لاکھوں درود وسلام اس پاکباز ہستی پہ کہ جس پر نہ صرف جن وانس ملائکہ درود بھیجتے ہیں بلکہ عرش بریں سے خالق ارض وسماء صلوۃ وتسلیم کے تحائف بھیجتا ہے اس رب نے اپنے حبیب کی محبت کو اپنی محبت قرار دے کر اپنی ربوبیت کی طرح اس کی رحمت کو عالمین پہ محیط کردیا وہ خود رب العالمین ہے تو اپنے محبوب کو رحمۃ للعالمین بنایا۔ جس کی قدر ومنزلت کو {وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ} کہہ کر ابد تک دوام بخشا کوئی منصف مزاج ان کے حسن اخلاق اور سیرت پاک کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا یہی وجہ ہے کہ مائیکل ہارٹ غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی کتاب The hunderds کی ابتداء محمد علیہ السلام سے کرتاہے۔ یہاں کوئی نہیں جو ہمسری کا دعوی کرے ۔

ویسے تو ملے لاکھ نقوش تازہ

لیکن تیرے کردار کا ثانی نہ ملا

صلحاء والاتقیاء نے نزرانہ ہائے عقیدت پیش کیے ہیں انکا ذکر ہی کیا یہاں تو جوش ملیح آباد ی جیسے اباحیت پسند کا قلم بھی جب محمد علیہ السلام کے ذکر پر پہنچتا ہے تو مجبور ہوتاہے لکھنے پر…

’’اے غلاموں کو مقام فرزندی تک لانے والے ،اے قاتلوں کو مسیحائی کے گُر سکھانے والے ،اے انگاروں میں پھول کھلانے والے ،اے خوف وحزن کو علامت کفر بنانے والے، اے وحشیوں کو بردباری ،اے زلزلوں کو تمکین شعاری، اے عزائم انسانی کو آفاق شعاری عطا فرمانے والے، اے لاوارثوں کے وارث بے آسراؤں کے سہارے اور اے یتیموں کے باپ، اے حرف ناشناس معلم ،اے سفر نہ کردہ سیاح، اے فاقہ کش رزاق، اے خلق کی برہان عظیم، اے امی کلیم، اے اولاد آدم کی فتح مبین ،اے ناموس ماء وطین اور رحمۃ للعالمین۔‘‘

اور ادھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر انسان سے بھی آپ نے یہ فرمایا کہ جب تک میں تمہیں تمہاری جان سے بھی عزیز نہ ہوجاؤں تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔

محبت رسول ﷺہی وہ قیمتی متاع ہے کہ گیا گزرا مسلمان بھی اس پہ سمجھوتا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا وہ ہر ظلم برداشت کرسکتاہے۔ مگرناموس رسالت ﷺپہ آنچ نہیں آنے دیتا یہ تو ایسا موضوع ہے کہ خود رب کریم آسمانوں سے اعلان فرماتا ہے :{إِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِینَ} (الحجر:۹۵)’’آپ سے جو لوگ مسخراپن کرتے ہیں ان کی سزا کے لیے ہم کافی ہیں۔‘‘{إِنَّ شَا نِئَکَ ھُوَ الأَبْتَرْ }(الکوثر:۳)’’یقینا تیرا دشمن ہی بے نام نشان ہے۔‘‘{تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَھَبٍ وَّتَب } (اللھب:۱) ’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹیں اور وہ خود ہلاک ہوگیا۔‘‘

پاکستان کا قانون 295C توہین رسالت کے مرتکب کو موت کی سزا سناتاہے مگر ابھی تک کسی ایک کو عملاً یہ سزا نہیں دی گئی۔ حیرانگی کی بات ہے کہ اٹاں والی یعنی اینٹوں والی بستی کی ملعونہ آسیہ بی بی توہین رسالت کی مرتکب ہوئی مگر وہی مسلمان جنہیں بنیاد پرست شدت پسند اور پتہ نہیں کیا کچھ کہا جاتاہے ان میں سے کسی نے ایک اینٹ تو کیا ایک کنکر بھی اسے نہیں ماری حالانکہ یہ ممکن تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ جب قانون کا محافظ عیسائی پوپ کی زبان بولنے لگا تو اس کے اپنے ہی محافظ نے اسے قتل کردیا آخر کیوں ؟ جواب واضح ہے کہ جب لوگوں کو قانون سے انصاف کی امید ہوتی ہے تو وہ اسی طرف رجوع کرتے ہیں مگر جب انصاف کے دروازے بند ہوتے نظر آئیں تو پھر قدم انتہا کی طرف اٹھتے ہیں ہمارے حکمران بھی کلمہ توپڑھتے ہیں مگر اس کے تقاضوں سے بے بہرہ ہیں وہ حرمت رسولﷺ کے قانون میں تبدیلی کا مسودہ تیار کر کے سام، ٹام، بینی ڈکٹ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی جب حسرتناک انجام سے دوچار ہوتاہے تو دوسرے فوراً وہی بات کہتے ہیں جو عام سادہ مسلمان اٹھارہ کروڑ عوام کہتے ہیں وزیر داخلہ عبد الرحمان ملک کہتے ہیں توہین رسالت کے مرتکب کو میں خود گولی ماردوں ۔

بات وہی ہے جو بقول آغا شورش کاشمیری ظفر علی خان رحمہ اللہ نے کہی :

یوں تو تھی شرم پیغمبر کی انہیں بھی لیکن

دل میں ڈرتے تھے کہ ناراض کہیں ٹام نہ ہو

آپ کہتے ہیں کہ اوروں نے کیا ہم کو تباہ

بندہ پرور کہیں اپنوں کا ہی یہ کام نہ ہو

اس مسلمان سے سو بار ہے کافر اچھا

جس مسلمان کے پیش نظر انجام نہ ہو

توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہتے ہوئے مآل کار حسرتناک انجام سے دوچار ہونا المناک اور قابل افسوس ہے کہ اس قبر پہ عیسائی موم بتیاں روشن کرکے اپنائیت کا اظہار کریں اس داغ کو دھو یا جاسکتاہے کہ ورثاء قوم سے معافی مانگ کر معاف کردیں معاملات تو بہر حال اللہ کی عدالت میں ہیں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے قانون رہنا چاہیے لیکن اس کی تنفیذ اور فیصلہ میں ایسے علماء کو شامل کرنا چاہیے جنکی علمی ثقاہت مسلّم ہو للہیت اور خوف خداوندی ان کی وجہ شہرت ہو تاکہ اس قانون کا غلط استعمال نہ ہوسکے۔

قانون نہ رہے اور انصاف ملنے کی امید بھی ٹوٹ جائے تو انفرادی انتقام کیا گل کھلاتا ہے وہ سلمان تاثیر کے معاملہ سے واضح ہے اور اجتماعی طور پر تیونس کی مثال بالکل تازہ ہے کہ صدر نے عامۃ الناس کا مال شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کیا بظاہر لوگوں کو اپنے شکنجہ میں کسنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا جاسوسی کا جال بچھا یا فوج اورپولیس انصاف مانگنے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر غائب کرتی رہی انسانی حقوق نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی یہاں تک کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے اسے ڈکٹیٹر کا لقب دیا یہ زین العابدین ملک میں خوشحالی کے لیے قحبہ گری کو فروغ دیتا رہا بد اخلاق حیا باختہ لوگ اقتدار میں شریک وسہیم بنے اسلام پسند لوگوں پر ملک کی سرزمین وسعت کے باوجود تنگ ہوتی چلی گئی جونہی 17 دسمبر2010 کا دن آیا ظلم سے تنگ ہوکر دار الحکومت کے سامنے ایک تعلیم یافتہ نوجوان محمد بوعزیزی نے خود کو آگ کیا لگائی کہ بن علی کے 23 سالہ جبر واستبداد کے دور کو آگ لگ گئی اس آگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا صدر کو بھاگتے بنی سب سے پہلے یورپی اتحادیوں سے پناہ کی درخواست کی فرانس تک نے پناہ دینے سے انکار کردیا جن کو بن علی سالہا سال اپنے ملک کی بیٹیاں فراہم کرتا رہا انہوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں ۔ سعودی عرب نے ترس کھا کر پناہ دی {إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِأُولِی النُّھَی}(طہ:۵۴)’’کچھ شک نہیں کہ اس میں عقلمندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘

دیکھا جائے تو وطن عزیز اور تیونس کے حالات میں بہت گہری مماثلت ہے وہاں کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ عوام نے یہ انقلاب برپا کیا ہے اور یہاں تو 18 کروڑ عوام ہیں جو ظلم کا شکار ہیں اور حکمران سبق حاصل کرنے اور اصلاح احوال کے بجائے عوام کے مقابلہ میں ڈٹ جانے کی نوید سنا رہے ہیں کہتے ہیں ہم بھاگیں گے نہیں مگر یادررکھنا چاہیے انقلاب جب آتا ہے اس سیل رواں کے سامنے بڑے بڑے بند بہہ جاتے ہیں ۔ وطن عزیز میں اداروں سے لوگوں کا اعتماد ختم ہورہا ہے اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت کو مالی طور پر مفلوج کردینے کے غیر ملکی ایجنڈے پر مقتدر طبقہ عمل پیرا ہے۔ منافع بخش اداروں کو جان بوجھ کر تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ۔ نمونہ کے طور پر پاکستان ریلوے ۔ پی آئی اے۔ اسٹیل مل سامنے ہیں بھوک وافلاس سے تنگ آکر لوگ خودکشیاں کر رہے ، کچھ ٹارگٹ کلنگ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

سال کی انتہا اور ابتداء ڈرون حملوں سے ہو رہی ہے اور فوزیہ وہاب حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ خود کش حملے ہونگے تو ڈرون حملے بھی ہونگے۔ گویا مرو گے بھی تم اور بھروگے بھی تم۔

کیا عوام خود کش حملے کررہے ہیں عجیب منطق ہے عوام نان شبینہ کو ترسیں اور خواص کے کتے بھی بالائی کھائیں یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ کسی بھی خونی انقلاب کوروکنے کے لیے ظلم کا خاتمہ ضروری ہے ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ ہر نرم ہتھیلی اور سفید کالر والا اس کی زد میں ہوگا۔

اللہ تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائے ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے