آیات حجاب ونظر (آیات نمبر 30-31)

قال اللہ تعالیٰ:

{قُلْ لِلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیرٌ بِمَا یَصْنَعُونَO وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء ِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء ِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء ِ وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِنْ زِینَتِہِنَّ وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا أَیُّہَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَO}

’’اے نبی مومن مردوں سے کہہ دوکہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتاہے٭ اور اے نبی (ﷺ)مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں۔ بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں اپنے مملوک وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔ اے مومنو ! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘

مشکل الفاظ کے معانی :

یغضُّوْا: نیچی رکھنا ۔ آیت میں مفہو م ہے کہ ایسے مناظر سے نظر بچاناجس کو دیکھنا شرعاً یا أخلاقاً جائز نہیں ہے ، نظر بچانا سے مراد یا تو زمین کی طرف دیکھنا یا کسی اورکی طرف نگا ہیں پھیر لینا۔

َیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ :اس سے مراد اپنی شرمگاہوں کی ستر پوشی اور برے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا یعنی بدکاری سے بچانا یعنی اپنی شرمگاہوں کو برہنہ نہ ہونے دیں۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں بھی حفظ فروج کا حکم دیا گیا وہاں اس سے مراد زنا سے بچنا ہے لیکن یہاں اس سے مراد ستر پوشی تاکہ ان پر نظر نہ پڑے۔

خَبِیرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ :کوئی بدکاری یا برا کام کتنا ہی چھپ کر یا خفیہ طریقے سے کرے اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہوتاہے اگر یہ حقیقت کا احساس رہے کہ اللہ تعالیٰ کامراقبہ ہر وقت ہے تو یہ بہت بڑی وعید ہے۔

زِینَتَہُن:زینت سے مراد وہ اشیاء جن سے عورت اپنے حسن میں اضافہ کرتی ہے اور ان کا تعلق لباس سے یا آلات تجمیل (میک اپ) سے ہے۔

امام قرطبی فرماتے ہیں : زینت دو قسم کی ہے : خلقیہ ، مکتسبہ۔ خلقیہ سے مراد اس کا چھرہ ہے کیونکہ چھرہ ہی اصل زینت اور حسن کا کا مرکز ہوتاہے ۔

مکتسبہ سے مراد : وہ اشیاء کہ جو عورت اپنی خوبصورتی میں اضافہ کیلئے استعمال کرتی ہے ان کا تعلق لباس سے ہے ، سرمہ یا کاجل یا خضاب وغیرہ ۔

إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا : اس سے مراد وہ زینت جو ظاہر ہے جس کے اظہار کی ممانعت نہیں جیسا کہ ابن عباس ، مجاہد، عطاء ، ابن عمر، انس رضی اللہ عنہم کا قول ہے ۔

ما کان فی الوجہ والکف کالخضاب والکحل

یعنی وہ زینت جو چہرہ اور ہتھیلیوں میں ہوتی ہے جیسے خضاب اور سرمہ ۔

امام حسن بصریa کہتے ہیں : چہرہ اوروہ کپڑے جو ظاہر ہوں۔

واضح رہے کہ یہ جواز اس وقت ہے جب فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ورنہ چہرہ اور ہاتھ دیکھنا بھی حرام ہے۔

بِخُمُرِہِنَّ : خمر خمار کی جمع ہے اور اس کا مطلب ہے جس چیز کی مدد سے سر کو ڈھانپا جائے۔

جس کو عربی میں ’’المقانع‘‘ اور اردو میں چادر کے نام یا دوپٹہ /اوڑھنی کے نام سے پکارا جاتاہے۔

جُیُوبِہِنَّ: سینے یعنی جہاں سرڈھانپنا ہے وہاں گردن اور سینے کو چھپا نا بھی فرض ہے۔اور اس سے سینے کا بالائی حصہ اور گردن بھی شامل ہے۔

لِبُعُولَتِہِنَّ : اپنے بعول کا مطلب شوہر سے ہے۔ بعول بعلی کی جمع ہے جس کا مطلب شوہر ہے۔

مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ : غلام اور لونڈی

الْإِرْبَۃِ : وہ بوڑھے معذور ، نابینا اور اعرج مرد مراد ہیں جو جنسی خواہشات اور جذبات کے دور سے دور نکل گئے ہیں۔

الطِّفْلِ :نابالغ بچے ، جن کو عورتوں کی پوشیدہ أمور کا علم نہ ہو۔

الَّذِینَ لَمْ یَظْہَرُوا:یعنی ان پر ظاہر نہ ہوتیں ہوں۔

اجمالی مفہوم

جیساکہ آیات سابقہ کی تفسیر اور توضیح کے دوران یہ بات زیر سطور گزری کہ شریعت اسلامی نہ صرف گناہوں سے روکتی ہے بلکہ گناہوں کے وسائل اور راستے ان سے بھی روکتی ہے اور ان کا سدباب کرتی ہے یعنی گناہوں کے ارتکاب پر سزا شریعت اسلامیہ کا مقصود اور مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسے تمام وسائل اور ذرائع پر پابندی عائد کی اور انہیں ممنوع قرار دیا جوکہ ان برائیوں اور گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں کیونکہ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ جب گناہوں کی طرف جانے والا راستہ ہی بند ہوگا اور اس پر پابندی ہوگی تو گناہوں کا ارتکاب آسان نہیں ہوگا۔

مذکورہ بالا آیات سے پچھلی آیات میںمسلمانوں کو آداب اور اخلاقیات پر مشتمل دروس بتائے گئے اب اس کے بعد ایک اور مضمون بیان کیا جارہاہے جیسا کہ آیات کے لفظ سے ظاہر ہے :

{قُلْ لِلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ }

’’اے نبی کریم ﷺ آپ ایمان والوں کو اس بات کا حکم دیںکہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔

{ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ }غض کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے ،گھٹانے اور پست کرنے کے ہیں اور غض بصر کا ترجمہ عموماً نگاہیں نیچی رکھنا کیا جاتاہے لیکن اس کا مفہوم ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے بلکہ نگاہ بھر کر نہ دیکھنا اور نگاہ بچا کر رکھنا یعنی جس چیز کودیکھنا مناسب نہیں ہے اس سے نظر ہٹا لی جائے۔

{مِنْ أَبْصَارِھِمْ} کا مفہوم تمام نظروں کو بچانے اور نیچی رکھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ بعض نظریں ہیں جوکہ مردوں کا عورتوں کو دیکھنا یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نظر ڈالنا یا فحش مناظر پر نگاہ رکھنا یہ تمام نظریں اس بعض نظروں میں آجاتی ہیں۔

اس سورت کا آغاز زنا کاری سے شروع ہوا پھر اس سے متعلقہ مضامین کا بیان ہوا، چونکہ اس جرم قبیح وشنیع کی طرف لے جانے والا سب سے بڑا اور پہلا راستہ نظر بازی ہے لہٰذا سب سے پہلے اس کو بند کیا جارہاہے۔

اس کے بعد اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کا بیان ہے اس سے مراد صرف ناجائز جسمانی تعلقات کی ممانعت ہی نہیں بلکہ اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے کی ممانعت بھی ہے اور اس ستر کی نبی کریم ﷺ نے مرد اور عورت کے ستر کی حدود بتائی ہیں یعنی آیت کے اس جزء کے ذریعے کسی بھی انسان کے لئے تمام نفسانی خواہشات پوری کرنے کی جتنی بھی صورتیں ممکن ہے یہ سب ممنوع ہیں یعنی مقدمات اور انتہا سب ہی حرام قرار دے دئیے گئے ۔

مقدمات نظر بازی کی صورت میں اور انتہا، جسمانی خواہشات کو پورا کرنے کی شکل میں ۔

کیونکہ فتنہ شہوت کا سب سے پہلا سبب اور مقدمہ نظر ڈالنا اوردیکھنا اور آخری نتیجہ زنا ہے ان دونوں کا صراحتاً ذکر کرکے ان کو حرام کردیا گیا اور درمیانی امور یعنی باتیں سننا ہاتھ لگانا وغیرہ سب اس میں آگئے ہیں۔

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بن مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ النَّظْرَۃَ سَہْمٌ مِنْ سِہَامِ إِبْلِیسَ مَسْمُومٌ، مَنْ تَرَکَہَا مَخَافَتِی أَبْدَلْتُہُ إِیمَانًا یَجِدُ حَلاوَتَہُ فِی قَلْبِہِ (المعجم الکبیر للطبرانی،9 ؍18)

سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’نظر ایک زہریلا تیر شیطان کے تیروں میں سے ہے جو شخص باوجود دل کے تقاضے کے اپنی نظر پھیر لے تو میں اس کے بدلے اس کو ایسا پختہ ایمان دوں گا جس کی لذت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔‘‘

اور اسی طرح صحیح مسلم میں سیدنا جریر بن عبد اللہ بجلی سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ اگر بلا ارادہ اچانک کسی غیر محرم عورت پر نظر پڑجائے تو کیا کرنا چاہیے رسول اللہ نے حکم دیا کہ اپنی نظر اس طرف سے پھیر لو۔

اور سیدناابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مبارکہ ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا۔

اگر تم میرے ساتھ ان چھ باتوں کا وعدہ کرو تو میں تمہارے لیئے جنت کا ضامن ہوں۔

۱۔ جب تم میں سے کوئی بات کرے تو جھوٹ نہ بولے۔

۲۔ جب اسے أمین بنایاجائے تو خیانت نہ کرے۔

۳۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی نہ کرے۔

۴۔اپنی نگاہیں نیچی رکھو۔

۵۔ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔

۶۔اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔

اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ :

’’عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ : مَنْ یَضْمَنْ لِی مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ أَضْمَنْ لَہُ الْجَنَّۃَ.(صحیح البخاریـ حسب ترقیم فتح الباری (8 ؍125)

جو شخص مجھے ان چیزوں کی ضمانت دے جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان یعنی زبان اور جو اس کے دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی شرمگاہ) تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتاہوں۔

اور سب سے اہم نبی کریم ﷺ کی وعید ’’فإن لک الأولی ولیس لک الآخرۃ ‘

’’پہلی نظر قابل معافی ہے لیکن دوسری پر مؤاخذہ ہوگا۔‘‘

کتنی عجیب بات ہے کہ آج ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اور بچیاں عفیف اور باعصمت رہیں لیکن ہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے مطلوبہ راستہ اختیار نہیں کرتے ہم تو ایسے کرتے ہیں کہ کسی کو بہتے ہوئے دریا میں دھکا دے کر کہتے ہیں کہ خبردار اپنے دامن کو پانی کی موجوں سے گیلانہ ہونے دینا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اولادوں کو قرآن مجید کی ان آیات اور نبی کریم ﷺ کے حکیمانہ ارشادات سے نہ صرف روشناس کروائیں بلکہ اس پر عمل بھی کروائیں تاکہ وہ ہلاکت کے اس درکے نزدیک ہی نہ آتیں۔

علامہ قرطبی لکھتے ہیں :’’نظر دل کی طرف کھلنے والا سب سے بڑا دروازہ ہے نگاہ کی بے راہ روی کے باعث ہی اکثر لغزشیں ہوتی ہیں اس لئے اس سے بچنا چاہیے اور تمام محرکات سے انہیں روکنا چاہیے۔‘‘

آیت کے آخر میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جو آداب سکھا رہاہے وہ سب سے بہتر اور افضل ہیں جو ان پر عمل کرے گا وہی حقیقی کامیابی سے ہمکنارہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عمل سے واقف ہے خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی ہو ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے