا بازار گرم رہے گا۔ لوگوں کی غربت کا سبب یہ نہیں کہ آبادی زیادہ ہے اور وسائل رزق کم ہیں۔ ہرگز نہیں۔ آج جو وسائل رزق دنیا کو حاصل ہیں، ان کا عشر عشیر بھی پہلے لوگوں کو حاصل نہ تھا۔ آج کے متوسط آمدنی والے انسان کو زندگی کی جوآسائشیں حاصل ہیں وہ پہلے زمانے کے امیر کبیر لوگوں نے خواب میں بھی کبھی دیکھی نہ ہوں گی۔ واقعہ یہ ہے کہ قدرت کے خزانوں میں کمی نہیں۔ وسائل رزق بہت زیادہ ہیں لیکن فرعون وقارون کے جانشین۔ سرمایہ دار۔ جاگیردار اور مٹھی بھر عیاش طبقہ ان وسائل رزق پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ خود درجنوں بچے جنتے ہیں اور غریبوں کو ’’بچے کم اور خوشحال گھرانہ‘‘ کی گیت سناتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سود، جوا، رشوت ،حرام خوری اور دوسرے ناجائز طریقوں سے جو قومی دولت انہوں نے لوٹی ہے وہ ان سے چھین کر محروم طبقوں میں منصفانہ طور پر تقسیم کی جائے۔ ان کو سادہ زندگی کا خوگر بنایا جائے۔ اور ان کی فضول خرچیوں سے قومی سرمایہ بچا کر عوام کی پسماندگی دور کرنے پر صرف کیا جائے۔ یہاں تو المیہ یہ کہ وہ زمین جو خالق کائنات نے تمام لوگوں کے لئے پیدا فرمائی، اس پر 10 فیصد جاگیردار قابض ہے۔ 90 فیصد عوام اس کے غلام اور دست نگر ہیں۔ یہ محنت کرنے کو اپنے لئے حرام جانتے ہیں۔ دوسروں کی محنت کا استحصال کرتے ہیں ۔بقول علامہ اقبال مرحوم

بریشم قبا خواجہ از محنت او

نصیب تتش و جامہ تار تارے

ــ’’وہ ریشمی قبائیں تیار کرتا ہے۔مگر خود پھٹے کپڑے پہننے کے لیے مجبور ہے۔‘‘

یہی طبقہ صنعت، تجارت اور اعلی ملازمتوں پر قابض ہے۔ اور دھڑا دھڑ بچے پیدا کرتا ہے۔ جن کی صحیح تعلیم نہ تربیت۔ جیسے ماحول میں وہ بچے پرورش پاتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ بچے بچپن سے ہی مغرور، متکبر، ظالم، عیاش اور بدمعاش ہوتے ہیں اور سیاست وحکومت، اقتصاد ومعاش ان کے قبضہ میں ہے۔ ذرائع نشرواشاعت ان کے پاس، خزانہ پولیس اور فوج سب ان کے ہاتھ میں ظلم وجور عیاشیوں اور بددیانتوں کے نت نئے ریکارڈ قائم نہ ہوں تو کیا ہو۔

خاندانی منصوبہ بندی کی  عام حالات میں ہرگز اجازت نہیں ہے اور نہ ہی قانونی طورپر اسے رائج کیا جاسکتا ہے۔جہاں تک آبادی کے اضافے کی دلیل کا تعلق ہے تو یہ اسلام میں قابل قبول نہیں۔ رزق اور پیداوار کے اصل ذرائع اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ انسانوں کو ان اسباب و ذرائع کو تلاش کرنے اور محنت کرنے کی تلقین کی گئی ہے نہ کہ آبادی پر کنٹرول کرنے کی۔ رزق کی کمی کے خوف سے اولاد کو قتل کرنا یا کسی نفس کے دنیا میں آنے سے روکنے کی کوشش کرنا اس کی نص قرآنی سے حرمت ثابت ہے۔ اس لئے کہ یہ مومن کے بنیادی عقیدہ توحیدربوبیت رب العالمین کے خلاف ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کے خالق حقیقی اور رازق کامل ہونا کی نفی ہوتی ہےجیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے

: وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ

’اپنی اولادوں کو رزق میں کمی کے ڈر سے قتل نہ کرو اور انہیں رزق تو ہم دینے والے ہیں۔‘‘ (انعام:151) دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ

’’اپنی اولادوں کو قتل نہ کرو رزق میں کمی کے خوف سے ’انہیں بھی اور تمہیں بھی رزق ہم دیتے ہیں۔‘‘ (اسراء:31)پھر فرمایا :

هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

’کیا اللہ کے سوا کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سےرزق دے۔ ‘‘(فاطر:3) مزید فرمایا :

 أَمَّنْ هَذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ

’اگر وہ رزق روک لے تو تمہیں رزق کون دے گا۔‘‘ (الملک:21)

یہ اور اس طرح کی متعدد آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رزق کے خوف سے اولاد کے بارے میں کوئی پابندی جائز نہیں۔ بلکہ یہ سوچ ہی بنیادی اسلامی عقیدے کے خلاف ہے۔انسانی آبادی کے اضافے اور قدرتی وسائل وذرائع کے درمیان برابری نہ آپ کے ذمے ہے اور نہ ہی یہ انسان کے بس میں ہے ۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ قدرتی وسائل محدود ہیں۔ اللہ کی زمین میں انسانی ضروریات کے لئے لامحدود وسائل ہیں۔ علم و فن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان وسائل کی دریافت بھی ہورہی ہے ۔ انسان اور خاص طور پر مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ آبادی پر کنٹرول کے طریقے معلوم کرنے اور اس پر محنت کرنے کی بجائے قدرتی وسائل کی دریافت اور ذرائع رزق کے حصول کے لئے اپنی علمی و فنی صلاحیتیں صرف کریں۔ اس میں قدرت کا کوئی قصور نہیں اگر انسان اللہ کی نعمتوں کو تلاش ہی نہیں کرتا چند ممالک یا چند افراد اگر دولت اور ذرائع پیداوار پر قبضہ کرلیتےہیں اور باقی بھوکے مرنے لگ جاتےہیں تو اس ظلم کےخلاف آواز بلند کرنا اور اس سے نجات حاصل کرنا بھی انسانوں کا فرض ہے ۔ یہ تو خالص مغربی یہودی سرمایہ دار انہ نظام کی چال ہےکہ ساری دنیا کا سرمایہ سمیٹ کر اپنے قبضے میں کرلو اور پھر غریبوں کی غربت دور کرنے کےلئے خاندانی منصوبہ بندی کا ڈھونگ رچادو۔نس بندی کےبارےمیں بھی یہی حکم ہے کہ کسی عذر اور مجبوری کے بغیر ہرگز جائز نہیں اور اگر اولاد کی پیدائش کی وجہ سے ماں کی زندگی خطرے میں پڑنے کا خدشہ ہے یا کوئی دوسری خطرناک بیماری لگ سکتی ہے تو ایسی صورت میں نس بندی بھی جائز ہے ۔ مگر محض آبادی میں اضافے کے خوف یا رزق میں کمی کے ڈر سے ان میں سے کوئی شکل بھی جائز نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودرضي الله عنه سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اکرم صادق و مصدوق نے بتایا کہ

  إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ(صحیح بخاری،حدیث:3208)

تمہاری پیدائش کا سلسلہ یوں ہے کہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن نطفہ ٹھہرتا ہے’پھر وہ خون کا لوتھڑابنتا ہے’چالیس دن اسی حالت میں رہتا ہے ’پھر گوشت کا ٹکڑا بنتا ہے اور چالیس دن اسی حالت میں رہتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے وہ چار باتوں کا حکم لے کر آتا ہے۔رزق ’عمل’موت اور شقی یا سعید ہونے کا پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔‘‘ امام ابن کثیررحمہ اللہ نے ابن ابی حاتم اور ابن جریر کے حوالے سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ جو ں ہی نطفہ رحم میں ٹھہرتا ہے تو چالیس دن یا پینتالیس دن کے بعد فرشتہ آتا ہے اور عمر’رزق’اور لڑکا یا لڑکی ہونے جیسے معاملات اللہ کے حکم سے لکھ دیتا ہے بعض روایات میں چار ماہ کا ذکر آیا ہے کہ چار ماہ کے بعد روح پھونک دی جاتی ہے۔

بہرحال چونکہ نطفے کے استقرار کے ساتھ ہی زندگی کےاعمال کا آغاز ہوجاتا ہے اس لئے اس کا علم ہونے کے بعد اسقاط کرنا جائز نہیں ہوگا چاہے چالیس دن گزریں چاہے یا چار ماہ۔ اس لئے کہ مذکورہ روایا ت کی روشنی میں زندگی کی شروعات قطرے سے ہی شروع ہوجاتی ہیں۔

آج دنیا میں ایسے ممالک ہیں بلکہ ایسے افراد ہیں کہ صرف ایک کی دولت اورپیداوار سے ساری دنیا کے غریبوں کی مدد کی جاسکتی ہے اور پھر ان کی برابری کی کوششیں بھی کس قدر ناقص ہیں۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ آبادی بہت زیادہ ہوگئی ہے اس لئے دنیا کو بھوک سے بچانے کے لئے اس پر کنٹرول کیا جائے اور پھر کچھ عرصے بعد کہتے ہیں کہ آبادی میں بہت کمی ہوتی جارہی ہے اس لئے بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں برطانوی اخبارات میں یورپین پارلیمنٹ کی طرف سے یہ اپیل شائع ہوئی ہے کہ بچوں کی شرح پیدائش میں اضافہ کیا جائے اور اب یہ کہنا پڑا کہ

A NATION WITH OUT ENOUGH CHILDREN WOULD BE A SAD NATION

بعض جرائد میں یہ خبریں شائع ہوئی ہیں کہ یورپین پارلیمنٹ نے یورپ میں بچوں کی شرح پیدائش میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس لئے ہم آبادی پر کنٹرول یا برابری کے ان انسانی ضابطوں پر نہ یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔اسلام میں اس کا حل یہی ہے کہ ذرائع پیداوار کے تلاش کرنے اور اس کی منصفانہ تقسیم کے لئے بھرپور جدوجہد کی جائے۔ کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے انفرادی طور پر برتھ کنٹرول یا اس کی منصوبہ بندی کے لئے عورت اور مرد کوئی بھی ایسا طریقہ استعمال کرسکتے ہیں جو ان کی صحت کے لئے نقصان دہ نہ ہو۔ ایسی گولیاں یا کوئی دوسرا طریقہ استعمال نہیں کیا جاسکتا جو عورت کی صحت پر منفی اثرات ڈالے۔

پاکستان کی آبادی اس مطلوب تعداد سے بہت کم رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا‘ جب 1958ء میں دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی برتھ کنٹرول کا پروگرام امریکہ کی امداد سے شروع کیا گیا تھا۔ یہاں تک اس میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں تک بیرونی امداد سے دی جاتی تھیں۔ ایک بہت بڑی این جی او پاپولیشن پلاننگ آف پاکستان وجود میں آئی تھی جسے بے تحاشہ غیر ملکی فنڈز میسر تھے۔ تقریباً 25 سال تک یہ پروگرام بہت زور شور سے چلا۔ لیکن 25 سال بعد اس کو مدد دینے والے ممالک کو یہ احساس ہوا کہ ہم جس تیسری دنیا خصوصاً مسلمان ممالک کی آبادی کم کرنا چاہتے تھے‘ وہ تو اس معاملے میں بہت سست ہیں لیکن یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک آبادی کی کمی کے بحران کا شکار ہو چکے ہیں اور خطرہ ہے کہ ایک دن ان کی نسل ہی معدوم نہ ہو جائے۔ اس سے مغربی دنیا کو ایک شدید خطرہ محسوس ہونے لگا کہ ویران یورپ کے شہروں کو ایشیا اور افریقہ کے لوگ آ کر آباد کریں گے‘ وہ نوجوان بھی ہوں گے اور کارآمد بھی جبکہ یورپ والے بوڑھے بھی ہوں گے اور ناکارہ بھی اس خطرے کا فوری تدارک ضروری تھا۔ مشہور کسنجر پالیسی تھی کہ “We have to strategically reduce muslim population if possible, and Militarily if necossary.” ’’ہمیں مسلمانوں کی آبادی میں ایک حکمت عملی کے ساتھ کمی لانا ہوگی اور اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو پھر ہمیں فوج کا استعمال کرنا ہوگا۔‘‘ اس خطرے کی بو سونگھتے ہی وہ تمام مسلمان ممالک جہاں آبادی میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی وہاں کسی نہ کسی بہانے جنگ چھیڑ دی گئی۔ عراق‘ افغانستان‘ شام‘ مصر‘ لیبیا‘ سوڈان‘ یمن وہ ممالک ہیں جہاں آبادی 2.50 فیصد سے زیادہ شرح سے بڑھ رہی تھی۔ وہاں ایسی آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی کہ شہر کے شہر ویران کردیئے گئے۔ افریقہ میں خانہ جنگیوں کو فروغ دیا گیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے وہاں زرعی وسائل پر قبضہ کر کے قحط تحفے میں دیا گیا۔ اب یہ لوگ مطمئن تھے کہ یہ سب لوگ اپنے اپنے دکھوں میں الجھ گئے ہیں‘ موت ان کے دروازوں پر رقص کر رہی ہے لیکن گزشتہ دس سال سے پاکستان ان منصوبہ سازوں کی نظروں میں کھٹکتا تھا۔ روز اس بات پر بحث ہوتی کہ یہاں ساٹھ فیصد سے زیادہ نوجوان ہیں۔ یہ شدت پسند ہو گئے تو دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ فرقہ واریت‘ لسانیت اور دہشت گرد کا بیج بویا گیا۔ اڑتالیس غیر ملکی سفارت خانوں نے این جی اوز کو مدد فراہم کی لیکن یہ کیا بائیس کروڑ ہی سے صرف 75ہزار کی جانیں گئیں۔ سر جوڑ کر بیٹھ گئے‘ کیا کریں۔ ایٹمی ملک ہے اس پر جنگ بھی مسلط نہیں کی جا سکتی‘ یہ تو عالمی خطرہ بن جائے گا۔ پاکستان کے بارے میں دنیا واپس 1958ء میں لوٹ گئی‘ جب سی آئی اے نے آبادی کے کنٹرول کا پروگرام جان ہاپکنز انسٹیٹیوٹ سے شروع کروایا تھاجبکہ مغرب اور مغرب کے الہ کاروں کو سمجھنا چاہیے کہ سائنس کے اصولوں کے مطابق آبادی میں اضافہ ٹیکنالوجی میں اضافے کو جنم دیتا ہے۔ انسانی تاریخ کے آغاز میں آٹھ مربع میل کا رقبہ جسے انسان شکار کے لئے استعمال کرتا تھا وہ بہت تھوڑے انسانوں کی کفالت کر سکتا تھا۔ لیکن جب انسان نے آبادی کے فروغ سے مجبور ہو کر زراعت کاری کی تکنیک دریافت کر لی تو وہی آٹھ مربع میل کا رقبہ سینکڑوں گنا زیادہ آبادی کے لئے کفیل ہو گیا۔ پھر زرعی ٹیکنالوجی نے زیادہ آبادی پیدا کی تو زیادہ آبادی نے صنعتی ٹیکنالوجی کو پیدا کر کے مزید آبادی کی کفالت کی گنجائش پیدا کر لی۔ ٹیکنالوجی سے وسائلِ حیات کو ترقی ملتی ہے۔ اور آج وہ دور ہے کہ مالتھوس کے نظریہ کے خلاف وسائل کے فروغ کے لئے ٹیکنالوجی کی ترقی میں اضافے کی شرح ۱، ۲، ۴، ۸، ۱۶، … کے حساب سے آبادی کے اضافے کے راست متناسب ہو چکی ہے۔ یہ آبادی کا اضافہ ہی ہے کہ جو ٹیکنالوجی کی طلب میں اضافہ کر تا ہے۔ اور دوسری طرف یہ ٹیکنالوجی کا اضافہ ہی ہے جو اپنی ضروریات کے لئے آبادی میں اضافے کو جنم دیتا ہے۔ یہ ارتقا کا بنیادی قانون ہے کہ آبادی، وسائل اور ٹیکنالوجی ایک توازن سے دوسرے توازن اور دوسرے سے تیسرے کی طرف لڑھکتے رہتے ہیں۔ جب کوئلہ ختم ہو گیا تو تیل آ گیا۔ تیل کم ہوا تو ایٹمی توانائی آ گئی۔ ایٹمی توانائی میں کمی آئی تو شمسی توانائی آ گئی۔ جب کپڑے کے لئے روئی کم ہو گئی تو کپڑا بنانے کے لئے مصنوئی دھاگہ آ گیا۔ جب گھی کم ہوا تو مصنوعی گھی آ گیا۔ آج انسانی غذا کے کتنی اجزا مثلاً کاربوہائڈریٹس، وٹامنز، روغنیات، اور پروٹین وغیرہ مصنوعی طور پر تیار ہو رہے ہیں۔ آج جنیٹکانجینئرنگ نے اناج اور گوشت کے ذخیروں میں کتنے گنا اضافہ کیا ہے۔ ڈیری فارمنگ، ماہی پروری، مرغ بانی کی صنعتیں کتنی ترقی کر چلی ہیں۔ یہ سب ٹیکنالوجی کے کمالات اور خود ٹیکنالوجی انسانی آبادی میں اضافے کا کمال ہے۔ انسانی محنت کا ذخیرہ جتنا بڑا ہو گا، مشینی ترقی اُتنی ہی زیادہ ہو گی۔ ترقی یافتہ اقوام نے پسماندہ دنیا کی محنت استعمال میں لا کر مشینی ترقی میں اضافہ کیا ہے کیونکہ یہ محنت ہی ہے جو مشینوں کی صورت میں مادی روپ دھار لیتی ہے۔

یہ محنت ہی ہے جس سے مشینوں کو فیڈکر کے پیداوار میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ محنت ہی ہے جو ٹیکنالوجی کو بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ آج دنیا نے ٹیکنالوجی میں جتنی ترقی کی ہے اگر دنیا کی آبادی نصف کر دیں تو ترقی بھی نصف رہ جائے کیونکہ جب صارفین ختم ہو جائیں تو تجارتی آمدنی ختم ہو جائے۔ اگر تجارتی آمدنی ختم ہو جائے تو ٹیکنالوجی کی تحقیق کے لئے فنڈز ختم ہو جائیں۔ اگر فنڈز ختم ہو جائیں تو ٹیکنالوجی کا ارتقا ختم ہو جائے گا۔ دنیا کی آبادی میں اضافہ نہ ہوتا تو دنیا میں کوئی سماجی انقلاب نہ آتا۔ دنیا میں آزادی کی طرف سفر ممکن نہ ہوتا۔ خوب سے خوب تر کے مزے نہ ہوتے۔ جدید زمانہ ٹیکنالوجی کے انقلاب کا زمانہ ہے۔ ٹیکنالوجی نے جو سفر پہلے زمانے میں صدیوں میں طے کئے اب وہ دہائیوں میں طے ہو رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی شرحِ نمو آبادی کی شرحِ نمو سے آگے نکل رہی ہے۔ ٹیکنالوجی وسائل کی شرحِ نمو میں تیزی لا رہی ہے۔ ٹیکنالوجی اور وسائل کی شرحِ نمو اگر آبادی کو پیچھے چھوڑ دے تو یہ خود سائنسی ارتقا کے زوال کی علامت ہو گی۔ ٹیکنالوجی کے ارتقا نے کتنے جانوروں کے بوجھ سے وسائلِ حیات کو ہلکا کر دیاہے۔ یہ سب وسائل اب انسان کے لئے بچا لئے گئے ہیں۔ نیوکلیئر، جینیٹکس، الیکٹرونکس، لیزر، کمپیوٹر اور خلائی ٹیکنالوجی سے نئے وسائل کیلئے اب کتنی راہیں روشن ہو چکی ہیں۔ آبادی کے مسائل میں الجھاؤ غلط سیاست کی پیداوار ہے۔ سیاست میں حاکمانہ رعب ودبدبہ کے لئے دوسروں کو دبانے، کسنے اور کچلنے کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ وسائل پر حاکمانہ تسلط اور دوسروں کی محرومی سے اپنی بڑائی کو ناپنا کلچر کے بُرے دنوں کی نشانیاں ہیں۔ آج کے دور میں بچوں اور بوڑھوں کو سٹیٹ پراپرٹی قرار دے کر عظیم مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بچوں کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ اور سستی سے سستی تعلیم کا اہتمام ریاست کا فریضہ ہے اور بوڑھوں کو تحفظ فراہم کر کے عوام میں تحفظ کا احساس پیدا کرنا، کہ عدم تحفظ کے احساسات کے زیرِ سایہ پرورش پانے والے جلب زر اور نفسا نفسی کے رجحانات سے نجات حاصل کر کے ملک کو صنعتی امن فراہم ہو سکے۔

اسلام میں غربت کا حل :

سرمایہ دارانہ نظام یاپھرکمیونزم دونوںنے غربت کا حل اورطریقہ کار پیش کیاہے لیکن دونوں میں افراط وتفریط موجود ہے ۔یعنی دونوں دوانتہائوں پر کھڑے ہیں ،درمیان کی اعتدال وتواز ن والی راہ کسی نے اختیار نہیں کی۔ کمیونسٹ ملک نے اگرفرد کی آزادی چھین کر اس کو مکمل طورپر معاشرہ اورسماج کے تابع کردیا توسرمایہ دارانہ نظام میں فرد کی آزادی کو اتنی اہمیت دی گئی کہ معاشرہ کے اجتماعی مصالح اورفوائد بھی اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔جب کہ اسلام نے دونوں انتہائوں سے بچتے ہوئے درمیان کی راہ اختیار کی ہے اوراس کی تعلیم ہے کہ فرد کی آزادی ضرور اہم ہے لیکن اجتماعی فوائد اورمصالح کے آگے دوسرے لفظوں میں اگرمعاشرہ اورفرد کے مفاد میں ٹکرائو ہوگا تو معاشرہ کے مفاد کو ترجیح دی جائے گی۔ آج جدید دور میں اگرآزادی کا تصور یہ ہے کہ تم وہیں تک آزاد ہو جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔تواسلام میں فرد کی آزادی کاتصور بھی یہی ہے کہ اس کی آزادی بھی وہیں تک ہے جہاں سے معاشرہ کااجتماعی مفاد شروع ہورہاہے۔ اسلام نے دولت کی گردش رواں رکھنے ،وسائل وذرائع پر اجاردہ داری کو ختم کرنے اورغریبوں کی حالت کوبہتر بنانے کیلئے کچھ تعلیمات دی ہیں کچھ طریقہ کار بتائے ہیں آئیے ان کاجائزہ لیتے ہیں۔

1نظام زکوٰ ة:ہروہ شخص جوصاحب نصاب ہے۔ یعنی جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولہ سونا یااس کی مالیت ضروری اشیاء ،گھراورسواری وغیرہ کے علاوہ ہے تو وہ اپنی سال کی آمدنی کا ڈھائی فیصد اللہ کے راستے میں خرچ کرے۔ یعنی اگرکسی کے پاس ایک لاکھ روپے ہیں تو وہ ڈھائی ہزار اللہ کے راستے میں نکالے اورغریبوں ومسکینوں پر خرچ کرے۔ زکوٰة کی رقم کس کس کو دی جاسکتی ہے اوراس کے مستحقین کون ہیں اس کی تفصیلات اسلامی کتب میں موجود ہیں۔

نظام زکوة سے دوبنیادی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔

 نمبرایک مال گردش میں رہتاہے۔ یعنی اگر کسی کے پاس ایک کڑور ہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ڈھائی لاکھ روپے کی زکوة نکالے ۔اسی طرح مالیت جس قدر بڑھتی جائے گی ۔زکوٰة کی رقم کا تناسب بھی بڑھتاجائے گا۔اس طرح دیکھیں تو مال کی بڑی مقدار سالانہ طورپر گردش میں رہتی ہے۔

دوسرے غریبوں اورمسکینوں کی مدد ہوتی ہے۔ان کی مالی معاونت کرکے ان کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچایاجاتاہے۔ (اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی نظام حکومت ختم ہونے سے زکوة کا نظام بری طرح متاثر ہواہے یعنی ایک مرکزی بیت المال کے تحت زکوٰة کی رقم لی جائے اورپھر منظم طورپر غریبوں کو دیاجائے۔

اگرہم عرب ممالک کوچھوڑدیں اورپاکستان کی بات کریں تو غیرسرکاری اندازہ کے مطابق یہاں 22کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ اگرمان لیں کہ صرف چار کروڑ مسلمان ایسے ہیں جو زکوٰة دے سکتے ہیں اورہرمسلمان صرف تین کروڑ ہی زکوٰة دے سکتاہے تو اندازہ لگائیں کہ کتنی بڑی رقم اکھٹی ہوسکتی ہے اوراگرمنظم طورپر زکوٰة کی رقم کی تقسیم کا انتظام کیاجائے توپاکستان کی معاشی حالت کتنی جلد سدھرسکتی ہے اورپسماندہ طبقات سے زیادہ پسماندگی کا جوروناہم روتے ہیں اورحکومت کے سامنے بھیک کے کٹورے

لے کر گڑگڑاتے ہیں اس کی قطعاکوئی ضرورت نہ پڑے لیکن چونکہ صدیوں کے زوال کے بعد ہم نے اچھے کام بھی غیر منظم انداز میں کرنے لگے ہیں ہراک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنارکھی ہے نتیجہ یہ ہے کہ زکوْة کے نظام سے جوفائدہ پہنچناچاہئے اس سے مسلم معاشرہ عمومی طورپر محروم ہے۔

2نظام خیرات:اسلام نے زکوٰة کو لازمی کرنے کے علاوہ اس کی تاکید کی ہے کہ ہرمسلمان اپنی آمدنی میں سے کچھ رقم غریبوں اورمسکینوں کو دے، ان کی حاجت روائی کرے، ان کی ضرورت میں کام آئے، غریبوں کو باہنربنانایاان کو روزگار کیلئے رقم دینے کا کام زکوٰة کے ذریعہ بھی کیاجاسکتاہے لیکن اس میں مستحقین کو ہی شامل  کرناہوگا۔جب کہ خیرات کے ذریعہ عمومی طورپر ہرایک کی مدد کی جاسکتی ہے چاہے وہ کسی بھی حیثیت کاہو۔سب سے بڑاطریقہ کار یہ ہے کہ ایسے افراد جو بے روزگار ہیں لیکن تعلیم یافتہ ہیں اورکچھ کرنے کاجذبہ رکھتے ہیں توان کوایسے افراد جن کے پاس سرمایہ ہیں لیکن کاروبار کیلئے وقت نہیں یاپھر اس کا تجربہ نہیں وہ ان تعلیم یافتہ بے روزگارافراد کو نفع میں شریک بناکر معاشرہ کا ایک بڑامسئلہ حل کرسکتے ہیںاسلام میں اس کومضاربت کے نام سے جاناجاتاہے یعنی ایک جانب سے محنت اوردوسری جانب سے سرمایہ ہو۔ اگرایمانداری اوردیانت داری سے کیاجائے توکوئی بعید نہیں کہ اس سے نہ صرف بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوگا بلکہ مسلمان تجارت کے میدان میں بھی اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑیں گے۔ شرط یہ ہے کہ دونوں فریق ایمانداری برتے اوراپنے شریک کے سرمایہ یاپھرمحنت کے استحصال کرنے کا ذہن نہ بنالے۔

3نظام میراث: ایسانہ صرف ممکن ہے بلکہ تجربہ ومشاہدہ ہے کہ اگرکسی ایک شخص کو تجارت میں کامیابی ملتی ہے تورفتہ رفتہ اسی خاندان میں دولت کے انبار لگ جاتے ہیں۔اس کے مرنے کے بعد اس کی دولت محض بیٹوں تک محدود کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے دولت پر کچھ افراد کا ہی قبضہ برقراررہتاہے۔ اسلام نے اس تصور کونظام میراث کے ذریعہ ختم کیاہے ۔اسلام نے میراث کاپورانظام قائم کیاکہ اگرکسی فردکاانتقال ہوتاہے تواس کے اولین وارث کون کون ہوں گے۔ ان کی غیرموجودگی میں بقیہ کون کون وارث ہوں گے۔ واضح رہے کہ اسلام نے شوہر وبیوی کو بھی میراث میں حق دار بنایاہے۔ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دیاہے۔ مرنے والے کے ماں باپ کو بھی حصہ دیاہے اورمرنے والے کو اختیار دیاہے کہ وہ اگرچاہے تو کسی کے حق میں تہائی مال کی وصیت کرسکتاہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نظام میراث بے توجہی کا شکار ہے۔ دیندار گھرانے بھی اس سے غفلت برتتے ہیں۔جس کی وجہ سے دولت کی گردش نہیں ہوپاتی اوردولت کچھ افراد تک سمٹ کررہ جاتی ہے۔خاص طورپر بیٹیوں کے ساتھ اس معاملے میں زیادتی کی جاتی ہے اوران کو مرنے والے کے مال سے محروم رکھنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے ۔اگربیٹیوں کوبھی وراثت میں پوراحصہ دیاجائے تواس سے نہ صرف دولت کی تقسیم ہوگی بلکہ مال کچھ ہی خاندان اورافراد میں سمٹنے سے بچے گا۔

ہمارے غور طلب امر یہ ہے کہ ہمیں غیروں کی تہذیب اپنا کر کیا ملے گا؟ ہمیں تو مسکرانے تک کے لیے بھی دوسروں کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا کیونکہ نبی کریم  کی صورت میں ہمارے پاس مسکرانےسے لیکر ایک ایک عمل کا ماڈل موجود ہے۔

دیارِ مغرب ہوس میں غلطاں

شراب ارزاں، شباب عریاں

جسے بھی دیکھو، غریقِ عصیاں

ہم ایسی تہذیب کا کیا کریں گے؟

دیکھيے میرے محترم ومکرم ومعزز منصف ،دانشور اور اہل حل وعقد اگر آپ مسلمان ہیں اور آپ کا یقین ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ دنیاکو پانلے والا رب اور رازق اللہ ہے تو آپ کو کیا فکر کہ بچوں کا رزق کہاں سے آئے گا؟ ہاں اگر آپ اپنے تئیں پالن ہار اور رازق سمجھتے ہیں تو پھر تو آپ کو یہ ساری فکریں کرنی پڑیں گی مگر پہلے یہ سوچ لیجئے گا کہ اپنے بل پر کیا آپ ایک قطرہ پانی بھی حاصل کر سکتے ہیں؟

اور غور فرمائیں کہ یہ تمام نحوستیں اس وجہ سے ہیں ، کہ اس فانی زندگی کو اصل زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ موت اور موت کے بعد کی زندگی کو فراموش کردیا گیا ہے ۔ اسلام نے جس سادگی اور کم تر آسائش زندگی حاصل کرنے کی تعلیم دی تھی اس کے بجائے سامان تعیش کو مقصد بنا لیا گیا ہے ، یہ معیار زندگی کو بلند کرنے کا بھوت پوری قوم پر سوار ہے ، جس نے قوم کی دنیا و آخرت دونو ںکو غارت کر دیا ہے ، ان تمام بیماریوں کا علاج یہ ہے کہ مسلمانوں میں آخرت کے یقیں کو زندہ کیا جائے۔ حکومت ضبط تولید پر کروڑوں روپیہ ضائع کر رہی ہے ، لیکن اس کے باوجود آبادی محدود کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی ہے ۔ البتہ اس سے چند خرابیاں رو نما ہو رہی ہیں : ۔

 اول : عورت کا بچے پیدا کرنا ایک فطری عمل ہے ۔ جو عورتیں اس فطری عمل کو روکنے کے لیے غیر فطری تدابیر اختیار کرتی ہیں وہ اپنی صحت کو برباد کرلیتی ہیں ، اور بلڈ پریشر سے لے کر کینسر تک کے روگ ان کی زندگی بھر کے ساتھ ہو جاتے ہیں ، اور وہ جلدسے جلد قبر میں پہنچنے کی تیاری کر لیتی ہیں گو یا ضبط تولید کی گولیاں اور دوسری غیر فطری تدابیر ایک زہر ہے جو ان کے جسم میں اتارا جا رہا ہے۔

دوم : اس زہر کا اثر ان کی اولاد پر بھی ظاہر ہوتا ہے ۔ چونکہ ایسی خواتین کی اپنی سوچ گھٹیا ہے ، اس لئے ان کی اولاد بھی ذہنی و جسمانی طور پر تندرست نہیں ہوتی۔ بلکہ یا تو جسمانی طور پر معذور ہوتی ہے یا ذہنی بلندی سے عاری ، کام چور کھیل کود کی شوقین، والدین کی نافرمان اور جوان ہونے کے بعد نفسانی و جنسی امراض کی شکار۔ اس طرح ضبط تولید کی یہ تحریک، جس پر حکومت قوم کا کروڑوں ، اربوں روپیہ غارت کر چکی ہے اور کر رہی ہے ، در حقیقت ایک معذور اور ذہنی طور پر اپاہج معاشرہ وجود میں لانے کی تحریک ہے۔ الغرض حکومت کی یہ تحریک صرف اسلام ہی کے خلاف نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے خلاف ایک ہولناک سازش ہے۔جس سے فوراً تو یہ تائب ہونا ازحد ضروری ہے۔

ارباب اختیار جو فیملی پلاننگ کے تحت بہت سی معصوم جانوں کو ضائع کرنے میں معاون بن رہے ہیں انہیں یادرہنا چاہیے کہ قیامت کے دن اِن نفسوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ بأی ذنب قتلت پھر بارگاہ الٰہی میں کونسا عذر پیش کروگے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے