مطالعے کی رغبت:

اس علمی رسوخ اور کمال کے تصور کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات مطالعہ کی رغبت ہے۔ ہمارے بعض ائمہ ایسے گزرے ہیں کہ ان کی پوری زندگی بچپن سے لے کر وفات تک مطالعہ، تدریس، تحقیق اور تصنیف میں گزری ہے، ان میں سے بعض کے لکھے ہوئے کام کو اگر تقسیم کیا جائے تو چونسٹھ صفحے ایک دن کے بنتے ہیں۔ ہم دیکھیں کہ شاید اتنے صفحات ہم روزانہ پڑھ بھی نہ سکتے ہوں۔ مطالعہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو آدمی کو کوئی قابلیت عطا کرتی ہے، اگر طالب علم خود مطالعے میں پیچھے ہے تو دیگر قیمتی اسباب اور پورا ماحول اسے کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ فروغ مطالعہ میں مسلمانوں کا کوئی شریک و سہیم نہیں رہا مگر آج معاملہ مختلف ہے۔

آج مطالعے کا معاملہ ہمارے ہاں بڑا مایوس کن ہے مگر ہمارے مقابلے میں مغرب میں مطالعہ و تحقیق کی روایت زیادہ مستحکم ہو رہی ہے۔ ماضی قریب میں درجنوں مستشرقین نے ہماری میراث یعنی ہمارے اسلاف کی بڑی بڑی کتابوں کو بڑی محنت سے ایڈٹ کیا ہے۔ مگر ان کی یہ ساری محنت ہمارے ذخیرے سے متضاد اور متناقض چیزوں کی تلاش کے لیے تھی، جس کے نتیجے میں انھوںنے منفی ذہن سے اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلامﷺ پر بے جا اور ناروا تنقید کی ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے اپنے مقدمہ سیرۃ النبیﷺ میں مارگولیتھ(Margoliouth) کا ذکر کیا ہے کہ جس نے مسند امام حنبل کی چھ ضخیم جلدوں کا ایک ایک حروف متعدد مرتبہ اس وقت نظر سے پڑھا ہے کہ ہم میں سے کوئی اس کی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتا۔ اب مقابلہ کیجئے ہم میں سے کتنے ہیں جنھوں نے بائبل کے عہد نامہ قدیم اور جدید کا اس وقت نظر اور توجہ سے مطالعہ کیا ہے۔ مارگولیتھ ایک مستشرق ہے جو دین کا دشمن ہے۔ وہ کسی چیز سے استدلال حاصل کرنا چاہتا ہے، استدلال کی نوعیت کیا تھی؟ آپ کو پتہ ہے کہ مسند کے اندر تو صحابہ دارحدیثیں جمع کی جاتی ہیں۔ ایک ایک راوی کی مرویات ایک جگہ جمع ہیں۔ تو وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ایک ہی شخص کی مرویات کے اندر ایک موضوع پر کہیں تضاد تو نہیں ہے یعنی وہ اس منفی نقطہ نظر سے اس کا مطالعہ کر رہا تھا کہ ایک شخص اگر ایک موقع پر ایک بات کہتا ہے تو کہیں دوسرے موقع پر دوسری بات تو نہیں کہہ رہا، اور اس کو بنیاد بنا کر ذخیرہ علمی کی تردید کے لیے، ایک اسلوب اور اساس فراہم کرنا چاہتا ہے۔

ایک آپ کے دین کا دشمن ہے اور اس کی نیت میں فساد موجود ہے۔ وہ آپ کی کتاب کو متعدد بار بالاستیعاب پڑھتا ہے، ہم میں سے ہر شخص سوچے، میں پوچھنا نہیں چاہتا ایک لمحے کے لیے اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھ لیں مجھ سمیت ہم نے کتنی دفعہ اس کتاب کو پڑھا ہے اور باقی متون کے ساتھ بھی ہمارا طرز عمل کیا ہے، یہ رسوخ فی العلم اور یہ اعتماد کیسے پیدا ہوگا؟ آپ وہ لوگ ہیں جو اس علم و تحقیق کی عمارت میں بنیاد کی اینٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ا گر آپ نے تساہل کیا تو اس کے اثرات مہلک ہوں گے، اور اگر آپ نے اپنی علمی اور تحقیقی ذمہ داری کو پہچان لیا تو پھر دنیا کی کوئی تہذیب آپ کا مقابلہ انشاء اللہ نہیں کر سکے گی۔ واعظین اور مبلغین کے پاس اس کام کے لیے وقت موجود نہیں ہے اور نہ ہی ان کے سامعین انہیں اس قابل چھوڑتے ہیں کہ وہ اس قسم کا سنجیدہ کام کر سکیں۔

مسلمانوں کے علمی تمدن نے اس قدر ترقی کی کہ ہمارے اسلاف نے کمال حزم و احتیاط کے ساتھ اور عین اصول تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے وہ وہ کام کر دکھلائے کہ دنیا کی کوئی اور تہذیب اور تمدن اس کام کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ دنیا میں اب ایسی کتابیںبھی لکھی گئی ہیں جن میں مختلف تہذبیوں کے علمی سرمائے کا مقابلہ ہے ان میں سے ایک کتاب جو تقریبا تیس سال پہلے سامنے آئی وہ (History Of Civilizations) ہے جو دل ڈیورانٹ نے لکھی ہے جس کا عربی ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ اس کتاب میں مسلمانوں کے باب میں مصنف نے ان کے علمی احسانات گنوائے ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مسلمانوں میں ہی سب سے پہلے ابن بیطار نے جڑی بوٹیوں اور نباتات کا علم سیکھا، یا جغرافیہ میں ادریسی نے دنیا میں پہلا نقشہ بنانے کی خدمات انجام دیں، ابن رشد اور غزالی جیسے فلسفی پیدا ہوئے، جابر بن حیان اور ابن بطریق کی سائنسی خدمات کس قدر ہیں؟ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کام دل ڈیورانٹ کا ہے اسی طرح ایک اور مصنف جاج سارٹن نے ایک علمی تحقیق کے طور پر کام کیا ہے۔ لیکن ان کا مقصود وہ نہیں، جو ہمارا مقصود ہے کہ اس دنیا میں دین کی دعوت کو عام کرنے کے لیے جو علمی وسائل ممکن ہو سکتے ہیں ان سے استفادہ کیا جائے۔ مسلمان آج سے بارہ سو سال پہلے جو کام کر رہے تھے، افسوس وہ آج نہیں کر رہے ہیں۔

فتنہ ارتداد اور ہمـ:

مسلمانوں کی تاریخ میں ارتداد کے دو بڑے فتنے رونما ہوئے ہیں۔ ایک فتنہ ارتداد اسلام کے ابتدائی دور میں سر زمین عرب میں پیدا ہوا جسے سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے اپنی کمال حکمت عملی اور جرات ایمانی سے ملیامیٹ کر دیا، دوسرا فتنہ ارتداد ہسپانیہ اور سپین میں پیدا ہوا کہ ۱۴۹۲ء سے پہلے جہاں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان آباد تھے ان سب کو زبردستی عیسائی بنایا گیا اور پورے ملک سے مسلمانوں کے آثار ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ان دو واقعات کے علاوہ دوسری صدی ہجری میں معتزلہ جہمیہ وغیرہ کی طرف سے جو فکری اور اعتقادی ارتداد کی تحریک سامنے آئی وہ کس قدر شدید تھی، جس کی بنیاد یونانی علم کلام اور منطق پر تھی۔ دیکھیے اس بہت بڑے فتنہ کا سدباب امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کس طرح کیا کہ ارسطو کے علم کلام اور منطق کی دھجیاں بکھیر دیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قرآن مجید کے استقرائی اسلوب اور طریق سے کام لیتے ہوئے، یہ علمی کارنامہ سر انجام دیا۔

میرے عزیز ساتھیو! یہ ارتداد ظاہر (Visible) تھا لیکن اس وقت امت مسلمہ جس ارتداد کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے یہ کمبخت دکھائی بھی نہیں دیتا کہ لوگ نام کی حد تک تو بظاہر مسلمان ہیں لیکن عملی مظاہر کے اعتبار سے حکمرانوں سے لے کر عوام تک بری طرح بے عملی اور ارتداد کی دلدل میں پھنس چکے ہیں، جس کی مختلف شکلیں جدیدیت، مادیت، لادینیت اور تجدد پسندی کے نام سے ہمارے سامنے ہیں۔ علوم دینیہ کے طلبہ کی ذمہ داری ہے کہ ان فتنوں کی نوعیت اور حقیقت کا ادراک کریں اور پھر سلف صالحین اور محدثین کے منہج پر چلتے ہوئے ان کی سر کوبی کے لیے کمر بستہ ہوں، اس بڑے کام کا بیڑا اٹھانے کے لیے لازمی ہے کہ ہم علوم کے دائرے میں راسخ ہوں اور عصر حاضر کے اسلوب میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس کے لیے آپ کو چاہیے کہ برصغیر میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ، مجدد الف ثانی کے خاندان کے سارے اکابر سے سیکھیں کہ فکری ارتداد کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔

اردوخواں دنیا کے لیے ہماری خدمات کیا ہیں اور آپ کو معلوم ہے اردوداں دنیا کتنی ہے؟ اس وقت دنیا کی کل آبادی چھ ارب ہے، جس میں ایک چوتھائی مسلمان ہیں۔ پہلے اتنے نہیں تھے، اب اللہ کا فضل ہے پہلی دفعہ پوری دنیا کے اندر مسلمانوں کی تعداد ایک چوتھائی یعنی ڈیڑھ ارب ہے۔ ایک ارب لوگ کسی نہ کسی سطح پر اردو سمجھتے اور بولتے ہیں۔

اس لیے دعوت و تذکیر کے نقطہ نظر سے جو علمی میدان ہے اس میں بہت زیادہ ضرورت ہے کہ خود اردو زبان کو بھی حقیر نہ سمجھیں۔ اس کے اندر کام کرنے کی بہت زیادہ وسعت اور ضرورت موجود ہے۔

پھر ایک اور طرح سے سوچیے! انجیل کے اٹھارہ سو (1800) سے زیادہ زبانوں میں ترجمے ہیں۔ میں ایک دفعہ مجمع ملک فھد مدینہ میں اپنے کرم فرما ڈاکٹر ف، عبدالرحیم صاحب سے ملا جو اب تک کل چالیس زبانوں میں قرآن کے تراجم شائع کر چکے ہیں، ویسے ایک سو دس زبانوں میں پورے ترجمے موجو دہیں اور جزوی طور پر کیے جانے والے تراجم کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد ۱۳۵ ہو جاتی ہے۔ مجھے ہندوستان میں دہلی جانے کا اتفاق ہوا، وہاں پر لوٹس ٹمپل کے نام سے ایک بہائی مرکز ہے، جس کے زمین دوز ہال میں بہاء اللہ کی مناجات کی کتاب اقدس کے آٹھ سو زبانوں میں طبع شدہ تراجم موجود تھے۔ پیش نظر رہے کہ اس وقت دنیا میں رائج زبانوں کی تعداد ۶۷۸۰ ہے۔ لیکن آپ نے اس بارے میں کبھی سوچا ہے کہ یہ لوگ کہاں سے آئیں گے جو اس بات کا ادراک کریں، کہ اس نے دنیا کی رائج زبانوں میں سے کسی ایک زبان کو سیکھنا ہے اور اس میں قرآن و سنت کے نور ہدایت کو منتقل کرنا ہے۔ زبانوں کا علم حاصل کرنا بھی ہماری ایک ترجیح ہونا چاہیے۔ چودہ سو برس قبل اگر رسول کریمﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم کو دوسری زبانیں سیکھنے کا کہہ سکتے ہیں تو ہم اس فرض سے دور کیوں ہیں۔ عالمی سطح پر اسلام کی دعوت کو پھیلانے کے لیے اس کی شدید ضرورت ہے۔ نیز مستشرقین کی ہرزہ سرائیوں کا جواب دینے کے لیے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، جرمن اور سپینش زبانوں کا سیکھنا ناگزیر ہے۔

میں آپ کو تقابل بتانا چاہتا ہوں۔ مجھے ایک محاضرہ کے سلسلہ میں ایران جانے کا موقع ملا تو میری حیرت کی انتہا تھی کہ وہاں پر ایک طالب علم کو جو سند فراغت دیتے ہیں وہ بعض صورتوں میں ستائیس سال کے بعد ہوتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آٹھ سال ضائع کر رہے ہیں۔ چھ سال کا نصاب ہونا چاہیے اور چھ والا چار میں ہونا چاہیے۔ عورتوں کی حد تک تو سمجھ آتا ہے۔ یہ اختصار پسندی کا ذوق بھی ہم میں پیدا ہوا اور مجھے تو یہ بھی ہلاکت خیز معلوم ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ بہ حیثیت معلم اور جو آپ کے متعلم اور تلامذہ تھے، وہ زندگی کے آخری لمحے تک اسی نبوی کلاس روم میں رہتے تھے۔ ان کے ہاں فراغت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ فرمان نبویﷺ ہے کہ ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک علم حاصل کرو۔مجھے معلوم ہے کہ سب لوگوں میں یہ نہیں ہو سکتا ۔ طبائع کے اختلاف کے لحاظ سے ممکن ہے کہ کچھ وقت کے لیے کچھ طلبہ کے جذبات میں انگیخت ہو کہ پروفیسر صاحب کی گفتگو سننے کے بعد شاید عزم پختہ ہو جائے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ اگر کوئی یہ داعیہ اپنے اندر پیدا کر لے اور یہ انقلاب پانچ چھ فٹ کے وجود میں لے آئے تو اس انقلاب کے بعد پوری دنیا میں انقلاب لانا ممکن ہے۔ اللہ راستے کھول دیتا ہے۔ پھر اللہ کا فیصلہ ہے کہ آدمی اگر اس دینی احتیاط کے ساتھ اور عزم مصمم کے ساتھ، تزکیے اور اخلاص کے ساتھ اور زہد و تقوی کی اس کیفیت کے ساتھ مسنون زندگی اختیار کر لیتا ہے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ دنیا اس سے متاثر نہ ہو۔ ہماری تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

امت واحدہ میں آج اس جذب و شوق اور ہمت ولولہ والے کتنے لوگ ہیں۔ ایک آدمی کام کرتا ہے اور کام ہوتا چلا جاتا ہے۔ اساتذہ کرام کو اپنی تدریس کے دوران میں مسلسل اور مستقل اس پر توجہ دینی چاہیے کہ کون سے طلبہ میں قدرت نے فقاہت، ذکاوت، فطانت اور صلاحیت رکھی ہے، انھیں بطور خاص وسعت مطالعہ اور استخراج نتائج کا خوگر بنانا چاہیے۔ تقابلی مطالعہ کے لحاظ سے اس کا آغاز فقہ المقارن سے ہونا چاہیے جسے بڑھتے ہوئے تقابل ادیان اور ان کے مطالعہ کی شکل اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا سے واقفیت ناگزیر ہے۔

مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کے وقت سے بہت زیادہ وقت بھی لیا اور بڑے غیر مربوط انداز میں بہت سی باتیں آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے یقین ہے کہ میرا مدعا آپ ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ علوم نبوت کے طلبہ کی کیا کیا ذمہ داریاں ہیں۔ ان کو کس طریقے سے اپنے متون اور فنون میں رسوخ حاصل کرنا ہے کس طریقے سے ایک زاہدانہ اور مسنون زندگی گزارنا ہے۔ کس اسلوب سے عربی زبان اور اس کے ادب و انشاء میں کمال حاصل کرنا ہے۔ طلبہ کو مکالمے کی مشق کرانا ہے جو بالآخر بین المذہبی مکالمے میں سہولت پیدا کرے گی۔ تحریر اور تقریر ہر دو کی اعلی درجے کی مشق بہم پہنچانا چاہیے۔ اپنی شخصیت کی تہذیب، اخلاقی اطوار کی تعمیر اور سیرت کی تشکیل کرنا ہو گی۔ اس ساری علمی تگ و دو کا مقصود شخصی وجاہت اور ذاتی منفعت کے بجائے محض اور محض رضائے الہی کا حصول ہونا چاہیے۔

عزیزان گرامی قدر! یہ وہ سارے امور ہیں جو علوم نبوت کے طلبہ کی ذمہ داریاں، مطالبات اور فرائض ہیں اور میں بھی ایک عاجز طالب علم ہوں۔ یوں سمجھیے کہ میں اپنا سبق سنانے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، میں کسی انکسار کے بغیر آپ سے یہ حقیقت عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی مجھے اپنے دین کے ایک طالب علم اور خادم کی حیثیت سے موت دے، اور یہی میری زندگی کا افتخار ہے۔ حضرات گرامی! میں علم و تحقیق کی اس درس گاہ کے منتظمین کا شکر گزار اور احسان مند ہوں کہ انھوں نے ایک حقیر اور کم علم شخص کو یہ عزت اور سعادت بخشی کہ وہ علوم نبوت کے طلبہ کی ذمہ داریاں جیسے عظیم اور وسیع موضوع پر اظہار خیال کر سکے۔ اپنی اس گفتگو کے دوران میں حق تعالی نے مجھے جن باتوں کو عرض کرنے کی توفیق ارزاں کی ہے، اس کی اولین مخاطب تو خود میری اپنی ذات تھی۔ اگر اس گفتگو میں علمی اور عملی ترغیب اور تشویق کا کوئی پہلو موجود ہے تو اللہ تعالی مجھے اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے