الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ٭ بسم اللہ الرحمن الرحیم
{لَقَدْ کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالیَومَ الآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیراً}(الأحزاب:۲۱)

’’بیشک تمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے ۔اس شخص کیلئے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا تو ان کی زندگی کا مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا:

{اَلَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَھُوَ الْعَزِیزُالْغَفُوْرُ}(الملک:۲)

’’ اللہ تعالیٰ وہ بابرکت ذات ہے جس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے تم میں سے اچھے عمل کون کرتاہے اور وہ غالب بخشنے والا ہے۔‘‘

پھر اس انسان کی ہدایت کا بندوبست فرمایا تاکہ کوئی شخص قیامت کے دن یہ عذر پیش نہ کرسکے کہ مجھے تو یہ بات معلوم ہی نہ تھی اور نہ ہی کسی نے مجھے یہ مسئلہ بتایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

{إِنَّا ھَدَیْنَاہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَّإِمَّا کَفُوْراً}(الدھر:۳)

’’(کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا تو) اس کی راستے کی طرف راہنمائی بھی کردی اب چاہے تو وہ شکر گزار بن جائے اور چائے تو کفر کرلے۔‘‘

اور اس انسان کی مستقل راہنمائی کیلئے قرآن مجید جیسی عظیم کتاب نازل فرمائی اور عملی نمونہ پیش کرنے کیلئے امام الانبیاء والمرسلین محمد کو مبعوث فرمایا تاکہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحی پر عمل کرکے بتائیں کہ اس پر یوں عمل کرنا ہے تاکہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ اس پر عمل محال یا مشکل ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے جواب میں جنہوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بشر کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔ ارشاد فرمایا:

{وَمَا مَنَعَ النَّاسُ أن یُّوْمِنُوْا اِذْ جَائَ ھُمْ الھُدَی اِلاَّ أَنْ قَالُوْا أَبْعَثَ اللَّہُ بَشَراً رَّسُوْلاً قُلْ لَو کَانَ فِی الأَرْضِ مَلاَئِکَۃٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِنَ السَّمَائِ مَلَکاً رَّسُولاً} (الاسراء:۹۴۔۹۵)

’’کہ لوگوں کے پاس جب ہدایت آتی ہے تو وہ صرف اس وجہ سے ایمان لانے سے باز رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بشر(انسان) کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (اے میرے پیغمبر حضرت محمد ) آپ کہہ دیجئے کہ اگر زمین میں رہنے والے فرشتے ہوتے تو ہم آسمان سے کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتے۔‘‘

لیکن چونکہ زمین میں رہنے والے انسان تھے، اس لئے ان کی طرف رسول اور نبی بھی انسان کو ہی بنا کر بھیجا گیا ہے کیونکہ اگر کوئی فرشتہ نبی ہوتا تو وہ کھانے پینے،شادی بیاہ ، خوشی غمی اور طہارت وغسل کے عوارضات سے دوچار نہ ہونے کی وجہ سے اسوہ نہ بن سکتا۔ کیونکہ انسان بتانے اور سنانے کی نسبت مشاہدہ سے جلد سمجھتا ہے اور اسے اختیار کرنا زیادہ آسان ہوتاہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فرمایا کہ اگر تم یقین رکھتے ہوکہ قیامت کا دن قائم ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوکر مجھے اپنی ساری زندگی کا حساب دیناہے ، تو پھر تمہارے لئے زندگی گزارنے کیلئے رسول اللہ بہترین نمونہ ہیں۔ آپ ان کی حیات طیبہ کو دیکھ کر اپنی زندگیاں گزاریں اس لئے کہ آپ دیکھیں کہ انہوں نے وضو کس طرح کیا اس طرح وضو کریں۔ جس طرح آپ نے غسل کیا اس طرح غسل کریں۔ آپ کے سونے کی طرح سوجائیں اور بیدار ہوکر جو آپ نے عمل کیا اسی طرح آپ بھی کریں۔ علی ہذا القیاس اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو رسول اللہ کی زندگی کے مطابق گزاریں اس لئے کہ زندگی میں جو آپ کو مسائل پیش آتے ہیں ، ان تمام کا حل نبی کریم کی حیات مبارکہ میں ہے۔ کیونکہ وہ تمام مسائل آپ کو بھی پیش آئے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کی زندگی کو نہ صرف نمونہ بیان کیا بلکہ باری تعالی نے اسوئہ حسنہ(بہترین نمونہ) قراردیاہے۔ اب یہ ہر مومن مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کیلئے صرف رسول اللہ کی زندگی کو ہی نمونہ اور آئیڈیل بنائے۔ مگر افسوس کہ عامۃ الناس آج اپنے معاملات میں سنت طریقہ اپنانے کی پرواہ ہی نہیں کرتے۔ مثلاً کئی کام ایسے ہیں جوہر آدمی نے ضرور ہی ضرور کرنے ہیں لیکن انہی کاموں کو اگر ہم رسول اللہ e کے طریقہ مبارک کے مطابق کریں تو اپنی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کے مستحق بھی ٹھہریں۔ مثلاً کھانا، پینا، کپڑے پہننا، بیت الخلاء جانا، غسل کرنا وغیرہ یہ کام ہم نے ضرور کرنا ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہماری مجبوری ہیں۔ ان کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہے۔ مگر ہم نے کبھی یہ غور نہیں کیا کہ یہ سارے کام تو رسول اللہ ﷺ بھی کیا کرتے ہیں۔

آپ ﷺ ان کامں کو کرنے کیلئے یکا طریقہ اپناتے تو عامۃ الناس کی اس سستی کے پیش نظر رسول اللہ ﷺکی سیرت طیبہ کا صرف ایک پہلو پیش کرتا ہوں۔ کہ آپﷺ پسندیدہ کاموں کو ہمیشہ دائیں جانب سے شروع کرتے تھے اور دائیں جانب کی اتنی اہمیت اور فضیلت ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو جب اعمال نامے دیئے جائیں گے تو کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کو دائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیئے جائیں گے اور کچھ لوگوں کو بائیں ہاتھ میں ، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

{فَاَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِیْنِہِ فَیَقُوْلُ ھَاؤُمُ اقْرُؤْوا کِتَابِیَہ اِنِّیْ ظَنَنْتُ أَنِّیْ مُلاَقٍ حِسَابِیَہ فَھُوَ فِی عِیْشَۃٍ رَاضِیَہ فِی جَنَّۃٍ عَالِیَہ قَطُوفُھَا دَانِیَہ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ھَنِیْئاً بِمَا اَسْلَفْتُمْ فِی الأَیَّامِ الْخَالِیَہ} (الحاقۃ:۱۹۔۲۴)

’جن لوگوں کو ان کی کتاب(اعمال نامہ)دائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وہیں کہیں گے لوگوں آؤ میری کتاب(اعمال نامے) کو پڑھو۔ بیشک مجھے یقین تھا کہ میرا حساب ہونے والاہے۔ تو وہ شخص عیش میں راضی ہوگا۔ اونچی جنت میں جن کے پھل قریب ہوں گے کھاؤ اور پیو خوشگوار اس وجہ سے جو تم اپنی دنیاوی زندگی میں کرتے رہے ہو۔تو اس سے معلوم ہوا کہ دائیں ہاتھ میں جن کو اعمال نامہ ملے گا وہ ان کی خوش بختی کی علامت ہوگی۔ بائیں ہاتھ میں جن کو اعمال نامہ ملے گا وہ جہنم میں جائیں گے اور اپنی دنیاوی زندگی پر افسوس کا اظہار کریں گے اور پھر دائیں جانب کی فضیلت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

’’إن اللہ وملائکتہ یصلون علی میامن الصفوف ۔ ‘‘ (ابو داؤد ۱/۱۰۵، باب من یستحب ان امام فی الصف وکراہیۃ التاخر)

’’بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نماز میں صف کے دائیں جانب کھڑے ہونے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں اور ایک دوسری حدیث میں ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ دنیا میں عدل وانصاف کریں گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ عنہ بیان فرماتے ہیں :’’قال رسول اللہ ﷺ ان المقسطین عند اللہ علی منابر من نور عن یمین الرحمن عزوجل وکلتا یدیہ یمین الذین یعدلون فی حکم واھلیہم وما ولو۔ (مسلم ۱/۱۲۱، باب فضیلۃ الأمیر العادل کتاب الامارۃ)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک انصاف کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں اللہ عزوجل کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔(انسانوں کی طرح دائیں بائیں جانب کا فرق اللہ تعالیٰ کیلئے نہیں ہے) اور وہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں اور اہل وعیال او ر اپنے ماتحت لوگوں میں انصاف کرنے والے ہوں گے۔ اس حدیث میں دائیں جانب کی اہمیت وفضیلت معلوم ہوتی ہے۔ ام المؤمنین صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :

کان النبی یحب التیمن ما استطاع فی شأنہ کلمہ فی طہورہ وترجلہ وتنعلہ (بخاری ، مسلم بحوالہ مشکوۃ ۱/۴۶، باب سنن الوضو)

رسول اللہ ﷺ حسب استطاعت دائیں جانب کو پسند فرماتے اپنے ہر معاملے میں اپنے وضو کرتے وقت کنگھی کرتے اور اپنا جوتا پہنتے وقت۔‘‘

اس لئے ہم سب کو بھی چاہیے کہ حتی الوسع اپنے کاموں میں دائیں ہاتھ کو استعمال کریں البتہ جہاں رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا بائیں ہاتھ کو استعمال کریں۔ مثلاً استنجا کرتے وقت۔

سیدنا ابو قنادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

’’قال نبی اللہ إذا بال احدکم فلا یمس ذکرہ بیمینہ وإذا أتی الخلاء فلا یتمسح بیمینہ وإذا شرب فلا یشرب نفساً واحداً۔ (ابوداؤد ۱/۶، باب کراھیۃ مس الذکر بالیمین فی الستبراء کتاب الطہارۃ)

’’اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے فرمایا جب بھی تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو اپنی شرمگاہ کو دایاں ہاتھ نہ لگائے اور جب وہ بیت الخلاء میں آئے تو دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے اورجب پانی پئے تو ایک ہی سانس میں نہ پیئے۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

’’کانت ید رسول اللہ الیمنی لطہورہ وطعامہ وکانت ید الیسری لخلائہ وما کان من أذی۔ (ابوداؤد۶/۱، کتاب الطہارۃ)

’’ رسول اللہ ﷺ کا دایاں ہاتھ آپ کے وضو اور کھانے کیلئے استعمال ہوتا تھا اور بایاں ہاتھ استنجاو صفائی کیلئے۔‘‘

آمدبر سر مطلب :

اب ان چند مقامات کا ذکر کیا جاتاہے کہ جہاں رسول اللہ ﷺ دائیں ہاتھ کو استعمال کرنے کا التزام فرماتے ہیں تاکہ ہم بھی رسول اللہ ﷺ کی اس سنت پر عمل کرکے اجر وثواب کے مستحق ٹھہریں۔

۱۔ کھانا کھانے میں دایاں ہاتھ استعمال کرنا۔

کھانا کھاتے وقت رسول اللہ ﷺ خود بھی دایاں ہاتھ استعمال کرتے اور دوسروں کو بھی آپ ﷺ اسی کا حکم فرماتے۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :’’ان رسول اللہ قال إذا أکل أحدکم فلیأکل بیمینہ وإذا شرب فلیشرب بیمینہ۔‘‘ (مسلم ۲/۷۲، باب آداب الطعام والشراب واحکامہا کتاب الأشربۃ)

بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب بھی تم میں سے کوئی کھائے تو وہ دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب(کوئی چیز) پیئے تو دائیں ہاتھ سے پیئے۔‘‘

آپ جب کسی کو دیکھتے کہ وہ بائیں ہاتھ سے کھاپی رہا ہے تو آپ ﷺ اس کو روک دیتے۔

سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’کنت فی حجر رسول اللہ فکانت یدی تطیش فی الصحفۃ فقال لی یا غلام سم اللہ وکل بیمینک وکل مما یلیک۔‘‘ (مسلم۲/۱۷۲، کتاب الاشربۃ)

کہ میں رسول اللہ ﷺ کی گود میں تھا اور میرا ہاتھ پیالے میں گھوم رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا اے بچے اللہ کا نام لیکر (بسم اللہ پڑھ کر) اور دائیں ہاتھ کے ساتھ اپنے سامنے سے کھا ۔ بلکہ نبی کریم ﷺ نے حکماً بھی لوگوں کو بائیں ہاتھ سے کھانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ بائیں ہاتھ سے شیطان کھاتاہے۔‘‘

عن جابر رضی اللہ عنہ قال لا تأکلوا بالشمال فإن الشیطان یأکل بالشمال۔ (مسلم۲/۱۷۲، کتاب الأشربۃ)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ، اس لئے کہ بیشک شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے ۔ اور مسلم شریف ہی کی سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں ’’ویشرب بشمالہ‘‘ اور وہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے پیتاہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کھانے پینے میں دایاں ہاتھ استعمال کریں او بائیں ہاتھ سے کھانے پینے سے اجتناب کریں کہ یہی رسول اللہ ﷺ کی سنت بھی ہے اور حکم بھی۔

۲۔ سوتے وقت داہنی کروٹ سونا

رسو ل اللہ نے اپنی امت کو زندگی گزارنے کا ایک ایک طریقہ سکھایا ہے اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اسوئہ حسنہ(بہترین نمونہ) قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نا صرف کہ کھانے پینے میں دائیں ہاتھ کو استعمال کرنا پسند کرتے تھے بلکہ آپ ﷺ سوتے وقت بھی دائیں کروٹ پر ہی لیٹتے اور اسی طرح سے دوسروں کو لیٹ کر سونے کا حکم فرماتے۔

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :

إن رسول اللہ ﷺ قال إذا اخذت مضجعک فتوضأ وضوئک للصلاۃ ثم اضطجع علی شقک الأیمن ثم قال اللہم إنی اسلمت وجہی ……(مسلم۲/۳۴۸، باب الدعاء عند النوم، کتاب الذکر والدعاء)

بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم بستر پر(سونے کیلئے) آؤ تو نماز کے وضو جیسا وضو کرو پھر اپنی داہنی جانب لیٹ کر یہ دعا پڑھو (آگے آپ ﷺ نے مکمل دعا سکھائی ،جبکہ یہاں صرف داہنی جانب لیٹنے کا بیان کرنا مقصود ہے۔

۳۔ فجر کی سنتیں پڑھ کر داہنی جانب لیٹنا

حتی کہ رسول اللہ ﷺ جب فجر کی سنتیں ادا کرکے لیٹے تو اس وقت بھی آپ ﷺ اپنی داہنی کروٹ لے کر ہی لیٹے تھے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’کان النبی ﷺ إذا صلی رکعتی الفجر اضطجع علی شقہ الأیمن۔ (بخاری ۱/۱۵۵، باب الفجعۃ علی الشق الأیمن بعد رکعتی الفجر ، کتاب النھد)

’’رسول اللہ ﷺ جب فجر کی دو رکعت (سنتیں) پڑھتے تو اپنی داہنی جانب لیٹ جاتے تھے‘‘۔ بعض لوگوں نے رسو ل اللہ ﷺ کی اس سنت کو ٹھکرانے کیلئے کئی قسم کی تاویلیں کی ہیں مگر ان کی سب تاویلیں باطل ہیں۔ جن کا تذکرہ کسی دوسری نشست میں کریں گے یہاں نہ تو محل ہے اور نہ ہی مقصود۔

۴۔ غسل میں پانی سر کے داہنی جانب بہانا

رسول اللہ ﷺ جب غسل فرماتے تو سر میں پانی ڈالتے ہوئے دائیں طرف سے شروع فرماتے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

کان رسول اللہ اذا غسل من الجنابۃ دعا بشیء نحو الحلاب فأخذ بکفہ بدأ بشق رأسہ الأیمن ثم الأیسر ثم أخذ بکفیہ فقال بھما علی رأسہ ۔ (مسلم ۱/۱۴۷’ باب صفۃ غسل الجنابۃ)

رسو ل اللہ ﷺ جب غسل جنابت فرماتے تو وہ دودھ دوہنے کی مقدار کا برتن منگواتے تو آپ ﷺ اپنے ہاتھ سے پانی لیکر اپنے سرکی داہنی جانب ڈالتے پھر بائیں جانب، پھر آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر پھیرتے۔

۵۔ وضو کرتے وقت دائیں جانب کا لحاظ

رسول اللہ ﷺ وضو کرتے وقت بھی داہنی جانب کا لحاظ رکھتے۔ امیر المؤمنین خلیفہ ثالث سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ثم غسل یدہ الیمنی إلی المرفق ثلاث مرات ثم غسل یدہ الیسری قال ذلک ثم مسح برأسہ ثم غسل رجلہ الیمنی إلی الکعبین ثلاث مرات ثم غسل الیسری مثل ذلک۔ (مسلم ۱/۱۲، باب صفۃ الوضوء وکمالہ کتاب الطہارۃ)

پھر آپ ﷺ اپنے دائیں ہاتھ کو کہنی سمیت تین مرتبہ دھوتے پھر اسی طرح اپنے بائیں ہاتھ کو دھوتے پھر مسح کرتے پھر اپنے دائیں پاؤں کو ٹخنوں سمیت تین مرتبہ دھوتے پھر اپنے بائیں پاؤں کو بھی اسی طرح دھوتے۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ وضو کرتے ہوقت اپنے دائیں جانب سے ہی شروع بھی کرتے اور آخر تک دائیں جانب ہی کو ترجیح دیتے تھے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قال رسول اللہ ﷺ إذا لبستم وإذا توضأتم فابدؤوا بمیامنکم۔(مسند احمد، ابوداؤد، بحوالہ مشکوۃ ۱/۴۶، باب سنن الوضوء)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم لباس پہنو اور جب وضو کرو تو اپنی دائیں جانب سے شروع کرو۔

۶۔ لباس پہنتے وقت دائیں جانب کو ترجیح

رسول اللہ ﷺ لباس پہنتے وقت دائیں جانب سے شروع کرتے۔ فقیہ امت محمدیہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

:کان رسول اللہ ﷺإذا لبس قمیصا بدا بمیامنہ ۔(ترمذی ۱/۳۶، باب ما جاء فی القمیص ، ابواب اللباس)

کہ رسول اللہ ﷺ جب قمیص پہنتے تو اپنی دائیں جانب سے شروع کرتے۔ اس لئے ہم کو بھی چاہیے کہ ہم بھی جب لباس پہنیں وہ قمیص ہو یا شلوار ،بنیان، سویٹر، جرسی ہو یا جیکٹ وغیرہ اپنی داہنی جانب سے پہننا شروع کریں اور جب اتاریں تو بائیں جانب سے اتارنا شروع کریں۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا یہی طریقہ مبارک ہے۔

۷۔ جوتا پہنتے وقت پہلے دایاں پاؤں پہننا۔

رسول اللہ ﷺ اپنے ہر کام کو دائیں جانب سے کرنا پسند فرماتے تھے حتی کہ کنگھی کرنا اور جوتا پہننا بھی۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتیں ہیں :

کان النبی یعجبہ التیمن فی تنعلہ وترجلہ وطہورہ وفی شأنہ کلہ ۔ (بخاری۱/۹۲، باب التیمن فی الوضوء والغسل ، کتاب الوضوء)

کہ نبی کریم ﷺ کا اپنا عمل بھی یہی تھا کہ آپ ﷺ جوتا پہنتے وقت پہلے دایاں جوتا پہنتے تھے اور آپ ﷺ نے دوسروں کو بھی اسی کا حکم دیاہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ان رسول اللہ ﷺ قال إذا انتعل أحدکم فلیبدأ بالیمنی وإذا خلغ فالیبدأ بالشمال۔ (مسلم ۲/۱۹۷، باب استحباب لبس النعال فی الیمنی ، ترمذی ۱/۳۷، ابواب اللباس)

کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بھی تم میں سے کوئی شخص جوتا پہنے تو وہ دائیں جانب سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں جانب سے شروع کرے ، تو رسول اللہ ﷺ کے حکم اور سنت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم جوتا پہنتے وقت پہلے دایاں جوتا پہنیں اور اتارتے وقت بایاں جوتا اتاریں۔

۸۔حجامت بناتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا:

رسول اللہ ﷺ جب حجامت بنواتے تو دائیں جانب سے اپنے بال کٹوانا یا منڈوانا شروع کرتے۔

چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

ان رسول اللہ أتی مغافاتی الجمرۃ فرماھا ثم انتی منزلہ بمنی ونحر ثم قال للحلاق خذوا شعر إلی جانبہ الأیمن ثم الأیسر ثم جعل یعطیہ الناس۔ (مسلم۱/۴۲۱، کتاب الحج)

بیشک رسول اللہ ﷺ منی میں آئے تو جمرہ کے پاس پہنچ کر اس کو کنکریاں ماریں، پھر آپﷺ منی میں اپنی جگہ خیمے میں آئے اور قربانی کی پھر سر مونڈھنے والے (حجام) سے کہا لو یہاں سے پکڑو (کاٹنا شروع کرو) اور اپنے سر کی دائیں جانب اشارہ کیا۔ پھر بائیں جانب، پھر آپ ﷺ نے وہ بال لوگوں کو بطور تبرک دے دئیے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی کی حجامت بنواتے وقت اپنی دائیں جانب سے بال کٹوانے شروع کرنا چائیں۔ بعض لوگوں نے تو شاید سنت رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کی قسم اٹھائی ہے کہ ہر عمل میں انہوں نے حدیث وسنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہی کرناہے۔ زیر بحث مسئلہ میں بھی وہ یہ تاویل کرتے ہیں کہ حجام کی دائیں جانب ہونی چأہیے۔ حجامت کروانے والے کیلئے یہ ضروری نہیں حالانکہ حدیث میں واضح بیان ہورہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجامت بنواتے وقت حجام کو اپنی سمت میں دائیں جانب سے بال بنانے شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔ بہر حال یہاں تفصیل مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر کام کرتے وقت آدمی کو اپنی داہنی جانب کو ترجیح دینی چأہیے۔

۹۔ میت کو غسل دیتے وقت دائیں جانب سے ابتداء کرنا

جس طرح خود آدمی کو وضو کرتے وقت یا غسل کرتے ہوئے دائیں جانب سے شروع کرنا چاہیے اسی طرح جب کوئی مسلمان فوت ہوجائے خواہ مرد ہو یا عورت تو اس کو غسل دیتے وقت بھی داہنی جانب کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

ان رسول اللہ ﷺ حیث امرھا ان تغتسل ابنتہ قال لہا ابدان بمیامنہا وموقع الوضوء منہا ۔ (مسلم ۱/۳۵، کتاب الجنائز)

بیشک رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں آپ ﷺ کی بیٹی کو غسل دینے کا حکم دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کی دائیں جانب اور وضو والے اعضاء سے غسل دینا شروع کرو۔

۱۰۔ کسی کو چیز پکڑاتے و قت دائیں جانب کا لحاظ رکھنا

جیساکہ گذشتہ سطورمیں بیان کیا جاچکاہے کہ رسول اللہ ﷺہر پسندیدہ کام کو دائیں جانب سے شروع کرتے تھے۔ اس کیلئے حدیث میں کئی موقع بیان کئے گئے ہیں جن میں سے چند ایک تحریر کئے گئے ہیں۔ ان سے ہی یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ ہر مسلمان کو کام کرتے وقت اپنی داہنی جانب سے شروع کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ آخر میں رسول اللہ ﷺ کا ایک فرمان عالی شان بیان کرتا ہوں جس میں رسول اللہ ﷺ نے عام معاملات میں بھی عام لوگوں کو دائیں جانب سے کام شروع کرنے کاحکم فرمایاہے۔ خادم رسول اللہ ﷺ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

حلب رسول اللہ ﷺ بشاۃ داجن وتیب لبنہا بماء من البئر التی فی دار انس فاعطی رسول اللہ ﷺ القدح فشرب وعلی یسارہ ابو بکر وعن یمینہ اعرابی فقال عمر اعط أبا بکر یا رسول اللہ ﷺ فأعطی الأعرابی الذی عن یمینہ ثم قال الأیمن فالأیمن وفی روایۃ الأیمنون الأیمنون الافیمنوا۔ (بخاری و مسلم بحوالہ مشکوۃ ۲/۳۷۱، کتاب الأشربۃ)

رسول اللہ ﷺ نے ایک بکری کا دودھ دھویا اور اس دودھ میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے کنویں کا پانی ملایا گیا پھر ایک پیالہ رسول اللہ ﷺ کو دیا گیا تو آپ ﷺ نے نوش فرمایا اس وقت آپ ﷺ کی بائیں جانب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں جانب ایک دیہاتی بیٹھا ہوا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیجئے ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے وہ پیالہ اپنی دائیں جانب والے دیہاتی کودے دیا اور فرمایا کہ دائیں جانب والے دائیں جانب والے(یعنی وہ زیادہ حقدار ہیں) خبردار تم بھی دائیں جانب سے آغاز کیا کرو یا دائیں جانب والوں کا لحاظ رکھا کرو۔‘‘

برادران اسلام! مذکورہ بالا ساری بحث سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ دائیں جانب کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ہاں بہت بڑی عظمت وفضیلت اور اہمیت ہے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی سنت کو اپناتے ہوئے ہمیشہ دائیں ہاتھ سے کھائیں پئیں، مسجد میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں اندر رکھیں، کپڑے اور جوتا پہنتے وقت داہنی جانب سے پہننا شروع کریں اور اتارتے وقت بائیں جانب اتاریں۔

وضو اور غسل کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا چاہیے حتی کہ کسی سے لین دین کرتے وقت بھی چیز دائیں ہاتھ اور دائیں جانب سے پکڑیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن وحدیث سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے کہ ہماری زندگی اللہ تعالیٰ کے حکم اور امام کائنات رسول معظم ﷺ کی پیاری سنت اور محبوب طریقے کے مطابق گزاریں ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے