4دسمبر 2010 بروز ہفتہ کو میں حسبِ معمول اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف تھا کہ اچانک موبائل کی میسج ٹون نے مجھے نئے آنیوالے میسج کی اطلاع دی ذہن میں آیا کہ کسی ساتھی نے کوئی آیت وحدیث یا کوئی مزاحیہ قطعہ Send کیا ہوگا لیکن جب میں نے میسج پر نگاہ ڈالی تو دل ودماغ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور جسم ہلکا ہلکا کپکپانا شروع ہوگیا میسج کی عبارت ہی دل ہلادینے والی تھی سرگودھا سے دوست مولانا ابو موسی سیف الرحمن حفظہ اللہ نے پیغام بھیجا تھا ’’ابو مسلم بھائی ایک انتہائی افسوسناک خبر ہے استاد محترم ابو شداخ غوری صاحب قضائے الٰہی سے وفات پاگئے ہیں۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون

مجھے تو جیسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ آرہا ہو میں بار بار وہ میسج پڑھنے لگا پھر میں نے اطمینان قلب کے لیے اسے RePlay کیا’’بھائی سچ کہہ رہے ہویا کہ مذاق کررہے ہو‘‘ تو وہ کہنے لگے’’مجھے کیا ضرورت ہے جھوٹی خبر پھیلانے کی‘‘ میں چپ کر گیااب اسی اثناء میں جامعہ ابی بکر کراچی سے فضیلۃ الشیخ خالد محمود الحذیفی حفظہ اللہ کا فون آگیا وہ کہنے لگے ’’ابو مسلم بھائی کچھ معلوم ہوا‘‘ میں نے کہا اگر تو آپ کا اشارہ محترم ابو شداخ غوری (مرحوم) کی طرف ہے تو وہ دل ہلا دینے والی خبر میرے دل کو ہلا چکی ہے اگر اس کے علاوہ کوئی بات ہے تو بتا دیجئے تو وہ کہنے لگے نہیں یہی خبر دینی تھی‘‘ ۔ اس کے بعد ہم غوری صاحب کی شخصیت پر تبادلہ خیال کرنے لگے۔

شام تک مختلف شہروں میں رہنے والے ساتھیوں کے فون ومیسج موصول ہوتے رہے اور میں سارا دن ذہن میں محفوظ ماضی کے ان جھرونکوں میں گھومتا رہا جن میں غوری صاحب کیساتھ گزرے ہوئے دنوں کی یادیں وابستہ تھیں تین دن قریباً نئی یادوں میں گزرے 8 دسمبر بروز منگل کی شام جامعہ الدراسات کراچی سے استاد محترم فضیلۃ الشیخ محمد نذیر احمد صاحب کا میسج موصول ہوا کہ آپ ابو شداخ غوری صاحب کے متعلق کوئی مضمون لکھو۔ میری بھی پہلے خواہش تھی کہ میں غوری صاحب(مرحوم) کے متعلق کچھ یادیں تحریر کروں لیکن قلتِ وقت کے باعث توجہ نہ کرسکا لیکن اب خواہش کیساتھ استاد کا حکم بھی آچکا تھا سو میں نے قلم اٹھایا اور بکھری یادوں کو صفحہ قرطاس پر اکٹھا کرنے لگا۔

2005ء کو جب میں اپنے مدرسہ جامعہ عثمان بن عفان مرکز تبوک لاڑ ضلع ملتان کو واپس لوٹا تو معلوم ہوا کہ اس سال جامعہ میں کچھ نئے اساتذہ بھی تشریف لائے ہیں۔ جامعہ پہنچ کر جو پہلا منظر آنکھوں نے محفوظ کیا وہ یہ تھا کہ ایک نئے استاد طالب علموں کو ہاسٹل کے متعلق ہدایات جاری کررہے ہیں ساتھی طلباء سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوف کا نام ابو شداخ غوری صاحب ہے۔ اساتذہ تو جامعہ میں اور بھی آئے تھے لیکن یہ مجھے ان سب سے منفرد نظر آئے اس لئے میں ان میں ذرا دلچسپی لینے لگا انہیں ہماری کلاس میں انگلش کا پریڈ ملا تھا جب بھی کلاس میں آتے بنے سنورے چمکدار داڑھی کیساتھ اور خوشنما لباس پہن کر آتے گفتگو کرتے تو فائدہ مندفضول مباحث سے پرہیز کرتے ادب پر ان کا خاصہ مطالعہ تھا ایک دفعہ پیریڈ پڑھانے کے دوران انہوں نے ایک شعر طلباء کے سامنے پڑھا میں نے اس کا جواب نہایت خوبصورت انداز میں ایک شعر ہی کیساتھ دیا پھر کیا تھا پورے پیریڈ کے دوران جو گفتگو ہوئی وہ اشعار پر مبنی تھی میرے اس ذوق سے وہ خاصے متاثر ہوئے ۔ اس لئے وہ مجھے اکثر وعظ ونصیحت کرتے مختلف شخصیات کے حالات زندگی کا حوالہ دے کر کہتے کہ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاؤ ۔ طلباء کے متعلق وہ بہت مخلص واقع ہوئے ۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ ان کے شاگرد دین حنیف کی سربلندی کیلئے ایسا مثالی کام کریں جو آنے والی نسل کیلئے روشن باب کی حیثیت رکھتا ہو اس معاملہ میں وہ کافی حساس تھے اگر دیکھتے کوئی طالب علم اپنے مشن سے روگردانی کررہا ہے تو اسے بہت سمجھاتے احساس دلاتے اگر طالب علم پھر بھی اپنی خطاء پر قائم رہتا تو بے اختیار ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ایک دفعہ تو ہم نے بڑی مشکل سے انہیںچپ کرایا۔

شورش کاشمیری سے بہت متاثر تھے۔ برصغیر کی شخصیات کا وہ جب شمار کرتے تو سرفہرست آغا شورش کاشمیری کو رکھتے۔ میں جب بھی ان سے شورش کی شخصیت پر بات کرتا تووہ کہتے ’’تم کیا جانوآغاشورش کیاچیز تھی‘‘۔

آغا شورش کاشمیری کی شخصیت پر ان کے پاس اتنا مواد تعریف تھا کہ گھنٹوں اس پر گفتگو اور ایک پوری کتاب مرتب کرسکتے تھے اقبال کی شاعری سے بھی خاصے متاثر تھے اس لیے انہوں نے اقبال کے خاصے اشعار حفظ کئے ہوئے تھے۔

صوم وصلاۃ کے نہایت پابند تھے روزانہ فجر کی آذان سے پہلے خود بھی اٹھتے اور طلباء کو بھی اٹھاتے نمازوں کے بعد ودیگر اوقات میں ان کے دروس نہایت شاندار اور جاندار ہوا کرتے تھے ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ ایک نئی موتی کی حیثیت رکھتا تھا۔

جامعہ عثمان بن عفان لاڑ ملتان میں ان کے ساتھ ہماری یہ حسین رفاقت عرصہ قریباً ڈیڑھ برس پر محیط رہی اس کے بعد وہ ہم سے جدا ہوکر تحصیل عارفوالا ضلع ساہیوال کے مدرسۃ البنات میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے وقت گزرتا گیا اور اساتذہ بھی اس دوران اور میسر آتے گئے لیکن ابو شداخ غوری صاحب نے اپنی شخصیت کا جو اثر ہمارے ذہنوںپر چھوڑا اسے ہم فراموش نہ کرسکے۔

2008ءکے اوائل میںجب میں لاہور تھا معلوم ہوا کہ استاد محترم ابو شداخ غوری صاحب کے چھوٹے بھائی محمد عابد ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کرگئے ہیں۔ میں نے فوراً ابو شداخ غوری صاحب کو فون کیا اور انہیں صبر کی تلقین کی تو جواباً’’ انہوں نے جہاں اس حکم ربی پر رضامندی کا اظہار کیا وہاں اس بات سے خوش ہوئے کہ اس دکھ بھرے موقع پر بھی میرے شاگردوں نے مجھے یاد رکھا ہے۔ کیا معلوم تھا کہ چند عرصہ بعد وہ خود بھی محض ایک ’یاد‘ بن جائیں گے۔

بہر حال 2008ء کا عرصہ بھی گزر گیا2009ء کی وہ ایک یخ بستہ رات تھی جب میں نے شاہینوں کی سرزمین پر پہلا قدم رکھا سرگودھا میں میری منزل قباء اسلامک اکیڈمی تھی میں نے بس ٹرمینل سے ہی اکیڈمی کے ایک جاننے والے استاد کو اپنے آنے کی اطلاع دی تو وہ معذرت کرتے ہوئے کہنے لگے میں تو چھٹی پر گھر آیا ہوں آپ اکیڈمی کے کسی اور استاد سے رابطہ کریں وہ آکر آپ کو لے جائیں گے میں تو آپ کے علاوہ کسی اور نہیں جانتا تو وہ مختلف اساتذہ کے نام لینے لگے کہ آپ ان میں سے کسی استاد کو جانتے ہیں؟ تو ان ناموں میں سے ایک نام ابو شداخ کا تھا جس کو سن کر بے اختیار میرے منہ سے نکلا’’ کیوں نہیں یہ تو میرے نہایت ہی محترم استاد ہیں‘‘ وہ نام تھا’’ابو شداخ غوری‘‘ میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رابطہ منقطع کیا اور ابو شداخ غوری صاحب کو اپنے آنے کی اطلاع دی چند منٹوں میں ہی محترم ابو شداخ غوری صاحب سردی سے بچنے کے تمام کیل کانٹوں سے لیس میرے سامنے آن موجود ہوئے وہی مسکراتا ہوا چہرہ چمکدار خوبصورت داڑھی ، خوشنما لباس یہ سب چیزیں پچھلی یادوں کو تازہ کررہی تھیں غوری صاحب نہایت گرمجوشی سے بغل گیر ہوئے خیر وعافیت کا تبادلہ کرنے کے بعد ہم بس ٹرمینل سے باہر نکلے وہ ایک جگہ درس دینے جارہے تھے سو مجھے بھی ساتھ لیتے گئے درس بھی اسی طرح شاندار اور جاندار ہر لفظ ضمیر کو جھنجوڑنے والا درس کے بعد میزبان نے پر تکلف کھانا کھلایا بعد از طعام ہم قباء اسلامک اکیڈمی پہنچے ابو شداخ غوری صاحب نے اکیڈمی کے اساتذہ اور طلباء سے میرا تعارف کرایا اس کے بعد جس کمرے میں میرے آرام کا بندوبست کیا وہ ان کے نفیس ذوق کی ترجمانی کررہا تھا خوبصورت پینٹ اسی سے کنڑاس قالین پر پردے چھت پر بنے حسین نقش ونگار کمرے میں پھیلی بھینی بھینی خوشبو صاحب ذوق کو داد دینے پر مجبور کررہی تھیں۔ اللہ رب العزت نے ایک دفعہ پھر ابو شداخ غوری صاحب سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا تھا سو میں نے بھی کما حقہ اس موقع کا فائدہ اٹھایا چونکہ اس دفعہ ساری کلاسز بڑی تھیں اس لئے غوری صاحب کا علمی رسوخ خوب نکھر کر سامنے آیا اللہ تعالیٰ نے واقعی ان کو ایک تدریسی ملکہ عطا کیا تھا۔

{وَاللّٰہُ یُعْطِیْ مَنْ یَّشَائُ}وقت کا گھڑیال بجتا رہا اور سوئیاں آگے کو دوڑتی رہی ایک دن شام کے وقت میں کہیں سے درس دے کر لوٹا تو دیکھا ابو شداخ غوری صاحب نے اکیڈمی کے تمام سٹوڈنٹس کو اکٹھا کیا ہوا تھا۔ وہ طلباء کو رسائل پڑھنے اور ان میں لکھنے کی اہمیت پر لیکچر دے رہے تھے۔ بعد میں انہوں نے اعلان کیا کہ ہماری اکیڈمی میں ماہنامہ ’’ضیائے حدیث‘‘ کے سرکولیشن منیجر محمد یوسف سلفی صاحب تشریف لائے ہیں تو میرا آپ تمام ساتھیوں کو مشورہ ہے کہ آپ ’’ضیائے حدیث‘ ‘ اپنے نام جاری بھی کروائیں کیونکہ یہ ایک مفید اور آسان فہم انداز میں امت کی راہنمائی کرنے والا میگزین ہے اور اس میں آپ لکھیں بھی تاکہ آپ بھی اس فن میں مہارت حاصل کرسکیں میگزین انشاء اللہ طلباء کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

اکثر طلباء نے یہ اعلان سن کر ’’ضیائے حدیث‘‘ اپنے نام جاری کروالیا میں نے بھی ایک مضمون ’’میں ابھی تک مسلمان ہوں؟ ‘‘ ضیائے حدیث کے ایڈریس پر پوسٹ کر دیا قریباً ڈیڑھ ماہ بعد ضیائے حدیث میں میرا یہ مضمون شائع ہوا اس دوران ہمیں’’قندیل‘‘ کی خبریں ملنا شروع ہوگئی تھی۔ طلباء اسی انتظار میں تھے کہ اگر واقعی میگزین ہماری حوصلہ افزائی کرتاہے تو ہم ’’قندیل‘‘ کیلئے کچھ کام کریں ۔ بصورت دیگر نہیں مگر میگزین نے اپنا کہا سچ کر دکھایا پھر تو قلمی ذوق رکھنے والے طلباء فوراً میرے پاس آئے کہ آپ ہمیں قادیانیت کے متعلق مواد فراہم کریں میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرا تو فی الحال قادیانیت پر کوئی خاص مطالعہ نہیں کیونکہ میں اس وقت دیگر ادیان پر مطالعہ کررہا ہوں البتہ جتنا مواد قادیانیت کے متعلق میرے پاس ہے وہ تو آپ کو فراہم کردیتا ہوں لیکن اگر آپ کو سیر حاصل مواد چاہیے تو آپ استاد محترم ابو شداخ غوری صاحب سے رابطہ کریں انہوں نے قادیانیوں کا خوب تعاقب کیا ہے۔

ابو شداخ غوری صاحب جہاں ایک جری مجاہد اور کامیاب مدرس تھے۔ وہاں قادیانیوں کیلئے شمشیر برہنہ بھی تھے آپ نے قادیانیوں کے خلاف خود بھی قلم اٹھایا اور قلم اٹھانے والے تیاربھی کیے۔’’قندیل‘‘ میں آپ کا مضمون بعنوان ’’قادیانیت اور جہاد‘‘ شامل اشاعت ہوا۔ جولائی 2010ء کے شمارہ نمبر 7 جلد نمبر 19 ’’ضیائے حدیث‘‘ میں آپ کا مضمون بعنوان ’’قادیانیوں کی مسلمانوں سے نفرت‘ شائع ہوا اس کے علاوہ بھی ان کے مضامین دیگر رسائل میں شائع ہوتے رہے بہر حال ان کے اس پر جوش جذبے کو دیکھ کر یہ بات تو ہم جان گئے تھے کہ وہ کاروانِ ختم نبوت کے حقیقی جانثار سپاہی تھے وہ اس مشن میں اپنی خدمات کو اور بڑھانا چاہتے تھے لیکن فیصلہ ربانی کچھ اورہی تھا۔

2009ء کے اواخر میں ایک دفعہ پھر ان سے وقت جدائی کا دردناک لمحہ آیا اور گزر گیا پہلے وہ ہم سے جدا ہوئے تھے اب کی بار ہم جارہے تھے ۔ 2010ء شروع ہوا اور گزرتا چلا گیا ابو شداخ غوری صاحب سرگودھا میں ہی قباء اسلامک اکیڈمی کی صورت میں لگے اسلامی شجر کی آبیاری کر رہے تھے دن گزرتے گئے پھر وہ دن بھی آپہنچا جس دن وہ تفسیرقرآن پڑھاتے ہوئے اپنے رب کو پیارے ہوئے۔

4دسمبر 2010ء بروز ہفتہ کو صبح کے وقت وہ حسب معمول تفسیر القرآن کا پیریڈ پڑھانے کلاس میں تشریف لائے اور تفسیر کا سبق پڑھانا شروع کیا۔ چائے کا کپ ان کے ہاتھ میں تھا اچانک ان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور چند لمحوں میں ہی وہ دار فناء سے محل اخلاد کی طرف کوچ کر گئے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون

آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

ابو شداخ غوری صاحب کا مختصر سا تعارف

ابو شداخ غوری محمد خالد فاروق بن عبد الغفور 1974ء کو تحصیل عبد الحکیم ضلع خانیوال میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم اپنے علاقے کے گورنمنٹ ہائی اسکول عبد الحکیم سے حاصل کی دینی تعلیم کی ابتداء جامعہ الدعوۃ الاسلامیہ مرکز طیبہ مریدکے سے کی یہاں آپ ابتدائی کلاس پڑھنے کے بعد جامعہ الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ فیصل آباد چلے گئے۔ یہاں جانے کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ میٹرک کرنے کے بعد غوری صاحب دینی تعلیم پڑھنے مدرسے چلے گئے تو والد مدرسے کی تعلیم پر راضی نہ تھے وہ انہیں دنیاوی معاملات میں مشغول کرنا چاہتے تھے مگر غوری صاحب نہ مانے والد نے ناراض ہوکر جیب خرچ بند کردیا مگر غوری صاحب کے جذبے میں کمی نہ آئی بھائیوں نے ان کے حصولِ علم کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے اخراجات کی ذمہ داری قبول کرلی اور انہیں جامعہ الدعوۃ السلفیہ میں داخل کرادیا بعد میں والد ان کی پڑھائی میں دلچسپی دیکھتے ہوئے ان سے راضی ہو گئے۔ باقی ماندہ تعلیم ستیانہ بنگلہ میں حاصل کی مریدکے میں مجاہدانہ ٹریننگ کے باعث ستیانہ بنگلہ مدرسہ میں اپنے طور پر پہرہ بھی دیا کرتے تھے کچھ لوگ ان کے اس فعل کو نشانہ تضحیک بھی بناتے لیکن یہ مرد مجاہد اپنے اس پُر فضیلت کام پر ڈٹے رہے بعد میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ ناقدین کو بھی پہرہ کی اہمیت وفضیلت کا احساس ہوگیا اور جامعہ الدعوۃ السلفیہ میں بھی باقاعدہ طور پر پہرہ کا نظام مروج ہوگیا۔

واقعہ ان کے ساتھی جناب ظفر عیسیٰ صاحب کی زبانی سنیئے وہ کہتے ہیں ایک دفعہ استادوں کے گھر چور آگیا استاد ابو نعمان بشیر صاحب آواز لگاتے ہوئے آئے تو تمام طالب علم چور کے پیچھے دوڑے اس سے پہلے کہ کوئی طالب علم چور کو پکڑتا اچانک فائر کی آواز سنائی دی تمام طالب علم اپنی جگہ پر رک گئے کہ کہیں اس افراتفری میں ہمیں فائر ہی نہ لگ جائے مگر تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ فائر کرنے والا کوئی اور نہیں اپنے ہی جامعہ کا ہونہار طالب علم اور رضا کار پہرہ دار ابو شداخ غوری ہے جس نے ہوائی فائر کرکے چور کو ڈرایا پھر اسے پکڑ لیا ہے یہ بات جان کر جہاں طالب علم خوش ہوئے وہاں استادوں نے بھی فیصلہ کیا کہ آج کے بعد جامعہ الدعوۃ السلفیہ میں باقاعدہ طور پر پہرہ کا نظام ترتیب دیا جائے گا۔ مرحوم اس خدمت میں تا فراغت پیش پیش رہے ۔ جامعہ الدعوۃ السلفیہ سے فراغت کے بعد آپ نے تدریس کا آغاز مرکز تبوک لاڑ ملتان سے کیا۔ یہاں آپ نے ڈیڑھ سال نونہالان اسلام کی راہنمائی کی اس کے بعد آپ تحصیل عارفوالا ضلع ساہیوال کے مدرسہ البنات میں درس بخاری دیتے رہے ۔ بخاری پڑھانے کے متعلق غوری صاحب نے ہمیں ایک دفعہ بتایا کہ جب میں مرکز طیبہ میں پڑھا کرتا تھا تو عبد السلام بھٹوی صاحب مجھے پیارسے شیخ الحدیث پکارا کرتے تھے تو جب بخاری پڑھانے کے دوران بھٹوی صاحب سے ملاقات ہوتی تو میں نے کہا ’’استاد جی تسی مینوں شیخ الحدیث کیندے سی نا… لو اللہ نے تواڈی زبان مبارک کیتی تے اللہ نے اوہی بنا دتا‘‘ (استاد جی آپ مجھے شیخ الحدیث کہا کرتے تھے ناں اللہ نے آپ کی زبان مبارک کی لاج رکھ لی اور مجھے شیخ الحدیث بنادیا)

مدرسہ البنات میں بخاری پڑھانے کے بعد آپ اپنے تدریسی سفر کے آخری مدرسے قباء اسلامک اکیڈمی سرگودھا تشریف لے گئے اور یہاں تدریس ہی کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

ابو شداخ غوری صاحب (مرحوم) بیک وقت با کمال خطیب بہترین ادیب کامیاب مدرس اور زبردست مفکر تھے۔

ابو شداخ غوری صاحب (مرحوم) نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ اور دو بچوں کو چھوڑا ہے۔

یادرہے کہ ابو شداخ غوری صاحب (مرحوم) کا بڑا بیٹا جوکہ تقریباً 8 سال کا ہے جسمانی ودماغی طور پر معذور ہے ۔

تمام قارئین کرام اور احباب گرامی سے التماس ہے کہ وہ خلوص نیت سے بارگاہ الٰہی میں دعا کریں کہ اللہ رب العزت اس بچے کو شفائے کاملہ عاجلہ عطاء کرے اور اس کے والد کو قبر کے امتحان میں پاس کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر کرنے کی توفیق عطا کرتے ہوئے انہیں مصائب وآلام ومحتاجی سے بچائے۔ آمین   ٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے